أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلنَّبِىُّ اَوۡلٰى بِالۡمُؤۡمِنِيۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِهِمۡ‌ وَاَزۡوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمۡ‌ ؕ وَاُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلٰى بِبَعۡضٍ فِىۡ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُهٰجِرِيۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ تَفۡعَلُوۡۤا اِلٰٓى اَوۡلِيٰٓئِكُمۡ مَّعۡرُوۡفًا‌ ؕ كَانَ ذٰ لِكَ فِى الۡكِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا‏ ۞

ترجمہ:

نبی ایمان والوں کی جانوں سے بھی زیادہ ان کے مالک ہیں اور نبی کی بیویاں ان کی مائیں ہیں ‘ اور اللہ کی کتاب میں رشتہ دار دوسرے مومنوں او مہاجروں کی بہ نسبت ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہیں ‘ مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ کوئی نیکی کرو ‘ یہ اللہ کی کتاب میں لکھا ہوا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : نبی ایمان والوں کی جانوں سے بھی زیادہ ان کے مالک ہیں ‘ اور نبی کی بیویاں ان کی مائیں ہیں ‘ اور اللہ کی کتاب میں رشتہ دار ‘ دوسرے مومنوں اور مہاجروں کی بہ نسبت ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہیں ‘ مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ کوئی نیکی کرو ‘ یہ اللہ کی کتاب میں لکھا ہوا ہے (الاحزاب : ٦)

مومنوں کی جانوں اور مالوں پر ان کی بہ نسبت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ———-

کو تصرف کرنے کا زیادہ اختیار ہے 

اولیٰ کا معنی ہے زیادہ لائق اور زیادہ سزوار ‘ یعنی مومنوں کو اپنی جانوں پر تصرف کرنے کا اتنا زیادہ استحقاق نہیں ہے جتنا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی جانوں پر تصرف کرنے کا حق حاصل ہے ‘ اس کا حاصل یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کو ان کے دین اور دنیا کے معاملات میں کسی چیز کا حک دیں اور ان کی خواہش ان معاملات میں کوئی اور کام کرنے کی ہو تو ان پر لازم ہے کہ وہ اس کام کو کریں جس کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں حکم دیا ہو اور اپنی خواہش پر عمل نہ کریں ‘ اور واجب ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی اپنی جانوں سے زیادہ محبوب ہوں اور ان کی جان اور مال کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے زیادہ مالک ہوں ‘ مثلاً فجر کی نماز کے وقت انسان کا دل سونے کے لیے چاہے اور وہ آرام دہ بستر کو چھوڑنا نہ چاہے یا گرمی کی دوپہر میں اور سخت دھوپ میں ظہر کی نماز کے وقت وہ گھر سے باہر نکلنا نہ چاہے لیکن وہ اپنی جان اور آرام کی پرواہ نہ کرے اور آپ کے حکم پر نیند اور آرام چھوڑ کر مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے جائے ‘ نماز کے اوقات میں دکان پر گا ہکوں کارش لگا ہوا ہو لیکن جماعت کے وقت وہ دکانداری چھوڑ کر نماز کے لیے جائے ‘ وہ اپنا مکان یا اپنی دکان کسی ایسے اجنبی شخص کو فروخت کرنا چاہے ‘ جو زیادہ قیمت دے رہاہو لیکن اگر اسکا پڑوسی یا شریک اس پر شفعہ کردے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس اجنبی شخص کے بجائے اپنے پڑوسی یا شریک کو فروخت کرے وہ اپنے مال کا مالک ہونے کے باوجود جس کو وہ چاہے فروخت نہ کرے بلکہ جس کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم ہو اس کو فروخت کرے ‘ وہ اپنی چیز کو جس جگہ فروخت کرنا چاہے وہاں نہ کرے کیونکہ مسجد میں بیع اور شراء سے آپ نے منع فرمادیا ہے ‘ جس وقت چاہے اس وقت فروخت نہ کرے کیونکہ نماز کے اوقات میں آپ نے خریدوفروخت کرنے سے منع فرمادیا ہے۔ جس طرح چاہے اس طرح قرض نہ دے کیونکہ سود پر قرض دینے سے آپ نے منع فرمادیا ہے ‘ وہ جب چاہے کھائے اور جب چاہے نہ کھائے یہ بھی نہ کرے کیونکہ رمضان میں دن کے اوقات میں آپ نے کھانے سے منع فرمادیا ہے اور عید کے دن آپ نے کھانے کو چھوڑنے سے منع کردیا ہے ‘ اگر طلوع آفتاب یا استواء آفتاب کے وقت وہ نماز پڑھنا چاہے اس وقت نماز نہ پڑھے کیونکہ ان اوقات میں نماز پڑھنے سے آپ نے منع فرمایا ہے۔

ہر جگہ نماز نہ پڑھے کیونکہ قبر کے سامنے اور مذبح میں نماز پڑھنے سے آپ نے منع فرمادیا ہے ‘ سو مومنوں کو اپنی جانوں اور مالوں پر تصرف کرنے کا اتنا اختیار نہیں ہے جتنا ان کی جانوں اور مالوں پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تصرف کرنے کا اختیار ہے۔

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے نزدیک اس کی جان ‘ اس کے والد ‘ اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائوں۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٥‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٤‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٥٠١٤‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٨٤٥‘ عالم الکتب)

بعض عارفین نے کہا جب تک کسی شخص کو یقین نہ ہو کہ تمام احوال میں اس کی جان اور اس کے مال کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مالک ہیں اس وقت تک وہ ایمان کی مٹھاس نہیں چکھ سکتا۔ اور حدیث میں ہے :

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس شخص میں تین اوصاف ہوں وہی ایمان کی مٹھاس پاسکتا ہے (١) اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک ان کے ماسوا سے زیادہ محبوب ہوں (٢) وہ جس شخص سے بھی محبت کرے تو اللہ کے لیے محبت کرے (٣) اور اس کے نزدیک کفر میں لوٹنا اس طرح ناپسندیدہ ہو جس طرح آگ میں ڈالا جانا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٦‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٣‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦٢٤‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٩٨٨‘ مسند احمد رقم الحدیث : ١٢٠٢)

مومنوں کی جانوں اور مالوں پر ان کی بہ نسبت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ شفیق ہیں 

اس آیت کا دوسرا محمل یہ ہے کہ مومن خود اپنی جانوں پر اتنے شفیق نہیں ہیں جتنے ان کی جانوں پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شفیق ہیں اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری مثال اور میری امت کی مثال اس شخص کی طرح ہے کہ کسی شخص نے آگ روشن کی ہو اور پروانے اور کیڑے مکوڑے اس آگ میں دھڑادھڑ گر رہے ہوں ‘ سو تم (اپنی خواہشوں کی آگ میں) دھڑا دھڑ گر رہے ہوں اور میں تم کو کمر بند باندھنے کی جگہ سے پکڑ کر کھینچ رہا ہوں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٨٤‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٨٧٤)

عام مسلمانوں کی نسبت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کے حقوق کے زیادہ کفیل اور ضامن ہیں 

اس آیت کا تیسرا محمل یہ ہے کہ مومنوں پر جو حقوق ہیں تو دوسرے مسلمانوں کی بہ نسبت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان حقوق کی ادائیگی کے زیادہ قریب ہیں ‘ جیسا کہ ان احادیث میں ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ پہلے اگر کوئی ایسا شخص فوت ہوتا جس پر قرض ہو تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوال کرتے تھے آیا اس نے اپنے قرض کی ادائیگی کیلیے فاضل مال چھوڑا ہے ؟ اگر یہ بتایا جاتا کہ اس نے اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے مال چھوڑا ہے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسکی نماز جنازہ پڑھا دیتے ورنہ آپ مسلمانوں سے فرماتے تم خود اس کی نماز جنازہ پڑھ لو ‘ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہ کثرت فتوح عطا کیں ‘ تو آپ نے فرمایا میں مسلمانوں کی جانوں کا ان کی بہ نسبت زیادہ مستحق ہوں ‘ سو مسلمانوں میں سے جو شخص قرض چھوڑ کر مرا اس کو میں ادا کروں گا اور جو شخص مال چھوڑ کر مرا وہ مال اس کے وارثوں کا ہوگا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٢٩٨‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٠٧٠‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١٩٦٣ )

ایک اور روایت اس طرح ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں محمد کی جان ہے روئے زمین پر ہر مومن کا تمام لوگوں کی بہ نسبت میں زیادہ ولی ہوں ‘ تم میں سے جو شخص قرض یا اہل و عیال کو چھوڑ کر مرگیا تو اس کا میں کفیل ہوں اور اگر مال چھوڑ کر مرا ہے تو وہ اس کے وراثوں کا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦١٩‘ کتاب الفرائض : ١٥)

حضرت ابو قتادہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک جنازہ لایا گیا تاکہ آپ اس پر نماز پڑھیں ‘ آپ نے فرمایا اپنے صاحب پر خود نماز پڑھ لو ‘ کیونکہ اس پر قرض ہے ‘ حضرت ابو قتادہ نے کہا یا رسول اللہ ! وہ قرض میرے ذمہ ہے ‘ آپ نے فرمایا تم وہ پورا قرض ادا کردو گے ؟ انہوں نے کہا ہاں ! میں وہ قرض پورا دا کردوں گا ‘ پھر آپ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ ( سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٠٦٩‘ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٥٢٥٨‘ مسند احمد ج ٥ ص ٢٩٧‘ سنن الدارمی رقم الحدیث : ٢٥٩٦‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٠٥٨ )

سربراہ مملکت کا فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کی زندگی اور موت میں ان کا کفیل اور ضامن ہو 

ابتداء میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقروض کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کردیتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کے ذہنوں میں قرض ادا کرنے کی اہمیت ہو کہ اگر کوئی شخص قرض ادا کیے بغیر فوت ہوگیا تو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز جنازہ اور آپ کی دعا سے محروم ہوگا ‘ دوسری وجہ یہ تھی کہ آپ کو علم تھا کہ مسلمان آپ کی اقتداء میں نماز پڑھن پر بہت حریص ہیں جب وہ دیکھیں گے کہ قرض کی وجہ سے آپ اس کی نماز نہیں پڑھا رہے تو ان میں س کوئی اس کا قرض ادا کر دے گا ‘ جیسے حضرت ابو قتادہ نے اس کا قرض ادا کردیا تھا ‘ سو اس بہانے سے اس میت کا قرض ادا ہوجائے گا ‘ اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا امام اور ان کا خلیفہ اور سربراہ مملکت مسلمانوں کی زندگی میں بھی ان کے حقوق کا محافظ اور ضامن ہے اور بہ وقت ضرورت ان کا کفیل ہے اور مسلمانوں کے مرنے کے بعد بھی ان کا ضامن ہے حتی کہ ان میں سے کوئی قرض چھوڑ کر فوت ہوجائے تو وہ بیت المال سے ان کا قرض ادا کرے۔

قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی ٥٤٤ ھ لکھتے ہیں :

تمام مسلمانوں کا بیت المال میں حق ہے اور جو شخص مقروض ہو تو بیت المال سے اس کے قرض کی ادائیگی لاز ہے۔

(اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٥ ص ٣٣٩‘ دارالوفاء بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

حافظ شہاب الدین امحد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں :

اسی طرح جو شخص مسلمانوں کی حکومت کا متولی ہو اس پر لازم ہے کہ اگر کوئی مسلمان قرض چھوڑ کر فوت ہوجائے تو وہ بیت المال سے اس کا قرض ادا کرے ‘ اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو وہ گنہ گار ہوگا بہ شرطی کہ میت کا بیت المال میں اتنا حق ہو جس سے اس کا قرض ادا کردیا جائے۔ (فتح الباری ج ٥ ص ٢٤٤‘ مطبوعہ دار الفکربیروت : ١٤٢٠ ھ)

علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی متوفی ٨٥٥ ھ لکھتے ہیں :

امام اور سربراہ مملکت پر لازم ہے کہ اگر کوئی مسلمان قرض چھوڑ کر مرجائے تو وہ بیت المال سے اس کا قرض ادا کرے اور اگر امام نے ایسا نہیں کیا تو قیامت کے دن اس سے بدلہ لیاجائے گا ‘ اور دنیا میں وہ گنہ گار ہوگا بہ شرطی کہ میت کے گھر میں اتنا اثاثہ باقی نہ ہو جس سے اس کا قرض ادا کیا جاسکے اور اگر پورا قرض ادا نہ کیا جاسکے تو اس کے مال سے جتنا اس کا قرض ادا کیا جاسکے اتنا قرض ادا کردیا جائے۔ (عمدۃ القاری ج ١٢ ص ١٧٨‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

خلاصہ یہ ہے کہ اگر مسلمان قرض چھوڑ کر ماجائے اور اس کے گھر میں قرض کی ادائیگی جتنا مال ہو تو امام پر لازم ہے کہ اس کے مال سے اس کا قرض ادا کرائے اور اگر مال کم ہو تو اس کے حساب سے اس کا قرض ادا کیا جائے اور اگر اس کے گھر میں بالکل مال نہ ہو تو پھر بیت المال سے اس کا قرض ادا کیا جائے۔

ازواج مطہرات کے مومنوں کی مائیں ہونے کی وضاحت 

اس کے بعد فرمایا : اور نبی کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کو یہ شرف عطا کیا کہ ان کو مومنین کی مائیں قرار دیا ‘ یعنی ان کی تعظیم اور ان کی بزرگی اور ان کا ادب اور احترام مسلمانوں پر اس طرح لازم ہے جس طرح اپنی مائوں کا ادب احترام لازم ہوتا ہے ‘ اور جس طرح ماں محرم ہے اور اس سے نکاح حرام ہے اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج سے نکاح کرنا امت پر حرام ہے۔

قرآن مجید میں ہے :

ولآان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا۔ اور نہ تمہارے لیے یہ جائز ہے کہ نبی کے بعد کبھی بھی ان کی بیویوں سے نکاح کرو۔ (الاحزاب : ٥٣ )

اور باقی معاملات میں ازواج مطہرات اجنبی عورتوں کی مثل ہیں ‘ اس لیے ان سے خلوت میں ملنا ‘ ان کے ساتھ سفر کرنا ‘ بلا ضرورت شرعی ان سے باتیں کرنا اور ان کے چہروں کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے ‘ قرآن مجید میں ہے :

واذا سالتمو ھن متا عا فسئلو ھن من ورآء حجاب۔ (الاحزاب : ٥٣) اور جب تم نبی کی ازواج سے کسی چیز کا سوال کرو تو پردے کے پیچھے سے سوال کرو۔

مہاجروں اور بنائے ہوئے بھائیوں کی باہمی وراثت کا منسوخ ہونا 

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اللہ کی کتاب میں رشتہ دار دوسرے مومنوں اور مہاجروں کی بہ نسبت ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہیں۔ (الاحزاب : ٦)

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت کی وجہ سے بعض مہاجرین کو بعض انصار کا بھائی بنادیا تھا ‘ اور اس بناء پر وہ ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے ‘ اسی طرح بعض مسلمان دین میں ایک دوسرے کی حمایت کرنے کی وجہ سے اور دوستی کی بنا پر ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے ‘ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد وارث ہونے کی یہ تمام صورتیں منسوخ ہوگئیں اور صرف رشتہ دار ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے وارث ہونے کی صورت باقی رہ گئی۔

اور یہ جو فرمایا ہے اللہ کی کتاب میں ‘ اسکا معنی ہے یہ حکم لوح محفوظ میں ثابت ہے ‘ یا اس کا معنی ہے یہ حکم قرآن مجید کی اس آیت میں ہے ‘ یا اس کا معنی ہے یہ حکم اللہ کی سنت میں ہے یا اس کی تقدیر میں ہے۔

نیز فرمایا : مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ کوئی نیکی کرو۔ یعنی تمہارے دوست تمہارے وارث تو نہیں ہوسکتے ‘ لیکن تم ان کے لیے اپنے تہائی مال سے وصیت کرسکتے ہو ‘ اور ان کو ہدیے اور تحفے وغیرہ دے سکتے ہو ‘ ان پر نفلی صدقہ کرسکتے ہو۔

مسلمانوں اور کافروں کا ایک دوسرے کا وارث نہ ہونا 

رشتہ دار ایک دوسرے کے وارث ہوسکتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وارث اور مورث دونوں مسلمان ہوں ‘ کیونکہ کافر مسلمان کا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوسکتا۔ اس سلسلہ میں یہ حدیث ہے :

حضرت اسامہ بن زید (رض) بیان کرتے ہیں انہوں نے (حجۃ الوداع کے موقع پر) کہا : یارسول اللہ ! کل آپ مکہ میں کس جگہ قیام کریں گے ؟ آپ نے فرمایا : کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی گھر یا کوئی زمین چھوڑی ہے ؟ اور عقیل اور طالب ‘ ابو طالب کے وارث ہوئے تھے اور حضرت جعفر اور حضرت علی (رض) ان کی کسی چیز کے وارث نہیں ہوئے تھے ‘ کیونکہ یہ دونوں مسلمان تھے ‘ اور عقیل اور طالب دونوں کافر تھے ‘ اور حضرت عمر بن الخطاب (رض) یہ کہتے تھے کہ مومن کافر کا وارث نہیں ہوتا ‘ ابن شہاب زہری نے کہا وہ قرآن مجید کی اس آیت میں تاویل کرتے تھے :

ان الذین امنوا وھاجروا وجاھدوا باموالہم وانفسہم فی سبیل اللہ والذین او و اونصروا اولئک بعضھم اولیآء بعض ط والذین امنوا ولم یھاجروا مالکم من ولا یتہم من شیء حتی یھاجروا۔ (الانفال : ٧٢)

بے شک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مہاجرین کو) جگہ فراہم کی ‘ یہی لوگ ایک دوسرے کے ولی ہیں ‘ اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت نہیں کی وہ اس وقت تک تمہاری ولایت میں بالکل نہیں ہوں گے جب تک وہ ہجرت نہ کرلیں۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٥٨٨‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٣٥١‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٠١٠‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٩٤٢‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٤٢٥٥ )

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ لکھتے ہیں :

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ اس آیت میں ولایت سے مراد وراثت ہے یا اس سے مراد ا ایک دوسرے کی نصرت اور معاونت ہے ‘ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اس آیت میں ولایت سے مراد وراثت ہے ‘ پہلے اللہ تعالیٰ نے مہاجرین اور انصار کو ایک دوسرے کا وارث بنادیا تھا ‘ اور جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا : اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت نہیں کی وہ اس وقت تمہاری ولایت میں بالکل نہیں ہوں گے جب تک وہ ہجرت نہ کرلیں۔ اس کا معنی یہ ہے کہ جب تک وہ ہجرت نہ کرلیں ان کو وراثت نہیں ملے گی ‘ اور جب اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخر میں فرمایا :

واولوالارحام بعضہم اولی ببعض فی کتب اللہ۔ (الانفال : ٧٥) اور اللہ کی کتاب میں قرابت دار ( بہ طور وراثت) ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔

تو اس آیت نے پہلی آیت کو منسوخ کردیا اور اب قرابت اور رشتہ داری وراثت کا سبب ہے اور ہجرت وراثت کا سبب نہیں ہے۔ (جامع البیان جز ١٠ ص ٦٩۔ ٦٧‘ ملخصا مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

متقد میں اس آیت میں ولایت کی تفسیر وراثت سے کرتے تھے۔

امام عبدالرزاق نے قتادہ سے روایت کیا ہے کہ مسلمان ہجرت کی وجہ سے ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے ‘ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا جو بھائی بنادیا تھا ‘ اس وجہ سے بھی وہ ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے ‘ اور وہ اسلام اور ہجرت کی وجہ سے ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے اور جو شخص اسلام لاتا اور ہجرت نہیں کرتا تھا وہ اس کا وارث نہیں ہوتا تھا ‘ اور جب الانفال : ٧٥ نازل ہوئی تو یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ (عمدۃ القاری ج ٩ ص ٣٢٦۔ ٣٢٥‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

اور زیر تفسیر آیت یعنی الاحزاب : ٦ میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے : اور اللہ کی کتاب میں رشتہ دار دوسرے مومنوں اور مہاجروں کی بہ نسبت ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہیں ‘ یعنی وہی ایک دوسرے کے وارث ہوسکتے ہیں ‘ اور الانفال : ٧٥ اور الاحزاب : ٦ کا مضمون واحد ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 6