يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَلَا تُطِعِ الۡكٰفِرِيۡنَ وَالۡمُنٰفِقِيۡنَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًا ۞- سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 1
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَلَا تُطِعِ الۡكٰفِرِيۡنَ وَالۡمُنٰفِقِيۡنَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًا ۞
ترجمہ:
اے نبی ! آپ اللہ سے ڈرتے رہیں اور کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کریں ‘ بیشک اللہ بہت علم والا بہت حکمت والا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے نبی ! آپ اللہ سے ڈرتے رہیں ‘ اور کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کریں ‘ بیشک اللہ بہت علم الا بہت حکمت والا ہے اور آپ کے رب کی طرف سے جس چیز کی وحی کی جاتی ہے ‘ آپ اسی کی پیروی کیجئے ‘ بیشک اللہ تمہارے تمام کاموں کی خبر رکھنے والا ہے اور اللہ پر توکل رکھیئے اور اللہ کافی کارساز ہے (الاحزاب : ٣۔ ١)
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ندا کرنے کی توجیہ
یایھا النبی کا لفظ اس سے پہلے الانفال : ٦٤‘ الانفال : ٦٥‘ الانفال : ٧٠ اور التوبہ : ٧٣ میں آچکا ہے اور اب پانچویں بار الاحزاب : ١ میں آیا ہے۔
عربی میں لفظ یا کے ساتھ اس وقت ندا کی جاتی ہے جب مناوی (جس کو ندا کی جائے) غافل ہو ‘ اور ظاہر ہے کہ یہاں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ندا کی گئی ہے اور غافل ہونا آپ کی شان سے بعید ہے ‘ کیونکہ آپ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی طرف متوجہ رہتے ہیں ‘ اور دوسری وجہ یا کے ساتھ ندا کرنے کی یہ ہے کہ جس چیز کی خاطر ندا کی گئی ہے وہ بہت عظیم ہے ‘ اور اس کی عظمت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے لفظ یا کے ساتھ ندا کی جاتی ہے ‘ اس لیے یہاں پر یہی دوسری وجہ مراد ہے۔
نبی کا لغوی اور اصطلاحی معنی
نبی کا لفظ نبو سے بنا ہے اس کا معنی رفعت اور بلندی ہے اور نبی کو نبی اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کا مقام اپنی امت میں سب سے بلند ہوتا ہے ‘ قرآن مجید میں حضرت ادریس (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا :
ورفعنہ مکانا علیا (مریم : ٥٧) اور ہم نے اس کو بلند مقام پر اٹھا لیا۔
اور یا یہ لفظ نبا سے بنا ہے اور نبی اس خبر کو کہتے ہیں جس میں دو چیزیں ہوں (١) اس سے کوئی عظیم فائدہ حاصل ہو (٢) اس سے یقین حاصل ہو ‘ اور جب تک کوئی خبر ان دو چیزوں کو متضمن نہ ہو اس کو نبا نہیں کہا جاتا ‘ اور جس خبر کو نبا کہا جاتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ جھوٹ نہ ہو ‘ جیسے خبر متواتر ( وہ خبر جس کے بیان کرنے والے ہر دور میں اتنے زیادہ ہوں کہ عقل کے نزدیک ان سب کا جھوٹ پر متفق ہونا محال ہو) اور اللہ تعالیٰ کی خبر اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبر ‘ کو نبا کہا جاتا ہے اور چونکہ نبا علم کو متضمن ہے اس لیے اس کا معنی خبر دینا بھی ہے۔
جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :
تلک من انبآء الغیب نوحیھآ الیک۔ (ھود : ٤٩) یہ غیب کی بعض خبریں ہیں جن کی ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔
(المفردات ج ٢ ص ٦٢٢‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الاز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)
نبا کا لفظ غیب کی خبر دینے کی معنی میں بھی آتا ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہ قول نقل فرمایا :
و انبئکم بما تا کلون وما تدخرون فی بیوتکم۔ میں تمہیں ان چیزوں کی خبر دیتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور ان چیزوں کی خبر دیتا ہوں جن کو تم اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو۔ (آل عمران : ٤٩ )
اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ارشاد فرمایا :
کذلک نقص علیک من انبآء ما قدسبق۔ (طہ : ٩٩) واقعات کی خبریں بیان کررہے ہیں۔
اور اس اعتبار سے نبی کا معنی ہے غیب کی خبریں بیان کرنیے والا ‘ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی متوفی ١٣٤٠ ھ نے اس کا ترجمہ کیا ہے : اے غیب کی خبریں بتانے والے ‘ اور اصطلاح میں نبی اس انسان کو کہتے ہیں جس پر اللہ نے وحی نازل کی ہو اور اس کو تبلیغ احکام کے لیے بھیجا ہو۔
علامہ اسماعیل حقی کے نزدیک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نام کے ——
بجائے صفات کے ساتھ ندا کرنے کی توجیہ
علامہ اسماعیل حقی البروسوی الحنفی المتوفی ١١٣٧ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کی صفت النبی کے ساتھ ندا کی ہے اور آپ کے اسم کے ساتھ ندا نہیں کی اور یا محمد نہیں فرمایا ‘ جس طرح دوسرے انبیاء علہم السلام کو ندا کرتے ہوئے فرمایا : یا آدم ‘ یا نوح ‘ یا موسیٰ ‘ یا عیسیـٰ ‘ یا زکریا ‘ اور یا یحییٰ ‘ اور آپ کو معزز اور مکرم القاب مثلاً یایھا النبی اور یایھالرسول وغیرہ کے ساتھ ندا فرمائی اور اس سے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت اور وجاہت کو ظاہر فرمایا ‘ اور آپ کے بہت اسماء اور القاب ہیں ‘ اور کثرت اسماء اور القاب مسمی کے شرف اور اس کی قدر منزلت پر دلالت کرتے ہیں ‘ اور الفتح ٢٩ میں جو فرمایا ہے محمد رسول اللہ اور آپ کے نام کا ذکر فرمایا ہے یہ اس لیے ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور وہ آپ کے رسول ہونے کا عقیدہ رکھیں اور اس کو عقائد حقہ میں شمار کریں۔ (روح البیان ج ٧ ص ١٥٧‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
مصنف کے نزدیک آپ کو ذات اور صفات دونوں کے ساتھ نداء کرنے کا جواز
قرآن مجید میں بیشک یا محمد کے ساتھ نداء کرنے کا ذکر نہیں ہے ‘ لیکن احادیث صحیحہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو یامحمد کے ساتھ بھی ندا فرمائی ہے ‘ حضرت جبریل نے بھی اور فرشتوں نے بھی اور امت نے بھی۔
اللہ تعالیٰ کے یامحمد فرمانے کا ذکر اس حدیث میں ہے :
یامحمد ارفع راشک وقل تسمع وسل تعطہ واشفع تشفع۔ اے محمد ! اپنا سر اٹھائیے اور کہیے آپ کی عرض سنی جائے گی اور سوال کیجئے آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٥١٠‘ صحیح البخاری ج ٢ ص ١١١٨‘ طبع کراچی ‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٩٣‘ صحیح مسلم ج ١ ص ١٠٩ طبع کراچی ‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٣١٢‘ سنن ابن ماجہ ص ٣٢٩‘ طبع کراچی ‘ مسند احمد ج ١ ص ١٩٨ قدیم)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا (رح) نے بھی اس حدیث کا حوالہ دیا ہے۔ (تجلی الیقین ص ٣٥‘ حامد اینڈ کمپنی لاہور۔ ٢)
حضرت جبریل کے یا محمد کہہ کر ندا کرنے کا ذکر اس حدیث میں ہے :
قال جبریل یا محمد اتدری من صلی خلفک قلت لا قال خلفک کل نبی بعثہ اللہ۔ حضرت جبریل نے کہا اے محمد ! کیا آپ ازخود جانتے ہیں کہ کس کس نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی ؟ میں نے کہا نہیں ‘ حضرت جبریل نے کہا آپ کی اقتداء میں ہر اس نبی نے نماز پڑھی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث کیا۔ (اعلی حضرت امام احمد رضا نے بھی اس حدیث کا حوالہ دیا ہے ‘ تجلی الیقین ص ٨٤‘ حامد اینڈ کمپنی لاہور ‘ ١٤٠١ ھ)
نیز اعلی حضرت امام احمد رضا لکھتے ہیں :
امام ابو زکریا یحییٰ بن عائذ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے راوی حضرت آمنہ (رض) قصہ ولادت اقدس میں فرماتی ہیں مجھے تین شخص نظر آئے ‘ گویا آفتاب ان کے چہروں سے طلوع کرتا ہے ‘ ان میں سے ایک نے حضور کو اٹھا کر ایک ساعت تک حضور کو اپنے پروں میں چھپایا اور گوش اقدس میں کچھ کہا کہ میری سمجھ میں نہ آیا ‘ اتنی بات میں نے بھی سنی کہ عرض کرتا ہے :
ابشر یا محمد فما بقی لنبی علم الا وقد اعطیتہ فانت اکثر ھم علما و اشجعھم قلبا۔ اے محمد ! آپ کو بشارت ہو کہ کسی نبی کا کوئی علم باقی نہ رہا جو حضور کو نہ ملا ہو تو حضور ان سب سے علم میں زائد اور شجاعت میں فائق ہیں۔ (المواہب ج ١ ص ٦٦‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٦ ھ ‘ شرح الزرقانی ج ١ ص ١١٥‘ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٣٩٣ ھ)
(تجلی الیقین ص ٨٢۔ ٨١‘ حامد اینڈ کمپنی لاہور ‘ ١٤٠١ ھ)
قیامت کے دن ہزار ہا لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے :
یا محمد و یا نبی اللہ انت الذی فتح اللہ بک وجئت فی ھذا الیوم امنا انت رسول اللہ و خاتم الانبیاء اشفع لنا الی ربک فلیقض بیننا۔
اے محمد ! اے اللہ کے نبی ! آپ وہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے فتح باب کیا اور آج آپ آمن و مطمئن تشریف لائے ‘ حضور اللہ کے رسول اور انبیاء کے خاتم ہیں ‘ اپنے رب کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کیجئے کہ ہمارا فیصلہ فرمادے۔ (المواہب اللدنیہ ج ٣ ص ٤٥٤‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٦ ھ ‘ شرح الزرقانی ج ٨ ص ٣٧٦‘ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٣٩٣ ھ)
(تجلی الیقین ص ٧٢۔ ٧١‘ حامد اینڈ کمپنی لاہور ‘ ١٤٠١ ھ)
رہا یہ اعتراض کہ آپ کا نام لے کر آپ کو ندا کرنے میں آپ کی بےادبی ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کو بلانے کے لیے آپ کا نام لے کر آپ کو ندا کرنا جائز نہیں ہے ‘ اور آپ کو متوجہ کرنے کے لیے آپ کا نام لے کر آپ کو متوجہ کرنا جائز ہے ‘ اور ان تمام احادیث میں ایسا ہی ہے آپ کے نام کے ساتھ آپ کو ندا کر کے آپ کو متوجہ کیا گیا ہے ‘ آپ کو بلایا نہیں گیا۔
نیز آپ کا نام مبارک محمد ہے ‘ اور یہ ایک اعتبار سے آپ کا علم شخصی اور آپ کا نام ہے اور دوسرے اعتبار سے یہ آپ کی صفت ہے کیونکہ محمد کا معنی ہے جس کی بےحد حمد اور تعریف کی گئی ہو یا جس کی بار بار حمد کی گئی ہو اور اس اعتبار سے یا محمد کا معنی ہے اے وہ شخص جس کی بےحد تعریف اور توصیف کی گئی ہے اور اس اعتبار سے یا محمد کہہ کر ندا کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور اس معنی کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسو ال اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم تعجب نہیں کرتے کہ اللہ نے قریش کے سب وشتم اور ان کے لعن طعن کو مجھ سے کس طرح دور کردیا ہے وہ کسی مذمم (مذمت کیا ہوا) کو سب و شتم کرتے ہیں اور کسی مذمم کو لعن طعن کرتے ہیں اور میں محمد (وہ جن کی حمد کی گئی ہو) ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٥٣٣‘ مسند حمیدی رقم الحدیث : ١١٣٦‘ مسند احمد رقم الحدیث : ١١١٨‘ عالم الکتب)
علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ لکھتے ہیں :
کیونکہ کفار آپ سے سخت بغض رکھتے تھے ‘ اس لیے وہ آپ کا نام (محمد) نہیں لیتے تھے ‘ جو آپ کی مدح اور تعریف پر دلالت کرتا تھا اس لیے وہ مدح سے اعراض کر کے اس کی ضد یعنی مذمت سے آپ کا پکارتے تھے اور آپ کو مذمم کہتے تھے اور مذمم آپ کا نام نہیں تھا اور نہ مذمم ہے آپ معروف تھے ‘ پس جب وہ مذمم کو برا کہتے تھے تو گویا کسی اور کو برا کہتے تھے ‘ آپ نے فرمایا میرا نام تو محمد ہے اور محمد اس شخص کو کہتے ہیں جس کی بہ کثرت قابل تعریف صفات ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے گھروالوں کو یہالہام کیا تھا کہ وہ آپ نام محمد رکھیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ آپ کی صفات محمودہ اور موجب تحسین ہوں گی۔ (عمدۃ القاری ج ١٦ ص ١٣٦۔ ١٣٥‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
صحابہ کرام اسی وجہ سے آپ کو یا محمد کے ساتھ ندا کرتے تھے :
حضرت البراء بن عازب (رض) حدیث ہجرت میں بیان کرتے ہیں کہ رسو ال اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے وقت ہمارے پاس مدینہ پہنچے ‘ مسلمانوں نے اس میں بحث کی کہ کس کے گھر رسو ال اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٹھہریں ‘ آپ نے فرمایا میں بنو النجار کے ہاں ٹھہروں گا جو عبدالمطلب کے ماموں ہیں ‘ میں اپنے قیام سے ان کو شرف عطا کروں گا ‘ پس تمام مرد اور عورتیں گھروں کی چھت پر چڑھ گئے اور لڑکے اور خدام راستوں میں پھیل گئے ‘ وہ بلند آواز سے ندا کررہے تھے (نعرے لگا رہے تھے) یا محمد ! یا رسول اللہ ! یا محمد ! یارسول اللہ !۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠٠٩‘ الرقم المسلسل : ٧٣٨٧‘ صحیح مسلم ج ٢ ص ٤١٩‘ طبع کراچی)
حافظ ابن اثیر الجزری متوفی ٦٣٦ ھ اور حافظ ابن کثیر المتوفی ٧٧٤ ھ ‘ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے زمانہ خلافت کے احوال میں لکھتے ہیں :
وکان شعار ھم یومئذ یا محمد اہ۔ اس زمانہ میں مسلمانوں کا شعار یا محمداہ کہنا تھا۔
(الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٢٤٦‘ بیروت ‘ البدایہ والنہایہ ج ٥ ص ٣٠‘ دارالفکر بیروت ‘ طبع جدید)
اور ان کا اس ندا سے مقصود آپ کے نام کا نعرہ لگانا تھا نہ کہ آپ کو بلانا ‘ اور آپ کے نام کا قصد کر کے یامحمد کہہ کر آپ کو بلانا جائز نہیں ہے۔
اس مبحث کی زیادہ تفصیل اور تحقیق کے لیےالنور : ٦٣کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔
کفار کا آپ کو پیغام توحید سنانے سے روکنے کی ناکام کوشش کرنا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے نبی ! آپ اللہ سے ڈرتے رہیں (لاحزاب : ١)
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اور امام ابواسحاق احمد بن محمد بن ابراہیم الثعلبی النیشاپوری المتوفی ٤٢٧ ھ اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
یہ آیت ابو سفیان بن حرب ‘ عکرمہ بن ابی جہل اور ابو الا عور عمر و بن ابی سفیان السلمی کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ کیونکہ یہ لوگ مدینہ میں عزوہ احد کے بعد آئے اور رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کے پاس ٹھہرے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو عبد اللہ بن ابی سے کلام کرنے کی اجازت دے دی تھی ‘ ان کے ساتھ عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح اور طعمہ بن ابیرق بھی کھڑا ہوا ‘ اس وقت آپ کے پاس حضرت عمربن الخطاب بھی تھے ‘ انہوں نے آپ سے کہا آپ لات ‘ عزی ‘ منات اور ہمارے دیگر معبودوں کو برا کہنا چھوڑ دیں ‘ اور یہ کہیں کہ جو شخص ان بتوں کی عبادت کرے گا اس کو ان بتوں کی شفاعت اور منفعت حاصل ہوگی تو ہم اس کے عوض آپ کو اور آپ کے رب کو چھوڑ دیں گے ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی یہ بات ناگوار گزری ‘ حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم کو انہیں قتل کرنے کی اجازت دیجئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں ان کو امان دے چکا ہوں ! حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے کہا تم لوگ اللہ کی لعنت اور اس کے غضب میں گرفتار رہو کر نکل جائو اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) کو حکم دیا کہ وہ ان لوگوں کو مدینہ سے باہر نکال کر آئیں۔ (جامع البیان جز ٢١ ص ١٤١‘ الکشف والبیان ج ٨ ص ٦۔ ٥‘ اسبا النزول لاواحدی رقم الحدیث : ٦٨٨)
آپ کو ڈرنے کا حکم دینے کی توجیہ
س آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیں ‘ جب کہ آپ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے تھے اور جو شخص کوئی کام کررہا ہو اس کو یہ حکم یدنا کہ تم یہ کام کرو بہ ظاہر عبث معلوم ہوتا ہے ‘ مثلاً کوئی شخص بیٹھا ہوا ہو تو اس کو یہ حکم دینا کہ تم بیٹھ جائو عبث اور بےفائدہ ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حکم دوام اور استمرار کے لیے ہے ‘ اور اس کا منشاء یہ ہے کہ جس طرح آپ پہلے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں اسی طرح اپنی آئندہ زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیں ‘ اور عہد شکنی نہ کریں اور کسی کو امان دے کر امان نہ توڑیں ‘ اور اللہ سے ڈرنے اور تقوی اختیار کرنے میں مزید اضافہ اور ترقی کریں ‘ کیونکہ تقویٰ کے درجات کی کوئی انتہا نہیں ہے۔
تقوی کا مادہ ہے وقی اور وقایہ اور اس کا معنی ہے کسی چیز سے بچنا اور اس سے احتراز کرنا اور اس سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر کے اس کی سزا اور عذاب سے بچنا ‘ اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل نہ کرنے اور اس کی منع کی گئی چیزوں کے ارتکاب کرنے سے انسان جس سزا اور عذاب کا مستحق ہوتا ہے اس سے احتراز کرنا اور بچنا۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مجوسیوں ‘ مشرکوں اور یہودونصاریٰ کی مخالفت کرنے کا حکم دینا
نیز فرمایا : اور کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کریں۔ اس کا معنی یہ ہے کہ جو کام آپ کے دین اور آپ کی شریعت کے خلاف ہوں ان میں آپ ان کی موافقت نہ کریں ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار اور منافقین کی اطاعت ہرگز نہیں کرتے تھے اس آیت میں یہ حکم دیا ہے کہ آپ اپنی عدم اطاعت اور عدم موافقت کے طریقہ پر برقرار رہیں ‘ اور اس پر دوام اور استمرار کریں ‘ نہ صرف یہ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود کفار اور منافقین کے طریقہ کی موافقت نہیں کرتے تھے بلکہ آپ ان کے طریقہ کی مخالفت کرتے تھے اور آپ نے اپنی امت کو بھی ان کے طریقہ کی مخالفت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سلسلہ میں حسب ذیل احادیث ہیں :
عن ابی ہریرہ (رض) قال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان الیھود و النصاری لا یصبغون فخالفوھم۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک یہود اور نصاری بالوں کو نہیں رنگتے ‘ سو تم ان کی مخالفت کرو۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٨٩٩‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠١٣‘ سنن باودائود رقم الحدیث : ٤٢٠٣‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٠٨٧۔ ٥٠٨٦‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٦٢١‘ مسند الحمیدی رقم الحدیث : ١١٠٨‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٧٣٧٢‘ عالم الکتب بیروت)
عن ابی ہریرہ قال قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیرو الشیب ولا تشبھوا الیھود۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سفید بالوں کو متغیر کرو ‘ اور یہود کی مشابہت نہ کرو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٧٥٢۔ ٥٠٨٨‘ مسنداحمد ج ٢ ص ٢٦١‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٥٤٧٣‘ شرح السنہ رقم الحدیث : ٣١٧٥)
عن ابی ہریرہ قال قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جزوالشوارب وارخوا اللحی خالفوا المجوس۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مونچھیں کم کرو اور ڈاڑھی بڑھائو اور مجوس (آتش پرست) کی مخالفت کرو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٨٩٢‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٠ )
عن ابن عمرقال قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خالفو المشرکین احفو الشوارب واوفوا اللحی۔
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مشرکین کی مخالف کرو ‘ مونچھیں کم کرو اور ڈاڑھیاں بڑھائو۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٩‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤١٩٩‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٧٦٤ )
حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نکلے ‘ آپ نے چند انصاری بوڑھوں کی سفید ڈاڑھیاں دیکھیں ‘ تو آپ نے فرمایا ‘ اے انصار کی جماعت ! اپنی ڈاڑھیوں کو سرخ یا زرد رنگ میں رنگو اور اہل کتاب کی مخالفت کرو ‘ حضرت ابو امامہ کہتے ہیں ہم نے کہا یا رسول اللہ ! اہل کتاب شلوار پہنتے ہیں اور تہبند نہیں باندھتے ؟ آپ نے فرمایا تم شلوار بھی پہنو اور تہبند بھی باندھو اور اہل کتاب کی مخالفت کرو ‘ ہم نے کہا یا رسول اللہ ! اہل کتاب چمڑے کے موزے پہنتے ہیں اور (اس کے اوپر) جوتی نہیں پہنتے ؟ آپ نے فرمایا تم موزے بھی پہنو اور جوتی بھی پہنو اور اہل کتاب کی مخالفت کرو ‘ ہم نے کہا یا رسول اللہ ! اہل کتاب ڈاڑھیاں کاٹتے ہیں اور مونچھیں لمبی رکھتے ہیں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم مونچھیں تراشو اور ڈاڑھایں چھوڑو اور اہل کتاب کی مخالفت کرو۔ (مسند احمد ج ٥ ص ٢٦٥ طبع قدیم ‘ حافظ زین نے کہا اس کی سند صحیح ہے ‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٢١٨٧‘ دارالحدیث قاہرہ ‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٧٩٢٤‘ مجمع الزوائد ج ٥ ص ١٣١‘ سلسلتہ الاحادیث ‘ الصحسیتہ للا لبانی رقم الحدیث : ١٢٤٥ )
حضرت ابن عباس (رض) عنما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یوم عاشوراء (دس محرم) کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو ‘ عاشوراء سے ایک دن پہلے بھی روزہ رکھو یا اس کے ایک دن بعد بھی روزہ رکھو۔ (مسند احمد ج ١ ص ٢٤١ قدیم ‘ حافظ احمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند حسن ہے ‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٢١٥٤‘ المشقی رقم الحدیث : ٢٢٢٢‘ مسند البزار رقم الحدیث : ١٠٥٢‘ حافظ الھیشمی نے کہا امام بڑا رکی سند صحیح ہے ‘ مجمع الزوائد ج ٣ ص ١٨٩۔ ١٨٨)
حضرت عبادہ بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب جنازہ کے ساتھ جاتے تو اس وقت تک نہیں بیٹھتے تھے جب تک کہ میت کو لحد میں نہ رکھ دیا جاتا ‘ آپ کے پاس ایک یہودی عالم آیا اور اس نے کہا یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم بھی اسی طرح کرتے ہیں ‘ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے اور فرمایا یہود کی مخالفت کرو۔(سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣١٧٦‘ امام ترمذی نے کہا اس کی سند میں بشر بن رافع قوی نہیں ہے ‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٠٢٠‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٥٤٥‘ کتاب الضعفاء للعقلیلی ج ٢ ص ١٢٢‘ الکامل لابن عدی ج ٣ ص ١٣٣)
کفار اور فساق کی مشابہت کے حکم کی تحقیق
کفار اور فساق کی مشابہت کی ممانعت کے سلسلہ میں حسب ذیل احادث ہیں :
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا اس کا شمار اسی قوم سے ہوگا۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٠٣١‘ مسند احمد ج ص ٥٠‘ طبع قدیم ‘ الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٨٥٩٣‘ المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٨٣٢٣ )
حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص ہمارے غیر کی مشابہت اختیار کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ‘ یہود کی مشابہت کرو نہ نصاریٰ کی ‘ انگلیوں سے اشارہ کرنا یہود کا سلام ہے اور ہتھیلیوں سے اشارہ کرنا نصاریٰ کا سلام ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦٩٥‘ مسند احمد ج ص ٤٩٩)
کفار اور فساق کی مشابہت کے سلسلہ میں علامہ مناوی کی تحقیق
علامہ مناوی ” من تشبہ بقوم فھو منھم “ کی تشریح میں لکھتے ہیں :
یعنی جو شخص اپنے ظاہری لباس میں کسی قوم کے لباس کی ‘ اپنے افعال اور عادات میں کسی قوم کی ادات کی اور اپنی سیرت اور خصلت میں کسی قوم کی سیرت کی مشابہت اختیار کرے حتی کہ اسکا ظاہ اور باطن اس قوم کے موافق ہوجائے تو اس کا شمار اس قوم سے ہوگا ‘ ایک قول یہ ہے کہ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جو شخص صالحین کی مشابہت اختیار کرے گا اس کی ان کی طرح عزت کی جائے گی اور جو شخص فساق کی مشابہت اختیار کرے اس کی ان کی طرح رسوائی ہوگی ‘ علامہ قرطبی نے کہا ہے کہ اگر اہل فسق کسی خاص لباس کو اختیار کرلیں تو دوسروں کو اس لباس کے پہننے سے منع کیا جائے گا تاکہ ناواقف شخص ان کو بھی فاسق گمان نہ کرے ‘ اور اس بدگمانی کی وجہ سے گناہ میں مبتلاء نہ ہو ‘ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ تشبہ امور قلبیہ یعنی اعتقادات میں بھی ہوتا ہے اور امور خارجیہ یعنی اقوال اور افعال میں بھی ہوتا ہے اور اقوال اور افعال کی دو قسمیں ہیں عبادات اور عادات ‘ عادات میں کھانا پینا ‘ لباس کی وضع قطع ‘ جائے سکونت ‘ نکاح ‘ تمدن اور ثقافت (یعنی کسق قوم کے رہن سہن اور طرز معاشرت کے اجتماعی آداب) سفر اور اقامت کے طور طریقے۔ اعتقادات اور عبادات میں تو کفار کا تشبہ اختیار کرنا کفر اور حرام ہے ہی شریعت اسلامیہ نے تمدن اور ثقافت اور دیگر عادات میں بھی کفار کے تشبہ سے منع فرمایا ہے کیونکہ ظاہر اور باطن میں ربط اور مناسبت ہوتی ہے اور ظاہر کا باطن میں اثر ہوتا ہے ‘ اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کے تمدن اور ثقافت کے لیے ایسے امور بیان فرمائے جو کفار کی مخالفت کریں ‘ کیونکہ اگر مسملمان کفار کی تہذیب اور تمدن کو اختیار کریں گے تو اس کا اثر ان کے اخلاق ‘ عبادات اور عقائد پر بھی پڑے گا ‘ اور اس کا عام مشاہدہ ہے جن لوگوں نے مغربی تہذیب کو اختیار کرلیا ‘ ان کے اخلاق سے پاکیزگی کا عنصر ختمہو گیا ‘ وہ لوگ عبادات سے دور ہوگئے اور ان کے عقائد کمزور پڑگئے اور جن لوگوں نے دین داروں کی وضع قطع اختیار کی ان میں خدا خوفی کا غلبہ ہوا اور ان کا دین مستحکم ہوگیا ‘ اور یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ظاہ کا باطن میں اثر ہوتا ہے ‘ دوسری وجہ یہ ہے کہ کفار پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے اور جب مسلمان اپنے ظاہری اطوار میں کفا کے مخالف رہیں گے تو اسباب غضب سے بچے رہیں گے اور گمراہی کے اسباب سے مجتنب رہیں گے ‘ تیسری وجہ یہ ہے کہ جب کفار اور مسلمانوں کا لباس ‘ وضع قطع ‘ ان کی بودوباش اور طرز معاشرت ایک جیسی ہوگی تو ہدایت یافتہ اور گمراہوں میں ظاہری تمیز نہیں رہے گی ‘ اس لیے مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ کفار کے تمدن اور ثقافت سے الگ رہیں اور ان کی مشابہت اختیار نہ کریں۔
علامہ مناوی لکھتے ہیں کہ شیخ ابن تیمیہ نے کہا ہے کہ اس حدیث سے بظاہر یہ معلہم ہوتا ہے کہ جو شخص کفار کی مشابہت اختیار کرے گا وہ کافر ہوجائے گا ‘ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : ومن یتولھم منکم فانہ منھم (المائدہ : ٥١) تم میں سے جس شخص نے یہود اور نصاری سے دوستی رکھی اس کا انہی سے شمار ہوگا ‘ لیکن اس حدیث کا کم از کم درجہ ی ہے کہ کفار کی مشابہت حرام ہو ‘ حضرت ابن عمر کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے کفار کی سرزمین پر گھر بنایا اور ان کے نیروز اور مہرجان (یعنی ان کے تہواروں سے مثلا کرسمس اور دسہرہ) کو منایا اور مرتے دم تک ان کے مشابہ رہا تو اس کا قیامت کے دن انہی کے ساتھ حشر ہوگا ‘ یعنی کفار سے بالکلیہ مثابہ ہونا کفر ہے اور بعض امور میں مشابہ وہنا حرام ہے ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ کفر میں ان کی مشابہت اختیار کرنا کفر ہے اور معصیت میں مشابہت اختیار کرنا معصیت ہے اور ان کے شعار میں ان کی مشابہت اختیار کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر ج ١١ ص ٥٧٤٤۔ ٥٧٤٣‘ نزار مصطفیٰ الباز ‘ ریاض ١٤١٨ ھ)
کفار اور فساق کی مشابہت کے سلسلہ میں شیخ عبدالحق دہلوی کی تحقیق
شیخ عبدالحق محدث دہلوی متوفی ١٠٥٢ ھ لکھتے ہیں :
ہر وہ شخص جو کسی قوم کی مشابہت کرے گا اس کا شمار اسی قوم سے ہوگا ‘ چونکہ حدیث میں تشبہ کو مطلقاً فرمایا ہے ‘ لہٰذا یہ تشبہ اخلاق ‘ اعمال اور لباس کو شامل ہے خواہ نیکوں کے ساتھ مشابہ ہو یا برے لوگوں کے ساتھ مشابہ ہو ‘ اگر اخلاق اور اعمال میں مشابہ ہوگا تو اس کا حکم ظاہر اور باطن دونوں میں جاری ہوگا ‘ اور اگر صرف لباس میں مشابہ ہوگا تو اس کا صرف ظاہر میں ہوگا (یعنی اگر کوئی شخص مثلاً سکھوں کا لباس اور ان کی وضع اور قطع اختیار کرے تو اسکا بظاہر سکھوں میں شمار ہوگا وہ حقیقت میں سکھ نہیں ہوجائے گا ‘ اور نہ قیامت کے دن سکھوں میں اٹھے گا ‘ البتہ اس ظاہر لباس اور وضع و قطع کو دیکھ کر دیکھنے والے اس کو سکھ خیال کریں گے۔ سعیدی غفرلہ) زیادہ تر عرف میں اس مشابہت کو لباس پر محمول کرتے ہیں اسی وجہ سے اس حدیث کو کتاب اللباس میں ذکر کرتے ہیں ‘ خلاصہ یہ ہے کہ جو چیز جس کے مشابہ ہوگی وہ اس چیز کے کم میں ہوگی اگر ظاہر میں مشابہت ہے تو ظاہر میں اس چیز کے کم میں ہوگی اور اگر باطن میں اس کے مشابہ ہے تو باطن میں اس چیز کے حکم میں ہوگی۔ (اشعۃ اللمعاتج ٣ ص ٥٤٧‘ مطبوعہ مطبع تیج کمار لکھنو)
کفار اور فساق کی مشابہت کے سلسلے میں فقہاء احناف کی تحقیق
علامہ ابن نجیم حنفی متوفی ٠ ٩٧ ھ لکھتے ہیں :
اعلم ان التشبیہ باھل الکتاب لایکرہ فی کل شیٔ فانا ناکل و نشرب کما یفعلون انما الحرام ھوالتشبہ فیما کان مذموما وفیما یقصد بہ التشبیہ کذا ذکرہ قاضی خان فی شرح الصغیر۔ (الجرالرائق ج ٢ ص ١١‘ مصر)
جان لو کہ اہل کتاب کے ساتھ ہر چیز میں تشبہ مکروہ نہیں ہے ‘ کیونکہ ہم بھی کھاتے پیتے ہیں جس طرح وہ کھاتے پیتے ہیں ‘ البتہ صرف مذموم کاموں میں ان کے ساتھ تشبہ ممنوع ہے ‘ یا جس کام کو ان کے ساتھ تشبہ کے قصد کے ساتھ کیا جائے وہ ممنوع ہے ‘ اسی طرح قاضی خان نے جامع صغیر کی شرح میں ذکر کیا ہے۔
علامہ علائوالدین حصکفی حنفی متوفی ١٠٨٨ ھ لکھتے ہیں :
فان التشبہ بھم لایکرہ فی کل شیٔ بل فی المذموم وفیما یقصد بہ التشبہ۔ اہل کتاب کے ساتھ ہر چیز میں تشبہ مکروہ نہیں ہے ‘ بلکہ مذموم چیزوں میں تشبہ مکروہ ہے اور جن کاموں میں تشبہ کا قصد کیا جائے۔
علامہ ابن عابدین شامی متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں :
ویویدہ مافی الذخیرۃ قبیل کتاب التحری قال ہشام رایت علی ابی یوسف نعلین مخسوفین بمسامیر ‘ فقلت اتری بھذا الحدید باسا قال لا ‘ قلت سفیان وثور بن یزید کرھا ذلک لان فیہ تشبھا بالرحبان فقال کان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یلبس النعال التی لھا شعر وانھا من لباس الرھبان فقد اشار الی ان صورۃ المشابھۃ فیما تعلق بہ صلاح العباد لا یضر فان الارض مما لا یمکن قطع المسافۃ البعیدۃ فیھا الا بھذا النوع ا ھ وفیہ اشارۃ ایضا الی ان المراد بالتشبہ اصل الفعل ای صورۃ المشابھۃ بلا قصد۔ (ردالمختار ج ٢ ص ٣٣١‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)
اس کی تائید میں ” ذخیرہ “ کی کتاب التحری سے ذرا پہلے یہ مذکور ہے کہ ہشام نے ابو یوسف کو دو ایسی جوتیاں پہنے دیکھا جس میں کیلیں ٹھکی ہوئی تھیں ‘ میں (ہشام) نے پوچھا کیا آپ ان لوہے کی کیلوں میں کوئی حرج سمجھتے ہیں ؟ انہوں نے کہا نہیں ‘ میں نے کہا کہ سفیان اور ثور بن یزید اس کو مکروہ کہتے ہیں ‘ کیونکہ اس میں راہبوں کے ساتھ تشبہ ہے ‘ امام ابو یوسف نے جواب دیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالوں والی جوتیاں پہنتے تھے اور وہ بھی راہبوں کا لباس ہے ‘ امام یوسف نے اپنے اس قول میں یہ اشارہ کیا ہے کہ جس کام میں صورۃ مشابہت ہو اور اس کام میں لوگوں کا نفع اور فائدہ ہو تو اس مشابہت میں ضرر نہیں ہے ‘ کیونکہ اس قسم کی جوتیوں کے بغیر زمین میں دور دراز کی مسافت کو طے نہیں کیا جاسکتا۔ امام ابو یوسف نے اس قول میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اس قسم کی مشابہت میں اس وقت حرج نہیں ہے جب اس کام میں کفار کے ساتھ مشابہت کا قصد نہ کیا جائے ‘ صرف صورۃ مشابہت ہو۔
علامہ شامی نے الحرالرائق کے حاشیہ پر بھی یہی تقریر کی ہے۔
(منحۃ الخالق علی ھامش البحرالرائق ج ٢ ص ١١‘ مطبع علیمیہ مصر ‘ ١٣١١ ھ)
کفار اور فساق کی مشابہت کے سلسلہ میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی تحقیق
مسئلہ : ازپیلی بھیت محلہ محمد واصل مرسلہ مولوی محمد وصی احمد صاحب سورتی ٢٤ صفر ١٣١٣ ھ
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ دھوتی لباس ہند ہے یا کہ خاص ہنود کا لباس ہے ایک عالم صاحب کہیتے ہیں کہ دھوتی لباس ہنود ہے اور بمو جب من تشبہ بقوم فھو منھم کے جو مسلمان دھوتی پہنے وہ ہندو ہے اور نماز روزہ وغیرہ کوئی عمل صالح اوس کا مقبول نہیں مسلمانوں کو دھوتی پہننے والے کے ساتھ مناکحت و نشست برخاست کھانا پینا کھلانا پلانا صاحب سلامت سب منع ہے بلکہ دھوتی پہننے والا سلام علیک کرے تو اوس کے سلام کا جواب بھی نہ دے ‘ پس دھوتی پہننے والے کے ساتھ وہی برتائو چاہیے جیسا کہ عالم صاحب کہتے ہیں یا کہ مسلمانوں کا اس بارے میں جو حکم شریعت ہو ارشاد فرمایا جاوے۔ بینوا توجروا۔
الجواب : اقول وباللہ التوفیق اس جنس مسائل میں حق تحقیق و تحقیق حق یہ ہے کہ تشبہ دو وجہ پر ہے التزامی و لزومی ‘ التزامی یہ کہ یہ شخص کسی قوم کے طرز وضع خاص اسی قصد سے اختیار کرے کہ اون کی سی صورت بنائے اون سے مشابہت حاصل کرے حقیقۃً تشبہ اسی کا نام ہے فان معنی القصد والتکلف ملحوظ فیہ کما لا یخفی اور لزومی یہ کہ اس کا قصد تو مشابہت کا نہیں مگر وہ وضع اس قوم کا شعار خاص ہورہی ہے کہ خواہی نخواہی مشابہت پیدا ہوگی ‘ التزامی میں قصد کی تین صورتیں ہیں۔ اول : یہ کہ اوس قوم کو محبوب ومرضی جان کر اون سے مشابہت پسند کرے یہ بات اگر مبتدع کے ساتھ ہو بدعت اور کفار کے ساتھ معاذ اللہ کفر حدیث من تشبہ بقوم فھومنھم حقیقۃً صرف اسی صورت سے خاص ہے ‘ غمزالعیون والبصائر میں ہے اتفق مشائخنا ان من رای امر الکفار حسنا فقد کفر حتی قالو افی رجل قال ترک الکلام عند الک الطعام حسن من المجوس اور ترک المضا جعۃ عندھم حال الحیض حسن فھو کافر ‘ دوم : کسی غرض مقبول کی ضرورت سے اختیار کرے وہاں اوس وضع کی شناعت اور اس غرض کی ضرورت کا موازنہ ہوگا اگر ضرورت غالب ہو تو بقدر ضرورت کا وقت ضرورت یہ تشبہ کفر کیا معنی ممنوع بھی نہ ہوگا جس طرح صحابہ کرام (رض) سے مروی ہے کہ بعض فتوحات میں مقتول رومیوں کے لباس پہن کر بھیس بدل کر کام فرمایا اور اس ذریعہ سے کفار اشرار کے بھاری جماعتوں پر باذن اللہ غلبہ پایا ‘ اسی طرح سلطان مرحوم صلاح الدین یوسف انار اللہ تعالیٰ برہانہ کے زمانے میں جب کہ تمام کفار یورپ نے سخت شورش مچائی تھی دو عالموں نے پادریوں کی وضع بنا کر دورہ کیا اور اوس آتش تعصب کو بجھا دیا ‘ خلاصہ میں ہے لوشد الزنار علی وسطہ ودخل دار الحرب لتخلیص الاساری لایکفر ولو دخل لا جل التجارۃ یکفر ذکرہ القاضی الا مامو ابو جعفر الا ستر وشنی۔ ملتقط میں ہے اذا شدالزنار او اخذ الغل اولبس قلنسوۃ المجوس جادا او عاز لالا کفر الا اذا فعل خدیعۃ فی الحربمنح الروض میں ہے ان شد المسلم الزنار ودخل دارالحرب للتجارۃ کفر ای لانہ تلبس بلباس کفر من غیر ضرورۃ ملجئۃ ولا فائدۃ مترتبۃ بخلاف من لبسھا لتخلیص الاساری علی ما تقدم سوم : نہ تو او نہیں اچھا جانتا ہے نہ کوئی ضرورت شرعیہ اس پر حامل ہے بلکہ کسی نفع دنیوی کے لیے یا یو ہیں بطور ہزل و استہزاء اس کا مرتبک ہوا تو حرام و ممنوع ہونے میں شک نہیں اور اگر وہ وضع اون کفار کا مذہبی دینی شعار ہے جیسے زنا رقشقہ چٹیا چلیپا تو علما نے اس صورت میں بھی حکم کفر دیا کما سمعت انفا اور فی الواقع صورت استہزاء میں حکم کفر ظاہر ہے کمالا یخفی اور لزومی میں بھی حکم ممانعت ہے جبکہ اکراہ وغیرہ مجبوریاں نہ ہوں جیسے انگریزی منڈا انگریزی ٹوپی جاکٹ پتلوان اولٹا پردہ کہ اگرچہ یہ چیزیں کفار کی مذہبی نہیں مگر آخر شعار ہیں تو ان سے بچنا واجب اور ارتکاب گناہ لہٰذا علماء نے فساق کی وضع کے کپڑے موزے سینے سے ممانعت فرمائی فتاویٰ خانیہ میں ہے الاسکاف اولخیاط اذا اس تو جر علی خیاطۃ شیٔ من زی الفساق و یعطی لہ فی ذلک کثیرا جر لایستحب لاہ ان یعمل لا نہ اعا انۃ علی المعصیۃ مگر اس کے تحقیق کو اوس زمان و مکان میں اون کا شعار خاص ہونا قطعاً ضرور جس سے وہ پہچانے جاتے ہیں اور اون میں اور اون کے غیر میں مشترک نہ ہو ورنہ لزوم کا کیا محل ‘ ہاں وہ بات فی نفسہ شرعاً مذموم ہوئی تو اس وجہ سے ممنوع یا مکروہ رہے گی نہ کہ تشبہ کی راہ سے ‘ امام قسطلانی نے مواہب لدنیہ میں دربارہ طیلسان کہ پوشش یہود تھی فرماتے ہیں اماما ذکرہ ابن القیم من قصہ الیھود فقال الحافظ ابن حجر انما یصح الا ستد لال بہ فی الوقت الذی تکون الطیالسۃ من شعار ھم وقد ارتفع ذلک فی ھذہ الازمنہ فصار داخلا فی عموم المباح وقد ذکرہ ابن عبدالسلام (رح) تعالیٰ فی امثلۃ البدعۃ المجاحۃ امام اجل فقیہ النفس فخر الملۃ والذین قاضی خاں پھر امام محمد ‘ محمد ابن الحاج حلبی حلیہ شرح منیہ فصل مکروہات اصلاۃ پھر علامہ زین نجیم مصری بحرالرائق پھر علامہ محمد بن علی دمشقی درمختار میں فرماتے ہیں الشبہ باھل الکتاب لا یکرہ فی کل شیٔ فانا ناکل و نشرب کما یفعلون ان الحرام التشبہ بھم فیما کان مذموما اوفیما یقصد بہ التشبہ علامہ علی قاری منح الروض میں فرماتے ہیں انا ممنوعون من التشبہ بالکفرۃ واھل البدعۃ المنکرۃ فی شعارھم لا منھیون عن کل بدعۃ ولو کا نت مباحۃ سواء کا نت من افعال اھل السنۃ او من افعال الکفرۃ واھل البدعۃ فالمدار علی الشعار فتاوی عالمگیری میں محیط سے ہے قال ہشام فی نوادرہ ورایت علی ابی یوسف (رح) تعالیٰ نعلین محفوفین بمسامیر الحدید فقلت لہ اتری بھذا الحدید باسا قال لا فقلت لہ ان سفین وثور بن یزید کرھا ذالک لا نہ تشبہ بالرھبان فقال ابو یوسف رحمہ الہ تعالیٰ کان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یلبس النعال التی لھا شعور وانھا من لباس الرھبان الخ اس تحقیق سے روشن ہوگیا کہ تشبہ وہی ممنوع و مکرہ ہے جس میں فاعل کی نیت تشبہ کی ہو یا وہ شی اون بدمذہبوں کا شعار خاص یافی نفسہ شرعاً کوئی حرج رکھتی ہو بغیر ان صورتوں کے ہرگز کوئی وجہ ممانعت نہیں۔ اب مسئلہ مسئولہ کی طرف چلیے دھوتی باندھنے والے مسلمانوں کا یہ قصد تو ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ کافروں کی سی صورت بنائیں نہ مدعی نے اس پر بنائے کلام کی بلکہ مطلقاً دھوتی باندھنے کو اون سخت شدید اختراعی احکام کا مورد قراردیا نہ زنہا قلب پر حکم روانہ بدگمانی جائز قال اللہ تعالیٰ فلا تقف مالیس لک بہ علم ان السمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسؤلا اور فی نفسہ دھوتی کی حالت کو دیکھا جائے تو اوس کی اپنی ذات میں کوئی رج شرعی بھی نہیں بلکہ ساتر ماموربہ کے افراد سے ہے اصل سنت و لباس پاک عرب یعنی تہ بند سے صرف لٹکتا چھوڑنے اور پیچھے گھیر لینے کا فرق رکھتی ہے اس میں کسی امر شرعی کا خلاف نہیں تو دو وجہ ممانعت تو قطعاً منتقی ہیں ‘ رہا خاص شعار کفار ہونا وہ بھی باطل بنگالہ وغیرہ پورب کے عام شہروں میں تمام سکان ہندو مسلمان سب کا یہی لباس ہے یہی سب اضلاع ہند کے دیہات میں ہندو مسلمین یہ وضع رکھتے ہیں رہے وسط ہند کے شہری لوگ اون میں بھی فنائے شہر اور خود شہر کے اہل حرفہ وغیرہ ہم جنہیں کم قوم کہا جاتا ہے بعض ہر وقت اور بعض اپنے کاموں کی ضرورتوں کی حالت میں دھوتی باندھتے ہیں ہاں یہاں کے معزز شہریوں میں اسکا رواج نہیں مگر اس کا حاصل اس قدر کہ اپنی تہذیب کے خلاف جانتے ہیں نہ یہ کہ جو باندھے اسے فعل کفر کا مرتکب سمجھیں تو غایت یہ کہ ان اضلاع کے شہری وجاہت دار آدمی کو گھر سے باہر اس کا باندھنا مکروہ ہوگا کہ بلاوجہ شرعی عزت و عادت قوم سے خروج بھی سبب شہرت و باعث کراہت ہے ‘ علامہ قاضی عیاض مالکی امام اجل ابو زکر یا نووی شافعی شار ان صحیح مسلم پھر عارف باللہ سیدی عبدالغنی نابلسی حنفی شارح طریقہ محمد یہ فرماتے ہیں خرجہ عن العادۃ شھرۃ مکروہ اور اگر وہاں کے مسلمان اسے لباس کفار سمجھتے ہوں تو احتراز مؤکد ہے۔ حرج پیچھے گھرانے میں ہے ورنہ تہ بند تو عین سنت ہے اس سے زائد جو کچھ لفاظیاں شخص مذکور نے کہیں محض بےاصل و باطل اور حلیہ صدق وصواب سے عاطل ہیں بالفرض اگر دھوتی باندھنا مطلقاً ممنوع بھی ہوتا تاہم اس میں اتنا وبال نہ تھا جو شرع مظہر پر دانستہ افترا کرنے میں والعیاذ باللہ تعالی۔
نسئل اللہ ھدیۃ سبیل الرشاد والعصمۃ عن طریق الزیغ والفساد آمین واللہ سبحنہ وتعالی اعلم۔
(فتاوی رضویہ ج ١/١٠ ص ٩٢۔ ٩٠‘ مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی ‘ ١٤١٢ ھ)
نیز اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلو متوفی ٠ ١٣٤ ھ لکھتے ہیں :
خطاب و لباس ووضع و اسباب میں کفار سے مشابہت ممنوع ہے اور عالم ہو کر ایسا کرے تو اور سخت معیوب ہے مگر فھو منھم اوس کے لیے ہے جو کفار کے دینی شعار میں بالقصد معاذ اللہ اوس کی پسند کے طور پر کی جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
(فتاوی رضویہ ج ٢/١٠ ص ٣٢٠‘ مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی ‘ ١٤١٢ ھ)
کفار اور فساق کی مشابہت کے سلسلہ میں مصنف کی تحقیق
خلاصہ ی ہے کہ کفار کے ساتھ تشبہ کی نیت سے مطلقاً کوئی کام کرنا ممنوع ہے ‘ مثلاً ان سے مشابہت کی قصد سے کھانا پینا ‘ یا سانس لینا بھی ممنوع ہے اور جب کفار کے ساتھ تشبہ کی نیت نہ ہو بلکہ کسی اور مصلحت اور فائدہ کا حصول مقصود ہو مثلا فوج اور پولیس ‘ کفار کے مخصوص ہتھیاروں کو ان کی افادیت کی بناء پر استعمال کے ‘ یا پولیس اور فوج کی وردی کو اس لیے پہنے کہ اس کو پہن کر جسم چاق و چوبند رہتا ہے اور اس لباس کے ساتھفوجی مشقیں اور دیگر فرائض آسانی کے ساتھ انجام دیئے جاسکتے ہیں (البتہ قمیض پتلون سے باہر نکالیں تاکہ سرین کا ابھار دکھائی نہ دے) اس صورت میں ان چیزوں کا استعمال جائز ہے ‘ اس طرح میز کرسی پر کھانا ‘ چھری کانٹے اور چمچوں کو کھانے میں استعمال کرنا ‘ اگر ان میں کفار کے ساتھ تشبہ کی نیت نہ ہو بلکہ دوسرے فوائد اور سہولتوں کی بناء پر استفادہ کرتے ہوں اور اس میں ہماری نیت کفار سے مشابہت نہیں ہوتی ‘ مثلاً بجلی کی روشنی اور پنکھوں کو استعمال کرنا ‘ موٹر کار ‘ بس ‘ ٹرین اور ہوائی جہاز سے سفر رکنا ‘ ٹیلیفون پر بات کرننا ‘ ریڈیو اور ٹیوی کے علاناتات اور جائز پروگراموں سے استفادہ کرنا اور تمام صنعتوں اور کارخانوں میں ان کی تکنیک سے استفادہ کرنا یہ سب امور جائز ہیں اور تمام مسلمان بغیر کسی انکار کے ان پر عمل کرتے ہیں۔
کفار کے وہ اعتقادات جو اسلام کی تعلیم کے خلاف ہیں ‘ اسی طرح ان کی وہ عبادات جو اسلام کی تعلیم کے خلاف ہیں اسی طرح ان کی وہ تہذیب اور ثقافت جو ان کا مخصوص شعار گردانی جاتی ہے یعنی وہ چیزیں جو ان کی کسی بدعقیدگی پر مبنی ہیں مثلا عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو صلیب پر چڑھایا گیا اس لیے وہ گلے میں صلیب ڈالتے ہیں یا رسی کا پھندہ ڈالتے ہیں یا اس کی علامت کے طور پر ٹائی لگاتے ہیں ‘ یہ تمام چیزیں مطلقاً ممنوع اور حرام ہیں اور ان میں سے بعض چیزیں کفر ہیں۔ مثلاً حضرت عیسیٰ کے بارے میں یہ اعتقاد رکھنا کفر ہے کہ ان کو سولی دی گئی تھی۔
عورتوں کی بےپردگی ‘ مردوں اور عورتوں کا آزادانہ میل جول ‘ کلبوں میں اجنبی مردوں اور عورتوں کا ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا ‘ گپ شپ کرنا رقص و سرود میں حصہ لینا ‘ وڈیو اور سینما کی فلمیں بنانا ان کو دیکھنا موسیقی سننا خواہ بھارت کی موسیقی ہو ‘ پاکستان کی ہو یا مغربی ‘ لڑکیوں کا چست اور نیم عریاں لباس پہننا ‘ ہپیوں کی وضع قطع اختیار کرنا ‘ ان تمام امور میں مغربی تہذیب کی مشابہت ہے ‘ بعض امور میں ہندوئوں کے طریقے اور ان کی رسموں کارواج ہے ان چیزوں میں تشبہ مطلقاً ممنوع ہے اور ان کاموں میں خواہی نخواہی تشبہ ہے کی نیت ہو یا نہ ہو۔
خلاصہ یہ ہے کہ کفار کے ساتھ تشبہ ان امور میں ممنوع ہے جو امور کفار کے عقائد فاسدہ اور اعمال باطلہ کے ساتھ مخصوص ہوں ‘ یا جو امور کتاب اور سنت کی تصریحات کے خلاف ہوں اور جو امور ہمارے اور کفار کے درمیان مشترک ہوں یا جو امور نافعہ ہیں ان میں اگر کفار کے ساتھ تشبہ واقع ہوجائے تو اسمیں کوئی حرج نہیں ہے ‘ بلکہ احادیث میں اس قسم کے امور کو اختیار کرنے کی بہ کثرت مثالیں ہیں ‘ دیکھئے دفاعی جنگ میں شہر کے گرد خندق ککھودنا کفار عجم کا طریقہ تھا ‘ لیکن جب حضرت سلمان فارسی (رض) نے غزوہ احزاب کے وقت مدینہ منورہ کے گرد خندق کھود نے کا مشورہ دیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مشورہ کو قبول کرلیا ‘ امام ابن سعد روایت کرتے ہیں :
فلما بلغ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فصولھم من مکۃ ندب الناس واخبر ھم خبر عدوھم وشاورھم فی امر ھم فاشار علیہ سلمان الفارسی بالخندق فاعجب ذلک المسلمین۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کے مکہ سے روانہ ہونے کی خبر پہنچی تو آپ نے مسلمانوں کو دشمن کی خبردی ‘ اور ان سے جنگ کے متعلق مشورہ کیا ‘ حضرت سلمان فارسی نے خندق کھودنے کا مشورہ دیا اور مسلمانوں کو یہ تجویز بہت پسند آئی۔ (الطبقات الکبری ج ٢ ص ٦٦‘ دارصادر بیروت ‘ ١٣٨٨ ھ)
حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں :
قال سلمان للنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انا کنا بفارس اذا حوصرنا خندقنا علینا فامرالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بحفر الخندق حول المدینہ وعمل فیہ بنفسہ ترغیبا للمسلمین۔ (فتح الباری ج ٧ ص ٣٩٣‘ لاہور)
حضرت سلمان فارسی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ جب ہم فارس میں تھے اور ہمارا محاصرہ کیا جاتا تھا تو ہم اپنے گرد خندق کھود لیتے تھے ‘ تب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ کے گرد خندق کھودنے کا حکم دیا اور مسلمانوں کو رغبت دینے کے لیے آپ نے خود خندق کھودی۔
خندق کھودنا کفار کا طریقہ تھا ‘ لیکن اس کے فائدہ مند ہونے کی وجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اختیار کرلیا ‘ اسی طرح خط کے اوپر مہر لگانا بھی کفار کا طریقہ تھا ‘ لیکن اس کی افادیت کی بناء پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہر بنوالی ‘ امام بخاری روایت کرتے ہیں :
عن انس بن مالک ان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وسلم ارادان یکتب الی رھط اواناس من الا عاجم فقیل لہ انھم لا یقبلون کتابا الا علیہ خاتم فاتخذ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتما من فضۃ نقشہ محمد رسول اللہ۔ (صحیح البخاری ج ٢ ص ٨٧٢‘ کراچی)
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عجمیوں کی ایک جماعت کو خط لکھنے کا ارادہ کیا ‘ آپ سے عرض کیا گیا کہ وہ لوگ بغیرمہر کے کسی خط کو قبول نہیں کرتے ‘ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوالی جس پر محمد رسول اللہ نقش تھا۔
اسی طرح پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دودھ پلانے والی عورت کے ساتھ جماع کرنے سے منع کرنے کا ارادہ کیا لیکن جب آپ کو معلوم ہوا کہ روم اور فارس کے لوگ ایام رضاعت میں جماع کرتے ہیں اور اس سے ان کی اولاد کو ضرر نہیں ہوتا تو آپ نے یہ ارادہ ترک کردیا ‘ امام مسلم روایت کرتے ہیں :
عن جدامۃ بنت وھب الاسدیۃ انھا سمعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقول لقد حممت ان انھی عن الغیلۃ حتی ذکرت ان الروم والفارس یصنعون ذلک فلا یضر اولادھم۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ٤٦٦ کراچی)
جدامہ بنت وہب اسد یہ بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے دودھ پلانے والی عورت کے ساتھ جماع سے منع کرنے کا ارادہ کیا پھر مجھے خیال آیا کہ روم اور فارس کے لوگ یہ عمل کرتے ہیں اور اس سے ان کی اولاد کو ضرر نہیں ہوتا۔
ان مثالوں سے واضح ہوگیا کہ کفار کے طریقوں میں سے کسی نفع دینے والے طریقہ کو اختیار کرنا جائز ہے بشرطیکہ وہ کام ہماری شریعت میں ممنوع نہ ہو یا ان کی کسی بدعقیدگی اور بدعملی کے ساتھ خاص نہ ہو۔
لباس میں مشابہت کی وجہ سے صرف ظاہری اور دنیاوی حکم لاگو ہوگا۔
لباس کی جو وضع کسی کافر یا فاسق قوم کا شعار ہو یا وہ وضع ان کی کسی بد عقیدگی پر مبنی ہو اس لباس کو پہننا اس قوم کے ساتھ تشبہ ہے اور اس سے اجتناب لازم ہے ورنہ ظاہری طور پر جو لباس جس گروہ کی علامت ہو اس لباس کے پہننے والے کا ظاہر طور پر اسی گروہ میں شمار ہوگا ‘ مثلا عمامہ جبہ ‘ اور شلوار پہننا یا ٹوپی ‘ شیروانی اور شلوار اور قمیض پہننا عرف میں علماء کا لباس ہے ‘ اس لباس کے پہننے والے کا علماء میں شمار ہوگا خواہ وہ عالم نہ ہو لیکن اگر وہ جبہ و دستار میں ملبوس ہو تو لوگ اس کو عالم سمجھیں گے ‘ اسی طرح مخصوص قسم کی ا کی وردی فوجی لباس ہے ‘ اگر ایک غیر فوجی بھی اس لباس کو پہن لے تو لوگ اس کو فوجی سمجھیں گے ‘ اسی طرح کوٹ پینٹ اور ہیٹ وغیرہ بابوئوں کا لباس ہے اگر کوئی عالم بھی یہ لباس پہن لے تو لوگ اس کو بابو سمجھیں گے ‘ یہ صرف ظاہری اور دنیاوی حکم ہے اس کا آخرت سے کوئی تعلق نہیں ہے الا یہ کہ وہ صلیب پہنے ‘ اگر کوئی شخص ہندوئوں کی طرز کی دھوتی باندھے اور گاندھی ٹوپی پہنے تو لباس کی اس مشابہت کی وجہ سے لوگ اس کو ہندو سمجھیں گے لیکن محض اس لباس کی وجہ اس کا آخرت میں ہندوئوں میں شمار نہیں ہوگا ‘ البتہ اس لباس سے اس لیے اجتناب لازم ہے کہ لوگ اس کے متعلق ہندو ہونے کی بدگمانی نہ کریں۔
بدعقیدگی ‘ بدعات اور بداعمالیوں میں مشابہت کی وجہ سے کفر ‘ گمراہی اور حرمت کا حکم لاگو ہوگا۔
مشابہت کی وجہ سے اخروی حکم صرف اس وقت لاگو ہوگا جب کوئی شخص کفار کے باطل عقائد کو اختیار کرے ‘ تو پھر وہ کافر ہوجائے گا اور اگر کسی قوم کی بدعات سیء کو اختیار کرے جیسے سیاہ علم اور تعزیہ داری اور سینہ کو بی وغیرہ تو گمراہ ہوگا اور کسی قوم کے ناجائز افعال یا بد عقیدگی پر مبنی اعمال میں مشابہت کو اختیار کرے گا تو حرام کا مرتکب ہوگا۔
لباس کے موضوع پر میں نے کافی تفصیل سے لکھا ہے اور ہمارے زمانہ میں لباس کے متعلق جو غلط نظریات مشہور ہیں اور من تشبہ بقوم والی حدیث کے جو غلط سلبط معنی بیان کیے جاتے ہیں اس کے ازالہ کی میں نے بھر پور سعی کی ہے ‘ اللہ تعالیٰ ان سطور کو نافع بنائے اور لباس کے معاملہ میں جن لوگوں کے غلط نظریات یا غلط روش ہے ان کی اصلاح فرمائے وما ذلک علی اللہ بعزیز اللھم اجعل ھذا الکتاب مقبولا عندک وعند رسولک واجعلہ لی صدقۃ جاریۃ اے اللہ ! اس کتاب کو اپنی اور اپنے رسول کی بار گاہ میں مقبول کردے اور اس کو میرے لیے صدقہ جاریہ کردے۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی سیدنا محمد خاتم النبیین قائد الغر المحجلین افضل الا نبی اء والمرسلین وعلی الہ و اصحابہ وازواجہ و علماء ملتہ واولیاء امتہ اجمعین۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 1
[…] کو نیک خصائل اور عمدہ شمائل کی طرف رہنمائی کرنا ہے ‘ الاحزاب : ١میں فرمایا تھا : یا یھا النبی اتق اللہ اے نبی اللہ سے […]