لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِی الْبِلٰدِ ﴿۱۹۶﴾ؕ مَتٰعٌ قَلِیۡلٌ ۟ ثُمَّ مَاۡوٰىہُمْ جَہَنَّمُ ؕ وَبِئْسَ الْمِہَادُ ﴿۱۹۷﴾

ترجمۂ کنزالایمان:اے سننے والے کافروں کا شہروں میں اہلے گہلے پھرنا ہرگز تجھے دھوکا نہ دے۔تھوڑا برتناہے پھر ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور کیا ہی برا بچھونا۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے مخاطب! کافروں کا شہروں میں چلنا پھرناہرگز تجھے دھوکا نہ دے ۔ (یہ تو زندگی گزارنے کا ) تھوڑا سا سامان ہے پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔

{ لَا یَغُرَّنَّکَ: تجھے ہرگز دھوکہ نہ دے۔ }شانِ نزول: مسلمانوں کی ایک جماعت نے کہا کہ کفار ومشرکین اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دشمن ہیں لیکن یہ تو عیش و آرام میں ہیں اور ہم تنگی او رمشقت میں مبتلا ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی(بیضاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۹۶،۲/۱۳۵) 

اور انہیں بتایا گیا کفار کا یہ عیش و آرام دنیوی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے جبکہ ان کا انجام بہت برا ہے۔ اس کو یوں سمجھیں کہ کسی کو کہا جائے بھائی آپ دس منٹ دھوپ میں کھڑے ہوجائیں ، اس کے بعداُسے ہمیشہ کیلئے ائیر کنڈیشنڈ بنگلہ دیدیا جائے اور دوسرے شخص کو دس منٹ سائے دار درخت کے نیچے بٹھا نے کے بعد ہمیشہ کیلئے تپتے ہوئے صحرا میں رکھا جائے تو دونوں میں فائدے میں کون رہا؟ یقینا پہلے والا ۔ مسلمان کی حالت پہلے شخص کی طرح بلکہ اس سے بھی بہتر ہے اور کافروں کی حالت دوسرے شخص سے بھی بدتر ہے۔