وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يَّشۡتَرِىۡ لَهۡوَ الۡحَدِيۡثِ لِيُضِلَّ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ بِغَيۡرِ عِلۡمٍۖ وَّيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ؕ اُولٰٓئِكَ لَهُمۡ عَذَابٌ مُّهِيۡنٌ ۞- سورۃ نمبر 31 لقمان آیت نمبر 6
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يَّشۡتَرِىۡ لَهۡوَ الۡحَدِيۡثِ لِيُضِلَّ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ بِغَيۡرِ عِلۡمٍۖ وَّيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ؕ اُولٰٓئِكَ لَهُمۡ عَذَابٌ مُّهِيۡنٌ ۞
ترجمہ:
اور بعض لوگ غافل کرنے والی کہانیاں خریدتے ہیں ‘ تاکہ بغیر علم کے لوگوں کو اللہ کے راستے سے بہکائیں اور اس کا مذاق اڑائیں ‘ ان ہی لوگوں کے لیے ذلت والا عذاب ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور بعض لوگ غافل کرنے والی کہانیاں خریدتے ہیں تاکہ بغیر علم کے لوگوں کو اللہ کے راستہ سے بہکائیں ‘ اور اس کا مذاق اڑائیں ‘ ان ہی لوگوں کے لیے ذلت والا عذاب ہے (لقمان : ٦)
لھوالحدیث کا محمل غناء کو قرار دینا
امام ابواسحاق احمد بن محمد بن ابراہیم الثعلبی النیشاپوری المتوفی ٤٢٧ ھ لکھتے ہیں :
کلبی اور مقاتل نے کہا ہے کہ یہ آیت النضر بن الحارث کے متعلق نازل ہوئی ہے وہ تجارت کے لیے فارس جاتا تھا وہاں سے عجمیوں کی خبریں خرید کر لاتا ان کو روایت کرتا اور قریش کو سناتا ‘ اور کہتا کہ ( سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کو عاد اور ثمود کی خبریں سناتے ہیں اور میں تم کو رستم اور اسفند یار کی خبریں سناتا ہوں اور عجمی بادشاہوں کے قصے سناتا ہوں ‘ لوگ اس کی خبروں اور قصوں کی طرف مائل ہوتے اور قرآن سننا چھوڑ دیتے۔ ( علامہ قرطبی نے بھی یہی شان نزول تکھا ہے ‘ الجامع لاحکام القرآن جز ١٤ ص ٤٨ )
حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گانے والیوں کو تعلیم دینا اور ان کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے اور ان کی قیمت حرام ہے۔ اور اسی کی مثل میں یہ آیت نازل ہوئی ہے : اور بعض لوگ غافل کرنے والی کہانیاں خریدتے ہیں تاکہ بغیر علم کے لوگوں کو بہکائیں۔( سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١٩٥‘ السنن الکبری ج ٦ ص ١٤‘ کنزالعمال ج ٤ ص ٣٩)
علامہ ثعلبی لکھتے ہیں : جو شخص گانا گاتے وقت اپنی آواز بلند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دو شیطان بھیج دیتا ہے ایک اس کے ایک کندھے پر بیٹھ جاتا ہے اور دوسرا اس کے دوسرے کندھے پر بیٹھ جاتا ہے اور جب تک وہ گاتا رہتا ہے شیطان اس کو لاتوں سے مارتے رہتے ہیں۔
دوسرے مفسرین نے کہا اس آیت کا محمل وہ لوگ ہیں جو قرآن مجید کو چھوڑ کر لہو ‘ معازف ‘ مزامیر اور غنا سنتے ہیں اور انہوں نے کہا اللہ کے راستہ سے مراد قرآن مجید ہے (معازف سے مراد وہ آلات غنا ہیں جن کو ہاتھوں سے بجایا جائے اور مزامیر سے مراد وہ آلات غنا ہیں جن کو منہ سے بجایا جائے)
ابوالصہبا البکری بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے اس آیت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے تین بار قسم کھا کر فرمایا اس سے مراد غنا ہے ‘ ضحاک نے کہا غنا مال کو ضائع کرتا ہے ‘ رب کو ناراض کرتا ہے اور دل کو یاد الہتی سے غافل کرتا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا یہ آیت اس شخص کے متعلق نازل ہوئی ہے جس نے ایک باندی خریدی جو اس کو دن رات گانا سناتی تھی ‘ اور ہر وہ بات جو اللہ کے راستہ سے غافل کرکے اس کے منع کیے ہوئے کام کی طرف لے جائے وہ لہو الحدیث ہے اور گانا بھی اسی قسم سے ہے۔ (الکشف والبیان ج ٧ ص ٣١٠‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢٢ ھ)
غناء کی تحریم اور ممانعت میں قرآن مجید کی آیات
علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ نے غنا کی تحریم میں حسب ذیل آیات پیش کی ہیں :
(١) غناء کی تحریم میں ایک یہی زیر تفسیر آیت ہے یعنی لقمان : ٦۔ اس آیت سے علماء نے غناء کی کراہت اور ممانعت پر استدلال کیا ہے۔
(٢) وانتم سمدون (النجم : ٦١ )
اور تم کھیل میں پڑے ہوئے ہو۔
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اس سے مراد غنا ہے باندی سے کہا جائے اسمدی النا اس کا معنی ہے ہمیں گانا سنائو۔
(٣) واستفزز من استطعت منھم بصوتک
تو ان میں سے جن کو بھی اپنی آواز سے بہا سکتا ہو ‘ بہکالے۔ ( بنی اسرائیل : ٦٤ )
مجاہد نے کہا اس سے مراد غنا اور مزامیر ہیں ‘ اس کی تفسیر سورة بنی اسرائیل میں گزر چکی ہے۔
(الجامع الا حکام القرآن جز ١٤‘ دارالفکر ‘ تلبیس ابلیس ص ٢٣٧‘ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ١٤١٨ ھ)
غناء کی تحریم اور ممانعت میں احادیث اور آثار
علامہ قرطبی نے غنا کی تحریم اور ممانعت پر حسب ذیل احادث اور آثار سے استدلال کیا ہے :
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو آوازیں ملعون اور فاجر ہیں میں ان سے منع کرتا ہوں ‘ مزمار کی آواز اور شیطان کی آواز جو کسی نغمہ اور خوشی کے وقت ہو ‘ اور کسی مصیبت کے وقت رونے پیٹنے اور گریبان پھاڑنے کی آوازیں۔ (امام ترمذی نے کہا اس حدیث کی سند حسن ہے)(سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٠٠٥‘ مسند عبدین حمید رقم الحدیث : ١٠٠٦)
حضرت علی (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :مجھے مزامیر توڑنے کے ساتھ مبعوث کیا ہے ۔ کنزالاعمال ۔تلبیس ابلیس
حضرت عمران بن الحصین رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس امت میں زمین میں دھنسنا ‘ مسخ اور آسمان سے پتھر برسنا ہوگا ‘ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! اور یہ کب ہوگا ؟ آپ نے فرمایا جب گانے والیوں اور آلات موسیقی کا ظہور ہو اور شرابوں کو (کھلے عام) پیا جائے۔(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٢١٢‘ علل الترمذی رقم الحدیث : ٦٠٢‘ المسند الجامع رقم الحدیث : ١٠٩٢٣ )
حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب میری امت میں پندرہ خصلتیں ہوں گی تو ان پر بلائوں کا نزول حلال ہوجائے گا ‘ آپ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ وہ کون سی خصلتیں ہیں آپ نے فرمایا (١) جب مال غنیمت کو ذاتی دولت بنا لیا جائے (٢) اور امانت کو مال غنیمت بنا لیا جائے (٣) اور زکوۃ کو جرمانہ سمجھا جائے (٤) اور آدمی اپنی بیوی کی اطاعت کرے (٥) اور ماں کی نافرمانی کی جائیں (٦) اور دوست کے ساتھ نیکی کرے (٧) اور باپ کے ساتھ بےوفائی کرے (٨) اور مساجد میں آوازیں بلند کی جائیں (٩) اور سب سے رذیل شخص کو قوم کا سردار بنا لیا جائے (١٠) اور کسی شخص کے شر سے بچنے کے لیے اس کی عزت کی جائے (١١) اور شرابیں (برسر عام) پی جائیں (١٢) اور ریشم پہنا جائے (١٣) اور گانے والیوں (١٤) اور آلات موسیقی کو رکھا جائے (١٥) اور اس امت کے بعد والے پہلوں کو برا کہیں ‘ اس وقت تم سرخ آندھیوں یا زمین میں دھنسنے کا اور مسخ کا انتظار کرو۔(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٢١٠‘ المسند الجامع رقم الحدیث : ١٠٣٨٦‘ تاریخ بغداد ج ٣ ص ١٥٨‘ ج ١٢ ص ٣٩٦)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب مال فے (کافروں کا چھوڑا ہوا مال) کو ذاتی دولت بنا لیا جائے اور امانت کو مال غنیمت بنا لیا جائے ‘ اور زکوۃ کو جرمانہ قرار دیا جائے ‘ اور دین کے علاوہ علم حاصل کیا جائے ‘ اور آدمی اپنی بیوی کی اطعت کرے اور اپنی ماں کی نافرمانی کرے ‘ اور اپنے دوست کو قریب رکھے اور اپنے باپ کو دور رکھے ‘ اور مسجدوں میں آوازوں کو بلند کیا جائے ‘ اور فاسق کو قبیلہ کا سردار بنایا جائے اور قوم کا سربراہ ذیل ہو ‘ اور کسی شخص کے شر کی بناء پر اس کی کی عزت کی جائے ‘ اور گانے والیوں اور آلات موسیقی کا ظہور ہو اور شرابیں پی جائیں اور اس امت کے پچھلے لوگ پہلوں پر لعنت کریں ‘ اس وقت تم سرخ آندھی کا اور زلزلہ کا اور زمین میں دھنسنے کا اور مسخ کا اور آسمان سے پتھر برسنے کا انتظار کرو اور ان نشانیوں کا انتظار کرو جو پے درپے آئیں گی۔(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٢١١‘ المسند الجامع رقم الحدیث : ٥٢٣٨)
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کسی باندی کے پاس گانا سننے کے لیے بیٹھا اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیلا جائے گا۔ ( الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٨٤٢٨‘ جمع الجوامع رقم الحدیث : ٢٠٢٤٠‘ حافظ سیوطی نے اس حدیث کو امام ابن عسا کر کے حوالہ سے ذکر کیا ہے اور اس حدیث کے ضعف کی طرف رمز کی ہے)
حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے گانیکو سنا قیامت کے دن اس کو جنت میں روحانیین کی آواز سننے کی اجازت نہیں ہوگی ‘ آپ سے پوچھا گیا کہ روحانیین کون ہیں یارسول اللہ ! آپ نے فرمایا وہ جنت کے قاری ہیں۔ اس حدیث کی سند بھی ضعیف ہے۔(نوادرالاصولج ٢ ص ٨٧‘ جمع الجوامع رقم الحدیث : ٢٠٢٣٩‘ الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٨٤٢٧‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٤٠٢٣٩)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جو شخص اس حال میں مرگیا کہ اس کے پاس گانے والی تھی اس کی نماز جنازہ نہ پڑھو۔ ( الجامع لا حکام القرآن جز ١٤ ص ٥١۔ ٤٩‘ دا الفکر بیروت ‘ تلبیس ابلیس لابن الجوزی ص ٢٤٠۔ ٢٣٨‘ دارالکتب العلمیہ بیروت)
جس قسم کے اشعار کا دف کے ساتھ یا بغیر دف کے سماع جائز ہے
علامہ ابو عبد اللہ قرطبی مالکی متوفی ٦٦٨ ھ فرماتے ہیں ان احادیث اور ان کے علاوہ دیگر احادیث اور آثار کی وجہ سے کہا گیا ہے کہ غنا حرام ہے۔ غنا سے مراد وہ معروف غنا ہے جس سے دلوں میں تحریک پیدا ہوتی ہے ‘ اس سے عشق میں جو لانی پیدا ہوتی ہے ‘ اس قسم کے اشعار میں عورتوں کا اور ان کے حسن کا ذکر ہو اور ان کی خوبیوں کا بیان ہو اور شراب اور دیگر محرمات کا ذکر ہو تو اس کے حرام ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ یہ لہو ہے اور موموم غنا ہے ‘ او جو اشعار ان چیزوں سے خالی ہوں ان کی قلیل مقدار کو خوشی کے ایام میں گانا جائز ہے ‘ مثلا ً شادی اور عید کے ایام میں اور سخت مشقت کے کاموں کی مشقت کو سرور سے زائل کرنے کے قصد سے جیسا کہ خندق کھودنے کے موقع پر تھا ‘ یا جیسا کہ حبشی غلام انجثہ اور سلمہ بن اکوع نے اونٹوں کو چلاتے وقت غنا کیا۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٤ ص ٥١ )
حضرت براء (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ خندق کے دن مٹی کھود رہے تھے حسیٰ کہ آپ کا پیٹ خاک آلود ہوگیا اور آپ یہ منظوم کلام پڑھ رہے تھے :
واللہ لو لا اللہ ما اھتدینا ولاتصدقنا ولاصلینا
اللہ کی قسم اگر اللہ ہدایت نہ دیتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اور نہ ہم صدقہ دیتے اور نہ نماز پڑھتے
فانزلن سکینۃ علینا وثبت الاقدام ان لاقینا
پس تو ہم پر طمانیت نازل فرما اور دشمن کے مقابلہ کے وقت ہم کو ثابت قدم رکھ
ان الا ولی قد بغواعلینا ان اور ادو افتنۃ بینا
بے شک پہلوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی اگر وہ ہم کو فتنہ میں ڈالنے کا ارادہ کریں گے تو ہم انکار کریں گے
اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابینا ابینا کا تکرار کرتے اور اس پر آواز کو بلند فرماتے۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٨٣٦‘ ٤١٠٤‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٠٣‘ مسند احمد رقم الحدیث : ١٨٧٠٧‘ سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٤٥٩‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٨٨٥٧ )
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ مہاجرین اور انصار مدینہ کے گرد خندق کھود ررہے تھے اور اپنی پیٹھوں پر رکھ کر مٹی کو نقل کررہے تھے اور یہ منظوم کلام پڑھ رہے تھے :
نحن الذین بایعوا محمدا علی الجھاد مابقینا ابدا
ہم وہ ہیں جنہوں نے سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جہاد پر بیعت کی ہے جب تک ہم زندہ رہیں۔
اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو جواب دیتے ہوئے فرماتے :
اللھم انہ لا خیر الا خیر الا خرۃ فبارک فی الانصار والمھاجرۃ
اے اللہ ! اچھائی تو صرف آخرت کی اچھائی ہے سو تو انصار اور مہاجرین میں برکت نازل فرما۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤١٠٠‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٠٥‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٥٧‘ مسند احمد رقم الحدیث : ١٢٧٨٧)
علامہ بدرالدین عینی حنفی نے ان احادیث کی شرح میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کو کفار کے خلاف شجاہت پر ابھارنے کے لیے اشعار اور رجز یہ کلام پڑھنا جائز ہے۔ (عمدۃ القاری ج ١٤ ص ص ١٨٥‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ ‘ نیز انہوں نے لکھا ہے کہ مشقت زائل کرنے کے لئے اور کسی کام کو خوشی سے کرنے کے لیے اشعار پڑھنا جائز ہے۔ (عمدۃ القاری ج ١٧ ص ٢٣٨)
امام ابو الفرج عبدالرحمان ابن الجوزی الحنبلی المتوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں :
جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (غزوہ تبوک سے واپس ہو کر) مدینہ تشریف لائے تو آپ کی نعمت میں اہل مدینہ نے یہ اشعار پڑھے :
طلع البدر علینا من ثنیات الوداع
ہم پر چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا مدینہ کے جنوب کی گھاٹیوں سے
(دلائل النبوۃ للہیقی ج ٢ ص ٢٧٥‘ دارالکتب العمیہ بیروت)
اس قسم کے اشعار وہ لوگ مدینہ میں پڑھتے تھے ‘ اور بسا اوقات ان اشعار کو دف کے ساتھ پڑھتے تھے۔ اسی جنس کے اشعار سے یہ حدیث ہے :
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) ان کے پاس آئے اور ان کے پاس ایام ملی میں دو بچیاں تھیں جو دف بجارہی تھیں اور جنگ بعاث کے گیت گا رہی تھیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک کپڑا اوڑھے ہوئے تھے ‘ حضرت ابوبکر نے ان بچیوں کو ڈانٹا ‘ اور کہا تم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے مزمار شیطان بجارہی ہو ! تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چہرے کو کھولا اور فرمایا : اے ابوبکر ان کو چھوڑو ‘ کیونکہ یہ عید کے ایام ہیں ‘ اور ایک روایت میں ہے اے ابوبکر ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٩٥٢‘ ٩٤٩‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٩٢‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٩٨)
امام ابن جوزی فرماتے ہیں ظاہر یہ ہے کہ یہ لڑکیاں کم عمر تھیں کیونکہ اس وقت حضرت عائشہ (رض) کم سن تھیں اور لڑکیاں آکر حضرت عائشہ (رض) کے ساتھ کھیلتی تھیں۔
علامہ بدر الدین عینی حنفی نے لکھا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ وضاحت فرمائی کہ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے جیسے مجوسیوں کی نیروز ہے اور یہ دن ہماری عید کا دن ہے ‘ اور شرعاً خوشی کا دن ہے ‘ سو اتنی مقدار میں خوشی کے دن غنا کا انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ وہ غناء نہیں ہے جو دلوں میں فسق و فجور کی آگ بھڑکاتا ہے۔ (عمدۃ القاری ٦ ص ٣٩١‘ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی نے لکھا ہے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ سرور شرعی کا دن ہے اور اس دن اتنی مقدار میں غنا کا انکار نہیں کیا جاتا جیسا کہ شادی کے موقع پر انکار نہیں کیا جاتا۔ (فتح الباری ج ٣ ص ١١٦‘ دارالفکر ‘ ١٤٢٠ ھ)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے اپنی کسی رشتہ دار لڑکی کی شادی انصار کے کسی لڑکے سے کی ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو آپ نے فرمایا تم نے لڑکی کو رخصت کردیا ‘ لوگوں نے کہا جی ہاں ! آپ نے پوچھا کیا تم نے اس کے ساتھ کسی گانے والی کو بھیجا ہے ؟ حضرت عائشہ نے کہا جی نہیں ! تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انصار ایسے لوگ ہیں جنہیں گانے کا شوق ہے کاش تم اس کے ساتھ اس کو بھیجتے جو یہ گاتا :
اتینا کم اتینا کم فحیانا وحیاکم
ہم تمہارے پاس آئے ہیں ‘ ہم تمہارے پاس آئے ہیں سو اللہ تمہیں بھی زندہ رکھے اور ہمیں بھی زندہ رکھے
(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٩٠٠‘ مسند احمد ج ٣ ص ٣٩١‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٢٥١٤‘ المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٩٤ ٦١‘ مجمع الزوائد ج ٤ ص ٢٩٢‘ مسکوۃ رقم الحدیث : ٣١٥٥‘ اس حدیث کی سند ضعیف ہے مگر اس کی تائید صحیح البخاری میں ہے)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک لڑکی کی انصار کے ایک مرد کی طرف رخصتی کی گئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عائشہ ! کیا تمہارے ساتھ لھو (گانا بجانا) نہیں تھا ؟ کیونکہ انصار کو لھواچھا لگتا ہے۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥١٦٢ )
حضرت محمد بن حاطب الجمحی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حرام اور حلال کے درمیان فرق دف اور آواز ہے۔ ( سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٠٨٨‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٣٦٩۔ ٣٣٧٠‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٩٦‘ مسند احمد ج ٣ ص ٤١٨‘ المستدرک ج ٢ ص ١٨٤‘ سنن کبری للبیہھقی ج ٧ ص ک ٢٨٩)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس نکاح کا اعلان کرو اور اس کو مساجد میں منعقد کرو اور اس پر دفوف (دف کی جمع) بجائو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٠٨٩‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٩٥‘ سنن کبری للبیھقی ج ٧ ص ٢٩٠)
ربیع بنت معوذ بیان کرتی ہیں کہ شب زفاف کو میرے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور میرے بستر پر اس طرح بیٹھ گئے جس طرح تم میرے پاس بیٹھے ہو اس وقت بچیاں دف بجارہی تھیں اور میرے جو آباء غزوہ بدر میں شہیدہو گئے تھے ان کا مثیہ گا رہی تھیں یہاں تک کہ ان میں سے کسی ایک نے یہ مصرع پڑھا : وفینا نبی یعلم مافی غد اور ہم میں ایسے نبی موجود ہیں جو (ازخود) غیب کو جانتے ہیں۔
تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا اس مصرع پر چپ رہو ‘ اور وہی پڑھو جو اس سے پہلے پڑھ رہی تھیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٠٠١‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٩٢٢‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث، ١٨٩٧‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٠٩٠ ١‘ مسند احمد ج ٦ ص ٣٥٩‘ السنن الکبری ‘ للنسائی رقم الحدیث : ٥٨٧٨‘ المعجم الکبیر ج ٢٤ رقم الحدیث : ٦٩٨‘ سنن کبری للبیھقی ج ٧ ص ٢٨٩)
حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی متوفی ٨٥٢ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
اس حدیث سے مستفاد ہوا کہ شادی کی صبح کو دف بجانے کی آواز کو سننا جائز ہے ‘ اور مخلوق میں سے کسی ایک کی طرف بھی علم غیب کی نسبت کرنا مکروہ ہے۔ (فتح الباری ج ٨ ص ٠ ٥‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٠ ١٤٢ ھ)
کیونکہ جب علی الاطلاق کسی کی طرف علم غیب کی نسبت کی جائے تو اس سے متب اور علم غیب بالذات ہوتا ہے اعلیٰ حضرت نے بھی اسی طرح لکھا ہے۔ (الملفوظ ج ٣ ص ٤٧‘ نوری کتب خانہ لاہور) اسی لیے جو لڑکیاں یہ مصرع پڑھ رہیں تھیں آپ نے انہیں اس مصرع پر خاموش ہونے کا حکم دیا اس لیے حافظ ابن حجر نے اس کو مکروہ لکھا ہے ‘ لیکن بہر حال مخلوق کی طرف علم غیب کی نسبت کرنا کفرو شرک نہیں ہے ورنہ آپ ان لڑکیوں کو توبہ کرنے کا اور دوبارہ ایمان لانے کا حکم دیتے۔
اور حافظ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
اس حدیث سے یہ مستفاد ہوا کہ شادی کی صبح کو دف بجانا اور اس کا سننا جائز ہے اور جو علماء اس کو منع کرتے ہیں وہ اس کو ابتداء اسلام پر محمول کرتے ہیں ‘ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص مخلوق میں سے کسی کی طرف علم غیب کی نسبت کرے اس کو منع کرنا چاہیے۔ (عمدۃ القاری ج ١٧ ص ١٤٦‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
امام ابوالفرج عبدالرحمان بن محمد بن علی بن جوزی جنبلی متوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں :
عید ‘ شادی اور دیگر خوشی کی تقاریب میں قلیل مقدار میں دف بجا کر اس قسم کے اشعار پڑھنا امام احمد بن حنبل کے نزدیک جائز ہے ‘ اسی طرح وہ اشعار جو وعظ و نصیحت پر مشتمل ہوں وہ بھی امام احمد کے نزدیک جائز ہیں ‘ امام احمد بن حنبل سے کسی نے پوچھا ایسے اشعار جن میں دلوں کو نرم کرنے کا اور جنت اور دوزخ کا ذکر وہ آیا ان کو پڑھنا جائز ہے امام احمد نے کہا کوئی اس قسم کا شعر سنائو تو سائل نے یہ اشعار پڑھے :
اذا ما قال لی ربی اما استحییت تعصینی
وتخفی الذنب من خلق وبالعصیان تاتینی
جب مجھ سے میرا رب فرمائے گا تجھ کو حیا نہیں آتی تو میری نافرمانی کرتا ہے اور تو میری مخلوق سے گناہ کو چھپاتا ہے اور ان گناہوں کے ساتھ میرے پاس آتا ہے۔
امام احمد نے کہا یہ شعر مجھے پھر سنائو ‘ وہ بار بار فرمائش کر کے یہ شعر سنتے رہے پھر جب وہ گھر گئے تو خود یہ اشعار پڑھ رہے تھے۔ اور رہے وہ اشعار جو کہ مرثیہ پڑھنے والے اور نوحہ کرنے والے پڑھتے ہیں اور خود بھی آواز سے روتے ہیں اور لوگوں کو بھی آواز سے رلاتے ہیں تو ایسے اشعار پڑھنا اور لوگوں کو آواز سے رلانا ناجائز اور حرام ہے۔ اسی طرح آلات موسیقی کے ساتھ اشعار کو پڑھنا بھی ناجائز اور حرام ہے۔
آلات موسیقی کے ساتھ سماع کا حرام ہونا
عبدالرحمن بن غنم اشعری کہتے ہیں کہ مجھے ابو عامر یا ابو مالک اشعری نے حدیث بیان کی اور بہ خدا انہوں نے جھوٹ نہیں کہا وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے میری امت میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا ‘ ریشم ‘ شراب اور باجوں (آلات غنا) کو حلال قرار دیں گے ‘ اور کچھ ایسے لوگ پہاڑ کے دامن میں رہیں گے کہ جب شام کو وہ اپنے جانوروں کا ریوڑ لے کر لوٹیں گے اور ان کے پاس کوئی فقیر اپنی اجت لے آئے گا تو وہ کہیں گے کہ ” کل آنا “ اللہ تعالیٰ پہاڑ گرا کر ان کو ہلاک کردے گا اور دوسرے لوگوں (شراب اور باجوں وغیرہ کو حلال کرنے والوں ض کو مسخ کرکے قیامت تک کے لیے بندر اور خنزیر بنا دے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٥٩٠‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٧٥٨‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٦٨٨‘ مسند احمد ج ٥ ص ٥٣٢‘ سنن کبریٰ ج ١٠ ص ٢٢١ )
اس حدیث میں معازف (آلات غنا) کے حلال کرنے والوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بندر اور خنزیر کی شکل میں مسخ کیے جانے کی وعید سنائی ہے ‘ بندر اور خنزیر کی شکل میں تبدیل کیے جانے سے یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ حقیقتاً بندر اور خنزیر کی شکل میں متشکل کردیئے جائیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے اخلاق یا ان کے قلوب بندر اور خنزیر کے اخلاق اور قلوب کے ساتھ تبدیل کردیئے جائیں۔
آلات غنا کی حرمت کے متعلق ہم نے شرح صحیح مسلم ج ٢ ص ٦٨٤۔ ٦٧٧ میں بہت احادیث بیان کی ہیں۔
آلات موسیقی کے ساتھ سماع میں فقہاء احناف کا نظریہ
صحیح البخاری : ٥٥٩٠ کی شرح میں علامہ بدرالدین عینی حنفی لکھتے ہیں :
امام سعید بن منصور نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مرفوعاً روایت کیا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آخر زمانہ میں میری امت کو مسخ کر کے بندر اور خنزیر بنادیا جائے گا ‘ مسلمانوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! وہ گواہی دیتے ہوں گے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! اور وہ نماز پڑھتے ہوں گے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! اور وہ نماز پڑھتے ہوں گے ‘ روزے رکھتے ہوں گے اور حج کرتے ہوں گے۔ مسمانوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! اس کا کیا سبب ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : وہ آلات موسیقی اور گانے بجانے والیوں میں مشغول ہوں گے ‘ اور وہ ان شرابوں کو پئیں گے وہ اس لھو میں اور شراب نوشی میں رات گزاریں گے اور جب وہ صبح اٹھیں گے تو مسخ ہو کر بندر اور خنزیر ہوچکے ہوں گے۔ امام ترمذی نے اس مضمون کی حدیث روایت کی ہے ( سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٢١٢) اور حکیم ترمذی نے نو اور الاصول میں روایت کیا ہے حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت میں گھبراہٹ ہوگی لوگ اپنے علماء کی طرف جائیں گے تو وہ بندر اور خنزیر ہوچکے ہوں گے۔ (عمدۃ القاری ج ٢١ ص ٢٦٣‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
نیز علامہ بدر الدین عینی حنفی صحیح البخاری : ٩٤٩ کی شرح میں لکھتے ہیں :
الغنا ( گانے بجانے) کی تحریم میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ یہ اس لہو و لعب سے ہے جو بالاتفاق مذموم ہے ‘ اور رہا وہ غنا جو محرمات سے الی ہو تو اس کی قلیل مقدار ‘ عید ‘ شادی اور خوشی تقاریب میں جائز ہے ‘ اور امام ابوحنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ حرام ہے ‘ اور اہل عراق کا بھی یہی قول ہے ‘ امام شافعی کے مذہب میں یہ مکروہ ہے ‘ امام مالک کا مشہور مذہب بھی یہی ہے ‘ صوفیاء کی ایک جماعت نے عید کے دن لڑکیوں کے دف بجانے کی حدیث سے غنا کے مباح ہونے پر استدلال کیا ہے خواہ وہ آلات موسیقی کے ساتھ ہو یا اس کے بغیر ہو ‘ اور ان یہ استدلال مردود ہے کیونکہ ان لڑکیوں کا یہ غنا صرف جنگ اور بہادری کی نظم سے متعلق تھا ‘ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی اجازت دی ‘ لیکن جو غنا معروف اور مشہور ہے وہ بےریش لڑکوں اور عورتوں کے محاسن پر مشتمل ہوتا ہے اور دیگر حرام چیزوں کا بیان ہوتا ہے ‘ جو پر سکون آدمی کے دل میں شہوت کا جوش اور ہیجان پیدا کردیتا ہے اس کے حرام ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے ‘ اور صوفیاء نے اس کی جو بدعت نکالی ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور جب تم ان کے اقوال اور افعال کو دیکھو گے تو اس میں زندیقی کے آثار پائو گے اور اللہ تعالیٰ سے ہی مدد طلب کی گئی ہے۔ (عمدۃ القاری ج ٦ ص ٣٩٣‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
آلات موسیقی کے ساتھ سماع میں فقہاء شافعیہ کا نظریہ
علامہ یحییٰ بن شرف نواوی متوفی ٢٧٦ ھ صحیح مسلم : ٨٩٢ کی شرح میں لکھتے ہیں :
حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا وہ لڑکیاں پیشہ ور گانے والیاں نہیں تھیں ‘ یعنی گانا بجانا ان کی عادت نہیں تھی اور نہ وہ اس میں مشہور تھیں ‘ اور غنا میں علماء کا اختلاف ہے ‘ اہل حجاز کی ایک جماعت نے اس کو مباح کہا ہے اور یہ امام مالک سے ایک روایت ہے ‘ اور امام ابوحنیفہ اور اہل عراق نے اس کو حرام کہا ہے ‘ امام شافعی کا مذہب اس کی کراہت ہے ‘ امام مالک کا مشہور مذہب بھی یہی ہے۔
پیشہ ور گانے والیاں وہ ہوتی ہیں جو اپنے گانے سے عورتوں کا شوق اور ان کی محبت پیدا کرتی ہیں اور بےحیائی کی طرف اپنے کلام میں تعریض اور اشارے کرتی ہیں اور پرسکون دلوں میں حسین عورتوں کی طلب کے جذبات کی آگ بھڑکاتی ہیں اسی لیے کہا گیا ہے کہ غنا میں زنا ہے۔ (صحیح مسلم بشرح النواوی ج ٤ ص ٥٠٦‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)
حافظ شہاب الدین علی بن حجر عسقلانی شافعی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں :
آلات موسیقی کے متعلق ایک قوم نے لکھا ہے کہ ان کی تحریم پر اجماع ہے اور بعض علماء نے اس کے برعکس لکھا ہے ‘ ہم کتاب الاشربہ میں حدیث معازف کی تشریح میں اس پر مفصل لکھیں گے ‘ اور فریقین کے شبہات کا ذکر کریں گے۔ (فتح الباری ج ٣ ص ١١٧‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤٢٠ ھ)
حافظ ابن حجر عسقلانی نے کتاب الاشربہ میں حدیث معازف کی شرح میں آلات موسیقی کی تحریم کی جس بحث کا وعدہ کیا ہے اس کا ذکر کرنا وہ بھول گئے۔
آلات موسیقی کے ساتھ سماع میں فقہاء مالکیہ کا نظریہ
علامہ ابو العباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی المالکی المتوفی ٦٥٦ ھ لکھتے ہیں :
صوفیہ نے آلات موسیقی کے ساتھ سماع کی جو بدعت رائج کی ہوئی ہے ‘ اس کی تحریم میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے ‘ لیکن جو لوگ نیکی کی طرف منسوب ہیں ان میں سے اکثر کے اوپر نفوس شہوانیہ اور اغراض شیطانیہ غالب ہوچکی ہیں اور اس کا ذکر ان میں اس قدر مسہور ہوچکا ہے کہ وہ اس کی تحریم اور اس کے فحش سے اندھے ہوچکے ہیں اور ان میں سے بہت لوگوں سے بےحیائوں ‘ ہیجڑوں اور بچوں کی قبیح حرکات صادر ہوتی ہیں ‘ اور وہ موزون اور منضبط حرکات کے ساتھ رقص کرتے ہیں اور ناچتے ہیں جس طرح جاہل اور بےحیاء کرتے ہیں ‘ اور ان کی بےحیائی یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ کہتے ہیں یہ کام عبادات اور نیک اعمال سے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آلات موسیقی کے سماع سے دلوں کا زنگ دور ہوجاتا ہے ‘ اور تحقیق یہ ہے کہ یہ زندقی کے آثار ہیں اور اہل باطل کے اقوال ہیں ‘ ہم بدعتوں سے اور فتنوں سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں اور اللہ سے توبہ کا اور سنت پر عمل کرنے کا سوال کرتے ہیں۔ (المفھم ج ٢ ص ٥٣٤ مطبوعہ دارابن کثیر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)
آلات موسیقی کے ساتھ سماع میں فقہاء حنبلیہ کا نظریہ
امام ابوالفرج عبدالرحمن بن الجوزی الحنبلی المتوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں :
ایک قوم کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ سماع اللہ عزوجل کی عبادت ہے ‘ جنید سے منقول ہے کہ ان صوفیاء پر تین وقتوں میں رحمت نازل ہوتی ہے کھانے کے وقت کیونکہ یہ فاقہ کے بعد کھاتے ہیں ‘ اور مذاکرہ کے وقت کیونکہ یہ صدیقین کے مقامات اور انبیاء کے احوال سے متجاوز ہوتے ہیں اور سماع کے وقت کیونکہ یہ وجد کے ساتھ سنتے ہیں اور حق کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
امام ابن جوزی فرماتے ہیں اگر جنید سے یہ روایت صحیح ہے تو اس سماع سے ان اشعار کا سماع مراد ہے جو دلوں کو نرم کرتے ہیں اور آخرت کی یاد دلاتے ہیں ‘ ابن عقیل نے کہا ہم نے ان صوفیاء سے سنا ہے کہ جب کوئی سار بان اونٹ کو ہنکاتے وقت گانا گاتا ہے اس وقت دعا کی جائے تو مستجاب ہوتی ہے : کیونکہ ان کا اعتقاد ہے کہ گانے سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل ہوتا ہے ‘ ابن عقیل نے کہا یہ کفر ہے کیونکہ جو شخص حرام یا مکروہ کو عبادت اعتقاد کرے وہ اس اعتقاد سے کافر ہوجائے گا۔ (تلسبیس ابلیس ص ٢٥٢ ملخصا ‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٨ ھ)
امام ابن جوزی لکھتے ہیں : جب یہ صوفیا غناء کو سنتے ہیں تو وجد کرتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں اور چیختے ہیں اور کپڑے پھاڑ ڈالتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ کتنے ہی عابد جب قرآن مجید کو سنتے ہیں تو بعض مرجاتے ہیں ‘ بعض بےہوش ہوجاتے ہیں اور بعض چیختے اور چلاتے ہیں ‘ اور اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جھوٹ ہے ‘ حضرات صحابہ سے اس کی مثل نہیں سنی گئی۔
سب سے صاف دل صحابہ کرام کے تھے اور جب ان کو وجد آتا تو وہ صرف روتے تھے اور خدا سے ڈرتے تھے ‘ حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وعظ کیا تو ایک شخص بےہوش ہوگیا۔ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ ہم پر دین میں کون تلبیس کررہا ہے اگر یہ سچا ہے تو یہ اپنی شہرت کررہا ہے اور اگر جھوٹا ہے تو اللہ اس کو مٹادے گا۔ (تلبیس ابلیس ص ٢٥٤۔ ٢٥٣ بیروت ‘ ١٤١٨ ھ)
نیز امام ابن جوزی لکھتے ہیں : جب صوفیاء پر رقص کے حال میں طرب طاری ہوتا ہے تو یہ ناچتے ناچتے کسی شخص کو مجلس سے اٹھا لیتے ہیں تاکہ وہ بھی کھڑا ہوجائے ‘ اور ان کے مذہب میں یہ جائز نہیں ہے کہ جو شخص جذب سے ناچ رہا ہو تو اہل مجلس بیٹھے رہیں جب وہ کھڑا ہو تو باقی لوگ بھی کھڑے ہوجاتے ہیں اور جب کوئی شخص سرننگا کرے تو باقی لوگ بھی سرننگا کرلیتے ہیں ‘ حالانکہ سرننگا کرنا قبیح ہے اور خلاف ادب ہے اور صرف حالت حرام میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اظہارذلت کے لیے شرننگا کرلیتے ہیں ‘ حالانکہ سرننگا کرنا قبیح ہے اور خلاف ادب ہے اور صرف حالت احرام میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اظہار ذلت کے لیے سرننگا کیا جاتا ہے۔ (تلبیس ابلیس ص ٢٦١‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٨ ھ)
علامہ موفق الدین عبد اللہ بن احمد بن قدامہ جنبلی متوفی ٦٢٠ ھ لکھتے ہیں :
آلات موسیقی تین قسم کے ہیں : ستار ‘ بانسری اور منہ سے بجائے جانے والے تمام قسم کے باجے ‘ سارنگی ‘ طنبور اور ہاتھ سے بجائے جانے والے تمام قسم کے باجے ‘ ان کا بجانا حرام ہے اور جو شخص عادتاً ان باجوں کو سنے اس کی شہادت مردود ہے ‘ اور دوسری قسم دف ہے ‘ خوشی کے مواقع پر عورتوں کا دف بجانا جائز ہے۔ اور مردوں کے لیے دف بجانا ہرحال میں مکروہ ہے۔ کیونکہ عورتیں اور مخنث دف جاتے ہیں اور مردوں کے دف بجانے میں عورتوں کی مشابہت ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں کی مثابہت کرتے ہیں ‘ تیسری قسم چھڑی بجانا ہے یہ اس وقت مکروہ ہے جب اس کے ساتھ کوئی حرام یا مکروہ چیز ہو جیسے تالی بجانا ‘ گانا یا ناچنا۔ (المغنی ج ١٠ ص ١٧٤۔ ١٧٣‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤٠٦ ھ)
غنا اور آلات موسیقی پر ہم نے شرح صحیح مسلم میں بہت طویل بحث کی ہے اور مجوزین اور مانعین دونوں کے دلائل کو ذکر کیا ہے اور شبہات کو زائل کیا ہے اور حق کو واضح کیا ہے۔ یہ تحقیق شرح صحیح مسلم ج ٢ ص ٧٠٧۔ ٦٧٢ میں ملاحظہ فرمائیں۔
غناء اور سماع کے متعلق مفسرین احناف کی تصریحات
اور جو لوگ غافل کرنے والی کہانیاں خریدتے ہیں تاکہ بغیر علم کے لوگوں کو اللہ کے راستے سے بہکائیں ‘ ان پر جب کتاب اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ تکبر سے پیٹھ پھیر لیتے ہیں اور حق کو سننے سے اعراض کرتے ہیں ‘ آپ ان لوگوں کو درد ناک عذاب کی بشارت دے دیجئے۔
یہ آیت بھی لھوالحدیث کی مذمت میں ہے اور لھوالحدیث کی تفسیر میں آلات موسیقی اور غنا کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
علامہ ابو اللیث نصر بن محمد السمر قندی الحنفی المتوفی ٣٧٥ ھ لکھتے ہیں :
ایک تفسیر یہ ہے کہ وہ شخص گانے بجانے والی باندیوں کو خریدتا تھا۔ امام ابواللیث نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابو امامہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : گانے والیوں کو بیچنا اور ان کی تجارت کرنا جائز نہیں ہے اور ان کی قیمت کھانا حرام ہے۔ (السنن الکبری للبیھقی ج ٦ ص ١٥‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢١٦٨) (بحرالعلوم تفسیر السمر قندی ج ٣ ص ١٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤١٣ ھ)
علامہ ابوالبرکات عبداللہ بن احمد بن محمود متوفی ٧١٠ ھ لکھتے ہیں :
لھوہر اس باطل چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو مشغول کرے خیر سے روک دے ‘ اور ہاں لھو سے مراد رات کو سنائی جانے والی جھوٹی کہانیاں اور غنا ہے اور حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس (رض) قسم کھا کر کہتے تھے اس سے مراد غنا ہے ‘ ایک قول یہ ہے کہ غنا قلب کو خراب کرتا ہے ‘ مال کو ختم کرتا ہے اور رب کو ناراض کرتا ہے ‘ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہے کہ جو شخص بھی غنا کے ساتھ آواز بلند کرتا ہے اللہ اس کے اوپر دو شیطان مسلط کردیتا ہے ‘ ایک اس کندھے پر اور دوسرا اس کندھے پر اور وہ اس وقت تک اس کو لاتیں مارتے رہتے ہیں حتیٰ کہ وہ گرجاتا ہے۔ (مدارک التنزیل علی ہامش الخازن ج ٣ ص ٤٦٨ مطبوعہ پشاور)
علامہ اسماعیل حقی الروسوی الحنفی المتوفی ١١٣٧ ھ لکھتے ہیں :
حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ نے مجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت اور ہدایت بنا کر بھیجا ہے اور مھے یہ حکم دیا ہے کہ میں مزامیر ( منہ سے بجائے جانے والے آلات موسیقی) اور برابط اور معازف ( ہاتھوں سے بجائے جانے والے آلات موسیقی) کو اور ان بتوں کو مٹادوں جن کی زمانہ جاہلیت میں پرستش کی جاتی تھی الحدیث (مسند احمد ج ٥ ص ٢٧٥‘ المعجم الکبیر للطبرانی : ٧٨٠٣) نیز حدیث میں ہے مجھے مزامیر کو توڑنے اور خنزیروں کو قتل کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔
اہل معانی نے کہا اس آیت میں ہر وہ شخص داخل ہے جو لھو ولعب کو اور مزامیر اور معازف کو قرآن مجید کے مقابلہ میں ترجیح دے ‘ اور ذمیوں کو مزامیر اور طنا بیر کی بیع سے منع کیا جائے گا اور غنا کے اظہار سے بھی روکا جائے گا ‘ اور جن احادیث میں عید کے ایام میں غنا کی رخصت ہے وہ متروک ہیں ‘ اس زمانہ میں ان پر عمل نہیں کیا جائے گا اسی لیے عید کے دن معازف کو جلانا مستحب ہیص علامہ اسماعیل حقی نے یہ صحیح نہیں لکھا کسی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی رائے اور قیاس سے احادیث کو منسوخ کرے اور صحیح یہ ہے کہ عید ‘ نکاح اور دیگر خوشی کے ایام میں اچھے اشعار کو دف کے ساتھ اور بغیر دف کے قلیل مقدار میں پڑھنا جائز ہے البتہ دیگر آلات موسیقی کو استعمال کرنا مطلقاً ممنوع ہے اسی طرح ان اشعار کا پڑھنا بھی مطلقاً ممنوع ہے جن کا مضمون غیر شرعی ہو۔ ( غلام رسول سعیدی غفرلہ)
بعض علماء نے کہا ہے کہ آلات موسیقی کی حرمت لعینھا نہیں ہے جیسے ضمر اور زنا کی حرمت ہے بلکہ یہ حرمت لغیرہا ہے اسی لیے علماء نے اس سے جہاد کے طبل کو مستثنی کیا ہے پس جب آلات موسیقی کو بطور لهو ولعب استعال کیا جائے تو یہ حرام ہیں اور جب لھو ولعب نہ ہو تو پر حرمت زائل ہوجائے گی (یہ قول بھی صحیح نہیں ہے صرف عید نکاح اور خوشی کے ایام میں قلیل مقدار میں به طور لهو و لعب وف بجانے کی رخصت ہے ہے جیسا کہ احادیث کے حوالے سے گزر چکا ہے اور ان کے علاوہ دف بجانے کی رخصت نہیں ہے خواہ لھووولعب مقصور ہو یا نہ ہو۔ غلام رسول سعیدی غفرد)
جائز اور ناجائز سماع
طرز اور خوش الحانی کے ساتھ اشعار سننے میں اختلاف ہے ‘ اگر اشعار میں عورتوں کا ذکر ہو اور انسان کے قد اور رخسار کا ذکر ہو جس سے نفس اور شہوت کی آگ بھڑکتی ہو تو دین دار لوگوں کے لیے ان کا سننا جائز نہیں ہے خصوصاً جب کہ اس کو بہ طور مشغلہ سنا جائے۔ اور اگر ان اشعار میں جنت اور دوزخ کا ذکر ہو ‘ دوزخ سے ڈرایا گیا ہو اور جنت کی ترغیب دی گئی ہو اور اللہ عزوجل کی نعمتوں کی تعریف کی گئی ہو ‘ اور نیک کاموں کی تحریک ہو تو پھر ان کے سننے پر انکار کی کوئی وجہ نہیں ہے ‘ اور اسی قبیل سے جہاد اور حج کے فضائل کے اشعار ہیں ‘ جن کو سن کر جہاد کرنے اور حج کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہے اور اگر اشعار پڑھنے والا بےریش نو خیز لڑکا ہو جس کی طرف طبیعت مائل ہوتی ہو ‘ یا عورتیں بھی اس مجمع کو جھانک کر دیکھ رہی ہوں تو یہ عین فسق ہے اور اس کے حرام ہونے پر اجماع ہے۔
بعض لوگ تکلف سے سماع کرتے ہیں اس کی دو قسمیں ہیں ‘ ایک قسم یہ ہے کہ لوگ کسی مرتبہ کے حصول یا دنیاوی منفعت کے لیے سماع کرتے ہیں یہ تلبیس اور خیانت ہے ‘ اور حقیقت کی طلب کے لیے تکلف کرنا ہے جیسے کوئی شخص مصنوعی اور بناوٹی وجد خود پر طاری کر کے وجد کو طلب کرتا ہے ‘ فقہاء نے کہا ہے کہ اگر کوئی شخص اپے گھر میں بیٹھا ہو اور اس کے سامنے پورا قرآن مجید پڑھا جائے تو اگر وہ سچے جذب سے اپنے آپ کو گرادے تو فبہا ورنہ صاحب عقل کو چاہیے کہ وہ شیطان کو اپنے پیٹ میں داخل کرنے سے ڈرے ‘ اور اس کا سماع کے وقت نعرہ مارنا ‘ یا تالی بجانا یا کپڑے پھاڑنا یا رقص کرنا اگر لوگوں کو دکھانے یا سنانے کے لیے ہو تو اس سے بچنا لازم ہے۔
دکھانے اور سنانے کے لیے سماع کے متعدد گناہ ہیں :
دکھاوے کے لیے حال کھیلنے کی خرابیاں
(1) وہ شخص اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے کہ اللہ نے اس پر وجد طاری کردیا ہے اور بےخودی اور جذب میں رقص کررہا ہے یا اس پر حال طاری ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا ‘ اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا بدترین گناہ ہے۔
(2) وہ حاضرین محفل کو اس فریب میں مبتلا کرتا ہے وہ اس کے متعلق حسن ظن رکھیں اور لوگوں کو دھوکے میں ڈالنا خیانت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے ہم کو دھوکا دیا ہے وہ ہم میں سے نہیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠١‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٢٢٥ )
(3) وہ اپنے کھڑے ہونے میں اور بیٹھنے میں دوسرے لوگوں کو اپنی موافقت اور اپنا ساتھ دینے پر ابھارتا ہے سو وہ لوگوں کو جھوٹ اور باطل کا مکلف کرنا ہے۔ آج کل محفل سماع میں جو لوگ حال کھیلتے ہیں ان میں سے اکثر و بیشتر کا حال ایسا ہی ہوتا ہے (مصنف)
سماع کی طرف میلان کی حسب ذیل وجوہ ہیں :
سماع کے اسباب
(1) انسان کی طبیعت خوش آوازی کی طرف مائل ہو اور یہ شہوت ہے اور حرام ہے ( یہ وجہ درست نہیں ہے۔ سعیدی غفرلہ)
(2) انسان کے نفس میں نغمات اور خوش الحانی کی طرف میلان ہو یہ بھی حرام ہے کیونکہ یہ لذت شیطانی ہے جو مردہ قلب اور زندہ نفس کو حاصل ہوتی ہے اور دل کے مردہ ہونے کی علامات یہ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اور آخرت کو بھول جائے اور دنیا کے اشغال میں منہمک ہو اور اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہو اور ہر وہ دل جو دنیا کی محبت میں ملوث ہو اس کا سماع طبیعت کا سماع ہے اور تکلف ہے۔
(3) اللہ تعالیٰ کے افعال کے نور کے مطالعہ سے اس کے دل میں سماع کی طرف میلان ہو اور یہ عشق ہے اور حلال ہے کیونکہ یہ میالن رحمانی ہے اور زندہ دل اور مردہ نفس کو حاصل ہوتا ہے ( زندہ دل سے مراد یہ ہے کہ اس کا دل اللہ کی یاد سے زندہ ہو اور مردہ نفس سے مراد یہ ہے کہ اس کی حیوانی اور نفسانی خواہشات مرچکی ہوں ‘ ایسا شخص بغیر آلات موسیقی کے ان ہی اشعار کو سنے گا جن کا مضمون غیر شرعی نہ ہو)
(4) اللہ تعالیٰ کی ذات کے نور کے مشاہدہ سے اس کی روح میں سماع سے انس پیدا ہوجائے اور یہ محبت اور سکون ہے اور یہ بھی حلال ہے۔
سماع کی حقیقت
شیخ سعدی کے ایک شعر کا مفہوم یہ ہے : اے برادر میں نہیں جانتا کہ سماع کیا ہے ! میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ سماع کرنے والا کون ہے ‘ یہ وہ شخص ہے جس کی روح برج معنی کی طرف پرواز کرتی ہے اور اس کی پرواز سے فرشتہ بھی عاجز رہتا ہے۔ یہ عاشق صادق کا حال ہے اور اصحاب حال وہ لوگ ہیں جن میں اعمال صالحہ کے انوار کا اثر ہوتا ہے تو اللہ ان کو دین پر استقامت کے ساتھ حال اور وجد اور ذوق اور کشف اور مشاہدہ اور معائنہ اور معرفت عطا فرماتا ہے ‘ زین الدین الحافی قدس سرہ ‘ نے کہا جس شخص کے دل میں یہ نور پیدا ہو وہ ان علماء کے قول پر عمل کر کے سماع کرے جو شریعت کے مطابق ہوں) ورنہ ان علماء کے قول پر عمل کرنے میں زیادہ سلامتی ہے جو سماع کو مکروہ کہتے ہیں ‘ اور سماع کا معنی ہے دل کش اور اچھی آواز کو سننا جس کی طرف دل بےاختیار کھنچتا ہو اور یہ انسان کی فطرت میں مرکوز ہے حتیٰ کہ جن میں عقل نہیں ہے وہ بھی اچھی اور سریلی آواز کی طرف مائل ہوتے ہیں کیونکہ حضرت دائود (علیہ السلام) کی خوش آوازی کی وجہ سے پرندے ان کے پاس آکر ٹھہر جاتے تھے۔ (روح البیان ج ٧ ص ٨٤‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
سماع کی انواع ‘ شرائط آلات موسیقی کے استعمال اور تواجد کی تحریم اور ممانعت پر دلائل
علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :
امام غزالی نے فرمایا سماع یا تو محبوب ہوگا بایں طور کہ سننے والے پر اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس سے ملاقات کے شوق کا غلبہ ہو ‘ تاکہ اس سے اس کو مکاشفات اور ملاطفات حاصل ہوں ‘ یا سماع مباح ہوگا بایں طور کہ اس کو اپنی بیوی سے عشق ہو (اور وہ حسن کو اپنی بیوی کے حسن پر محمول کرے گا) یہ مباح ہے جب کہ اس پر اللہ کی محبت کا غلبہ ہو نہ نفسانی خواہشوں کا ‘ اور یا سماع حرام ہوگا بایں طور کہ اس کے اوپر ناجائز اور حرام خواہشوں کا غلبہ ہو۔
العزبن عبدالسلام سے محبت کے اشعار سننے ‘ سردھننے اور رقص کے متعلق سوال کیا گیا ‘ انہوں نے کہا رقص کرنا بدعت ہے ‘ اور وہی شخص رقص کرے گا جس کی عقل ناقص ہوگی ‘ اور رہے عشق و محبت کے اشعار تو اگر وہ امور آخرت پر مشتمل ہوں تو ان کے سننے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ جب انسان کا دل دنیا میں منہمک ہو تو ایسے اشعار کا سننا مستحب ہے ‘ اور جس شخص کے دل میں ناپاک اور ناجائز خواہشیں ہوں وہ سماع نہ کرے کیونکہ اس سے اس کی ناپاک خواہشوں کو تحریک ہوگی ‘ اور انہوں نے کہا کہ سننے والوں اور جن سے سنا جاتا ہے ان کے اختلاف سے سماع کا حکم مختلف ہے۔ پس سننے والے یا تو عارف باللہ ہوں گے اور ان کے احوال بھی مختلف ہوتے ہیں جن پر خوف خدا اور خشیت الہٰی کا غلبہ ہوتا ہے جب وہ سماع کرتے ہیں کہ تو ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ہے اور ان پر غم کے آثار طاری ہوتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں یا ان کو عذاب کا خوف ہوتا ہے یا ثواب کے فوت ہونے کا غم ہوتا ہے یا اللہ کا انس اور قرب ہوتا ہے ‘ اور وہ سب سے افضل ڈرنے والے اور سب سے عمدہ سننے والے ہیں اور جس کلام کو سنا جائے اس میں قرآن مجید کی تاثیر سب سے زیادہ ہے۔
جس شخص پر امید کا غلبہ ہو اس پر نعمتوں کا ذکر سننے سے اثر ہوتا ہے اور اگر اس کو اللہ تعالیٰ کے انس اور قرب کی امید ہو تو وہ امید رکھنے والوں میں افضل ہے اور اگر اس کو ثواب کی امید ہو تو اس کا سماع دوسرے درجہ میں ہے ‘ اور جو اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام کی وجہ سے اللہ سے محبت کرتا ہو تو اس کے انعام واکرام کا سماع اس میں اثر کرتا ہے۔ اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کے جمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہو تو اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا سماع اس میں تاثیر کرتا ہے اور یہ سماع پہلے درجات سے افضل ہے ‘ اور جس پر اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اجلال کا غلبہ ہو اس کا سماع سب سے افضل ہے۔
یہ تو جس نوع کا ذکر سناجائے اس کے اعتبار سے سننے والوں کے مدارج تھے ‘ اور جس سے ذکر کو سنا جائے اس کے اعتبار سے اختلاف مدارج کی تفصیل یہ ہے کہ عام آدمی کی بہ نسبت عالم سے سماع کرنے میں زیادہ تاثیر ہوتی ہے ‘ عالم کی بہ نسبت اللہ کے ولی سے سماع کرنے میں زیادہ تاثیر ہوتی ہے ‘ اور ولی کی بہ نسبت اللہ کے نبی سے سماع میں زیادہ تاثیر ہوتی ہے اور سب سے زیادہ تاثیر خود اللہ عزوجل سے سننے میں ہوتی ہے اور یہ بلا واسطہ سماع صرف کلیم اللہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حاصل ہوا یا حبیب اللہ سیدنامحمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہوا ‘ اور ان درجات کی وجہ یہ ہے کہ محب کے دل میں سب سے زیادہ تاثیر محبوب کے کلام کی ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) ‘ صدیقین اور ان کے اصحاب اور اتباع اور مومنین صالحین آلات موسیقی کے سماع میں مشغول نہیں رہے اور صرف اپنے رب اللہ عزوجل کے کلام کے سننے میں مشغول رہے۔
امام قشیری (رح) نے سماع کی شرائط ذکر کی ہیں ‘ ان میں س ایک شرط ہے اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات کی معرفت تاکہ صفات ذات ‘ صفات افعال سے ممتاز ہوں اور معلوم ہوجائے کہ کس چیز کو اللہ تعالیٰ کی صفت میں ذکر کرنا جائز ہے اور کیا چیز اللہ تعالیٰ کے لیے محال ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ کی صفت میں ذکر کرنا جائز نہیں ہے ‘ اور اہل تحقیق کے نزدیک شرط یہ ہے کہ وہ صدق مجاہدہ سے اپنے نفس کو فنا کرچکا ہو اور اپنی روح کے مشاہدہ سے اپنے دل کو زندہ کرچکا ہو اور جو اس مرتبہ پر نہیں پہنچا اس کا سماع کرنا وقت کا ضیاع اور اس کا بناوٹی وجد کرنا ریا ہے اور اس سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ ہمارے زمانہ کے اکثر صوفیاء کا سماع کرنا حرام ہے۔
جو لوگ سماع میں تالیاں بجاتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں اور بےہوشی اور وجد کا ڈھونگ رچاتے ہیں ‘ یہ سب تصنع اور ریا ہیاسی طرح بال نوچنا سینہ کو بی کرنا اور کپڑے پھاڑنا حرام ہے۔
اور ہم نے جو ذکر کیا ہے اس سے واضح ہوگیا کہ آلات موسیقی کو استعمال کرنا حرام ہے اور امام بخاری ‘ امام احمد ‘ امام ابن ماجہ ‘ امام ابو نعیم اور امام ابو دائود نے اسانید صحیحہ کے ساتھ روایت کیا ہے کہ ضرور میری امت میں ایسی قوم ہوگی جو ریشم کو شراب کو اور آلات موسیقی کو حلال کرے گی ‘ اور یہ حدیث تمام آلات موسیقی کی تحریم اور ممانعت میں بالکل صریح ہے۔ اور اسی کے مشابہ وہ حدیث ہے جس کو امام ابن ابی الدنیا نے حضرت انس سے اور امام احمد اور امام طبرانی نے حضرت ابن عباس اور حضرت ابو امام سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ میری اس امت میں ضرور زمین میں دھنسنا اور آسمان سے پتھر برسنا اور مسخ ہوگا ‘ اور یہ اس وقت ہوگا جب وہ شرابیں پئیں گے ‘ گانے والیوں کو رکھیں گے اور آلات موسیقی کو استعمال کریں گے۔ امام دولقی نے نے آلات موسیقی کی تحریم کے دلائل بہت تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔
بعض صوفیاء نے مزامیر اور دیگر آلات موسیقی کے جواز میں رسائل لکھے ہیں اور ان میں اللہ عزوجل اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ آپ کے اصحاب (رض) ‘ تابعین ‘ علماء عاملین اور ان کے مقلدین پر حیرت ناک افتراء باندھا ہے اور بہتان تراشا ہے ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان جس کے ساتھ لھو ولعب کرتا ہے اس کو خواہش کے گڑھے میں گرا دیتا ہے ‘ سو وہ حق سے بہت بعید ہوتا ہے اور تصوف سے ہزار ہامیل دور ہوتا ہے ‘ لہٰذا اگر بعض اکابر آلات موسیقی کے استعمال کو حلال کہیں تو تم ان کے قول سے دھوکانہ کھانا کیونکہ یہ قول ائمہ مذاہب اربعہ اور دیگر مستند فقہاء کبار کے اقوال کے خلاف ہے ‘ اور ہر شخص ان فقہاء کے قول پر عمل کرے گا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ماسوا کو ترک کردے گا ‘ اور جس شخص کو عقل سلیم دی گئی ہے اور اس کا دل باطل خواہشوں سے پاک ہے اس کو اس میں کوئی شک نہیں ہوگا کہ آلات موسیقی سے ساز اور آواز کو سننا دین میں سے نہیں ہے اور یہ سیدالمرسلین وسید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کے مقاصد سے کوسوں دور ہے۔ (روح المعانی جز ٢١ ص ١١٧۔ ١٠٨ ملخصا و موضحا ‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)
غناء اور سماع کے متعلق اعلی حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کی تحقیق
مسئلہ : راگ یا مزامیر کرانا یا سننا گناہ کبیرہ ہے یا صغیرہ اس فعل کا مرتکب فاسق ہے یا نہیں۔
جواب : مزامیر یعنی آلات لہو ولعب بروجہ لہو و لعب بلاشبہ حرام ہیں جن کی حرمت اولیاء علماء دونوں فریق مقتدا کے کلمات عالیہ میں مصرح اون کے سننے سنانے کے گناہ ہونے میں شک نہیں کہ بعد اصرار کبیرہ ہے اور حضرات علیہ سادات بہشت کبرائے سلسلہ عالیہ چشت (رض) و عنا بہم کی طرف اس کی نسبت محض باطل و افترا ہے حضرت سیدی فخرالدین زراوی قدس سرۃ کہ حضور سیدنا محبوب الہٰی سلطان الاولیاء نظام الحق والد نیا والدین محمد احمد (رض) کے اجلہ خلفا سے ہیں جنہوں نے خاص عہد کرامت مہد حضور ممدوح میں بلکہ خودبحکم حضور والا مسئلہ سماع میں رسالہ کشف القناع عن اصول اسماع تالیف فرمایا اپنے اسی رسالہ میں فرماتے ہیں سمع بعض المغلوبین السماع مع المزامیر فی غلبات الشوق واما سماع مشا ئخنا (رض) عنھم فبریٔ عن ھذہ التھمۃ وھو مجرد صوت القوال مع الاشعار المشعرۃ من کمال صنعۃ اللہ تعالیٰ یعنی بعض مغلوب الحال لوگوں نے اپنے غلبہ حال و شوق میں سماع مع مزامیر سنا اور ہمارے پیران طریقت (رض) کا سنا اس تہمت سے بری ہے وہ تو صرف قوال کی آواز ہے ان اشعار کے ساتھ جو کمال صنعت الہٰی جل و علا سے خبر دیتے ہیں انتہی۔ بلکہ حضور والا صرف تالی کو بھی منع فرماتے کہ مشابہ لہو ہے بلکہ ایسے افعال میں عذر غلبہ حال کو بھی پسند نہ فرماتے کہ مدعیان باطل کو راہ نہ ملے واللہ یعلم المفسد من المصلح فرضی اللہ عن الا ئمۃ ما انصحھم للا مۃ یہ سب امور ملفوظات اقدس میں مذکور و ماثور ‘ فوائد الفواد شریف میں صاف تصریح فرمائی ہے کہ مزامیر حرام است کما نقل احمد عنہ (رض) سیدی الشیخ المحقق مولانا عبدالحق المحدث الدھلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھم وعلینا بھم آمین حضور ممدوح کے یہ ارشادات عالیہ ہمارے لیے سند کافی اور ان اہل ہوا وہوس مدعیان چشتیت پر حجت وافی۔ ہاں جہاد کا طبل سحری کا نقارہ حمام کا بوق اعلان نکاح کا بےجلاجل دف جائز ہیں کہ یہ آلات لہو و لعب نہیں ‘ یو ہیں یہ بھی ممکن کہ بعض بندگان خدا جو ظلمات نفس و کدورات شہوت سے یک لخت بری و منزہ ہو کر فانی فی اللہ و باقی با للہ ہوگئے کہ لایقولون الا اللہ ولایسمعون الا اللہ بل لا یعلمون الا اللہ بل لیس ھناک الا اللہ اون میں کسی نے بحالت غلبہ حال خواہ عین الشریعۃ الکبریٰ تک پہنچ کر ازانجا کہ اون کی حرمت بیعنہا نہیں وانما الا عمال بالنیات وانما لکل امریٔ مانوی بعد و ثوق تام اوطمینان کامل کہ حالا و مآلا فتنہ منعدم احیاناً اس پر اقدام فرمایا ہو و لہٰذا فاضل محقق آفندی شامی قدس اللہ تعالیٰ سرہ السامی رد المحتار میں زیر قول درمختار و من ذلک (ای من الملاھی) ضرب النوبۃ للتفا خر فلو للتنبہ فلا باس بہ کما اذا ضرب فی ثلثۃ اوقات لتذکیر ثلاث نفخات الصورالخ فرماتے ہیں ھذا یفید ان الۃ اللھو لیست بحرمۃ بعینھا بل لقصد اللھو منھا اما من سا معھا اومن المشتغل بھا وبۃ تشعر الا ضافۃ الا تری ان ضرب تلک الالۃ بعینھا حل تارۃ و حرم اخری با ختلاف النیۃ والا مور بمقاصدھا وفیہ دلیل لساداتنا الصوفیۃ الذین یقصدون بسما عھا امور اھم اعلم بھا فلا فلا یبا در المعترض با لانکار کے لا یحرم بر کتھم فانھم السادۃ الا خیار امدنا اللہ تعالیٰ یا مداد اتھم واعاد علینامن صالح دعو اتھم و بر کا تھم۔
اقول بلکہ یہاں ایک اور وجہ ادق و اعمق ہے صحیح بخاری شریف میں سیدنا ابوہریرہ (رض) سے مروی حضور پر نور سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں رب العزۃ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے لا یذال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی احبہ فاذا احببتہ کنت سمعہ الذی یسمع بہ و بصرہ الذی یبصر بہ و یدہ التی یبطش بھ اور جلہ التی یمشی بھا یعنی میرا بندہ بذریعہ نوافل میری نزدیکی چاہتا رہتا ہے یہاں تک کہ میرا محبوب ہوجاتا ہے پھر جب میں او سے دوست رکھتا ہوں تو میں خود اوس کا وہ کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اوس کی وہ آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے دیکھتا ہے اور اوس کا وہ ہاتھ جس سے کوئی چیز پکڑتا ہے اور اوس کا وہ پائوں جس سے چلتا ہے انتہی۔ اب کہیے کون کہتا اور کون سنتا ہے آواز تو شجرہ طور سے آتی ہے مگر لا واللہ پیٹر نے نہ کہا انی انا اللہ رب العلمین ؎ گفتہ او گفتہ اللہ بود۔ گرچہ از حلقوم عبداللہ بو دیہی حال سننے کا ہے وللہ الحجۃ البالغۃ مگر اللہ اللہ یہ عباد اللہ کبریت احمر و کوہ یا قوت ہیں اور نادر احکام شرعیہ کی بنا نہیں تو اون کا حال مفید جو ازیا حکم تحریم میں قید نہیں ہوسکتا کما افادہ المولی المحقق حیث اطلق سیدی کمال الدین محمد بن الھمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فی اخر الحج من فتح القدیر فی مسئلۃ الجواز نہ یہ مدعیان خامکا راون کے مثل ہیں نہ بےبلوغ مرتبہ محفوظیت نفس پر اعتماد جائز فانھا اکذب مایکون اذا حلفت فکیف اذا وعدت رجماً با لغیب کسی کو ایسا ٹھہر الینا صحیح ہاں یہ احتمال صرف اتنا کام دے گا کہ جہاں اوس کا انتفا معلوم نہ ہو تحسین ظن کو ہاتھ سے نہ دیجئے اور بےضرورت شرعی ذات فاعل سے بحث نہ کیجئے ھذا ھوالا نصاف فی امثال الباب واللہ الھادی الی سبیل الصواب سماع مجرد بےمزا میراوس کی چند صورتیں ہیں اول : رنڈیوں ڈومنیوں محل فتنہ امردوں کا گانا۔ دوم : جو چیز گائی جائے معصیت پر مشتمل ہو مثلاً فحش یا کذب یا کسی مسلمان یا ذمی کی ہجو یا شراب و زناوغیرہ فسقیات کی ترغیب یا کسی زندہ عورت خواہ امرد کی بالتعیین تعریف حسن یا کسی معین عورت کا اگرچہ مردہ ہو ایسا ذکر جس سے اوس کے اقارب احبا کو حیا و عار آئے۔ سوم : بطور لہو و لعب سنا جائے اگرچہ اوس میں کوئی ذکر مذموم نہ ہو تینوں صورتیں ممنوع ہیں الا خیر تان ذاتا والا ولی ذریعۃ حقیقۃ ایسا ہی گانا لہو الحدیث ہے اس کی تحریم میں اور کچھ نہ ہو تو صرف حدیث کل لعب ابن ادم حرام الا ثلثۃ کافی ہے ان کے علاوہ وہ گانا جس میں نہ مزامیر ہوں نہ گانے والے محل فتنہ نہ لہو و لعب مقصود نہ کوئی ناجائز کلام گائیں بلکہ سادے عاشقانہ گیت غزلیں ذکر باغ و بہارو خط و خال و رخ وزلف و حسن و عشق و ہجر وو صل وو فائے عشاق و جفائے معشوق وغیر ہا امورعشق و تغزل پر مشتمل سنے جائیں تو فساد و فجارو اہل شہوات دنیہ کو اس سے بھی روکا جائے گا وذلک من باب الا حتیاط القاطع والنصح النا صح وسد الذرائع المخصوص بہ ھذا لشرع البارع والدین الفارع اسی طرح حدیث الغناء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء البقل ناظر رواہ ابن ابی الدنیا فی ذم الملاھی عن ابن مسعود والبیھقی فی شعب الایمان عن جابر (رض) عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل اللہ کے حق میں یقیناً جائز بلکہ مستحب کہیے تو دور نہیں گانا کوئی نئی چیز پیدا نہیں کرتا بلکہ دبی بات کو اوبھارتا ہے جب دل میں بری خواہش بےہودہ آلائشیں ہوں تو انہیں کو ترقی دے گا اور جو پاک مبارک ستھرے دل شہوات سے خالی اور محبت خدا اور رسول سے مملو ہیں اون کے اس شوق محمود و عشق مسعود کو افزائش دے گا وحکم المقدمۃ حکم ماھی مقدمۃ حکم ماھی مقدمۃ لہ انصا فا ان بند گان خدا کے حق میں او سے ایک عظیم دینی کام ٹھہرانا کچھ بےجا نہیں۔ فتاویٰ خیر یہ میں ہے لیس فی القدر المذکور من السماع مایحرم بنص ولا اجماع وانما الخلاف فی غیر ماعین والنزاع فی سوی مابین وقد قال بجواز السماع من الصحابۃ و التابعین جم غفیر ( الی ان قال) اما سماع السادۃ الصوفیۃ (رض) عنھم فبمعزل عن ھذا الخلاف بل و مرتفع عن درجۃ الا باحۃ الی رتبۃ المستحب کما صرح بہ غیر واحد من المحققین یہ اوس چیز کا بیان تھا جسے عرف میں گانا کہتے ہیں اور اگر اشعار حمد و نعت و منقبت و وعظ و پند و ذکر آخرت بوڑھے یا جوان مرد وخوش الحانی سے پڑھیں اور بہ نیت نیک سنے جائیں کہ اسے عرف میں گانا نہیں بلکہ پڑھنا کہتے ہیں تو اس کے منع پر تو شرح سے اصلاً دلیل نہیں حضور پر نور سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حسان بن ثابت انصاری (رض) کے لیے خاص مسجد اقدس میں منبر رکھنا اور اون کا اوس پر کھڑے ہو کر نعت اقدس سنانا اور حضور والا صلوات اللہ تعالیٰ وسلامہ علیہ نے انکار نہ فرمایا بلکہ بلحاظ عورات روید یا انجشہ لا تکسر القواریر ارشاد ہوا کہ اون کی آواز دلکش و دل نواز تھی عورتیں نرم نازک شیشیاں ہیں جنہیں تھوڑی ٹھیس بہت ہوتی ہے ‘ غرض مدار کار تحقق و توقع فتنہ ہے جہاں فتنہ ثابت وہاں حکم حرمت جہاں توقع واندیشہ وہاں بنظر سد ذریعہ حکم ممانعت جہاں نہ یہ نہ وہ بلکہ بہ نیت محمود استحباب موجود۔ بحمد اللہ یہ چند سطروں میں تحقیق نفیس ہے کہ انشاء اللہ العزیز حق اس سے متجاوز نہیں نسال اللہ سوی الصر اط من دون تفریط ولا افراط واللہ اعلم بالصواب۔ (فتاویٰ رضویہ ج ١٠/ص ٥٦۔ ٥٤‘ مطبوعہ دارالعلوم امجد یہ کراچی)
اعلیٰ حضرت قدس سرہ کی عبارت ہرچند کہ کافی دقیق اور علمی ہے اور ہم ایسے عام لوگوں کی ذہنی سطح سے بلند ہے ‘ تاہم اعلیٰ حضرت نے وہی لکھا ہے جو ہم اس سے پہلے قرآن مجید کی آیات ‘ احادیث صحیحہ اور مفسرین ‘ محدثین ‘ ائمہ مذاہب اور دیگر فقہاء کی عبارات کو آسان انداز میں پیش کرچکے ہیں ‘ عوام کے لیے یہ کافی ہے اور اہل علم کی ضیافت طبع کے لیے اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے فتاویٰ سے اقتباس پیش کردیا ہے ‘ شرح صحیح مسلم جلد ثانی ص ٠٧ ٧۔ ٦٧٢ میں بھی اس مسئلہ پر لکھا ہے لیکن یہاں اس سے مختلف انداز میں اور زیادہ جامعیت کے ساتھ لکھا ہے ‘ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور عمل کی توفیق دے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 31 لقمان آیت نمبر 6