يُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَى الۡاَرۡضِ ثُمَّ يَعۡرُجُ اِلَيۡهِ فِىۡ يَوۡمٍ كَانَ مِقۡدَارُهٗۤ اَلۡفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 32 السجدة آیت نمبر 5
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَى الۡاَرۡضِ ثُمَّ يَعۡرُجُ اِلَيۡهِ فِىۡ يَوۡمٍ كَانَ مِقۡدَارُهٗۤ اَلۡفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ ۞
ترجمہ:
وہ آسمان سے زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے ‘ پھر وہ کام اس کی طرف اس دن میں چڑھے گا جس کی مقدار تمہارے گننے کے مطابق ایک ہزار سال ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وہ آسمان سے زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے ‘ پھر وہ کام اس کی طرف اس دن میں چڑھے گا جس کی مقدار تمہارے گننے کے مطابق ایک ہزار سال ہے وہی عالم الغیب اور عالم الظاہر ہے ‘ بہت غالب اور بےحد رحم فرمانے والا ہے (السجدۃ : ٦۔ ٥)
اللہ تعالیٰ کے تدبیر کرنے کا معنی
اس آیت میں یدبر کا لفظ ہے او وہ تدبیر سے بنا ہے ‘ تدبیر کا معنی ہے کسی کام کے نتیجہ اور انجام میں غور و فکر کرنا ‘ اور جب اس لفظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا معنی ہے کس یکام کو مقدر کرنا اور اس کے اسباب مہیا کرنا ‘ علامہ قرطبی نے عبدالرحمان بن سابط سے نقل کیا ہے کہ دنیا کی تدبیر کرنے والے چار فرشتے ہیں : جبریل ‘ میکائیل ‘ ملک الموت اور اسرافیل ‘ صلوت اللہ علیہم اجمعین ‘ رہے جبریل تو وہ ہوائوں اور لشکروں پر مامور ہیں ‘ اور میکائیل رزق کی فراہمی اور بارش نازل کرنے پر مقرر ہیں ‘ اور ملک الموت کے ذمہ روحوں کو قبض کرنا ہے ‘ اور رہے اسرافیل تو ان کا کام حوادث کو نازل کرنا ہے ‘ ایک قول یہ ہے کہ تدبیر کا مقام عرش الہی ہے اور عرش کے نیچے اس تدبیر کے مطابق کارروائی ہوتی ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز : جز ١٤ ص ٨١)
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے معاملات کی اسباب سماویہ مثلاً فرشتوں کے ذریعہ تدبیر کرتا ہے ‘ اور تدبیر کی اپنی طرف اضافت اس لیے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے معاملات کی اسباب سماویہ مثلاً فرشتوں کے ذریعہ تدبیر کرتا ہے ‘ اور تدبیر کی اپنی طرف اضافت اس لیے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : الالہ الخلق والامر (الاعراف : ٥٤) ” سنو چیزوں کو پیدا کرنا اور ان کے لیے احکام کو نافذ کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا خاصہ ہے “ اور پیدا کرنے اور احکام نافذ کرنے سے ہی عظمت ظاہر ہوتی ہے ‘ کیونکہ جس سلطان کی کئی ملکوں پر حکومت ہو اور ان ملکوں میں اسی کے حکم پر عمل کیا جاتا ہو اس کی سطوت ‘ شوکت ‘ اور ہیبت دلوں پر بیٹھ جاتی ہے۔
ایک ہزار سال میں اللہ تعالیٰ کی طرف کاموں کے چڑھنے کے محامل
اس کے بعد فرمایا : پھر وہ کام اس کی طرف اس دن میں چڑھے گا جس کی مقدار تمہارے گننے کے مطابق ایک ہزار سال ہے۔ آیت کی اس حصہ کی حسب ذیل تفسیریں کی گئی ہیں :
(1) اللہ تعالیٰ عرش اور لوح محفوظ سے قضاء وقدر کے احکام زمین پر نازل فرماتا ہے اور زمین پر وہ احکام نافذ ہوتے ہیں ‘ جیسے موت اور حیات ‘ صحت اور مرض ‘ عطا اور منع کرنا ‘ غنا اور فقر ‘ جنگ اور صلح ‘ عزت اور ذلت وغیرہ ‘ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر سے اپنی تقدیر کے مطابق یہ تدبیریں کرتا ہے اور اپنے تصرفات کو نافذ فرماتا ہے۔
(2) اللہ تعالیٰ عرش سے زمین پر فرشتوں کی وساطت سے اپنے حکام شرعیہ کو نافذ فرماتا ہے ‘ پھر فرشتے ان احکام کے مطابق بندوں کے کیے ہوئے اعمال کو مقبول کرانے کے لیے آسمان کی طرف چڑھتے ہیں ‘ اور زمین سے آسمان دنیا کی مسافت پانچ سو سال کا عرصہ ہے اور ان کے اترنے اور چڑھنے کی مسافت دنیا والوں کے اعتبار سے ایک ہزار سال ہے اگرچہ فرشتے یہ مسافت ایک دن سے بھیکم میں طے کرلیتے ہیں۔
(3) اللہ تعالیٰ روزانہ حادث ہونے والے معاملات کی تدبیر لوح محفوظ میں مقرر فرما دیتا ہے پھر فرشتے ان کو لے کر زمین پر اترتے ہیں پھر اس کی رپورٹ لے کر آسمان پر چڑھتے ہیں جو فی نفسہ ایک ہزار سال کی مسافت ہے لیکن وہ بہت کم وقت میں چڑھتے ہیں۔
(4) فرشتے اللہ تعالیٰ کے احکام شرعیہ لے زمین پر نازل ہوتے ہیں اور ان پر اخلاص سے عمل کرنے والے چونکہ بہت کم ہوتے ہیں اس لیے کافی مدت کے عبد ان کے اعمال کو لے کر آسمان پر چڑھتے ہیں۔
(5) اہم اور عظیم امور کے متعلق عرش عظیم سے حکم صادر ہوتا ہے اور فرشتے اس حکم کو لے کر زمین پر نازل ہوتے ہیں اور فرشتے اس کو انجام دینے کے انتظامات میں لگ جاتے ہیں اور اس کے تمام ظاہری اور باطنی اسباب کو مہیا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مشیت کے موافق وہ عظیم امور مدت طویلہ تک باقی رہتے ہیں ‘ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کسی اور عظیم کام کے اسباب مہیا کرنے کا حکم دیتا ہے۔
(6) مجاہد بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک ہزار سال کی تدبیریں فرشتوں کو القاء فرما دیتا ہے اور یہ اس کے نزدیک ایک دن ہے ‘ پھر جب فرشتے ان کو انجام دے کر فارغ ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں آئندہ ایک ہزار سال کی تدبیریں القا فرما دیتا ہے۔
(7) اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے مطابق مختلف ادوار میں گزرتا ہوا بہ تدریج اپنے منتہائے کمال تک پہنچتا ہے پھر اس کے جو نتائج اور آثار مرتب ہوتے ہیں وہ بار گاہ ربوبیت میں پیش ہونے کے لیے چڑھتے ہیں۔
(8) اللہ تعالیٰ اس کائنات کی جو تدبیر فرماتا ہے اگر انسان اور بشر اس کی تدبیر کرتے تو اس میں ایک ہزار سال لگتے۔
(9) حضرت جبریل آسمان سے زمین کی طرف وحی لے کر آتے ہیں ‘ پھر واپس اس جگہ پہنچتے ہیں جہاں سے وحی قبول کی تھی اور یہ درحقیقت ایک ہزار سال کی مسافت ہے ‘ کیونکہ زمین سے آسمان تک پانچ سو سال کی مسافت ہے اور آنے جانے کے اعتبار سے ایک ہزار سال کی مسافت ہے لیکن حضرت جبریل امین اس مسافت کو ایک دن میں طے کرلیتے ہیں۔
(10) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یوم سے مراد یوم قیامت ہو ‘ یعنی اللہ تعالیٰ آسمانوں سے زمین تک تمام کائنات کی تدبیر فرماتا ہے ‘ پھر ایک وقت آئے گا جس یہ سارا سلسلہ ختم ہوجائے گا اور تمام انسانوں کے اعمال آخری فیصلہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں پیش کیے جائیں گے اور یہی قیامت ہے اور یہ دن ایک ہزار سال کا ہوگا۔
پچاس ہزار سال کے دن اور ایک ہزار سال کے دن کی آیتوں میں تطبیق
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ آپ کہتے ہیں کہ قیامت کا دن ایک ہزار سال کا ہوگا ‘ حالانکہ قرآن مجید میں ہے کہ یہ دن پچاس ہزار سال کا ہوگا :
تعرج الملٓئکۃ والروح الیہ فی یوم کان مقدارۃ خمسین الف سنۃ (المعارج : ٤)
فرشتے اور جبریل اس کی طرف اس دن میں چڑھیں گے جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ فی نفسہ قیامت کا دن ایک ہزار سال کا ہوگا ‘ لیکن وہ اپنی شدت اور ہول ناکی کے اعتبار سے کفار پر پچاس ہزار اور مومن پر اپنی خفت اور آسانی کے اعتبار سے صرف اتنے وقت میں گزرے گا جتنے وقت میں ایک فرض نماز پڑھی جاتی ہے۔
سورۃ السجدہ میں دن کی مقدار ایام دنیا کے اعتبار سے ایک ہزار سال فرمائی ہے اور سورة المعارج میں اس کی مقدار پچاس ہزار سال فرمائی ہے ‘ مفسرین نے ان میں اس طح تطبیق فرمادی ہے کہ زمین سے آسمان دنیا کی مسافت ایام دنیا کے اعتبار سے ایک ہزار سال ہے اور زمین کے آخری طبقہ سے لے کر پہلے آسمان تک یہ مسافت ایام دنیا کے اعتبار سے پچاس ہزار سال ہے۔
رہا یہ کہ ہم نے یہ کہا ہے کہ مومن کے اوپر یہ وقت اتنی دیر میں گزرے گا جتنے وقت میں فرض نماز پڑھی جاتی ہے اس کی دلیل یہ حدیث ہے :
حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا گیا کہ قیامت کا پچاس ہزار سال کا دن کس قدر طویل ہوگا ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے یہ وقت مومن پر بہت خفیف ہو کر گزرے گا ‘ حتیٰ کہ مومن جتنے وقت میں دنیا میں فرض نماز پڑھتا تھا یہ اس سے بھی کم وقت میں گزر جائے گا۔ (مسند احمدج ٣ ص ٧٥‘ حافظ زین نے کہا اس حدیث کی سند حسن ہے ‘ حاشیہ مسند احمد رقم الحدیث : ١١٦٥٧‘ حافظ الھیشمی نے بھی کہا اس کی سند حسن ہے ‘ مجمع الزائد ج ١٠ ص ٣٣٧‘ شرح السنہ رقم الحدیث : ٤٢١٣‘ جامع البیان رقم الحدیث : ٢٧٠٣٥‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٣٣٣‘ مسند ابو بعلیٰ رقم الحدیث : مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٦٠٢٥۔ ١٣٩٠)
امام الحسین بن مسعود البغوی متوفی ٦ ٥١ ھ لکھتے ہیں عطا اور مقاتل نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے :
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر تمام مخلوق کا حساب قیامت کے دن بندوں کے ذمہ کیا جاتا تو اس میں پچاس ہزار سال لگتے لیکن اللہ تعالیٰ دنیا کے اعتبار سے آدھے دن میں اس حساب سے فارغ ہوجائے گا۔
محمد بن الفضل نے کلبی سے روایت کیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مخلوق کا حساب فرشتوں اور جن وانس کے ذمہ لگاتا تو وہ پچاس ہزار سال میں بھی یہ حساب نہ لے پاتے ‘ اور اللہ تعالیٰ ایام دنیا کی ایک ساعت میں اس حساب سے فارغ ہوجائے گا۔ (معالم النزیل ج ٥ ص ١٥٢‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢٠ ھ)
ہم نے یہ لکھا ہے کہ مومن پر یہ وقت بہت خفیف ہو کر گزرے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص اپنے محبوب کو دیکھ کر رہاہو اس پر صدیاں بھی گھڑیوں کی طرح گزرجاتی ہیں اور مومن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا دیدار کررہے ہوں گے :
وجو ١ ہ یومئذ ناضرۃ لا الی ربھا ناظرۃ ج (القیامۃ : ٢٣۔ ٢٢ )
اس دن بہت سے چہرے تروتازہ اور خوش و خرم ہوں گے ‘ اپنے رب کی طرف محودید ہوں گے۔ (القیامۃ : ٢٣۔ ٢٢ )
اور کفار پر یہ دن سخت مشکل ‘ دشوار اور عذاب میں گزرے گا کیونکہ جو محبوب سے فراق میں ہو اس پر گھڑیاں بھی صدیوں کی طرح گزرتی ہیں اور کفار قیامت کے دن اپنے رب سے حجاب میں ہوں گے۔
کلآ انھم عن ربھم یومئذ لمحجوبون (الطففین : ١٥) ہرگز نہیں یہ لوگ اپنے رب سے اس دن حجاب میں رکھے جائیں گے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 32 السجدة آیت نمبر 5