ڈاکٹر جلالی اور اصحاب جلال وکمال

(قسط اول)

از:طارق انورمصباحی=ایڈیٹر:ماہنامہ پیغام شریعت (دہلی)

ماہ فروری 2020میں ڈاکٹر آصف اشرف جلالی صاحب قبلہ نے ایک رافضیہ کاجواب دیتے ہوئے ایک جملہ کہا۔اس کے بعد ہند وپاک میں بحث کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا،پھر 20:جولائی 2020 کو ڈاکٹرموصوف کو گرفتارکر لیا گیا۔موصوف کی گرفتاری اہل سنت وجماعت کے لیے ایک اذیت رساں امر ہے۔

ایسے مواقع پر دفع فتنہ کے واسطے مشروط توبہ کی جا سکتی ہے۔جب کسی کلام کی غلطی ثابت نہ ہوتو غیر مشروط توبہ نہیں ہوسکتی،کیوں کہ بلا شرط، توبہ کی صورت میں صحیح قول کو ترک کرنا اور غیر صحیح کواختیارکرنالازم آئے گا۔ ہاں، بحث کا دروازہ بندکرنے کے واسطے مشروط توبہ میں کوئی شرعی قباحت نظر نہیں آتی،مثلاً اس طرح کہا جائے:

”اگر میرا قول شریعت اسلامیہ کی نظرمیں قابل گرفت ہے تو میں نے اس کلام سے توبہ ورجوع کیا“۔

چوں کہ ایسے مواقع پرعام طورپر ”کلموا الناس علیٰ قدرعقولہم“کالحاظ نہ کرنے کے سبب شوروہنگامے ہو جاتے ہیں تو ہنگامہ آرائی کو ختم کرنے کی راہ اپنانی ہوگی،اور اس کلام سے قائل کا جومقصودتھا،اس کو سہل اسلوب میں پیش کرنا ہوگا۔اس طرح ہنگاموں کوکنٹرول کرنے میں بھی آسانی ہوگی اورقوم کی صالح رہنمائی بھی ہوسکے گی۔

ایسے موقع پر اہل حق کو بھی متکلم کے کلام کے ساتھ اس کے مقاصد پر بھی نظر رکھنی چاہئے،تاکہ ہنگامے بھی بند ہوں اورباطل نظریات کوبھی دفن کیا جا سکے۔مومنین کے ایمان وعقیدہ کا تحفظ مقصد اولین ہے۔اختلاف کے سبب عوام مسلمین انتشار میں مبتلا ہوجاتے ہیں اورجومقصداصلی تھا،وہ نظروں سے غائب ہوجاتا ہے۔

پاکستان کے ایک معترض کی آڈیوکلپ سننے کا موقع ملا،جس میں ڈاکٹر موصوف پر بے ادبی،اور کفرلزومی کی بات کی گئی تھی۔ اسی کلپ کے مشمولات پرمختصر تبصرہ مرقومہ ذیل ہے۔ مضمون میں کسی فر یق کے نام کی بجائے متکلم اور فریق دوم کے لفظ سے تعبیرہوگی۔کسی فریق کی حمایت کی بجائے حکم شرعی کا بیان ہوگا:واللہ الموفق والہادی

لفظ خطا کے متعدد معانی

فریق دوم کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ متکلم نے جس بیان میں وقوع خطا کی بات کی ہے،وہاں خطا سے خطائے اجتہادی مراد نہیں لیا جاسکتا،کیوں کہ سیاق کلام اورقرینہ سے یہ ثابت ہے کہ یہاں اس خطا کی بات ہے، جس سے اہل بیت محفوظ ہیں اور یہ خطائے اجتہادی نہیں،بلکہ وہ خطا بمعنی معصیت ہے۔اب اس خطا کے وقوع کی نسبت حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف کرنایقینا ایک غلط بات ہے۔اس سے فریق اول کو توبہ کرنی واجب ہے۔ نیز وہاں خطائے اجتہادی کا قول کرنا بھی مناسب نہیں، کیوں کہ حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وراثت سے متعلق قرآن مجید کی قطعی الدلالت آیت مقدسہ کے پیش نظر باغ فدک میں میراث کا مطالبہ کیا تھا اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث نبوی کے پیش نظر باغ فدک میں میراث جاری نہ فرمائی،اس لیے یہاں دونوں شخصیتوں پر کوئی اعتراض نہیں۔(ملخصا)

جواب: لفظ خطا کے متعددمفاہیم

(1)اگر فریق دوم کی وضاحت کے اعتبارسے یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہاں خطا سے خطائے اجتہادی مراد نہیں ہوسکتی ہے توبھی یہاں شہزادی رسول حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر کوئی اعتراض وارد ہونے کی گنجائش نہیں۔شایدمتکلم نے اس مفہوم کو بھی اپنے وضاحتی بیان میں پیش کیا ہے۔تفصیل درج ذیل ہے:

کسی سے صدور خطابھی ہو،اور حکم خطا بھی عائد نہ ہو،یعنی اس مرتکب کے حق میں وہ امر خطا نہ ہو، جیسے علم ویقین کی حالت میں کسی ضروری دینی کا انکار یقینا کفر ہے،لیکن نومسلم لاعلمی کی حالت میں کسی ضروری دینی کا انکارکردے تو اس ضروری دینی سے لاعلم ہونے کے سبب نومسلم کا انکار کفر نہیں،اسی لیے اس پرحکم کفر عائد نہیں ہو گااور لاعلمی کے سبب ضروری دینی کا انکار اس کے حق میں کفر نہیں ہو گا۔یہاں نومسلم سے کفر کا صدور بھی ہوا، لیکن وہ نہ اس کے حق میں کفرہے،نہ ہی اس پر کفرکاحکم کا واردہوتا ہے۔حکم کفر اس وقت وارد ہوگا،جب اس کو علم ویقین ہو جائے کہ یہ ضروری دینی ہے۔جب علم یقینی ہوجانے کے بعد انکار کرے تو یہ انکار کفر ہے۔

مسئلہ حاضرہ کی تفہیم کے لیے ایک مثال رقم کی جاتی ہے۔زید کے والد نے اپنی جائیداد کا نگراں اورمحافظ کسی کو بناد یاتھا۔ اس کی جائیداد میں ایک انگورکا باغ تھا۔اپنے والد کی وفات کے بعد زید نے اس محافظ ونگراں سے انگور کے باغ میں اپنی وراثت طلب کی تو نگراں نے کہا کہ آپ کے والد نے وہ باغ فلاں کو فروخت کردی تھی،اور اس خریدار نے اس باغ کی حفاظت ونگرانی بھی میرے ذمہ کر دی ہے تومیں جیسے آپ کی جائیداد کی حفاظت کرتاہوں،اسی طرح اس کے باغ کی بھی حفاظت ونگرانی کرتا ہوں۔

پھر اس محافظ نے اس کے والد کے انگورکاباغ فروخت کرنے کے کاغذات اورگواہوں کے نام بتائے۔ زید نے گواہوں سے بھی تحقیق کرلی اوراسے اطمینان ہوگیا کہ اس کے والد نے وہ باغ فروخت کردی تھی۔

اب کسی نے کہا کہ زید باغ کے مطالبہ میں خطا پرتھا تو یہ بات صحیح ہے کہ جب وہ باغ اس کے والد کی ملکیت نہیں تھا تو اس باغ میں وراثت کا مطالبہ غلط تھا،لیکن لاعلمی کی صورت میں وراثت کامطالبہ جرم نہیں۔اگر جان بوجھ کر زید باغ کامطالبہ کرتا تو اب یہ مطالبہ جرم ہوتا،کیوں کہ جس کا یہ مستحق نہیں،اس کا مطالبہ کررہا ہے۔

لاعلمی کے سبب جو غلط مطالبہ ہوا، وہ ظاہرمیں غلط مطالبہ ہے،لیکن حقیقت میں صحیح مطالبہ ہے،کیوں کہ اس نے اپنے والد کی ملکیت سمجھ کر مطالبہ کیا،پس یہاں کسی امر میں دواعتبار ہوتے ہیں۔ ظاہری اعتبار اورحقیقی اعتبار۔

حقیقی اعتبارسے یہ مطالبہ صحیح ہے۔ ظاہری اعتبارسے یہ مطالبہ غلط ہے۔جو اس مطالبہ کو صحیح کہے،اس نے حقیقی اعتبارسے اس کوصحیح کہا اورجس نے غلط کہا وہ ظاہری اعتبار سے غلط کہا۔

اب یہاں دوسرا کہے کہ زید اپنے مطالبہ میں صحیح تھا تو یہ بات بھی صحیح ہے کہ جب اس نے اپنے والد کی ملکیت سمجھ کر مطالبہ کیا تو حقیقت میں وہ غلط مطالبہ کرنے والا نہیں،اسی لیے جب اسے باغ فروخت ہونے کاعلم ہو گیاتو اس نے مطالبہ ترک کر دیا،کیوں کہ وہ جائز حق کی طلب میں تھا۔جب اس پرواضح ہوگیاکہ باغ اس کے والد کی ملکیت میں نہیں تووہ اس باغ کا حقدار نہیں،اوراس جانکاری کے بعد اس کا ترک مطالبہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ حقیقت میں غلط مطالبہ کرنے والا نہیں تھا،ورنہ جانکاری کے بعد بھی وہ مطالبہ جاری رکھتا۔

مذکورہ بالا عبارت میں جومفہوم بیان ہوا،یہ عام انداز میں مسئلہ کی تفہیم کے لیے بیان کیا گیا ہے۔ارباب فضل وکمال کے لیے لفظ خطا کا استعمال عرف میں معیوب ہو تو ان کی عظمت شان کے موافق الفاظ وعبارات میں اس مفہوم کوباندازاحسن پیش کیا جا سکتا ہے۔نہ صرف ارباب فضل وکمال،بلکہ ہرمومن قابل تکریم ہے۔ لوگ اللہ ورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کے بے ادبوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں،حالاں کہ ان پر سخت شرعی احکام وارد ہیں،اور سنی مسلمانوں کی تذلیل کرتے ہیں،حالاں کہ ان سے محبت و تکریم کا حکم ہے۔

لفظ خطا کے تین معانی کا بیان

مذکورہ بالا تشریح کے مطابق خطا کے تین مفہوم ہوں گے:(1)وہ خطا جومعصیت ہو(2)وہ خطا جوغیر معصیت ہو۔اس پر نہ اجروثواب ہو، نہ ہی گناہ۔(3)وہ خطا جو موجب اجر وثواب ہے،یعنی اجتہادی خطا۔

مطالبہ باغ فدک میں خطاکے معنی اول مرادہونے کی کوئی صورت نہیں،کیوں کہ میراث نبوی سے متعلق حدیث نبوی میں بیان کردہ خصوصی حکم سے عدم معرفت،اور قرآن مجید میں بیان کردہ حق میراث کے پیش نظر خاتون جنت حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مطالبہ حق پر مبنی ہے تو ایسی صورت میں عند الشرع یہ مطالبہ معصیت قرار نہیں پاسکتا۔جب جان بوجھ کرکوئی خلاف شرع مطالبہ ہو،تب وہ مخالفت شرع کے سبب معصیت ہوگا۔

جب حدیث نبوی سن کر حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرارضی اللہ تعالیٰ عنہا کواپنے عدم استحقاق کا علم ہوا،اور آپ نے مطالبہ ترک فرمادیا تو اس سے بالکل واضح ہوگیا کہ وہ موافق شرع میراث کا مطالبہ فرما رہی تھیں۔

حدیث نبوی سن کر مطالبہ ترک کرنا ہی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حضرت سیدہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بحکم قرآنی اپنے حق کامطالبہ فرما رہی تھیں۔ جب یہ مطالبہ درحقیقت قرآن مجید کے موافق تھاتو اس مطالبہ کے معصیت ہونے کی کوئی راہ موجود نہیں۔ اگران کو حدیث نبوی پہلے معلوم ہوتی تومطالبہ ہی نہ فرماتیں، جیسے مطالبہ کے بعدحدیث نبوی معلوم ہونے پرمطالبہ بالکل ترک فرمادیا۔دوبارہ کبھی مطالبہ نہ فرمائیں۔

یہاں لفظ خطا کے بیان کردہ تین معانی میں سے پہلا معنی معصیت ہے،اور مطالبہ باغ فدک پر یہ معنی کسی طورپر منطبق نہیں ہوتاتو مطالبہ باغ فدک میں یہ معنی مراد نہیں ہو سکتا۔ اب معنی دوم ومعنی سوم باقی رہے۔

معنی سوم کی نسبت ارباب فضل وکمال کی طرف نہ شرعاً معیوب ہے،نہ ہی عرفاً معیوب ہے۔معنی سوم کی تعبیر کے واسطے خطائے اجتہادی کا لفظ مروج ہے اورارباب فضل وکمال کے لیے خطائے اجتہادی کا لفظ استعمال کر نا معیوب نہیں سمجھا جاتا،بلکہ خطائے اجتہادی موجب اجر وثواب اور مظہر فضل وکمال ہے،کیوں کہ نہ کوئی عام آدمی اجتہاد کرسکتا ہے،اور نہ اس سے خطائے اجتہادی ہوسکتی ہے۔اجتہاد کوئی مجتہد ہی کرسکتا ہے۔

خطائے اجتہادی اعلیٰ درجہ کے اہل فضل وکمال یعنی مجتہدین کے ساتھ خاص ہے۔اس خطا پر بھی انہیں ایک اجر وثواب ہے،کیوں کہ انہوں نے شرعی دلیل میں غوروفکر کیااور حق کو پانے کی کوشش کی،گر چہ حق تک رسائی نہ ہوسکی،لیکن ان کی محنت ومشقت،شرعی دلائل میں غوروفکر اور اصابت حق کی نیت صالح وقصد محمود پر انہیں اجر ملتا ہے۔ اگر حق کو پالیتے تو دوثواب انہیں ملتا۔ اس کا ذکر حدیث مصطفوی میں موجود ہے۔

مسئلہ حاضرہ میں متکلم معنی سوم مراد لیتاہے،اور فریق دوم معنی سوم مراد لینے پراعتراض کرتا ہے،اور کہتا ہے کہ معنی سوم مراد نہیں ہو سکتا۔اب ایک معنی باقی رہا،یعنی معنی دوم۔ یہاں معنی اول مراد نہیں ہوسکتا، او ر فریق دوم معنی سوم مراد لینے کا منکر ہے تو اگر معنی اول اورمعنی سوم مراد نہ ہوتو صرف معنی دوم کی گنجائش باقی رہی۔

معنی دوم مراد لینے پر متکلم پر اعتراض ہوگا،یا نہیں۔ اس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔ہندوپاک میں شور محشر اسی معنی دوم نے کھڑا کردیا ہے۔ اسی شور وغو غا نے اہل حق کو بھی اس جانب متوجہ کردیا۔

معنی دوم کی نسبت ارباب فضل وکمال کی طرف

مفہوم دوم حقیقت میں غیرمعصیت ہے،لیکن اس کی ظاہری شکل وصورت معصیت کی طرح ہے،اسی لیے عرف میں ارباب فضل وکمال کی طرف اس کی نسبت کو غیرمناسب سمجھا جاتا ہے۔چوں کہ عرف میں ارباب فضل کی طرف لفظ خطا کی نسبت کو معیوب سمجھا جاتا ہے تواب یہ دیکھنا ہوگا کہ اس عرف کے اعتبارسے ارباب فضل کے لیے لفظ خطا کا استعمال از روئے شرع خلاف اولیٰ وغیرہ ہوگا یا نہیں؟ اس کی تحقیق کرنی ہوگی۔

قبل تحقیق کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔آج جو صورت لفظ خطا کی ہے،وہی حال لفظ باغی کا ہے۔

صحابی رسول حضرت سیدناامیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلیفہ برحق شیرخدا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مخالفت کی،لیکن وہاں اجتہادی خطا کے سبب مخالفت تھی۔ وہاں گناہ کی کوئی صورت نہیں ہے۔

اس مخالفت کوپہلے بغاوت کہا جاتا تھا،لیکن بعدمیں علمائے اسلام اس مخالفت کوبغاوت سے تعبیر کرنا ناپسند فرمانے لگے،کیوں کہ بعدمیں بغاوت کا مشہور مفہوم الگ ہوگیا،اسی لیے اب ان نفوس قدسیہ کو باغی نہیں کہا جائے گا۔اب باغی کی جگہ کوئی دوسرا لفظ استعمال کرنا ہوگا۔صدر الشریعہ علامہ امجدعلی اعظمی علیہ الرحمۃوالرضوان نے صحابی رسول حضرت طلحہ وحضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا ذکرکرتے ہوئے تحریر فرمایا:

”عرف شرع میں بغاوت مطلقاً مقابلہ امام برحق کوکہتے ہیں۔عناداً ہو،خواہ اجتہاداً۔ ان حضرات پر بوجہ رجوع اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ گروہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حسب اصطلاح شرع اطلاق فۂ باغیہ آیا ہے،مگر اب کہ باغی بمعنی مفسد ومعاند وسرکش ہوگیا اور دشنام سمجھا جاتا ہے۔ اب کسی صحابی پر اس کا اطلاق جائز نہیں“۔(بہارشریعت حصہ اول ص ۰۶۲-مجلس المدینۃ العلمیہ)

اب سوال یہ ہے کہ کیا لفظ باغی کی طرح ارباب فضل وکمال کے لیے لفظ خطا کابھی استعمال نہیں ہونا چاہئے،گرچہ لفظ خطا سے وہاں گناہ مراد نہ ہو،بلکہ بھول چوک،سہوونسیان وغیرہ مراد ہو۔ فقہا ئے اسلام اس بارے میں حکم شرعی کی وضاحت فرمائیں،تاکہ عوامی شوروہنگامے بند ہوں۔دوملک ہنگاموں کی لپیٹ میں ہے۔

ہندوپاک میں اردو زبان مروج ہے۔اردو کے مشہور لغت فیروز اللغات میں لفظ خطا کے متعددمعانی مرقوم ہیں۔یہ مشترک لفظ ہے۔ اردوزبان میں غلطی، سہو،بھول، چوک کے معنی میں اس کا استعمال مشہور ہے۔

لفظ خطا کے معانی:

(۱)قصور،گناہ، جرم، تقصیر (۲)غلطی،سہو، بھول،چوک۔(فیروز اللغات:فصل خ ط)

جب فریق دوم خطائے اجتہادی مراد لینے پر معترض ہے توخطائے اجتہادی مراد نہ لیا جائے،توبھی حدیث نبوی کی عدم معرفت، اور آیت قرآنیہ میں استحقاق وراثت کے اعتبار سے حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا باغ فدک کا مطالبہ حقیقت میں عدم معصیت ہے، گرچہ ظاہری اعتبار سے وہ تسامح ہو۔

لفظ خطا سے احتراز کے طورپرلفظ تسامح استعمال ہوا۔اس سے بہتر کوئی لفظ ہوتو اسی کا استعمال کیا جائے۔ یہاں مسئلہ کی تفہیم مقصود اصلی ہے،نہ کہ کسی خاص لفظ کا استعمال۔لفظ تسامح اہل فضل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

آمدم برسر مطلب

اگر ارباب فضل وکمال کے حق میں معنی دوم کی تعبیر کے لیے لفظ خطا کا استعمال عرف میں معیوب سمجھا جاتا ہو تو لفظ میں تبدیلی کر کے شایان شان لفظ کا استعمال ہو،مثلاً تسامح،یا اس سے بھی بہتر تعبیر تلاش کی جائے۔

چوں کہ یہاں لفظ خطا کے معنی میں عدم معصیت کا مفہوم ملحوظ ہے تو متکلم نے اسی عدم معصیت کی وضاحت کے واسطے بعد میں کہا:”بے خطابے گناہ سیدہ طاہرہ“۔اس سے متکلم کا اعتقادحق بھی واضح ہوگیا۔

خطاکا یہ معنی دوم عند الشرع معصیت نہیں ہے تو اگر متکلم نے اس کی نسبت کسی معظم دینی کی طرف کردی تو ان کی طرف معصیت کی نسبت کرنا ثابت نہیں ہوا،بلکہ عدم معصیت کی نسبت کرنا ثابت ہوا،کیوں اس کے مفہوم میں عدم معصیت ملحوظ ہے، اوراہل فضل کی طرف عدم معصیت کی نسبت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

لفظ خطا کے استعمال پر صرف عرفی طورپر اعتراض ہوگا،شرعی طورپرنہیں۔چوں کہ یہ لفظ عرفاً معیوب سمجھا گیا تو متکلم نے اس کوبدل کر اس طرح کر دیا: ”سیدہ معصومہ نہیں اور ابوبکر ظالم نہیں“۔

اب عرفی طورپر بھی اعتراض کی گنجائش باقی نہ رہی۔اگر بیان اول میں لفظ خطا کے استعمال کے سبب کسی کی دل آزاری ہوئی ہوتو ان سے معذرت خواہی مناسب ہے،لیکن یہاں کوئی شرعی حکم وارد نہیں ہوتا۔

مفہوم سوم یعنی خطائے اجتہادی مراد لینا صحیح ہے یانہیں؟

(2)فریق دوم لفظ خطا سے خطائے اجتہادی مراد لینے پرمعترض ہے اور اس بات کا مدعی ہے کہ سیاق کلام یعنی قرینہ لفظ خطا کے مفہوم کو متعین کررہا ہے،اورماقبل کلام میں جس خطا کا ذکر ہے،وہ خطائے اجتہادی نہیں، بلکہ وہ خطا ہے،جس سے غیرمعصوم محفوظین محفوظ قراردئیے جاتے ہیں،جب کہ خطائے اجتہادی کا صدورمحفوظین سے بھی ہوتا ہے۔(ملخصا)

جواب:دراصل لفظ خطا کسی مفہوم میں متعین ومفسر نہیں۔اس میں متعددمعانی کا احتمال موجودہے۔

اس کے معنی کے تعین کے لیے قرینہ یا بیان متکلم کی ضرورت درپیش ہوگی۔فریق دوم نے قرینہ کا لحاظ کیا اورفریق اول نے اپنا بیان قطعی جاری کیا۔ یہاں متکلم نے صریح ومفسر لفظوں میں باربار کہا کہ خطا سے ہماری مراد خطائے اجتہادی ہے۔ ان کا یہ بیان،بیان قطعی بالمعنی الاخص ہے۔اس کے بالمقابل قرینہ کو ترجیح حاصل نہیں ہو سکتی،گرچہ یہاں قرینہ کو قطعی بالمعنی الاعم بھی مان لیا جائے۔

بیان کبھی ظنی،کبھی قطعی بالمعنی الاعم اور کبھی قطعی بالمعنی الاخص ہوتا ہے۔ قرینہ کبھی ظنی اور کبھی قطعی بالمعنی الاعم ہوتا ہے۔ قرینہ قطعی بالمعنی الاخص نہیں ہوتا،کیوں کہ وہاں یہ احتمال بعید موجود ہوتاہے کہ متکلم کی مراد وہ نہ ہوجو قرینہ سے ظاہر وثابت ہورہاہے۔مسئلہ حاضرہ میں سیاق کلام قرینہ ہے اور خطائے اجتہادی مراد ہونا متکلم کے بیان قطعی بالمعنی الاخص سے ثابت ہوا۔

جب بیان قطعی بالمعنی الاخص اورقرینہ میں تعارض ہوتو بیان قطعی بالمعنی الاخص کوترجیح حاصل ہوگی،کیوں کہ قرینہ کبھی ظنی اور کبھی قطعی بالمعنی الاعم ہوتا ہے۔اگر یہاں قرینہ کو قطعی بالمعنی الاعم بھی مان لیا جائے توبھی وہ بیان قطعی بالمعنی الاخص کے مقابلے میں ترجیح نہیں پا سکے گا،کیوں کہ قطعی بالمعنی الاعم اورقطعی بالمعنی الاخص میں تعارض ہو تو قطعی بالمعنی الاخص کو ترجیح حاصل ہوگی۔

اصول فقہ کی اصطلاح کے اعتبارسے اس طرح کہا جائے گا کہ مفسر کے مقابلے میں نص موجودہوتو مفسرکوترجیح ہوگی،کیوں کہ نص میں جانب مخالف کا احتمال بعیدہوتا ہے،اور مفسر میں جانب مخالف کا احتمال بعید بھی نہیں ہوتا،لہٰذا مفسرراجح قرارپائے گا۔

قرینہ اوربیان قطعی کی تفصیلی بحث ”البرکات النبویہ“رسالہ دہم (باب سوم:فصل چہارم)میں ہے۔

ضروریات دین اورتکفیرکلامی کے باب میں بیان قطعی بالمعنی الاخص کا اعتبار ہوگا۔قرینہ قطعی الاخص نہیں ہوتا،اس لیے ضروریات دین اور باب تکفیرکلامی میں قرینہ کا اعتبار نہیں ہوگا۔

قال الغزالی(450-505):}قال تعالٰی:(ہٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ)وَاَرَادَ بِہٖ القُراٰنَ-وَعَلٰی ہٰذَا فَبَیَانُ الشَّیءِ قَد یکون بعباراتٍ وُضِعَت بِالاِصطِلَاحِ-فَہِیَ بَیَانٌ فِی حَقِّ مَن تَقَدَّمَت مَعرَفَتُہٗ بِوَجہِ المُوَاضَعَۃِ-وَقَد یکون بالفعل والاشارۃ والرَّمزِ-اِذِ الکُلُّ دَلِیلٌ وَمُبَیِّنٌ-وَلٰکِن صَارَ فِی عُرفِ المُتَکَلِّمِینَ مَخصُوصًا بالدلالۃ بالقول-فَیُقَال لہ:”بیان حسن“ اَی کَلَامٌ حَسَنٌ رَشِیقُ الدَّلَالَۃِ عَلَی المَقَاصِدِ{(المستصفٰی للغزالی جلداول ص 366)

توضیح:منقولہ بالا عبارت سے واضح ہوگیا کہ متکلمین کے یہاں صرف قول کے ذریعہ بیان واقع ہوتا ہے۔فعل،اشارہ،رمزوغیرہ قرینہ ہیں۔قرینہ قطعی بھی ہوتو قطعی بالمعنی الاخص نہیں ہوتا اور ضروریات دین اورتکفیر کلامی کے باب میں قطعی بالمعنی الاخص دلیل کی ضرورت ہوتی ہے،پس ضروریات دین اور تکفیرکلامی کے باب میں قرینہ کے ذریعہ معنی کا تعین نہیں ہوسکتا۔

قرینہ کبھی ظنی ہوتا ہے اورکبھی قطعی بالمعنی الاعم۔جب قرینہ قطعی بالمعنی الاخص نہیں ہوتا توضروریات دین اور تکفیر کلامی کے باب میں قرینہ کااعتبار نہیں ہوگا۔ اسی طرح قرینہ کبھی بیان قطعی بالمعنی الاخص کے بالمقابل راجح قرارنہیں پائے گا،مثلاً قطعی قرینہ بتارہا ہے کہ یہاں متکلم کی مراد کفری معنی ہے، لیکن بیان قطعی بالمعنی الاخص اس کے خلاف ہے تو بیان قطعی کا لحاظ ہوگا۔

اشخاص اربعہ کا کفری کلام، کفری معنی میں متعین اور مفسر یعنی کفری معنی میں قطعی بالمعنی الاخص ہے، اسی لیے تاویل قبول نہیں کی گئی۔ وہاں کسی قرینہ کے سبب کفری معنی کا تعین نہیں ہواتھا،بلکہ خود کلام کفریہ معنی میں مفسر ومتعین تھا۔مفسرکلام میں قرینہ یا بیان کا لحاظ نہیں ہوتا، بلکہ کلام کے متعین معنی کے اعتبارسے حکم جاری ہوتا ہے۔ محتمل کلام میں قرینہ یا بیان کا لحاظ ہوتا ہے۔

مسئلہ حاضرہ میں لفظ خطا متعددمعانی کا احتمال رکھتاہے۔جب فریق دوم نے بھی معنی کی وضاحت کے لیے قرینہ اور سیاق کلام کو دلیل بنایا تو اس کے یہاں بھی لفظ خطا محتمل ہے۔اب متکلم کا قطعی بالمعنی الاخص بیان آگیا تو قرینہ کا لحاظ نہیں ہوگا،بلکہ بیان قطعی بالمعنی الاخص کے سبب لفظ خطا سے خطائے اجتہادی مراد ہوگی۔

اگر خطائے اجتہادی،لفظ خطا کا معنی نہ ہوتی،تب متکلم کے بیان قطعی بالمعنی الاخص کا لحاظ نہیں ہوتا،کیوں وہ ایسے معنی کا بیان ہوجاتا کہ لفظ جس کا احتمال ہی نہیں رکھتا،لیکن یہاں لفظ خطا کا ایک معنی خطائے اجتہادی ہے تو متکلم کے بیان قطعی بالمعنی الاخص سے وہ معنی متعین ہوجائے گا اورقرینہ کی دلالت کا لحاظ نہیں ہوگا،کیوں کہ بیان قطعی بالمعنی الاخص کے بالمقابل قرینہ مرجوح ہوگا،گرچہ قرینہ قطعی بالمعنی الاعم بھی ہو۔

فریق دوم کی تعبیر بہت عمدہ

فریق دوم نے کہا کہ حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مطالبہ قرآن مجید کے موافق تھا،لہٰذا وہ حق پر تھیں اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا منع فرمانا حدیث کے موافق تھا،لہٰذا وہ بھی حق پرتھے،یعنی اس باب میں دونوں حق پر تھے۔ یہ عمدہ تعبیر ہے اورعوامی خلفشار سے بچنے کی عمدہ راہ ہے۔ دراصل عہد حاضر میں ہمیں حقانیت کے ساتھ ان راہوں کی تلاش اور ان تعبیرات کالحاظ کرنا ہوگا،جس سے بدمذہبیت فنا ہوسکے۔ کئی سالوں سے رافضیت کا قدم اہل سنت وجماعت کی طرف بڑھتا جارہا ہے۔ہمیں متحدومتفق ہوکر اس پربند باندھنا چاہئے۔

امکان وقوعی کی بحث

فریق دوم نے متکلم کے امکان وقوعی والی بحث پر جو کلام کیا ہے،اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب متکلم نے عہد ماضی میں تمام ممکن امور کے لیے امکان وقوعی،بلکہ ضرورت ودوام ثابت مان لیا تو تمام غیرمعصومین کے لیے تمام گناہ اور کفر و ارتداد بھی ممکن ہے تو اس اعتبار سے عہد ماضی کے تمام غیرمعصومین کا معاذاللہ کفروشرک وغیرہ میں مبتلا ہونا ثابت ہوگیا اورایسا قول کرنا مفضی الی الکفر ہے،لہٰذا متکلم پر کفرلزومی کاحکم عائد ہوتا ہے۔ (ملخصا)

جواب: صفات الٰہیہ اورصفات بندگان الٰہی میں فرق

(1)اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری نے امکان کی جوبحث فرمائی۔ (فتاویٰ رضویہ:ج15ص 345-346) وہ بحث اللہ تعالیٰ کی صفات سے متعلق ہے۔ وہ بحث بندوں کی صفات پر منطبق نہیں ہوسکتی۔ صفات الٰہیہ اور بندوں کی صفات میں بہت فرق ہے۔

اللہ تعالیٰ کی تمام صفات،صفات کمالیہ ہیں۔(فتاویٰ رضویہ:ج15ص349)تمام صفات بالفعل حاصل ہیں،بلکہ واجب بالذات ہیں۔(فتاویٰ رضویہ:15ص348)

اگر کسی صفت کے بارے میں کہا جائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے،لیکن حاصل نہیں ہے تواس سے لازم آئے گا کہ کوئی صفت کمال رب تعالیٰ سے متخلف ہے،اوراس کے علاوہ مزیددیگرنقص لازم آئیں گے۔

(فتاویٰ رضویہ:15ص 348)

اسی طرح اگرکوئی صفت بالفعل حاصل نہ ہوتوجب حاصل ہوگی، تب ذات الٰہی میں تغیرپایا جائے گا اور ذات الٰہی میں تغیرمحال ہے۔ (فتاویٰ رضویہ:15ص347)

دیوبندیوں کے عقیدۂ امکان کذب کارد کرتے ہوئے امام احمد رضانے فرمایا کہ بقول دیابنہ جب کذب اللہ تعالیٰ کے لیے ممکن ہے تو یہ ثابت بھی ہوگا،بلکہ بالفعل اوردائمی وضروری طورپرثابت ہوگا،کیوں کہ اگرکلام لفظی میں کذب ہوتو کلام نفسی میں بھی کذب ہوگا اور جب کلام نفسی میں کذب ہوتووہ بالفعل،دائمی اورضروری ہو گا۔

کلام لفظی میں اسی وقت کذب کا ثبوت ہوگا،جب کلام نفسی میں کذب کا ثبوت ہو،کیوں کہ کلام نفسی مدلول ہے اورکلام لفظی دال ہے۔دال اسی کوبیان کرتا ہے جوکچھ مدلول میں ہوتا ہے۔

اگر کلا م نفسی میں کذب نہ ہو تو کلام لفظی میں کذب کا ہونا محال ہوگا،کیوں کہ کلام لفظی دال ہے اور کلام نفسی مدلول ہے۔کلام لفظی میں کذب پایا جائے اور کلام نفسی میں نہ پایا جائے تو مدلول کے وجود کے بغیر دال کا وجود پایا گیا اوریہ محال ہے۔جیسے آئینہ کے سامنے کوئی جسم ہوتو آئینہ میں اس کا عکس آئے گا۔جب آئینہ کے بالمقابل کوئی جسم نہ ہو تو آئینہ میں کوئی عکس نہیں آئے گا۔وہی حال دال اورمدلول کا ہے۔

اسی طرح دال کاذب ہونا،اورمدلول کاصادق ہونا بھی محال ہے۔کیوں کہ دال اسی کو بیان کرتا ہے جو مدلول میں ہو۔جب مدلول میں کذب نہیں تودال میں بھی کذب نہیں ہوگا۔الحاصل جب کلام لفظی میں کذب ہو تو کلام نفسی میں بھی کذب ثابت ہوگیا اور کلام نفسی،ازلی،ابدی، واجب للذات اور مستحیل التجددہے۔

کلام نفسی میں بالفرض اگر کچھ کذب ہے (یہ مفہوم فعلیت ہے)تو ہمیشہ کذب ہی رہے گا (یہ مفہوم دوام ہے) اور وجوبی طورپر وہ کذب رہے گا (یہ مفہوم ضرورت ہے)۔مستحیل التجددہونے کا یہی مفہوم ہے۔

پس کلام لفظی میں امکان کذب ماننے سے(معاذ اللہ عن ذلک) رب کوبالفعل کاذب ماننا اور کلام نفسی میں کذب کو بالفعل ماننا اور اس کذب کادائمی وضروری ہونا ثابت ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ یہ سب الزامی مباحث ہیں جوکسی باطل کے بطلان کوواضح کرنے کولکھ دئیے جاتے ہیں۔ اہل سنت وجماعت کا عقیدہ امکان کذب کے دھبہ سے بھی پاک ہے۔(اعاذنا اللہ تعالیٰ من سوء الاعتقاد)

امام اہل سنت وجماعت نے فتاویٰ رضویہ (ج15ص345-346)میں جورقم فرمایا۔اسی کی یہ توضیح ہے۔ بندوں کی صفات کے احکام الگ ہیں۔ بندوں کے لیے کوئی صفت ممکن بالذات ہوتو نہ اس سے امکان وقوعی ثابت ہوتا ہے،نہ ہی فعلیت،نہ ہی دوام،نہ ہی ضرورت۔نہ ہی وسعت،نہ ہی تکلیف،نہ ہی قدرت۔

بندگان الٰہی کی صفات کے احکام بالکل جدا گانہ ہیں۔ صفات الٰہیہ کے احکام اپنے باب تک محدود ہیں۔

بندوں کی صفات اور امکان وقوعی

(2)انسانوں کی دوقسمیں ہیں:(1)غیرمعصوم (2) معصوم۔

انسان سے کسی گناہ کا صدور محال بالذات یا واجب بالذات نہیں توممکن بالذات ہوگا۔تینوں صورتوں کا عدم نہیں ہوسکتا، یعنی نہ ممکن بالذات ہو، نہ محال بالذات،نہ واجب بالذات۔جب ثابت ہوگیا کہ انسان سے گناہ کا صدور ممکن بالذات ہے تو وہ ممکن الوقوع ہے یا نہیں؟اگر وہاں استحالہ بالغیر ہو تو امکان ذاتی ثابت ہوگا، لیکن استحالہ بالغیر کے سبب امکان وقوعی ثابت نہیں ہوگا۔

امکان وقوعی کا عدم اس وقت تک ہوگا،جب تک کہ استحالہ بالغیر باقی رہے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ استحالہ بالغیر دائمی ہو،اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ استحالہ بالغیر عارضی اورغیر دائمی ہو۔

انسان معصوم کے لیے عصمت الٰہی ثابت ہے اوریہ دائمی طورپر ثابت ہے تو انسان معصوم سے گناہ کے صدور کا امکان وقوعی دائمی طورپر معدوم ومسلوب ہوگا۔

انسان غیرمعصوم سے گناہ کے صدور کا امکان ذاتی اور امکان وقوعی دونوں ثابت ہیں اور جب استحالہ عارضی بھی ثابت نہ ہوتو امکان وقوعی دوام،ضرورت اور فعلیت کے ساتھ ثابت ہوگا،لیکن امکان وقوعی کے دائمی، ضروری اور بالفعل ہونے سے کسی گناہ کا صدور ثابت نہیں ہوجاتا۔

میرے پاس سوروپے ہیں اور میں مٹھائی کی دوکان میں موجود ہوں،اور مٹھائی خریدنے سے کوئی امر مانع نہیں تو میں مٹھائی خرید نے پر بالفعل قادر ہوں۔یہاں قدرت کا امکان ذاتی اور امکان وقوعی فعلیت کی صفت کے ساتھ موجود ہے تو اس سے مٹھائی خرید نا ثابت نہیں ہوجاتا۔جب خریدوں گا،تب خریدنا ثابت ہوگا۔

بندگان الٰہی احکام خداوندی کے مکلف ہیں تو مکلف ہونے کی تین شرطیں ہیں۔ جب بندہ کسی امر کا مکلف ہے تووہ امر ممکن بالذات ہو، ممکن الوقوع بھی ہو، اور بندہ کی وسعت وقوت میں بھی ہو۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:}لا یکلف اللّٰہ نفسا الا وسعہا{(سورہ بقرہ:آیت286)

اس فعل کے صدور کے لیے مزید ایک چوتھا امر چاہئے،جس کو استطاعت کہا جاتا ہے۔ علم کلام کی کتابوں میں استطاعت مع الفعل کی بحث دیکھ لیں۔ کسی امر کے ممکن الوقوع ہونے سے اس کا صدور کیوں کر ہوگا۔

فعل کے ممکن الوقوع ہونے کے ساتھ فاعل کے اندر وسعت (سلامت اسباب وآلات)اور استطاعت (حقیقت قدرت جس سے فعل واقع ہو)چاہئے۔

الحاصل کوئی گناہ ممکن بالذات ہو، یا ممکن وقوعی۔گناہ کے امکان ذاتی یا امکان وقوعی کے ثبوت سے کوئی حکم بندوں پرعائد نہیں ہو گا۔ جب بندوں سے کسی گناہ کا صدور ہوگا،تب حکم عائد ہوگا۔

فعل کے صدور کے باوجود بعض شرطیں ایسی ہیں کہ ان کے فقدان وقت حکم صادر نہیں ہوگا،مثلاً مکرہ ومجبور نے توحید الٰہی کا زبان سے انکار کردیا اوردل میں تصدیق باقی ہے تواس پر حکم کفر عائد نہیں ہوگا۔

لزوم کفر کب ثابت ہوتاہے؟

(3) متکلم نے یہ کہا ہے کہ عہدماضی میں کسی امر کا امکان تھا تو عہدماضی اورزمان حال میں اس کاامکان وقوعی تسلیم کیا جائے گا اور مستقبل کا حکم الگ ہے۔فریق دوم نے امکان وقوعی سے اس امر کا صدور وظہور مراد لے لیا،حالاں کہ امکان وقوعی تسلیم کرنے سے فعل کا صدور ثابت نہیں ہوتا۔

اگربالفرض امکان وقوعی سے فعل کا صدور مراد لیاجائے تو فریق دوم کے استدلال کے اعتبار سے غیر معصومین کے لیے جہاں کفر وارتداد کا ثبوت ہو جائے گا،وہیں قطبیت وغوثیت اورولایت ومعرفت اور ایمان وعمل صالح کا بھی ثبوت ہوجائے گا اوریہ معلوم ہے کہ ایمان وکفر دومتضاد امر ہیں،دونوں ایک ہی انسان کے لیے بیک وقت ثابت نہیں ہو سکتے تو یہاں اجتماع متضادین کے محال ہونے کے سبب کسی ایک ہی کا ثبوت ہوگا۔

اب ان دونوں متضادین میں سے کس کا ثبوت مانا جائے؟کسی کو ترجیح دینے کا کوئی سبب ظاہر نہیں۔

جب دونوں امور متعارض ہیں اور سبب ترجیح موجود نہیں تو جس اعتبارسے ثبوت مانا گیا تھا،اس اعتبارسے دونوں کو ساقط الاعتبار ماننا ہوگا، اور پھر صدور حقیقی کے اعتبار سے کلام ہوگا کہ جس نے حقیقت میں ایمان لایا،وہ مومن ہے اورجس سے حقیقی طورپر کفر صادر ہوا،وہ کافر ہے۔

واضح رہے کہ یہ محض ایک بحث ہے،ورنہ متکلم نے نہ تمام غیرمعصومین کا ذکر کیا ہے،نہ ہی غیرمعصومین کے ایمان وکفر کی بات کی ہے۔فریق دوم نے بھی اقرارکیا کہ متکلم نے یہ سب کہا نہیں ہے،لیکن اس کے قول سے ایسا لازم آتا ہے، اوریہ حوالہ دیا کہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے بھی دیابنہ کے امکان کذب کے قول اوراللہ تعالیٰ کے ہرشئ پر قادر ہونے کے قول پر بحث کرتے ہوئے لازم آنے والے بہت سے امور کا ذکر کیا ہے،تاکہ قول کی شدت کو واضح کیا جاسکے۔

لیکن فریق دوم نے یہ نہیں دیکھا کہ دیابنہ نے جوکچھ کہا تھا،صرف اسی پراعلیٰ حضرت نے حکم شرعی بیان فرمایا،گرچہ بہت سے لازم آنے والے مفاسد کا ذکر فرمایا،جب کہ یہاں فریق دوم نے ان امور پر حکم شرعی کی بنیادرکھی،اورمتکلم پر کفرلزومی کا حکم عائد کر دیا، جن کو متکلم نے بیان ہی نہ کیا تھا، نہ صراحتاً،نہ کنایۃً۔گرچہ فریق دوم کی فہم ثاقب کے مطابق وہ امورثابت ہورہے ہوں۔

جب کسی کلام سے کسی ضروری دینی کا التزامی انکار ثابت ہوتا ہے تو اس کے قائل پرکفرکلامی کا حکم عائدہوتا ہے،اور کسی کلام سے ضروری دینی کا لزومی انکار ثابت ہوتا ہے تواس کے قائل پرکفر فقہی کا حکم ہوتا ہے۔

متکلم کے کلام میں نہ کسی ضروری دینی کا انکار ہے، نہ ضروریات اہل سنت میں سے کسی امر کا انکار ہے،پھر متکلم پرحکم کفر کیسے؟

نہ متکلم کے کلام سے التزامی طورپرمومنین کا کافرہونا ثابت ہوتا ہے،نہ لزومی طورپر،پھر متکلم پر حکم کفرکیسے؟

فریق دوم نے لزوم کفر کی جوتوضیح کی،اس کا خلاصہ یہ ہے کہ متکلم نے ایک قول کیا،جس سے ایک دوسراقول لازم آیا، اب اس دوسرے قول کے اعتبارسے متکلم پر کفر لزومی کا حکم عائد ہوا۔متکلم نے کہا کہ عہد ماضی میں جس امر کاامکان ذاتی ہو، اس کا امکان وقوعی ثابت ہوتا ہے۔

اس پرفریق دوم کے نقدوجرح کا خلاصہ یہ ہے کہ: عہد ماضی میں تمام غیر معصومین سے کفر وشرک کا صدور ممکن تھا اور جب صدور ممکن تھا تو بقول متکلم اس کفر وشرک کا صدورثابت ہوا،جب سب کا کفروشرک ثابت ہوا،تو اس سے عہد ماضی کے مومنین کا کافر ہونا ثابت ہوا،اور جس قول سے مومنین کا کافرہونا لازم آئے،وہ قول خود کفریہ ہوگا اور قائل پر لزومی کفر کا حکم ہو گا۔

فریق دوم کویہ یاد رکھنا چاہئے کہ متکلم نے جو کلام کہا ہے۔خوداس کلام سے لزومی یا التزامی کفر ثابت ہوگا،تب متکلم کوئی حکم شرعی وارد ہو گا۔متکلم کے قول سے کوئی دوسرا قول لازم آئے،پھر اس قول لازم سے کفر لازم آئے تو قول لازم سے یہ کفر لازم آیا۔متکلم کے قول سے کفرلازم نہ آیا۔جب متکلم کے کلام سے کفر لازم نہ آیا تو اس پر حکم کفر کیوں کرہوگا؟

کیا امکان ذاتی امکان وقوعی کو مستلزم ہے؟

متکلم کا قول کہ عہد ماضی میں امکان ذاتی کے ثبوت سے امکان وقوعی کا ثبوت ہوجاتا ہے۔

یہ اسی وقت ہوگا،جب استحالہ بالغیر معدوم ہو،ورنہ ممکن بالذات کے لیے جس عہدمیں بھی امتناع بالغیر ثابت ہوگا، اس عہدمیں امکان وقوعی ثابت نہیں ہوگا۔

حاشیہ کلنبوی کی عبارت:}فالامکان الوقوعی انما یستلزم وقوع الطرف الممکن بالفعل بالقیاس الی الزمان الماضی اوالحال،لا الاستقبال{ (حاشیۃ الکلنبوی علیٰ شرح الدوانی علی العضدیہ)

منقولہ بالا عبارت میں طرف ممکن سے طرف وجود مراد لینا محل نظر ہے۔طرف عدم بھی مراد ہوسکتی ہے۔

ممکن بالذات میں طرف وجود اور طرف عدم دونوں طرف ممکن بالذات ہوتی ہے۔اب اگر طرف عدم ممکن الوقوع ہو،اور طرف وجود ممکن بالذات اورمحال بالغیر ہو،تو یہاں طرف عدم ممکن الوقوع بالفعل ہوگی، کیوں کہ طرف وجود محال بالغیر ہونے کے سبب معدوم ہے تو اگر طرف عدم بھی معدوم ہوتو وجود وعدم دونوں کا معدوم ہونا لازم آئے گا،اور ارتفاع نقیضین لازم آئے گا،پس جب اس ممکن کا وجود نہیں تو عدم ثابت ہوگا، پھریہاں طرف ممکن الوقوع سے طرف وجود مراد لیناکیوں کر صحیح ہوگا؟

ہاں،جب ممکن کی جانب وجود وجانب عدم میں سے کسی جانب استحالہ بالغیر نہ ہوتودونوں جانب ممکن الوقوع ہوں گی،لیکن محض ممکن الوقوع ہونے کے سبب کسی ایک جانب کا بالفعل ہونا ثابت نہ ہوگا،گرچہ کوئی ایک جانب وہاں بالفعل ثابت ہوگی،ورنہ ارتفاع نقیضین لازم آئے گا، مگر جانب ثابت کے ساتھ جانب غیر ثابت کا امکان وقوعی ثابت ہوگا،کیوں کہ جانب غیر ثابت میں استحالہ بالغیر نہیں ہے۔ہاں،دونوں جانب،یعنی جانب وجو د وجانب عدم دونوں بیک وقت موجود بالفعل یعنی بالفعل ممکن الوقوع نہیں ہوگی۔

سوال: جب کسی کے لیے جانب ایمان ثابت ہے تو جانب ایمان کے ثبوت کے وقت جانب کفر کا ثبوت محال ہے،ورنہ اجتماع نقیضین لازم آئے گا،تو ثبوت ایمان کے وقت ثبوت کفر ممتنع بالغیر ہونا چاہئے۔

جواب: جانب ایمان کے ثبوت کے وقت جانب کفر کا ممکن الوقوع ہونا ثابت ہے،ممکن الوقوع بالفعل ہونا ثابت نہیں۔ممکن الوقوع بالفعل ہونا اسی وقت ثابت ہوگا،جب ایمان کا زوال ہوجائے،نیز ایمان ممکن الزوال ہے۔ جب ایک طرف ممکن الزوال ہوگی تو طرف ثانی ممکن الوجود اور ممکن الوقوع ہوگی،گرچہ ممکن الوجود بالفعل یعنی بالفعل موجود نہ ہو۔ارباب منطق توجہ فرمائیں اور متکلم بھی نظر ثانی فرمائے۔

رب تعالیٰ کے وعدۂ عصمت کے سبب معصوم کے لیے گناہ محال بالغیر ہوگا،ورنہ کذب کلام الٰہی لازم آئے گا،اوریہ محال بالذات ہے۔ محفوظ عن الخطا کے لیے حفاظت ثابت ہے تو اس کا مفہوم یہ ہوگاکہ گناہ کا صدور نہیں ہو گا،یعنی گناہ ممکن بالذات اورممکن الوقوع ہوگا، لیکن ممکن الوقوع بالفعل نہیں ہوگا،کیوں کہ وہ حفاظت الٰہی میں ہے۔ان شاء اللہ تعالیٰ عصمت وحفاظت کے مفہوم شرعی پر غور وفکر کے بعد حسب ضرورت مزید تفصیل رقم کی جا سکتی ہے۔یہاں محض منطقی الفاظ واصطلاحات کے اعتبارسے کلام ہے:واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

مناظرہ اور افتا کے احکام

متکلم کا بیان اول جس میں لفظ خطا کا ذکر ہے۔وہ ایک رافضیہ عورت کی بدگوئی کے جواب میں تھا،اس لیے اس کا شمار مناظرانہ مباحث میں ہوگا،اور ارباب فقہ وافتا پر واضح ہے کہ مناظرانہ مباحث کے وہ احکام نہیں جو عام مباحث اورعام کلمات کے احکام ہیں۔بحث ومناظرہ میں بیان کردہ الزامی جوابات کو اعتقادپر محمول نہیں کیا جاتا۔

امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کے رسالہ ”القمع المبین فی آمال المکذبین“(فتاویٰ رضویہ جلد 15ص 470تا472-ص511-جامعہ نظامیہ لاہور)کے اخیر میں مناظرانہ مباحث کے احکام مرقوم ہیں۔ اسی طرح فتاویٰ رضویہ جلد15ص 514 تا519میں بحث ومناظرہ کے احکام مرقوم ہیں۔مناظرہ اور افتا کے احکام جداگانہ ہیں۔مسئلہ حاضرہ میں اس کا بالکل لحاظ نہیں کیا گیا۔

ہاں، جب مناظر سے ان کا اعتقاد دریافت کیاجائے تو اعتقاد صحیح کوبیان کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح مناظرا تی مباحث میں از روئے شرع قابل گرفت جملوں کا علم وادراک ہونے پر اس سے توبہ ورجوع لازم ہے۔ خواہ خودسے اس جانب متوجہ ہو،یاکسی کے توجہ دلانے پر اپنی خطا کا علم ہو۔چوں کہ مسئلہ حاضرہ میں متکلم کے جملوں میں تاویل صحیح کی گنجائش موجود ہے،اس لیے نہ فقہا کے اصول کے اعتبارسے کوئی حکم عائد ہوتاہے،نہ ہی متکلمین کے اصول کے اعتبار سے۔ لفظ خطاکے معانی اور امکان وقوعی کا مفہوم ماقبل میں مرقوم ہوا۔

متکلم کا حکم شرعی

متکلم لزوم کفر یا بے ادبی کے جرم سے بری ہے۔بے ادبی کا جرم اس لیے ثابت نہیں کہ متکلم نے بیان اول میں خطا سے اجتہادی خطا مراد لی ہے اور ارباب فضل وکمال کی طرف خطائے اجتہادی کی نسبت بے ادبی نہیں۔

لزوم کفر اس لیے ثابت نہیں کہ متکلم کے کلام سے مومنین کا کافر ہونا لازم نہیں آتا،بلکہ کسی ایسے قول سے مومنین کا کفر لازم آتا ہے جو متکلم نے کہا نہیں ہے:واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

مندرجہ ذیل سوالات کوحل فرمائیں،تاکہ مستقبل میں انتشارواختلاف ختم ہوسکے:

(1)غیرمعصومین کے لیے بوجہ ضرورت لفظ خطا کے مطلق استعمال کا حکم شرعی کیا ہے؟

(2)غیرمعصومین کی طرف بوجہ ضرورت صدور گناہ کی نسبت کا کیا حکم ہے؟

(3)آداب وتوقیر کے باب میں ”مومن بہ“اور غیر مومن بہ کا حکم یکساں ہے یا مختلف؟

”مومن بہ“وہ ہے جس پر ایمان لاکر آدمی مومن ہوتا ہے۔ان میں ذات وصفات الٰہی،کتب خداوندی، حضرات انبیاوملائکہ علیہم الصلوٰۃوالسلام، فرائض اربعہ،قیامت وامورآخرت وجملہ ضروریات دین شامل ہیں۔

(4)کیا حضرات صحابہ کرام واہل بیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین بھی ”مومن بہ“ہیں؟

ارشادالٰہی ہے:}اٰمنت باللّٰہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ لا نفرق بین احد من رسلہ{(سورہ بقرہ)

(5)”مومن بہ“کی بے ادبی کفر ہے،کیوں کہ وہ تصدیق وایمان کے منافی ہے۔

غیر مومن بہ یعنی مومنین کی توہین وبے ادبی حرام وناجائزہے یا کفر ہے؟

واضح رہے کہ مومنین کی بے ادبی ایمان یا خداورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کی نسبت سے کی جائے تو اس کا حکم بدل جائے گا،مثلاً زید کو کسی ذاتی دشمنی کے سبب قتل کرنا حرام ہوگا،لیکن زید کو اس لیے قتل کیا کہ وہ مسلمان ہے تو محض ایمان واسلام کے سبب زیدکوقتل کرنا کفر ہوگا۔کسی دوسرے سبب سے قتل مومن کفر نہیں۔

مومن کے حکم میں دوحیثیت کا لحاظ ہوسکتا ہے،یعنی ایک اس کی ذاتی حیثیت کے لحاظ سے حکم شرعی،اور ایک نسبتی حیثیت یعنی ایمان واسلام کی نسبت سے خاص شرعی حکم۔ نسبت کے سبب وارد ہونے والا حکم سخت ہوگا۔

کسی صحابی کی ذاتی حیثیت کے اعتبار سے حکم شرعی اورپھر صحبت نبوی کے سبب خاص حکم شرعی، مثلاً کسی صحابی کی توہین کرنے کا حکم الگ ہوگا،اور صحابی رسول ہونے کی حیثیت سے ان کی توہین کا حکم الگ ہوگا۔

”مومن بہ“کے حکم میں دوحیثیت ملحوظ نہیں ہوگی،مثلاً ایک حکم نبی ہونے کے اعتبارسے ہو،اورایک حکم محض انسان ہونے کے اعتبارسے ہو۔وہاں ان کی حیثیت خاصہ ہی کا لحاظ ہوگا،اور حکم میں سختی ہوگی۔ان کی بے ادبی،ایذا،بدگوئی،ان پرظلم،ان کا قتل وغیرہ تمام امورمیں ان کو نبی کی حیثیت سے ملحوظ کرکے مجرم پرحکم عائدہوگا۔

(6)حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعدتمام بنی آدم میں سب سے افضل حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ،ان کے بعد حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ،ان کے بعد سب سے افضل حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ توہین وبے ادبی سے بڑا جرم قتل ہے۔سوال یہ ہے کہ قاتلین خلیفہ سوم، مومن ہیں یاکافر؟ اہل سنت وجماعت سے خارج ہیں یا داخل ہیں اور محض گنہ گار ومرتکب حرام؟

(7)بعض قول کے مطابق خواص بشر خواص ملائکہ وعوام ملائکہ سے افضل ہیں اور عوام بشر عوام ملائکہ سے افضل ہیں،یعنی حضرات انبیاومرسلین علیہم الصلوٰۃوالسلام،مرسلین ملائکہ علیہم السلام ودیگر ملائکہ سے افضل ہیں، اور غیر نبی بشر،غیرمرسل ملائکہ سے افضل ہیں،اس اعتبارسے حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم عام ملائکہ (غیرمرسل ملائکہ)سے افضل ہوئے۔اس افضلیت کے باوجودکسی صحابی یا صدیق وفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی توہین کفر نہیں اور فرشتہ کی توہین کفر ہو گی، کیوں کہ وہ ”مومن بہ“ہیں۔مومن بہ اور مومن کے احکام میں فرق ہے۔

مذکورہ بالا سوالات اس لیے مرقوم ہوئے کہ فکر روافض اہل سنت وجماعت میں داخل ہوتی جارہی ہے،اور فکر رافضیت کی بنیاد محبت میں غلواور اتباع نفس پر ہے۔اسی غلو و نفس پرستی کے سبب وہ کفر وگمرہی میں مبتلا ہوئے۔

یہ لوگ حضرات اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین میں سے بعض نفوس قدسیہ کو حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام پر فضیلت دینے لگے۔نفس پرستی ایسی عام کہ شرعی احکام کابھی کچھ پاس ولحاظ ہی نہیں۔

مذکورہ بالا سوالوں کے جواب میں ارباب فضل وکمال کے جو مراتب مذہب اسلام میں مقررہیں،ان سے آشنائی ہوگی،اور اتباع نفس سے نجات کی راہیں معلوم ہوں گی۔ ہم محکوم ہیں۔اپنی مرضی اور اپنی پسند کے اعتبار سے کوئی حکم کسی کے لیے متعین نہیں کرسکتے۔ جو حکم اسلام نے دیا ہے،اسی پر کاربند رہنا ہمارے لیے لازم ہے۔

وارد شدہ سوالوں کے جوابات مرقومہ ذیل ہیں::

ان شاء اللہ تعالیٰ آخرمیں شیعہ مذہب کے مطابق عصمت کا مفہوم

اور حضرت سیدہ طیبہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اجتہادسے متعلق بحث ہوگی،

سوال اول:

کیا اپنے قول وفعل کی صحت کا علم ہوتے ہوئے بھی،محض دفع فتنہ وفساد کے لیے مشروط توبہ کی جا سکتی ہے؟

یعنی اس طرح کہاجائے:

”اگر میرا قول وفعل عند الشرع قابل گرفت ہے تومیں نے توبہ ورجوع کیا“۔

جواب:

دفع فتنہ وفسادکے لیے سبط پیمبرمرجع الاقطاب حضرت سیدناامام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کاتب وحی حضرت سیدناامیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد فرمادی۔حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی حدیث مبارک میں اسی عمل کی تحسین فرمائی تھی،اور حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ”سید“ یعنی سردارقوم قراردیا تھا۔ ہاں،اگر مشروط توبہ کے عدم جواز پرکوئی فقہی جزئیہ موجود ہوتو اسی پر عمل کیا جائے۔

سوال دوم:

متکلم نے حضرت سیدنا پیرمہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت کی تشریح میں کہاتھا:”خطا پرتھیں“۔

ماقبل میں جس خطا کا ذکر ہے،وہ معصیت ہے،کیوں کہ ماقبل میں محفوظ عن الخطاکا ذکر ہے اور محفوظ عن لخطا معصیت سے محفوظ رہتے ہیں،نہ کہ خطائے اجتہادی سے۔ اجتہادی خطا کا صدور محفوظ عن الخطا سے ہوتا ہے، پس یہاں خطا سے اجتہادی خطا مراد نہیں ہوسکتی،بلکہ معصیت مراد ہوگی،جس سے محفوظ عن الخطا محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ متکلم کے قول ”خطا پر تھیں“ کا مفہوم ہوگاکہ معصیت پر تھیں۔اصحاب تطہیر کی طرف معصیت کی نسبت یقینا بے ادبی ہے،پھر متکلم پر بے ادبی کا حکم کیوں کرعائدنہیں ہوگا؟

جواب:

نہ کتاب (التصفیہ)میں اس مقام پر محفوظ عن الخطا کا ذکر ہے،نہ ہی متکلم کی شرح میں محفوظ عن الخطا کا ذکر ہے،پھر یہ اعتراض ہی لغو اورباطل ہے۔قسط اول میں محض فریق دوم کے اعتراض کا لحاظ کرکے جواب رقم کیا گیا ہے۔ کتاب “التصفیہ بین السنی والشیعہ”میں اس جگہ

محفوظ عن الخطا کا ذکر نہیں،بلکہ معصوم کا ذکر ہے،اور شیعوں کے اعتقاد کے مطابق ائمہ اہل بیت کے معصوم ہونے کا ذکر ہے۔وہ اہل بیت کو معصوم قراردیتے ہیں۔ شیعوں کے اعتقاد کے مطابق معصوم گناہ،بھول چوک، اجتہادی خطا اورسیاسی امورمیں خطا سے پاک ہوتے ہیں۔شیعوں کے اسی اعتقاد کا رد حضرت پیرمہر علی شاہ قدس سرہ العزیز نے فرمایا اور امکان خطا ثابت فرمایا ہے تو کتابی عبارت میں لفظ خطا سے خطا کی وہ تمام قسمیں مراد ہوں گی، عصمت کے سبب خطا کی جن قسموں کوروافض ناممکن مانتے ہیں۔اسی طرح لفظ خطا کی تعمیم کا لحاظ کرتے ہوئے خطاکی باقی ماندہ قسمیں بھی مراد ہوں گی۔

روافض کے یہاں معصوم کے لیے (۱)گناہ ومعصیت (۲)خطائے اجتہادی (۳)بھول چوک،سہو ونسیان (۴)اورسیاسی امورمیں خطا نا ممکن ہیں۔

کتاب میں لفظ خطاسے یہاں خطا کی تمام قسمیں مراد ہوں گی۔وہاں مفہوم میں تعمیم کی گئی ہے۔

تاجدار گولڑہ حضرت پیرمہرعلی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے خطا کے مفہوم میں تعمیم کے لیے ”کسی قسم کی بھی خطا“کا لفظ رقم فرمایا۔ عبارت درج ذیل ہے۔

”آیت تطہیرکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ یہ پاک گروہ معصوم ہیں اور ان سے کسی قسم کی بھی خطا کا سرزد ہونا ناممکن ہے“۔(التصفیہ بین السنی والشیعہ ص۶ ۴)

اسی عبارت کی تشریح میں متکلم نے کہا:”خطا کا امکان تھا اور خطا پرتھیں“۔

کتابی عبارت میں ”کسی قسم کی بھی خطا“کا لفظ مذکورہے۔ اس تعمیم کے باوجودکتابی عبارت میں محض معصیت مرادلینا اور خطا کی تخصیص مفہوم معصیت کے ساتھ کردینا ہرگزصحیح نہیں۔

یہ روافض کا رد ہے۔ روافض معصوم کے لیے خطا کی جن قسموں سے عصمت مانتے ہیں۔وہ تمام قسمیں یہاں مراد ہوں گی،اورلفظ کی تعمیم کا لحاظ کرتے ہوئے روافض کی بیان کردہ قسموں کے علاوہ بھی خطا کی باقی ساری قسمیں مراد ہوں گی، اور لفظ خطا ان تمام معانی کا محتمل ہوگا،جن کا احتمال لفظ خطا میں لغوی طورپر ہے۔

متکلم کی تشریح میں وارد شدہ لفظ خطا میں کن معانی کا احتمال ہے؟ اورکون سامعنی مراد ہوسکتا ہے؟

اگر متعدد معانی مراد ہوسکتے ہیں تو ان میں کس معنی کوترجیح حاصل ہے؟

در اصل متکلم کی شرح میں ہرقسم کی خطا،یعنی خطائے اجتہادی،خطائے معصیت اور خطائے غیرمعصیت (بھول چوک،سہوونسیان جومعصیت نہ ہو)،یہ تینوں معانی ایک ساتھ مرادنہیں ہوسکتے،پس کوئی ایک ہی معنی تشریح میں مراد ہوگا۔کیوں کہ محتمل اور مشترک لفظ کے چند معانی میں سے ایک ہی معنی مراد ہوتا ہے۔تفصیل درج ذیل ہے۔

(الف)اگر وہ خطا، خطائے اجتہادی ہے تو وہ معصیت یا غیر معصیت بھول چوک،سہوونسیان نہیں۔

(ب)اگر وہ خطا معصیت ہے تو وہ خطائے اجتہادی اور غیر معصیت بھول چوک،سہوونسیان نہیں۔

(ج) اگروہ خطا بھول چوک،سہوونسیان ہے تو خطائے اجتہادی اور معصیت نہیں۔

درحقیقت یہاں کتابی عبارت میں تعمیم ہے،کیوں کہ وہاں ہرقسم کی خطا کا ذکر ہے،اور تعمیم کے مفہوم کو بتانے کے لیے ”کسی قسم کی بھی خطا“کا لفظ مرقوم ہوا۔متکلم کی تشریح میں تعمیم نہیں ہے،یعنی ہرقسم کی خطا مراد نہیں اور نہ مراد ہوسکتی ہے، ور نہ ایک ہی عمل یعنی مطالبہ باغ فدک کا معصیت اورغیرمعصیت ہونا لازم آئے گا، اور ایک ہی عمل کا معصیت وغیر معصیت ہونا محال ہے اورجس سے محال لازم آئے، وہ خود بھی محال ہوتا ہے۔

دوسرا استحالہ یہاں یہ ہے کہ اگر متکلم کی شرح میں لفظ خطا کو تعمیم پر محمول کردیا جائے توایک ہی عمل کا موجب اجر وثواب اورموجب ذنب وگناہ ہونالازم آئے گا،اور ایک ہی امر کا موجب ثواب وگناہ ہونا محال ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ خطائے اجتہادی ہونے کی وجہ سے وہ عمل، اجر وثواب کا سبب ہو گا اور معصیت ہونے کے سبب بعینہ وہی عمل ذنب وگناہ کا سبب ہوگا،پس ایک ہی عمل کا فعل گناہ اورفعل ثواب ہونا ثابت ہوا۔یہ محال ہے اور یہ دونوں استحالہ اس وقت لازم آئے گا،جب شرح میں لفظ خطا کوتعمیم پرمحمول کر دیا جائے۔اس کے علاوہ بھی یہاں لزوم استحالہ کی صورتیں موجود ہیں۔

متکلم نے کتاب کی عبارت پڑھی،پھر تشریح کی۔تشریح میں تین بار لفظ خطا کا استعمال ہوا۔ تینوں جگہ لفظ خطا محتمل ہی ہے،اورکسی مفہوم کے مراد لینے کے لیے قرینہ،بیان متکلم یا کسی دلیل کی ضرورت ہوگی۔ متکلم کی شرح میں مذکور لفظ خطا کے مفہوم کے تعین کے لیے ایک قرینہ بھی موجود ہے،اور متکلم کابیان قطعی بھی موجود ہے۔

متکلم کی تشریح مندرجہ ذیل ہے۔اس سے بھی واضح ہوجائے گا کہ محفوظ عن الخطا جس خطا سے محفوظ ہوتے ہیں،یہاں اس کا ذکر نہیں،نہ ہی شرح میں تعمیم ہوسکتی ہے،کیوں کہ شرح میں خطا کو ایک خاص فعل یعنی مطالبہ باغ فدک سے متعلق کردیا گیا ہے۔ اب ایک ہی فعل متضاد صفات کا حامل نہیں ہوسکتا تویہاں متضاد معانی مراد بھی نہیں ہو سکتے۔کتابی عبارت میں اس مقام پر خطا کوکسی فعل سے متعلق نہیں کیا گیا ہے،بلکہ ائمہ اہل بیت سے متعلق شیعوں کے عقیدۂ عصمت کی تردید ہے۔

متکلم کی تشریح::

متکلم نے کہا:”یعنی یہ فرمایا کہ مسئلہ باغ فدک میں اے روافض تم دلیل نہ بناؤکہ معصوم تھیں تومانگنا ہی حق کی دلیل ہے۔

یعنی خطا کا امکان تھااورخطا پر تھیں،جب مانگ رہی تھیں تو خطا پرتھیں،لیکن جب آگے سے حدیث آئی تو ان کی یہ شان ہے کہ جن کے جگر کا یہ ٹکڑا ہیں ان کی حدیث سن کر سرتسلیم خم کردیا۔(خطاب اول ازمتکلم)

متکلم کا یہ قول کہ حضرت بتول زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حدیث نبوی سن کر مطالبہ تر ک فرمادیا،واضح قر ینہ ہے کہ متکلم نے خطا سے خطا اجتہادی مراد لی ہے،کیوں کہ جب حدیث نبوی سن کر مطالبہ ترک فرمادیا تو اس کی ایک ہی صورت ہے کہ حدیث کی عدم معرفت کے سبب قرآن مجید میں بیان کردہ حکم وراثت کی بنیادپرحضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مطالبہ فرمارہی تھیں،پھر جب حدیث نبوی میں مال نبوی کی عدم وراثت کا حکم سماعت فرمائیں تو مطالبہ ترک فرمادیں۔

حدیث نبوی کے علم کے بعد مطالبہ کوترک کرنے کا قول کرنا واضح قرینہ ہے کہ متکلم کی مراد یہ ہے کہ اجتہاد کے سبب حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے میراث کا مطالبہ فرمایا تھا،پھرحدیث کی معرفت کے بعد جب اس مطالبہ کا شرعی طورپرکالعدم ہونا ثابت ہوگیا تومطالبہ ترک فرمادیں۔

زیدنے بکر کے ہاتھ میں ایک رومال دیکھا اوراس کا رنگ وروپ بالکل زیدکے رومال کی طرح تھا۔ اس نے اپنا رومال سمجھ کر بکر سے اس رومال کا مطالبہ کیا،پھر کسی نے کہا کہ تمہارا رومال تمہارے جیب میں ہے۔اس نے دیکھا کہ اس کا رومال اس کے جیب میں ہے تو یہ لاعلمی کے سبب مطالبہ ہوا۔ جب اسے معلوم ہوگیا کہ میرا رومال میرے جیب میں ہے تواس نے مطالبہ ترک کر دیا۔

دوسری صورت یہ ہے کہ زید کو معلو م ہوگیا کہ اس کا رومال اس کے جیب میں ہے،پھر بھی مطالبہ جاری رکھا تو یہ جرم ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ زید کوپہلے ہی سے معلوم ہے کہ اس کا رومال اس کے جیب میں ہے،پھر بھی بکرسے مطالبہ کررہا ہے تو یہ بھی جرم ہے۔

یہ محض جرم کی شکلوں کی تفہیم کے لیے مثال لکھی گئی ہے۔ واقعہ باغ فدک پر منطبق کرکے بلاوجہ بکھیڑا کھڑا نہ کیاجائے۔

چوں کہ خطا کا ایک معنی خطائے اجتہادی ہے تووہ معنی یہاں مراد ہوسکتا ہے۔ ہاں یہ سوال ممکن ہے کہ جب حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے قرآن مقدس میں منصوص حکم کے مطابق سوال فرمایا تھا تو اس کو اجتہاد کیوں کہا گیا۔اس کا جواب یہ ہے کہ متعدد علمانے اس کو اجتہاد کہا ہے۔اب اگر متکلم کو اجتہاد والے اقوال پرہی اطلاع ہوئی، اسی اعتبار سے اس کواجتہاد کہا تو متکلم پر کوئی الزام عائد نہیں ہوتا۔

حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اجتہاد کے سبب باغ کا مطالبہ فرمائی تھیں،یا قرآن کی نص قطعی کے پیش نظر؟اس بارے میں علما کے اقوال مختلف ہیں۔حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاآیت میراث میں تعمیم سمجھیں اور میراث انبیا کے خصوصی حکم سے عدم معرفت کے سبب وراثت کا مطالبہ فرمائیں۔

خاتون جنت حضرت سیدہ طیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اجتہاد کے سبب باغ کا مطالبہ فرمائی تھیں،یا قرآن کی نص قطعی کے پیش نظر؟اس بارے میں علما کے اقوال مختلف ہیں۔حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آیت میراث میں تعمیم سمجھیں اور میراث انبیا علیہم الصلوٰۃوالسلام کے خصوصی حکم سے عدم معرفت کے سبب وراثت کا مطالبہ فرمائیں،پھر جب حدیث نبوی کا علم وادراک ہوا توآپ نے مطالبہ ترک فرمادیا۔

آیت قرآنیہ کے حکم میں تعمیم سمجھنے کو بعض علما نے اجتہاد قراردیا،اور بعض علما اس کونص قرآنی پر عمل قرار دیتے ہیں۔یہ الگ بحث ہے کہ یہ اجتہاد ہے یا قرآن کی نص قطعی پر عمل۔ان شاء اللہ تعالیٰ قسط چہارم میں اس موضوع پر بحث ہوگی۔

غلطی اور خطا کا لفظ::

اردو زبان میں ارباب فضل وکمال کے لیے غلطی کا لفظ شایان شان نہیں سمجھا جاتا ہے،اور لفظ خطا میں قباحت نہیں سمجھی جاتی تھی،لیکن اب اس لفظ کے استعمال پر بھی شوروہنگامے ہونے لگے ہیں، پھراب کسی دوسرے لفظ کی تلاش کرنی ہوگی۔

علما کی اصطلاح میں ارباب فضل وکمال کے لیے تسامح کا لفظ استعمال ہوتا ہے،لیکن عوام کے درمیان اس کا اطلاق مروج نہیں،نہ ہی عوام اس کا مفہوم سمجھ سکیں گے۔علما کے یہاں ارباب فضل وکمال کے لیے بھی تادم تحریر سہوونسیان کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ علما خطا کی تعبیر کے لیے تسامح کا لفظ استعمال کرتے ہیں،لیکن خطائے اجتہادی کے لیے خطائے اجتہادی کا لفظ ہی استعمال کرتے ہیں۔

تسامح کا لفظ علما اور تعلیم یافتگان تک محدود ہے۔ عوام الناس کے درمیان اس کا استعمال مروج نہیں۔اب عوام کی تفہیم کے لیے لفظ خطا کی جگہ تسامح کا لفظ بولا جائے تو یہ عوام کی سمجھ سے بالاتر لفظ ہوگا۔

یہاں اگر متکلم نے ایک ضرورت کے سبب یعنی ایک رافضیہ کی بدگوئی کا جواب دینے کے لیے یہ لفظ استعمال کیا تو عام استعمال میں اس کا شمار نہیں ہونا چاہئے۔یہاں روافض کے عقیدۂ عصمت کی تردید مقصود تھی، جیسا کہ اصل کتاب میں حضرت پیرمہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت اس کی تردید میں ہے۔ متکلم نے اسی عبارت کی تشریح کی ہے۔

عوامی اجلاس میں لفظ خطا کا اطلاق ہوا۔ اگرخواص کی اصطلاح یعنی تسامح کا استعمال ہوتو عام پبلک کو نفس مسئلہ سمجھنا مشکل ہوگا۔خواص اپنی اصطلاح کے اعتبارسے اس لفظ میں کچھ عیب سمجھتے ہیں تو انہیں یہ دیکھنا چاہئے کہ یہ لفظ خواص کی مجلس میں نہیں،بلکہ عوام کی مجلس میں بولا گیا اورعوام کی تفہیم کے لیے بولا گیا۔

اردوزبان میں آج تک لفظ تسامح عام طورپر مروج نہیں ہے۔ اردو زبان کے اعتبار سے عوامی مجالس میں لفظ تسامح کا استعمال فصاحت سے فروتر ہوگا۔لغوی غرابت کے سبب لفظ تسامح کا استعمال فصاحت سے خارج ہوگا،اور غلطی کا لفظ اہل فضل کے لیے شایان شان نہیں۔ لفظ خطا اس جگہ استعمال ہوتا تھا، لیکن اب یہ بھی محل اعتراض میں آگیا تو کسی نئے لفظ کو تلاش کرنا ہوگا۔

سوال سوم:

آپ نے کہا کہ قرینہ کبھی قطعی بالمعنی الاخص نہیں ہوتا ہے،کیوں کہ وہاں یہ احتمال بعید موجود ہوتا ہے کہ متکلم کی وہ مراد نہ ہو، جو قرینہ سے ظاہر وثابت ہورہا ہے۔سوال یہ ہے کہ جب اس بات پر کوئی دلیل ہی نہ ہوکہ متکلم کی کوئی دوسری مراد ہے تو بلادلیل محض اپنے وہم فاسد سے یہ کہنا کہ ہوسکتا ہے کہ متکلم کی کوئی دوسری مراد ہو، یہ کیوں کرصحیح ہوگا، اور پھر اس کے سبب قرینہ کی قطعیت کیوں کرمتاثر ہوگی؟

اس سے بالکل واضح ہوگیا کہ قرینہ قطعی بالمعنی الاخص بھی ہوسکتا ہے،کیوں کہ متکلم کی جداگانہ مراد ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا اور قرینہ قطعی بالمعنی الاخص ہوگا۔اس احتمال فاسد کے سبب قطعی قرینہ کو قطعی بالمعنی الاعم قرار دینا اور قطعیت بالمعنی الاخص کی نفی کرنا کیوں کر درست ہوگا؟

جواب:

قرینہ قطعی ہونے کی صورت میں بھی یہ احتمال بعیدموجود ہے کہ متکلم کی مرادوہ نہ ہو،جس پرقرینہ دلالت کر رہا ہے،گرچہ اس احتمال پر کوئی دلیل نہ ہو، اور جب احتمال پر کوئی دلیل نہ ہوتو وہ احتمال بعید ہوتا ہے،اور احتمال بعید قطعیت بالمعنی الاخص کے لیے مانع ہوتا ہے۔

لفظ کا محتمل ہونا اورکسی معنی میں متعین نہ ہونا یہ احتمال پیدا کرتا ہے کہ یہاں متکلم کی مراد کوئی دوسرا معنی ہو،کیوں کہ لفظ اس معنی کا بھی احتمال رکھتا ہے جس پرقرینہ دلالت کررہاہے اوراس معنی کا بھی احتمال رکھتا ہے جس پرقرینہ دلالت نہیں کررہا ہے،لیکن وہ لفظ کا معنی ہے۔ اگر اس دوسرے معنی کے مراد ہونے پر کوئی ظنی دلیل بھی ہو تووہاں احتمال قریب ہوگا،نہ کہ احتمال بعید۔

معنی دیگر مراد ہونے پر کسی دلیل کا نہ ہونا قرینہ کوقطعی بنادیا اور معنی دیگر کا احتمال بلادلیل ہونا قرینہ کی قطعیت بالمعنی الاخص کے لیے مانع ہوگیا،پس یہاں قرینہ قطعی بالمعنی الاعم ہوکر رہ گیا۔

واضح رہے کہ معنی دوم کا احتمال بعید اسی وقت ہوگا جب معنی اول مراد ہونے پرظنی یا قطعی بالمعنی الاعم دلیل یا قرینہ ہو۔ اگر لفظ محتمل تھا اوراس کے معنی اول مراد ہونے پر قطعی بالمعنی الاخص دلیل ہے تو وہاں معنی دوم کا احتمال بعید بھی نہیں ہوگا۔

احتمال بعید کے اثرات ونتائج::

ضروریات دین کے انکار میں احتمال بعید کے سبب کفر کلامی کاحکم عائدنہیں ہوتا۔اسی طرح ضروریات اہل سنت کے دلائل کے ثبوت میں احتمال بعید موجود ہے،اسی لیے وہ ضروریات دین نہ بن سکیں۔اس سے بالکل واضح ہوگیا کہ شریعت اسلامیہ میں احتمال بعید یعنی احتمال بلا دلیل کا اعتبارہے۔

کوئی لفظ محتمل ہے،اوروہ دومعنی کا احتمال رکھتا ہے او ر ایک معنی کے مراد ہونے پر کوئی دلیل ہے تو اس معنی کا احتمال،احتمال قریب ہوگا۔دوسرے معنی کے مراد ہونے پرکوئی دلیل نہیں تووہ اس معنی کا احتمال،احتمال بعید ہوگا۔ اب اگر کوئی تیسرے معنی کا احتمال ظاہر کرے اورلفظ اس معنی کا احتمال نہیں رکھتا تو تیسرے معنی کا احتمال،احتمال باطل ہوگا۔احتمال قریب فقہا ومتکلمین دونوں کے یہاں مقبول ہیں۔احتمال بعید متکلمین کے یہاں مقبول ہے،فقہا کے یہاں مقبول نہیں۔ احتمال باطل فقہا ومتکلمین کسی فریق کے یہاں مقبول نہیں۔

۔۔۔۔