أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَقَارُوۡنَ وَفِرۡعَوۡنَ وَهَامٰنَ‌ۖ وَلَقَدۡ جَآءَهُمۡ مُّوۡسٰى بِالۡبَيِّنٰتِ فَاسۡتَكۡبَرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَمَا كَانُوۡا سٰبِقِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اور قارون اور فرعون اور ہامان کو ہلاک کردیا ‘ اور بیشک ان کے پاس موسیٰ واضح معجزات لے کر آئے تھے پس انہوں نے زمین میں تکبر کیا اور وہ ہم پر سبقت کرنے والے نہ تھے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور قارون اور فرعون اور ھامان کو ہلاک کردیا وربے شک ان کے پاس موسیٰ واضح معجزات لے کر آئے تھے پس انہوں نے زمین میں تکبر کیا اور وہ ہم پر سبقت کرنے والے نہ تھے (العنکبوت : ٣٩)

قارون کا ذکر کرکے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا 

قارون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم سے تھا اللہ تعالیٰ نے اس کو بہت مال و دولت عطا کیا تھا اس کے خزانوں کی چابیاں ستر خچروں پر لادی جاتی تھیں ‘ یہ اس مال کثیر کی بناء پر متکبر اور مغرور ہوگیا اور اس مال کو اللہ کا عطیہ قرار دینے کے بجائے اپنی ذہانت کا ثمرہ کہتا تھا ‘ یہ فرعون کی طرف سے بنی اسرائیل پر عامل مقرر تھا اسی لئے اس کا فرعون اور ھامان کے ساتھ ذکر فرمایا ہے ‘ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ہم قوم اور ہم زاد ہونے کے باوجو ان پر حسد کرتا تھا کہ ان کو نبوت کیوں مل گئی اس کے غرور اور تکبر اور حسد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کو اس کے مال و دولت سمیت زمین میں دھنسا دیا ‘ اس کی پوری تفصیل القصص : ٨١۔ ٧٦ میں گزر چکی ہے۔

فرعون مصر کے ملک کا بادشاہ تھا لیکن اقتدار کے نشہ میں اس نے اپنی خدائی کا دعویٰ اس نے بنی اسرائیل کی قوم کو اپنا غلام بنا رکھا تھا ‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضاء کا معجزہ دے کر اس کے پاس بھیجا کہ وہ اپنی الوہیت کے دعویٰ سے توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت پر ایمان لائے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی عبادت کرے ‘ اور بنی اسرائیل کی قوم کو آزاد کرے جس کو اس نے غلام بنا رکھا تھا لیکن فرعون نے غرور اور تکبر کیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مسلسل تبلیغ اور معجزات دیکھنے کے باوجود ایمان نہیں لایا بالآخر ایک صبح کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کو اس کے پورے لشکر سمیت سمندر میں غرق کردیا۔ اس کا تفصیلی قصہ کئی بار گزر چکا ہے۔

ھامان فرعون کا وزیر اور اس کا معاون تھا اور جو کسی ظالم اور متککبر کا اس کے ظلم اور اس کی سرکشی میں معاون اور مددگار ہو اس کا انجام بھی اسی کی طرح عبرت ناک ہوتا ہے۔

ان آیات کے ذکر سے مقصود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے کہ مشرکین کے سردار اور ضادید قریش آپ پر حسد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبی کیوں بنادیا ‘ اگر مکہ کے کسی شخص کو نبی بنانا تھا تو جو زیادہ مالدار تھے اور جن کے اعوان اور انصار بہت زیادہ تھے ان میں سے کسی کو نبی بنایا جاتا ‘ ایک غریب گھرانے کے فرد کو کیوں نبی بنایا گیا ‘ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی کہ آپ ان کے حسد سے نہ گھبرائیں ‘ قارون بھی اسی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر حسد کرتا تھا کہ اس جیسے مال دار شخص کے ہوتے ہوئے حضرت موسیٰ ایسے تہی دست شخص کو کیوں نبی بنایا ‘ لیکن اس کا حسد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا کچھ نہ بگاڑ سکا بلکہ اپنے بغض و حسد اور غرور اور تکبر کی وجہ سے وہ خود اللہ کے عذاب میں ہلاک ہوگیا ‘ سو آپ ان کی معاندانہ کاروائیوں اور حاسد انہ سازشوں سے بےفکر اور بےخوف ہو کر اپنے مشن کو جاری رکھیں انجام کار آپ ہی کامیاب اور کامران ہوں گے اور آپ کے مخالفین نا کام اور نامراد ہوں گے۔

قارون کے ذکر کو فرعون اور ھامان کے ذکر پر مقدم کرنے کی وجوہ 

قارون کے ذکر کو فرعون اور ھامان کے ذکر پر مقدم کیا کیونکہ فرعون اور ھامان کی بہ نسبت وہ پہلے عذاب میں مبتلا ہوا تھا ‘ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے ذکر فرمایا تھا کہ عاد اور ثمود ارباب بصیرت تھے اس کے باوجود اتباع شیطان کی وجہ سے وہ گمراہ ہوگئے اسی طرح قارون بھی صاحب بصیرت تھا اور عام بنی اسرائیل کی بہ نسبت تورات کا بہت بڑا عالم تھا لیکن وہ بھی اتباع شیطان کی وجہ سے گم راہ ہوگیا تھا ‘ یا اس وجہ سے کہ قارون ‘ فرعون اور ھامان سے بہتر تھا کیونکہ وہ بہ ظاہر تورات پر ایمان لے آیا تھا اور تورات کا عالم تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عم زاد تھا ‘ اور اس مقام غقب میں اس کے ذکر کو مقدم کرن کی یہ وجہ ہے کہ اس قسم کا شرف اور مرتبہ کفر اور شرک کے ساتھ کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کے عذاب سے نجات نہیں دے سکتا۔ (روح المعانی)

علامہ آلوسی نے ایک وجہ یہ بیان کی ہے کہ قارون کے ذکر کو اس لئے مقدم کیا ہے کہ اس کو فرعون اور ھامان سے پہلے عذاب دیا گیا تھا اس لئے اس کا ذکر ان سے پہلے فرمایا تھا کہ ذکر واقع کے موافق ہو ‘ لیکن میرے نزدیک یہ وجہ صحیح نہیں ہے ‘ کیونکہ قارون تورات کا عالم تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کے غرق کرنے کے بعد تورات دی گئی تھی۔

اس آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ ہم پر سبقت کرنے والے نہ تھے ‘ سبقت کا معنی کسی کام کو دوسروں سے پہلے کرلینا یا دوسروں سے بڑھ چڑھ کر ‘ کرنا ہے اس کا معنی ہے تجاوز کرنا ‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے متجاوز ہونے والے یا اس سے بچنے والے نہ تھے ‘ علامہ ابوالحیان اندلسی نے اس کا معنی یہ کیا ہے کہ قارون ‘ فرعون اور ھامان دوسری امتوں سے پہلے یا ان سے بڑھ کر کفر کرنے والے نہ تھے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت آیت نمبر 39