يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزۡوَاجِكَ اِنۡ كُنۡتُنَّ تُرِدۡنَ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا وَزِيۡنَتَهَا فَتَعَالَيۡنَ اُمَتِّعۡكُنَّ وَاُسَرِّحۡكُنَّ سَرَاحًا جَمِيۡلًا ۞- سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 28
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزۡوَاجِكَ اِنۡ كُنۡتُنَّ تُرِدۡنَ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا وَزِيۡنَتَهَا فَتَعَالَيۡنَ اُمَتِّعۡكُنَّ وَاُسَرِّحۡكُنَّ سَرَاحًا جَمِيۡلًا ۞
ترجمہ:
اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہیے ! اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کو چاہتی ہو تو آئو میں تم کو دنیا کا مال دوں اور تم کو اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہیے ! اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کو چاہتی ہو تو آئو میں تم کو دنیا کا مال دوں اور تم کو اچھائی کے ساتھ رخصت کردوں اور اگر تم اللہ کا ارادہ کرتی ہو اور اس کے رسول کا اور آخرت کے گھر کا تو بیشک اللہ تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے (الاحزاب : ٢٩۔ ٢٨ )
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ازواج مطہرات کو طلاق کا اختیار دینا
امام جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ لکھتے ہیں یہ آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس لیے نازل ہوئی ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی چیز کا سوال کیا تھا نفقہ (خرچ) میں اضافہ کرنے کا سوال تھا یا کسی اور چیز کا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ماہ کے لیے اپنی ازواج سے الگ ہوگئے ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ آپ اپنی ازواج کو اختیار دیں کہ وہ آپ کے دیئے ہوئے پر قناعت کرلیں اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر خوشی سے عمل کرتی رہیں اور یا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو رخصت کردیتے ہیں اگر وہ آپ کے دیئے ہوئے خرچ پر راضی نہیں ہوتیں۔(جامع البیان جز ٢١ ص ١٨٨‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر آئے ‘ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آنے کی اجازت طلب کررہے تھے ‘ حضرت ابوبکر نے دیکھا کہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازے پر بیٹھے ہوئے ہیں اور کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ‘ پھر حضرت ابوبکر (رض) کو اجازت دی گئی ‘ پھر حضرت عمر آئے اور اجازت طلب کی ‘ سو ان کو بھی اجازت دی گئی ‘ انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ کے گرد آپ کی ازواج بیٹھی ہوئی ہیں اور آپ افسردہ اور خاموش بیٹھے ہوئے ہیں۔ حضرت عمر نے دل میں سوچا کہ میں ضرور کوئی بات کہہ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہنسائوں گا ‘ میں نے کہا یارسول اللہ ! کاش آپ دیکھتے کہ نبت خارجہ مجھ سے نفقہ کا سوال کرے اور میں اس کی گردن مروڑ دوں ‘ سو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس پڑے اور فرمایا ان کو جو تم میرے گرد بیٹھا ہوا دیکھ رہے ہو یہ مجھ سے نفقہ کا سوال کررہی ہیں ‘ پھر حضرت ابوبکر کھڑے ہو کر حضرت عائشہ کی گردن مروڑ نے لگے ‘ پھر حضرت عمر کھڑے ہو کر حضرت حفصہ کی گردن مروڑنے لگے اور وہ دونوں سے کہہ رہے تھے کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور وہ دونوں سے کہہ رہے تھے کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس چیز کا سوال کررہی ہو جو آپ کے پاس نہیں ہے ! انہوں نے کہا اللہ کی قسم ! ہم آئندہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی ایسی چیزکا سوال نہیں کریں گے جو آپ کے پاس نہ ہو ‘ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ماہ انتیس دن اپنی ازواج سے الگ رہے ‘ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل ہوئی (ترجمہ) اے نبی اپنی بیوں سے کہیے اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کو چاہتی ہو تو آئو ! میں تم کو دنیا کا مال دوں اور تم کو چھائی کے ساتھ رخصت کردوں اور اگر تم اللہ کا ارادہ کرتی ہو اور اس کے رسول کا اور آخرت کے گھر کا بیشک اللہ نے تم میں نیکی کرنے والیوں کے لیے بہت بڑا اجر تیار رکھا ہے (الاحزاب : ٢٩۔ ٢٨) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ (رض) سے ابتداء کی اور فرمایا : اے عائشہ ! میں تمہارے سامنے ایک چیز پیش کررہا ہوں ‘ مجھے یہ پسند ہے کہ تم اس میں جلدی نہ کرو حتی کہ تم اپنے والدین سے مشورہ کرلو ‘ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سامنے یہ آیت تلاوت فرمائی ‘ حضرت عائشہ نے فرمایا : یا رسول اللہ ! کیا میں آپ کے متعلق اپنے والدین سے مشورہ کروں گی ! بلکہ میں اللہ ‘ اس کے رسول اور دار آخرت کو اختیار کرتی ہوں اور میں آپ سے یہ سوال کرتی ہوں کہ آپ اپنی (باقی) ازواج کو میرے فیصلہ کے متعلق نہ بتائیں ‘ آپ نے فرمایا ان میں سے جس نے بھی اس کے متعلق سوال کیا میں اس کو بتادوں گا ‘ بیشک اللہ نے مجھے دشوار بنا کر بھیجا نہ دشواری میں ڈالنے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اللہ نے مجھے تعلیم دینے والا اور آسانی پیدا کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٧٨‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٩٢٠٨‘ صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٨٦ ٤‘ سنن الترمذی الحدیث : ٣٣١٨‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١٢٣١‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٦٦٨٧‘ عالم الکتب)
طلاق کے اختیار دینے کا سبب اور اس کی نوعیت
علامہ بدرلدین محمود بن احمد عینی حنفی ٨٥٥ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ازواج مطہرات کو جو اختیار دیا تھا اس کی نوعیت میں اختلاف ہے ‘ حسن اور قتادہ نے یہ کہا ہے کہ آپ نے ان کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ دنیا کو اختیار کرلیں تو آپ انکو چھوڑ دیں اور یا وہ آخرت کو اختیار کرلیں تو آپ ان کو اپنے نکاح میں برقرار رکھیں ‘ اور آپ نے ان کو یہ اختیار نہیں دیا تھا ک کہ وہ اپنیاوپر طلاق واقع کرلیں یا نہ کریں ‘ اور حضرت عائشہ مجاہد ‘ شعبی اور مقاتل نے یہ کہا ہے کہ آپ نے ان کو اختیار دیا تھا کہ خواہ وہ اپنے اوپر طلاق واقع کرلیں اور خواہ آپ کے نکاح میں آپ کے ساتھ برقرار رہیں ‘ اس وقت آپ کے نکاح میں نوازواج تھیں ان میں سے پانچ قریش میں سے تھیں وہ یہ ہیں : (١) حضرت عائشہ بنت ابی بکر (٢) حضرت حفصہ بن عمر (٣) حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان (٤) حضرت سودہ بنت زمعہ (٥) حضرت ام سلمہ بنت ابی امیہ ‘
اور نو میں سے باقی ازواج غیر قرشی تھیں اور وہ یہ ہیں (١) حضرت صفیہ بنت حی بن اخطب الخیر یہ (٢) حضرت میمونہ بنت الحارث الھلا لیہ (٣) حضرت زینب بنت حجش الاسدیہ (٤) حضرت جو یرۃ بنت الحارث المصطلقیہ
اختیار دینے کے سبب میں بھی اختلاف ہے ‘ اور اس میں حسب ذیل اقوال ہیں :
(١) اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا کے ملک اور آخرت کی نعمتوں کے درمیان اختیار دیا تھا تو آپ نے دنیا کے مقابلہ میں آخرت کو اختیار کرلیا تھا سو اس نہج پر آپ کو حکم دیا کہ آپ اپنی ازواج کو اختیار دیں تاکہ آپ کی ازواج کا حال بھی آپ کی مثل ہو۔
(٢) ازواج نے آپ کے اوپر غیرت کی تھی (یعنی ان کو آپ کا دوسری ازواج کے پاس جانا ناگوار تھا) تو آپ نے ایک ماہ تک ان کے پاس نہ جانے کی قسم کھالی تھی۔
(٣) ایک دن سب ازواج آپ کے پاس جمع ہوئیں اور آپ سے اچھے کپڑے اور اچھے زیورات کا مطالبہ کیا۔
(٤) ان میں سے ہر ایک نے ایسی چیز کا مطالبہ کیا جو آپ کے پاس نہیں تھی ‘ حضرت ام سلمہ نے معلم کا مطالبہ کیا ‘ حضرت میمونہ نے یمن کے حلوں کا مطالبہ کیا ‘ حضرت زینب نے دھاری دار چادروں کو مطالبہ کیا ‘ حضرت ام حبیبہ نے سحولی کپڑوں کا مطالبہ کیا ‘ حضرت حفصہ نے مصر کے کپڑوں کا مطالبہ کیا ‘ حضرت جویرہ نے سر پر باندھنے کے کپڑے کا مطالبہ کیا ‘ اور حضرت سودہ نے خیبر کی چادر کا مطالبہ کیا ‘ البتہ حضرت عائشہ (رض) نے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ (عمدۃ القاری ج ١٩ ص ١٦٧۔ ١٦٦‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
بیوی کو طلاق کا اختیار دینے سے وقوع طلاق اور مدت اختیار میں مذاہب فقہاء
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ہم کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اختیار دیا تھا تو ہم نے اللہ کو اور اس کے رسول کو اختیار کرلیا تھا اور اس کو ہم پر کسی چیز کا شمار نہیں کیا تھا (یعنی طلاق کا) ۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٢٦٢‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٧٧‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٢٠٣‘ سنن نسائی رقم الحدیث : ٣٢٠٣‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ١١٧٩‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٠٥٢ )
حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں :
جمہور صحابہ وتابعین اور فقہاء اسلام کا مذہب حضرت عائشہ (رض) کے قول کے موافق ہے کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کو اختیار دیا اور اس نے اپنے شوہر کو اختیار کرلیا تو یہ طلاق نہیں ہے ‘ لیکن اس میں اختلاف ہے کہ اگر بیوی نے اپنے نفس کو اختیار کرلیا تو پھر اس سے اس پر طلاق رجعی واقع ہوگی یا طلاق بائن ہوگی یا طلاق مغلظہ واقع ہوگی یعنی تین طلاقیں ‘ امام ترمذی نے حضرت علی سے روایت کیا ہے کہ اگر اس نے اپنے نفس کو اختیار کرلیا تو ایک طلاق بائنہ ہوگی ‘ اور اگر اس نے اپنے خاوند کو اختیار کیا تو ایک رجعی طلاق ہوگی ‘ اور حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ اگر اس نے اپنے نفس کو اختیار کیا تو تین طلاقیں ہوں گی اور اگر اس نے اپنے شوہر کو اختیار کیا تو ایک طلاق بائنہ ہوگی ‘ اور حضرت عمر اور حضرت ابن مسعود (رض) کا قول یہ ہے کہ اگر اس نے اپنے نفس کو اختیار کیا تو اس پر ایک طلاق بائنہ ہوگی اور اگر اس نے اپنے شوہر کو اختیار کیا تو اس پر کوئی چیز واقع نہیں ہوگی ‘ امام مالک نے حضرت زید بن ثابت کے قول کو اختیار کیا کہ اگر اس نے اپنے نفس کو اختیار کیا تو اس پر تین طلاقیں ہوں گی ‘ اور امام ابوحنیفہ نے حضرت عمر اور حضرت مسعود کے قول کو اختیار کیا ہے کہ اگر اس نے اپنے نفس کو اختیار کیا تو اس پر ایک طلاق بائنہ واقع ہوگی ‘ اور اگر اس نے اپنے شوہر کو اختیار کیا تو اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
امام شافعی نے کہا تخییر کنا یہ ہے جس اس کے شوہر نے اس کو اختیار دیا کہ خواہ وہ اس کے نکاح میں رہے خواہ اپنے نفس کو اختیار کرے اور اس نے اپنے نفس کو اختیار کرلیا تو اس سے طلاق (بائنہ) واقع ہوگی۔
جب شوہر بیوی کو اختیار دے تو فقہاء احناف اور مالکیہ کے نزدیک یہ اختیار اسی مجلس کے ساتھ مقید ہے بیوی اسی مجلس میں خواہ اپنے شوہر کو اختیار کرے یا اپنے نفس کو ‘ اور انقطاع مجلس کے بعد یہ اختیار نہیں رہے گا ‘ ماسوا اس صورت کے کہ شوہر بتادے کہ تم کو اتنی مدت تک اختیار ہے یا کہہ دے کو تم کو تمام زندگی اختیار ہے ‘ تو شو ہر جتنی مدت کی تحدید کرے گا اتنی مدت تک بیو کو اختیار رہیگا ‘ اس پر دلیل یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ سے فرمایا تھا ” مجھے یہ پسند ہے کہ تم اس میں جلدی نہ کرو حتی کہ تم اپنے والدین سے مشورہ کرلو “ اس سے معلوم ہوا کہ یہ اختیار اسی مجلس کے ساتھ مقید نہیں تھا ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے والدین سے مشورہ کرنے تک اس اختیار کی تحدید کردی تھی ‘ اس سے واضح ہوگیا کہ شوہر جتنی مدت تک چاہے اس اختیار کی تحدید کرسکتا ہے۔ (فتح الباری ج ١٠ ص ٤٦٤۔ ٤٦٢‘ ملخصا و موضحا دارالفکر بیروت ‘ ١٤٢٠ ھ)
علامہ بدرالدین عینی حنفی نے بھی اسی طرح لکھا ہے لیکن زیادہ تفصیل نہیں کی۔(عمدۃ القاری ج ٢٠ ص ٣٣٨‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
بیوی کو شوہر جو یہ اختیار دیتا ہے کہ خواہ وہ اس کے نکاح میں رہے خواہ وہ اپنے نفس پر طلاق واقع کرلے ‘ اسی کو فقہاء تفویض طلاق کے عنوان سے تعبیر کرتے ہیں۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کی تفصیل
ان آیتوں میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کا ذکر ہے ‘ آپ کی ازواج کی تین قسمیں ہیں ‘ بعض ازواج سے آپ کا عقد نکاح بھی ہوا اور ان کی رخصتی بھی ہوئی اور بعض ازواج کے ساتھ عقد نکاح ہوا اور رخصتی کے بعد آپ نے ان کو طلاق دے دی ‘ اور بعض ازواج کے ساتھ صرف عقد نکاح ہوا اور رخصتی نہیں ہوئی اور بعض خواتین کو آپ نے صرف نکاح کا پیغام دیا اور ان کی رخصتی نہیں ہوئی۔ اس کی تفصیل علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی نے لکھی ہے وہ فرماتے ہیں :
(١) سب سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خدیجہ بنت خویلد سے نکاح کیا
(٢) پھر حضرت سودۃ بنت زمعہ سے نکاح کیا
(٣) پھر حضرت عائشہ بنت ابی بکر سے نکاح کیا
(٤) پھر حضرت حفصہ بنت عمر بن الخطاب سے نکاح کیا
(٥) پھر حضرت ام سلمہ ھند بنت ابی امیہ سے نکاح کیا
(٦) پھر حضرت جویرہ بنت الحارث سے نکاح کیا یہ غزوۃ المریسیع میں قید ہو کر آئی تھیں
(٧) پھر حضرت زینب بن حجش سے نکاح کیا
(٨) پھر حضرت زینب بنت خزیمہ سے نکاح کیا
(٩) پھر حضرت زیحانہ بنت زید سے نکاح کیا یہ بنو قریظہ سے تھیں اور ایک قول یہ ہے کہ بنو نضیر سے تھیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو قید کیا پھر ان کو آزاد کر کے چھ ہجری میں ان سے نکاح کیا
(١٠) پھر حضرت ام حبیبہ رملہ بنت ابی سفیان سے نکاح کیا ‘ صحابیات میں ان کے سوا اور کسی کا نام رملہ نہیں ہے
(١١) پھر حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب سے نکاح کیا یہ حضرت ہارون کی اولاد سے تھیں ‘ سات ہجری میں غزوہ خیبر میں گرفتار ہوئی تھیں ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اپنے لیے منتخب کرلیا اور ان کو آزاد کر کے ان سے نکاح کرلیا
(١٢) پھر ذوالقعدہ سات ہجری عمرۃ القضاء کے موقع پر مکہ سے دس میل کے فاصلہ پر مقام سرف میں حضرت میمونہ بنت الحارث سے نکاح کیا
(١٣) حضرت فاطمہ بنت الضحاک سے بھی نکاح کیا
(١٤) حضرت اسماء بنت النعمان سے بھی نکاح کیا۔ آپ کی ازواج کی تعداد اور ان کی ترتیب میں اختلاف ہے ‘ مشہور یہ ہے کہ وفات کے وقت آپ کی نوازواج تھیں اور کل گیارہ ازواج تھیں اور دو باندیاں تھیں۔
باقی وہ ازواج جن سے آپ نے نکاح کیا اور ان کی رخصتی بھی ہوئی یا جن سے صرف نکاح ہوا ان کی تعداد اٹھائیس ہے :
(١) حضرت ریحانہ بنت زید ‘ ان کا ذکر ہوچکا ہے
(٢) حضرت الکلا بیہ ان کے نام میں اختلاف ہے ‘ ایک قول ہے ان کا نام عمرہ بنت زید ہے ‘ دوسراقول ہے ان کا العالیہ بنت ظبیان ہے ‘ زہری نے کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے العالیہ بنت ظبیان سے نکاح کیا ‘ اور رخصتی بھی ہوئی پھر آپ نے ان کو طلاق دے دی اور ایک قول یہ ہے کہ رخصتی نہیں ہوئی اور آپ نے انکو طلاق دے دی ‘ ایک قول یہ ہے کہ یہی فاطمہ بنت الضحاک ہیں ‘ زہری نے کہا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے نکاح کیا رخصتی کے بعد انہوں نے آپ سے پناہ طلب کی تو آپ نے ان کو طلاق دے دی
(٣) حضرت اسماء بنت النعمان ‘ ان سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نکاح کیا اور ان کو بلایا تو انہوں نے کہا آپ خود آئیں تو آپ نے ان کو طلاق دے دی ‘ ایک قول یہ ہے کہ انہوں نے ہی آپ سے پناہ طلب کی تھی ‘ ایک قول یہ ہے کہ یہ بنت قیس ہیں جو الاشعث بن قیس کی بہن ہیں ‘ ان کے بھائی نے ان کا آپ سے نکاح کیا تھا ‘ پھر وہ حضرموت چلے گئے اور ان کو بھی ساتھ لے گئے اور وہاں ان کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی خبر پہنچی تو انہوں نے اپنی بہن کو ان کے شہر واپس بھیج دیا اور خود اسلام سے مرتد ہوگئے اور ان کی بہن بھی مرتدہ ہوگئیں
(٤) ملیکہ بنت کعب اللثیی ‘ ایک قول یہ ہے کہ انہوں نے ہی آپ سے پناہ طلب کی تھی ‘ ایک قول یہ ہے کہ آپ نے ان سے عمل تزویج کیا تھا پھر یہ آپ کے پاس ہی فوت ہوگئیں ‘ لیکن پہلا قول صحیح ہے
(٥) حضرت اسماء بنت الصت السمیہ ‘ ایک قول یہ ہے کہ ان کا نام سبا ہے ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے نکاح کیا تھا اور یہ رخصتی سے پہلے فوت ہوگئیں تھیں
(٦) حضرت ام شریک ازدیہ ان کا نام عزبہ ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دخول سے پہلے ان کو طلاق دے دی تھی اور یہی وہ ہیں جنہوں نے اپنا نفس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہبہ کیا تھا ‘ یہ نیک خاتون تھیں
(٧) خولہ بنت ھذیل ‘ ان سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نکاح کیا ‘ پھر آپ کے پاس پہنچنے سے پہلے ان کی وفات ہوگئی
(۸)شراف بنت خالد دحیہ کلبی کی بہن ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا اور رخصتی سے پہلے ان کی وفات ہوگئی
(٩) لیلیٰ بنت الخطیم ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے نکاح کیا ‘ یہ غیرت والی تھیں ‘ انہوں نے مطالبہ کیا کہ آپ نکاح فسخ کردیں سو آپ نے نکاح فسخ کردیا
(١٠) حضرت عمرہ بنت معاویہ الکندیہ ‘ اس سے پہلے یہ آپ تک پہنچتیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی
(١١) حضرت الجندعیہ بند جند ب ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے نکاح کیا اور عمل تزویج نہیں کیا ‘ ایک قول یہ ہے کہ ان کے ساتھ عقد نہیں ہوا تھا
(١٢) حضرت الغفار یہ ‘ ایک قول یہ ہے کہ یہی السنا ہیں ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے نکاح کیا پھر ان کے پہلو میں سفید داغ دیکھا تو آپ نے فرمایا تم اپنے گھر چلی جائو
(١٣) حضرت ھند بنت یزید ‘ ان سے بھی آپ نے دخول نہیں کیا
(١٤) حضرت صفیہ بنت بشامہ آپ نے ان کو قید کیا تھا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اختیار دیا آپ نے فرمایا اگر تم چاہو تو میں تم سے نکاح کرلوں ‘ انہوں نے اجازت دے دی آپ نے ان سے نکاح کرلیا
(١٥) حضرت ام ھانی ‘ ان کا نام فاختہ بن ابی طالب ہے ‘ حضرت علی بن ابی طالب کی بہن ہیں ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو نکاح کا پیغام دیا ‘ انہوں نے کہا بچوں والی عورت ہوں اور عذر پیش کیا ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا عذر قبول کرلیا
(١٦) حضرت ضباعہ بنت عامر ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو نکاح کا پیغام دیا ‘ پھر آپ کو یہ خبر پہنچی کہ یہ بڑی بوڑھی ہیں تو آپ نے ارادہ ترک کردیا
(١٧) حمزہ بنت عون المزنی ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو نکاح کا پیغام دیا ‘ ان کے والد نے کہا ان میں کوئی عیب ہے حالانکہ ان میں کوئی عیب نہ تھا ‘ پھر جب ان کے والد ان کے پاس گئے تو ان کو برص ہوگیا تھا
(١٨) حضرت سودہ قریشہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو نکاح کا پیغام دیا یہ بھی بچوں والی تھیں ‘ آپ نے ان کو ترک کردیا
(١٩) حضرت امامہ بنت حمزہ بن عبدالمطلب ‘ ان کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پیش کیا گیا ‘ آپ نے فرمایا یہ میری رضاعی بھتیجی ہے
(٢٠) حضرت عزہ بنت ابی سفیان بن حرب ‘ ان کو ان کی بہن حضرت ام حبیبہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پیش کیا ‘ آپ نے فرمایا چونکہ ان کی بہن حضرت ام حبیبہ میرے نکاح میں ہیں اس لیے یہ مجھ پر حلال نہیں ہیں
(٢١) حضرت کلبیہ ‘ ان کے نام کا ذکر نہیں کیا گیا ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے پاس حضرت عائشہ (رض) کو بھیجا ‘ حضرت عائشہ نے فرمایا میں نے اتنی لمبی عورت کوئی نہیں دیکھی تو آپ نے ان کو چھوڑ دیا
(٢٢) عرب کی ایک عورت تھی جس کا نام نہیں ذکر کیا گیا ‘ آپ نے ان کو نکاح کا پیغام دیا پھر ترک کردیا
(٢٣) حضرت درہ بنت ابی سلمہ ‘ ان کو آپ پر پیش کیا گیا آپ نے فرمایا یہ میری رضاعی بھتیجی ہے
(٢٤) حضرت امیمہ بن شراحیل ‘ ان کا ذکر صحیح البخاری میں ہے
(٢٥) حضرت حبیبہ بن سہیل الانصار یہ ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے نکاح کا ارادہ کیا تھا پھر ترک کردیا
(٢٦) حضرت فاطمہ بنت شریح ‘ ابو عبید نے ان کا آپ کی ازواج میں ذکر کیا ہے
(٢٧) العالیہ بنت ظبیان ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے نکاح کیا یہ آپ کے پاس کچھ عرصہ رہیں ‘ پھر آپ نے ان کو طلاق دے دی۔ (عمدۃ القاری ج ٣ ص ٣٢١۔ ٣٢٠‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
علامہ بدرالدین عینی نے اٹھائیس ازواج کے ذکر کرنے کا کہا تھا لیکن انہوں نے جو ذکر کی ہیں وہ ستائیس ہیں۔
ہم نے النساء ٣ میں اس مسئلہ پر سیر حاصل بحث کی ہے اس کے یہ عنوان ہیں : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کا بیان ‘ تعداد ازواج کا آپ کی خصوصیت ہونا ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تعد ازدواج کی تفصیل وار حکمتیں ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعداد ازدواج کمال ضبط ہے یا حظ نفسانی کی بہتات ‘ یہ بحث تبیان القرآن ج ٢ ص ٥٦٦۔ ٥٥٨ میں ملاحظہ فرمائیں۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 28