وَ لِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ مَاۤ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۷۷)

اور اللہ ہی کے لیے ہیں آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزیں (ف۱۶۸) اور قیامت کا معاملہ نہیں مگر جیسے ایک پلک کا مارنا بلکہ اس سے بھی قریب (ف۱۶۹) بےشک اللہ سب کچھ کرسکتا ہے

(ف168)

اس میں اللہ تعالٰی کے کمال علم کا بیان ہے کہ وہ جمیع غیوب کا جاننے والا ہے اس پر کوئی چھپنے والی چیزپوشیدہ نہیں رہ سکتی ۔ بعض مفسِّرین کا قول ہے کہ اس سے مراد علمِ قیامت ہے ۔

(ف169)

کیونکہ پلک مارنا بھی زمانہ چاہتا ہے جس میں پلک کی حرکت حاصل ہو اور اللہ تعالٰی جس چیز کا ہونا چاہے وہ کُنْ فرماتے ہی ہو جاتی ہے ۔

وَ اللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْــٴًـاۙ-وَّ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْـٕدَةَۙ-لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۷۸)

اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ سے پیدا کیا کہ کچھ نہ جانتے تھے (ف۱۷۰) اور تمہیں کان اور آنکھ اور دل دئیے (ف۱۷۱) کہ تم احسان مانو (ف۱۷۲)

(ف170)

اور اپنی پیدایش کی ابتداء اور اول فطرت میں علم و معرفت سے خالی تھے ۔

(ف171)

کہ ان سے اپنا پیدائشی جہل دور کرو ۔

(ف172)

اور علم و عمل سے فیض یاب ہو کر مُنعِم کا شکر بجا لاؤ اور اس کی عبادت میں مشغول ہو اور اس کے حقوقِ نعمت ادا کرو ۔

اَلَمْ یَرَوْا اِلَى الطَّیْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآءِؕ-مَا یُمْسِكُهُنَّ اِلَّا اللّٰهُؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۷۹)

کیا انہوں نے پرندے نہ دیکھے حکم کے باندھے آسمان کی فضا میں انہیں کوئی نہیں روکتا (ف۱۷۳) سوا خدا کے بےشک اس میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کو (ف۱۷۴)

(ف173)

گرنے سے ، باوجود یکہ جسم ثقیل بالطبع گرنا چاہتا ہے ۔

(ف174)

کہ اس نے انہیں ایسا پیدا کیا کہ وہ ہوا میں پرواز کر سکتے ہیں اور اپنے جسمِ ثقیل کی طبیعت کے خلاف ہوا میں ٹھہرے رہتے ہیں ، گرتے نہیں اور ہوا کو ایسا پیدا کیا کہ اس میں ان کی پرواز ممکن ہے ۔ ایماندار اس میں غور کرکے قدرتِ الٰہی کا اعتراف کرتے ہیں ۔

وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْۢ بُیُوْتِكُمْ سَكَنًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ جُلُوْدِ الْاَنْعَامِ بُیُوْتًا تَسْتَخِفُّوْنَهَا یَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَ یَوْمَ اِقَامَتِكُمْۙ-وَ مِنْ اَصْوَافِهَا وَ اَوْبَارِهَا وَ اَشْعَارِهَاۤ اَثَاثًا وَّ مَتَاعًا اِلٰى حِیْنٍ(۸۰)

اور اللہ نے تمہیں گھر دئیے بسنے کو (ف۱۷۵) اور تمہارے لیے چوپایوں کی کھالوں سے کچھ گھربنائے (ف۱۷۶) جو تمہیں ہلکے پڑتے ہیں تمہارے سفر کے دن اور منزلوں پر ٹھہرنے کے دن اور ان کی اون اور ببری(اونٹ کے بال) اور بالوں سے کچھ گِرَستی (گھریلو ضروریات) کا سامان (ف۱۷۷) اور برتنے کی چیزیں ایک وقت تک

(ف175)

جن میں تم آرام کرتے ہو ۔

(ف176)

مثل خیمہ وغیرہ کے ۔

(ف177)

بچھانے اوڑھنے کی چیزیں ۔

مسئلہ : یہ آیت اللہ کی نعمتوں کے بیان میں ہے مگر اس سے اشارۃً اُون اور پشمینے اور بالوں کی طہارت اور ان سے نفع اٹھانے کی حِلّت ثابت ہوتی ہے ۔

وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَكْنَانًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْكُمُ الْحَرَّ وَ سَرَابِیْلَ تَقِیْكُمْ بَاْسَكُمْؕ-كَذٰلِكَ یُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُوْنَ(۸۱)

اور اللہ نے تمہیں اپنی بنائی ہوئی چیزوں (ف۱۷۸) سے سائے دئیے (ف۱۷۹) اور تمہارے لیے پہاڑوں میں چُھپنے کی جگہ بنائی (ف۱۸۰) اور تمہارے لیے کچھ پہناوے بنائے کہ تمہیں گرمی سے بچائیں اور کچھ پہناوے (ف۱۸۱) کہ لڑائی میں تمہاری حفاظت کریں(ف۱۸۲) یونہی اپنی نعمت تم پر پوری کرتاہے (ف۱۸۳) کہ تم فرمان مانو (ف۱۸۴)

(ف178)

مکانوں ، دیواروں ، چھتوں ، درختوں اور ابر وغیرہ ۔

(ف179)

جس میں تم آرام کرتے ہو ۔

(ف180)

غار وغیرہ کہ امیر و غریب سب آرام کر سکیں ۔

(ف181)

زرہ و جوشن وغیرہ ۔

(ف182)

کہ تیر تلوار نیزے وغیرہ سے بچاؤ کا سامان ہو ۔

(ف183)

دنیا میں تمہارے حوائج و ضروریات کا سامان پیدا فرما کر ۔

(ف184)

اور اس کی نعمتوں کا اعتراف کر کے اسلام لاؤ اور دینِ برحق قبول کرو ۔

فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(۸۲)

پھر اگر وہ منہ پھیریں (ف۱۸۵) تو اے محبوب تم پر نہیں مگر صاف پہنچا دینا(ف۱۸۶)

(ف185)

اور اے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ آپ پر ایمان لانے اور آپ کی تصدیق کرنے سے اعراض کریں اور اپنے کُفر پر جمے رہیں ۔

(ف186)

اور جب آپ نے پیامِ الٰہی پہنچا دیا تو آپ کا کام پورا ہو چکا اور نہ ماننے کا وبال ان کی گردن پر رہا ۔

یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰهِ ثُمَّ یُنْكِرُوْنَهَا وَ اَكْثَرُهُمُ الْكٰفِرُوْنَ۠(۸۳)

اللہ کی نعمت پہچانتے ہیں (ف۱۸۷) پھر اس سے منکر ہوتے ہیں(ف۱۸۸) اور ان میں اکثر کافر ہیں (ف۱۸۹)

(ف187)

یعنی جو نعمتیں کہ ذکر کی گئیں ان سب کو پہچانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہیں پھر بھی اس کا شکر بجا نہیں لاتے ۔ سدی کا قول ہے کہ اللہ کی نعمت سے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مراد ہیں ، اس تقدیر پر معنٰی یہ ہیں کہ وہ حضور کو پہچانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آپ کا وجود اللہ تعالٰی کی بڑی نعمت ہے اور باوجود اس کے ۔

(ف188)

اور دینِ اسلام قبول نہیں کرتے ۔

(ف189)

معانِد کو حسد وعناد سے کُفر پر قائم رہتے ہیں ۔