مولانا مودودی صاحب مرحوم اپنی کتاب “خلافت وملوکیت” ص 122 پر لکھتے ہیں

“…حضرت علی کی خلافت قطعی طور پر ٹھیک ٹھیک اُنہی اصولوں کے مطابق منعقد ہوئی تھی جن پر خلافت راشدہ کا انعقاد ہو سکتا تھا— صحابہ کی عظیم اکثریت نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور بعد میں شام کے سوا تمام بلاداسلامیہ نے ان کو خلیفہ تسلیم کیا—-“

پھر صفحہ 147 پر خود اپنے موقف کی تغلیط کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:-

” بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت عثمان کی طرح حضرت علی نے بھی تو اپنے متعدد رشتہ داروں کو بڑے بڑے عہدوں پر سرفراز کیا، مثلاً حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبیداللہ بن عباس، حضرت قُثَم بن عباس وغیرھم- لیکن یہ حجت پیش کرتے وقت وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ حضرت علی نے یہ کام ایسے حالات میں کیا تھا جبکہ اعلیٰ درجہ کی صلاحیتیں رکھنے والے اصحاب میں سے ایک گروہ اُن کے ساتھ تعاون نہیں کر رہا تھا، دوسرا گروہ مخالف کیمپ میں شامل ہو گیا تھا، اور تیسرے گروہ میں سے آئے دن لوگ نکل نکل کر دوسری طرف جا رہے تھے- ان حالات میں وہ اُنہی لوگوں سے کام لینے پر مجبور تھے جن پر وہ پوری طرح اعتماد کر سکیں—-“

تبصرہ!_

سید صاحب نے پہلے دعوی کیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت صحابہ کی عظیم اکثریت نے کی پھر آگے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اقرباء پروری پر وارد الزامی سوال کی نفی کرتے ہوئے خود ہی اپنے کیے گئے دعویٰ سے دستبردار ہو جاتے ہیں- فرماتے ہیں کہ اعلی درجہ کی صلاحیتوں کے حامل صحابہ کے ایک گروہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تعاون سے گریز اختیار کیا دوسرا گروہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے کیمپ میں چلا گیا اور تیسرا گروہ جو دونوں فریقین میں اعتزال کا شکار تھا وہ بھی بعد میں نکل نکل کر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے کیمپ میں شامل ہو رہا تھا اب مودودی صاحب کا بے لاگ قاری یہ پڑھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ مولانا مودودی صاحب کے بقول “صحابہ کی عظیم اکثریت” جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی وہ اس وقت کہاں گئی اس کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا؟ ساتھ ساتھ یہ تاثر بھی شدت سے ابھرتا ہے کہ قصاص عثمان کے اس قضیہ میں صحابہ کی اکثریت تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی ہم نوا تھی بھلے انہوں نے معرکہ صفین میں ان کا ساتھ نہ دیا ہو-


نوٹ:- سیدنا علی رضی اللہ عنہ بلاشک وشبہ خلیفہ راشد تھے ان کی خلافت بالکل درست نہج پر منعقد ہو چکی تھی اس پوسٹ کا مقصد قطعاً قطعاً ان کی بیعت یا خلافت کا انکار نہیں بلکہ صرف مولانا مودودی صاحب کی کتاب “خلافت وملوکیت” کے اندر پائے جانے والے مغالطوں اور اغلاط کو زیر بحث لانا ہے جس کو معذرت کے ساتھ ان کے پیروکاروں نے صحیفہ آسمانی سمجھ رکھا ہے- مولانا مودودی صاحب جو معمولی معمولی بات پر بھی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر داروگیر کرنے کے عادی ہیں اور ان کو باقاعدہ اپنی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرکے ان پر انتہائی غیر منصفانہ طریقہ سے چارج شیٹ لاگو کرتے ہیں مگر افسوس ایسا کرتے ہوئے ان کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے طرز عمل سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی پوزیشن کو بھی کمزور کر رہے ہیں- سیدنا عثمان ومعایہ رضی اللہ عنہما کے بارے میں مولانا مودودی صاحب کا رویہ بہت جارحانہ ہے ان کی طرف سے ان حضرات کی معمولی معمولی سی فروگزاشت پر پوری شرح وبسط کے ساتھ انتہائی بےرحمانہ تبصرہ کیا جاتا ہے جبکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں معذرت خواہانہ رویہ اپنا کر کمزور تاویلات کا سہارا لیا جاتا ہے جوکہ ان کے خاندانی تعصب اور historical objectivism سے بے بہرہ ہونے کی دلیل ہے- مولانا مودودی صاحب سیدنا عثمان ومعاویہ رضی اللہ عنھما سے حضرات شیخین کا جو exemplary code of conduct طلب کرتے نظر آتے ہیں اس پر وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھی پورا اترنے میں کامیاب ثابت نہیں کر پائے ہیں مودودی صاحب اموی خلفاء کو مطعون کرتے وقت اس وقت کے زمینی حقائق کو بھی بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں اور اس کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی مثالی دور کے پیرامیٹرز پر جانچنے کی کوشش کرتے ہیں جس کو Research methodology میں historical fallacy کہا جاتا ہے-