ایا صوفیا اور اخلاقیات

ایا صوفیا کے حوالے سے اردگان حکومت کے حالیہ فیصلے پر مسلمانوں کی اکثریت نے اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا ہے ۔و ہ جولائی کی اس تاریخ کا انتظار کررہے ہیں جب وہاں (یعنی استنبول کی سب سے بڑی جامع مسجدمیں) نماز کی ادائیگی ہوسکے گی لیکن پاکستان میں ایک طبقہ اس پر مسلسل تنقید کررہا ہے۔ یہ تنقید برائے تنقید ہے کیونکہ آپ اس فیصلے کے جس پہلو کا جائزہ لیں آپ کو یہ فیصلہ مبنی بر حق ہی نظر آئے گا۔

1۔سیاسی پہلو:

یہ ہے کہ ترکی ایک آزاد ملک ہے ۔اُسے اپنےفیصلوں میں سو فیصد آزاد ہونا چاہیے اورعالمی برادری کو اُس کی اس خود مختاری کا احترام کرنا چاہیے۔یہ ترکی کی داخلی آزادی کا احترام ہی تھا کہ جب 1934ء میں اس وقت کی پارلیمنٹ نے مسجد ایا صوفیا کو میوزیم بنانے کا فیصلہ کیا تواُس فیصلےپر باوجود اس کے لاکھوں نہیں کروڑوں مسلمانوں کو اس فیصلے سے تکلیف ہوئی،ا نہوں نے اس تکلیف کا اظہار بھی کیا لیکن ترکی کی سیاسی آزادی و خودمختاری کوپیشِ نظر رکھتے ہوئے اس فیصلے کو انگیز کیا،اسی اسپرٹ کا مظاہرہ اب ہونا چاہیے کہ یہ ترکی کا داخلی سیاسی معاملہ ہے۔

2۔قانونی پہلو:

قانون صحیح بھی ہوسکتا ہے،غلط بھی ہوسکتا ہے کیونکہ قوانین انسانی کاوشیں ہیں اور انسانی عقل غلطی کرسکتی ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تونبوت کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ 1934ء کا فیصلہ بہتوں کےنزدیک درست اور بہتوں کے نزدیک غلط تھا ۔تاہم یہ ایک غیر متنازعہ اصول ہے کہ”عدالتی فیصلوں کا احترام کیا جائے گا“لہذا ترکی کی اعلیٰ انتظامی عدالت کے اس فیصلے کا بھی غیر مشروط احترام ہونا چاہیے۔

3۔اخلاقی پہلو:

اس میں کوئی شک نہیں کہ ”اخلاق“ہی فاتح عالم ہے۔بعثتِ محمدی کے وقت عرب کے عربوں کے پاس آخر کیا تھا؟کیاان کے پاس اس دور کی ٹیکنالوجی تھی ؟کیا ان کے پاس ایران جیسے مستحکم سیاسی ادارے تھے؟کیاان کے پاس بازنطینیوں جیسے فوجی ،جنگی آلات حرب وضرب تھے؟لے دے کے ان کےپاس وہ اخلاقی اصول ہی تھے جس کے بل بوتے پر فقط ساٹھ،پینسٹھ سال کے عرصے میں وہ متمدن عصر ی اقوام پر غالب آگئے۔ساسانیوں(ایران)جیسی طاقت کو انہوں نے فتح کرلیا ،عراق فتح کیا ،پوراشام فتح کیا جو بازنطینیوں کا علاقہ تھا ،مصر فتح کیا یہ بھی بازنطینیوں کا علاقہ تھا اوریہ سب کچھ اُس اخلاقی برتری کا نتیجہ تھا جو اُس وقت کے مسلمانوں کو دیگر عصری اقوام پر حاصل تھی۔

ایاصوفیا کے بارے میں حالیہ فیصلے کو ایک گروہ اخلاقی بنیادوں پر رد کررہا ہے۔اُن کی دلیل یہ ہے کہ اس فیصلے سے عیسائی دنیا کو تکلیف پہنچے گی۔یہ کہا جارہا ہے کہ یہ فیصلہ اخلاقی اصولوں کےخلاف ہے…انسانیت کواس سے غلط پیغام جائے گا ۔ اس کا سیدھا ساجواب تو یہ ہے کہ یہ کسی کنیسہ کو مسجد بنانے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ میوزیم کو مسجد بنایاجارہاہے۔نصرانی دنیا کا اس سے کیا لینا دینا؟؟؟لہٰذا اخلاقی پہلو تو سب سے بودا پہلو ہے جس پر مذکورہ گروہ اپنے دلائل و براہین کی عمارت کھڑی کررہاہے۔

(نگار سجاد ظہیر)