اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یُدْعَوْنَ اِلٰى كِتٰبِ اللّٰهِ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ یَتَوَلّٰى فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ وَ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ(۲۳)

ترجمۂ  کنزالایمان: کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ ملاکتابُ اللہ کی طرف بلائے جاتے ہیں کہ وہ ان کا فیصلہ کرے پھر ان میں کا ایک گروہ اس سے روگرداں ہوکر پھر جاتا ہے۔

ترجمۂ  کنزالعرفان: کیا تم نے ان لوگوں کونہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا (کہ جب انہیں ) اللہ  کی کتاب کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کا فیصلہ کردے توپھر ان میں سے ایک گروہ بے رخی کرتے ہوئے منہ پھیر لیتا ہے۔

{اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ: کیا تم نے ان لوگوں کونہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودیوں کو توریت شریف عطا کی گئی اور اس کے علوم و احکام سکھائے گئے۔ اسی توریت میں تاجدارِ رسالت  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اوصاف و احوال اور دینِ اسلام کی حقانیت کا بیان بھی تھا تو اس سے لازم آتا تھا کہ جب حضورِ اکرم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تشریف لائیں اوربنی اسرائیل کو قرآن کریم کی طرف دعوت دیں تو وہ حضور  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر اور قرآن شریف پر ایمان لائیں اور اس کے احکام کی تعمیل کریں لیکن ان میں سے اکثر نے ایسا نہیں کیا۔آیت میں کتابُ اللہ کی طرف بلانے کا ذکر ہے۔ جو تفسیر اوپر ذکر کی گئی اس کے مطابق یہاں ’’کتابُ اللہ‘‘ سے مراد’’ قرآن‘‘ ہے اور اگر ’’کتابُ اللہ‘‘ سے مراد ’’توریت ‘‘ہو تومعنیٰ یوں ہوں گے کہ جب یہودیوں کو توریت کی طرف بلایاجاتا ہے تاکہ وہ توریت ہی ان کے درمیان نبیٔ کریم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور قرآن کی حقانیت کا فیصلہ کردے تو وہ توریت سے بھی منہ پھیر لیتے ہیں۔

{وَ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ: اور وہ منہ پھیرنے والے ہیں۔} اس آیت کے شانِ نزول میں حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے ایک روایت یہ آئی ہے کہ ایک مرتبہ رحمت ِعالم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ایک جگہ تشریف لے گئے اور وہاں یہودیوں کو اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا، اے محمد!  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ آپ کس دین پر ہیں ؟ فرمایا، ملت ِ ابراہیم پر۔ وہ کہنے لگے ،حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تو یہودی تھے۔نبیٔ کریم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا :’’توریت لاؤ ،ابھی ہمارے، تمہارے درمیان فیصلہ ہوجائے گا ۔ وہ اس مطالبے پر نہ ٹھہر سکے اور منکر ہوگئے۔ اس پر یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی ۔ (در منثور، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲۳، ۲ / ۱۷۰)

 حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے اس آیت کے شانِ نزول کی دوسری روایت یہ ہے کہ ’’خیبر کے یہودیوں میں سے ایک مرد نے ایک عورت کے ساتھ زنا کیا تھا۔ توریت میں ایسے گناہ کی سزا پتھر مار مار کر ہلاک کردینا ہے لیکن چونکہ یہ لوگ یہودیوں میں اونچے خاندان کے تھے اس لئے انہوں نے ان کو سنگسار کرنا گوارہ نہ کیا اور اس معاملہ کو اس امید پر نبیٔ کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے پاس لائے کہ شاید آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سنگسار کرنے کا حکم نہ دیں مگر حضور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ان دونوں کے سنگسار کرنے کا حکم دیا، اس پر یہودی طیش میں آگئے اور کہنے لگے کہ’’ اس گناہ کی یہ سزا نہیں ہے، آپ نے ظلم کیا ہے۔ حضور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ’’ فیصلے کا دارو مدار توریت پر رکھ لو۔ انہوں نے کہا: یہ انصاف کی بات ہے۔ چنانچہ توریت منگوائی گئی اور یہودیوں کے بڑے عالم عبداللہبن صوریا نے توریت پڑھنی شروع کی، جب رجم کی آیت آئی جس میں سنگسار کرنے کا حکم تھا تو عبداللہ بن صوریا نے اس پر ہاتھ رکھ دیا اور اس کو چھوڑ دیا۔ حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کا ہاتھ ہٹا کر آیت پڑھ دی۔ یہودی اس حرکت پر ذلیل و رسواہوئے اور وہ یہودی مردو عورت جنہوں نے زنا کیا تھا حضورِ اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حکم سے سنگسار کئے گئے ،اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲۳، ۱ / ۲۳۹)