یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعٰفًا مُّضٰعَفَۃً۪ وَّاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوۡنَ﴿۱۳۰﴾ۚ

ترجمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو سود دونا دون نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں فلاح ملے۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! دُگنا دَر دُگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے۔

{ لَا تَاۡکُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعٰفًا مُّضٰعَفَۃً: دُگنا دَر دُگنا سود نہ کھاؤ۔} اس آیت میں سود کھانے سے منع کیا گیا اور اسے حرام قرار دیا گیا ۔ زمانۂ جاہلیت میں سود کی ایک صورت یہ بھی رائج تھی کہ جب سود کی ادائیگی کی مدت آتی، اگر اس وقت مقروض ادا نہ کرپاتا تو قرضخواہ سود کی مقدار میں اضافہ کردیتا اور یہ عمل مسلسل کیا جاتا رہتا۔ اسے دُگنا دَر دُگنا کہا جارہا ہے۔

سود سے متعلق وعیدیں :

سود حرامِ قطعی ہے، اسے حلال جاننے والا کافر ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کے متعلق سخت وعیدیں بیان ہوئی ہیں۔ سورۂ بقرہ کی آیت 275،276،278 میں بھی سود کی حرمت کا بیان موجود ہے اور حدیث میں ہے۔

(1)…حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔ (مسلم، کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب لعن آکل الرباومؤکلہ، ص ۸۶۲، الحدیث: ۱۰۶(۱۵۹۹)) 

(2)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سود کا گناہ 73درجے ہے ، ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زناکرے۔ (مستدرک، کتاب البیوع، انّ اربی الربا عرض الرجل المسلم، ۲/۳۳۸، الحدیث: ۲۳۰۶) 

(3)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے36 بار زنا کرنے سے زیادہ بُرا ہے ۔(شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان، ۴/۳۹۵، الحدیث: ۵۵۲۳) 

(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہرسے نظر آ رہے تھے، میں نے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔ (ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب التغلیظ فی الربا، ۳/۷۱، الحدیث: ۲۲۷۳)
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہِ کبیرہ کرلینے سے آدمی ایمان سے خارج نہیں ہوتا کیونکہ یہاں سود کی حرمت بیان کرتے ہوئے لوگوں سے ’’اے ایمان والو‘‘ کہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔ (سود سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے رسالہ’’سوداوراس کاعلاج‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔)