مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِكُمۡ وَلٰـكِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيّٖنَ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمًا۞- سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 40
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِكُمۡ وَلٰـكِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيّٖنَ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمًا۞
ترجمہ:
محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ‘ لیکن وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں ‘ اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے ؏
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ‘ لیکن وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے (الاحزاب : ٤٠ )
اس کی تحقیق کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں
قتادہ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت حضرت زید بن حارثہ کے متعق نازل ہوئی ہے کہ وہ آپ کے بیٹے نہیں ہیں اور آپ کے چار نسبی بیٹے تھے آپ حضرت قاسم ‘ حضرت ابراہیم ‘ حضرت طیب اور حضرت مطہر کے ولد تھے۔(جامع البیان رقم الحدیث : ٢١٤٦٥‘ تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٧٦٩٨)
جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب (رض) سے نکاح کرلیا تو کفار اور منافقین نے اعتراض کیا کہ آپ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی کہ حضرت زید بن حارثہ آپ کے حقیقی بیٹے نہیں ہیں حتی کہ ان کی بیوی آپ پر حرام ہوجائیں لیکن آپ تعظیم اور تکریم کے اعتبار سے امت کے باپ ہیں اور آپ کی ازواج مطہرات امت کی مائیں ہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرما کر کفار اور منافقین کے اعتراضات کو ساقط کردیا ‘ اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ آپ کے زمانہ میں جو مرد تھے آپ ان میں سے کسی کے حقیقی والد نہیں ہیں ‘ یہ نہیں ہے کہ آپ کسی کے والد نہیں ہیں کیونکہ آپ کی چار بیٹیاں تھیں اور آپ ان کے والد تھے اور آپ کے چار بیٹے تھے اور آپ ان کے والد تھے لیکن وہ سب صغر سن میں وفات پا گئے اور ان میں سے کوئی بھی مردہونے کی عمر تک نہیں پہنچا ‘ سو آپ مردوں میں سے کسی یحقیقی والد نہیں ہیں نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں اور یہ چاروں آپ کے نسبی بیٹے تھے مخاطبین کے مردوں میں سے نہ تھے ‘ بعض احادیث میں ہے کہ آپ نے حضرت حسن اور حضرت حسین (رض) کے متعلق فرمایا یہ دونوں میرے بیٹے ہیں (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٧٦٩) لیکن آپ نے ان کو مجازاً اپنے بیٹے فرمایا وہ آپ کے نسبی بیٹے نہ تھے ‘ وہ حضرت علی (رض) کے نسبی بیٹے اور آپ کے نواسے تھے۔ خلاصہ یہ ہے کہ وہ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں اور نہ کسی مرد کے حقیقی والد ہیں ‘ نہ رضاعی والد ہیں۔
ہم نے امام ابن جریر اور امام ابنابی حاتم کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چار بیٹے تھے لیکن مشہور یہ ہے کہ آپ کے دو بیٹے تھے حضرت قاسم اور حضرت ابراہیم ‘ حضرت قاسم حضرت خدیجہ (رض) کے بطن سے پیدا ہوئے انہی کی وجہ سے آپ کی کنیت ابو القاسم ہے اور حضرت ابراہیم آپ کی کنیز ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے اور حضرت ابراہیم کے علاوہ آپ کی تمام اولاد قبل از اسلام پیدا ہوئی ‘ صرف حضرت ابراہیم واحد ہیں جو زمانہ اسلام میں پیدا ہوئے اسی وجہ سے ان کا لقب طب اور مطہر ہے۔ (سبل الھدی والرشاد ج ١١ ص ١٦‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٤ ھ)
علامہ آلوسی نے لکھا ہے کہ آپ کسی مرد کے شرعی والد ہیں نہ رضاعی اور نہ کسی کو آپ نے شرعاً بیٹا بنایا کیونکہ شرعاً بیٹا اس کو بنایا جاتا ہے جو مجہول النسب ہو اور حضرت زید بن حارثہ مجہول النسب نہیں تھے ان کا نسب معروف تھا وہ حارثہ کے بیٹے تھے غرض آپ کسی اعتبار سے کسی مرد کے باپ نہ تھے ‘ نسبی نہ رضاعی نہ متبنی کے کے اعتبار سے۔(روح المعانی جز ٢٢ ص ٤٥۔ ٤٤‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)
سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاتم النبیین اور آخری نبی ہونے کے متلعق قرآن مجید کی آیات
سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاتم النبیین اور آخری نبی ہونے پر صاف اور صریح آیت تو یہی الاحزاب : ٤٠ ہے ‘ اس کے علاوہ قرآن مجید کی اور آیات بھی ہیں جن سے آپ کا خاتم النبیین اور آخری نبی ہونا ثابت ہے :
(٢) الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔ (المائدہ : ٣) آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تمہارے اوپر اپنی نعمت کو تمام کردیا اور تمہارے لیے اسلام کو بہ طور دین پسند فرمالیا۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوپر دین کا کامل اور تمام ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ آپ آخری نبی ہیں ‘ کیونکہ آپ کے بعد کسی اور نبی کا آنا اسی وقت ممکن ہوتا ‘ جب آپ کے دین اور آپ کی شریعت میں کوئی کمی ہوتی جس کمی کو بعد میں آنے والا نبی پورا کرتا ‘ اور جب آپ کا دین کامل اور تمام ہے اور اس کا نامکمل ہونا ممکن نہیں ہے تو آپ کے بعد کسی نبی کا آنا بھی ممکن نہیں ہے۔
(٣) ومآارسلنک الا کآفۃ للناس بشیرا و نذیرا۔ (سبا : ٢٨) اور (اے رسول مکرم ! ) ہم نے آپ کو دنیا کے تمام لوگوں کے لیے (جنت کی) بشارت دینے والا اور (دوزخ سے) ڈرانے والا بنا بھیجا ہے۔
اس آیت میں یہ تصریح ہے کہ دنیا کے تمام لوگوں کے لیے آپ رسول ہیں اگر آپ کے بعد کسی نبی کی بعثت کو جائز قرار دیا جائے تو لازم آئے گا کہ آپ تمام لوگوں کے لیے رسول نہیں ہیں بلکہ بعض لوگوں کے لیے کوئی اور رسول آئے گا ‘ اور اس سے یہ آیت کا ذب ہوجائے گی اور قرآن مجید کا کاذب ہونا محال ہے ‘ اس سے لازم آیا کہ آپ کے بعد کسی اور نبی کا آنا محال ہے۔
(٤) قل یایھالناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔ (الاعراف : ١٥٨) آپ کہیے اے لوگو ! بیشک میں تم سب کی طرف اللہ رسول ہوں۔
اس آیت کی بھی حسب سابق تقریر ہے کہ اگر آپ کے بعد کسی کا آنا ممکن ہو تو پھر آپ سب کے لیے رسول نہیں رہیں گے۔
(٥) ومآ ارسلنک الا رحمۃ للعلمین (الانبیاء : ١٠٧) اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
اس آیت کی بھی اسی طرح تقریر ہے کہ اگر آپ کے بعد کسی رسول کا آنا ممکن ہو تو پھر بعض لوگوں کے لیے وہ رسول رحمت ہوگا اور آپ تمام جہانوں کے لیے رحمت نہیں رہیں گے اور یہ اس آیت کے خلاف ہے۔
(٦) تبرک الذی نذل الفرقان علی عبدہ لیکون للعلمین نذیرا (الفرقان : ١) وہ ذات برکت والی ہے جس نے اپنے عبد کامل پر وہ کتاب نازل کی جو حق اور باطل میں فرق کرنے والی ہے تاکہ وہ عبد کامل تمام جہانوں کے لیے (عذاب سے) ڈرانے والاہو جائے۔
(٧) واذ اخذ اللہ میثاق النبین لمآ اتیتکم من کتب و حکمۃ ثم جآء کم رسول مصدق لما معکم لتؤ منن بہ ولتنصرنہ ط قالء اقررتم واخذتم علی ذلکم اصری ط قالوا اقررنا ط قال فاشھدوا وانا معکم منالشھدین (آل عمران : ٨١)
اور یاد کیجئے جب اللہ نے تمام نبیوں سے یہ پختہ عہد لیا کہ میں تمہیں جو کتاب اور حکمت عطا کروں ‘ پھر تمہارے پاس وہ عظیم رسول آجائے جو ان (چیزوں) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہیں ‘ تو تم سب اس ضر ضرور ایمان لانا اور تم سب ضرور اس کی مدد کرنا ‘ فرمایا کیا تم نے اقرار کرلیا اور میرے اس بھاری عہد کو قبول کرلیا ‘ انہوں نے کہا ہم نے اقرار کرلیا ‘ فرمایا پس تم سب (ایک دوسرے پر) گواہ و جائو ‘ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔
اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ جس نبی کے آنے پر تمام رسولوں سے اس پر ایمان لانے اور اس کی نصرت کرنے کا پختہ عہد لیا گیا ہے وہ تمام رسولوں کے بعد آئے گا ‘ پس اگر آپ کے بعد کسی اور رسول کے آنے کو ممکن مانا جائے تو لازم آئے گا کہ وہی آخری رسول ہو اور اسی کے متعلق تمام نبیوں سے پختہ عہد لیا گیا ہو بلکہ آپ سے بھی اس پر ایمان لانے اور اس کی نصرت کرنے کا عہد لیا گیا ہو اور یہ بداھۃ باطل ہے۔
(٨) ھوالذی بعث فی الامین رسولامنہم یتلوا علیہم ایتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتب والحکمۃ ق وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین واخرین منھم لما یلحقوا بہم ط وھو العزیز الحکیم (الجمعہ : ٣۔ ٢)
وہی ہے جس نے امی لوگوں میں ان ہی میں سے ایک عظیم رسول بھیجا جو ان پر اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتا ہے اور ان کے باطن کو صاف کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور بیشک وہ اس کے آنے سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے اور اس رسول کو دوسروں کے لیے بھی بھیجا ہے جو (ابھی تک) پہلوں سے نہیں ملے اور وہ بےحد غالب بہت حکمت والا ہے۔
اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے زمانہ کے لوگوں کے بھی رسول ہیں اور اپنے بعد آنے والے لوگوں کے لیے بھی رسول ہیں ‘ اب اگر یہ کہا جائے کہ آپ کے بعد کسی اور رسول کا آنا بھی ممکن ہے تو پھر اس رسول پر ایمان لانے والوں کے لیے آپ رسول نہیں ہوں گے اور یہ اس آیت کے خلاف ہے۔
(٩) ومن یشا قق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدی ویتبع غیر سبیل المؤ منین نولہ ماتولی ونصلہ جھنم ط وسآ ئت مصیرا۔ (النساء : ١١٥)
اور جو شخص اس پر ہدایت واضح ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور تمام مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستہ پر چلے ہم اس کو اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرا ہے اور اس کو دوزخ میں داخل کردیں گے اور وہ کیسا بر اٹھکانا ہے۔
عہد رسالت سے تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم النبیین ہیں اور آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کسی نبی کا مبعوث ہونا محال ہے سو جو اس کے خلاف عقیدہ رکھے گا وہ اس آیت کی وعید کا مصداق ہے۔
(١٠) لایستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقتل ط اولئک اعظم درجۃ من الذین انفقوا من بعد و قاتلوا ط وکلاوعداللہ الحسنی ط۔ (الحدید : ١٠)
تم میں سے جن لوگوں نے فتح (مکہ) سے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور جہاد کیا ‘ وہ دوسروں کے برابر نہیں ہیں ‘ ان کا ان لوگوں سے بہت بڑا درجہ ہے جنہوں نے اس کے بعد (اللہ کی راہ میں) خرچ کیا اور قتال کیا اور اللہ نے ہر ایک سے نیک عاقبت کا وعدہ فرمایا ہے۔
اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے صحابہ ‘ بعد کے صحابہ سے بہت افضل ہیں ‘ اگر سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی نبی کا مبعوث ہونا ممکن ہوتا تو وہ ان صحابہ سے افضل ہوتا کیونکہ نبی غیر نبی سے افضل ہوتا ہے اور ان صحابہ سے اس کا افضل ہونا اس آیت کے خلاف ہے ‘ پس آپ کے بعد کسی نبی کا مبعوث ہونا ممکن نہیں ہے۔
سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاتم النبیین ہونے کے متعلق احادیث صحیحہ ‘ مقبولہ
(١) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس شخص کی طرح ہے ‘ جس نے بہت حسین و جمیل ایک گھر بنایا ‘ مگر اس کے کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ‘ لوگ اس گھر کے گرد گھومانے لگے اور تعجب سے یہ کہنے لگے ‘ اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی آپ نے فرمایا میں (قصر نبوت کی) وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٥٣٥‘ صیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٨٦‘ السنن الکبری رقم الحدیث : ١٤٢٢‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٧٤٧٩‘ عالم الکتب)
(٢) حضرت ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ نے میرے لیے تمام روئے زمین کو لپیٹ دیا اور میں نے اس کے مشارق اور مغارب کو دیکھ لیا۔ (الی قولہ) عنقریب میری امت میں تیس کذاب ہوں گے ‘ ان میں سے ہر ایک کا زعم ہوگا کہ وہ نبی ہے ‘ اور میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٢٥٢‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٨٩‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٢٠٢‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٩٥٢‘ صحیح البخاری ٧١٢١ میں ہے عنقریب تیس کذاب نکلیں گے ان میں ہر ایک کا زعم ہوگا کہ وہ رسول اللہ ہے)
(٣) حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری اور مجھ سے پہلے نبیوں کی مثل اس شخص کی طرح ہے جس نے گھر بنا کر مکمل کیا اور اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ‘ پس میں آیا اور میں نے اس اینٹ کو رکھ کر اس گھر کو مکمل کردیا۔(مسند احمد ج ٣ ص ٩‘ حافظ زین نے کا اس حدیث کی سند صحیح ہے ‘ حاثیہ مسند احمد رقم الحدیث : ١١٠٠٩‘ دارالحد یث قاہر ‘ ١٤١٦ ھ)
(٤) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے چھ وجوہ سے انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے (١) مجھے جو امع الکلم عطا کیے گئے ہیں (٢) اور رعب سے میری مدد کی گئی ہے (٣) اور میرے لیے غنیمتوں کو حلال کردیا گیا ہے (٤ ض اور تمام روئے زمین کو میرے لیے آلہ طہارت اور نماز کی جگہ بنادیا گیا ہے (٥) اور مجھے تمام مخلوق کی طرف (نبی بنا کر) بھیجا گیا ہے (٦) اور مجھ پر نبیوں کو ختم کیا گیا ہے۔(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٣٣‘ سنن الترمذ رقم الحدیث : ١٥٥٣‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٥٦٧‘ مسند احمد ج ٢ ص ٤١٢)
(٥) حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) سے فرمایا تم میرے لیے ایسے ہو جیسے حضرت موسیٰ کے لیے ہارون تھے ‘ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔(صحیح بخاری رقم الحدیث : ٤٤١٦‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٠٤‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٧٣١‘ سنن کبری للنسائی رقم الحدیث : ٨٤٣٥‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٣٣٤۔ ٢٠٣٥۔ ٣٠٢٦‘ المستدرک ج ٣ ص ١٠٩ قدیم ‘ رقم الحدیث : ٤٥٧٥ جدید ‘ سنن بہیقی ج ٩ ص ٤٠ ذ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٩٢٧‘ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٩٧٤٥‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٢ ص ٦٠ )
(٦) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بنی اسرائیل کا ملکی انتظام ان کے انبیاء کرتے تھے ‘ جب بھی کوئی نبی فوت ہوجاتا تو اس کا قائم مقام دوسرا نبی ہوجاتا ‘ اور بیشک میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ‘ اور میرے بعد بہ کثرت خلفاء ہوں گے۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٥٥‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٤٢‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٨٧١‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٧٩٤٧‘ عالم الکتب بیروت)
(٧) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک رسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے ‘ پس میرے بعد کوئی نبی ہوگا نہ رسول ہوگا۔(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٢٧٢‘ مسند احد ج ٣ ص ٢٦٧‘ مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٣٩٤٧‘ المستدرک ج ٤ ص ٣٩١)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہم آخر ہیں اور قیامت کے دن سابق ہوں گے۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٨٧٦‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٥٥‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١٣٦٧ )
(٩) حضرت ابوہریرہ رضی عنہ بیان کرتے ہیں میں آخر الانبیاء ہوں اور میری مسجد آخر المساجد ہے (یعنی آخر مساجد الانبیاء ہے) (صحیح مسلم رقم الحدیث بلاتکرار : ١٣٩٤‘ الرقم المسلسل : ٣٣١٧)
(١٠) قتادہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں پیدائش میں سب سے پہلا ہوں اور بعثت میں سب سے آخر ہوں۔ (کنزالعمال رقم الحدیث : ٣١٩١٦۔ ٣٢١٢٦ )
(١١) حضرت عرباض بن ساریہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک میں اللہ کے نزدیک خاتم النبیین تھا اور بیشک (اس وقت) آدم اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔(مسند احمد ج ٤ ص ١٢٧‘ المعجم الکبیر ١٨‘ رقم الحدیث : ٢٥٢‘ مسند البز اررقم الحدیث : ٢٣٦٥ )
(١٢) حضرت ابوہریرہ (رض) ایک طویل حدیث کے آخر میں بیان کرتے ہیں لوگ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر کہیں گے یا محمد ! آپ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم الانبیاء ہیں ‘ اللہ نے آپ کے اگلے اور پچھلے بہ ظاہر خلاف اولیٰ سب کاموں کی مغفرت کردی ہے ‘ آپ اپنے رب کے پاس ہماری شفاعت کیجئے۔ الحدیث (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٧١٢‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٩٤‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٤٣٤‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٣٠٧)
(١٣) حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تمام رسولوں کا قائد ہوں اور فخر نہیں اور میں خاتم النبیین ہوں اور فخر نہیں۔ (سنن الدارمی رقم الحدیث : ٥٠‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٣١٨٣)
(١٤) حضرت عبداللہ بن عمر و (رض) بیان کرتے ہیں ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمار پاس آئے گویا ہمیں رخصت فرما رہے ہوں پھر تین بار فرمایا میں محمد نبی امی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔(مسند احمد ج ٢ ص ١٧٢‘ احمد شاکر نے کا اس کی سند حسن ہے ‘ حاشیہ مسند احمد رقم الحدیث : ٦٦٠٢‘ دارالحدیث قاہرہ)
(١٥) حضرت ابوہریرہ (رض) حدیث معراج میں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انبیاء (علیہم السلام) کے سامنے فرمایا تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے رحمۃ للعلمین بنایا اور تمام لوگوں کے لیے بشیر و نذیر بنایا ‘ مجھ پر قرآن مجید نازل کیا جس میں ہر چیز کا بیان ہے اور میری امت کو خیرامت بنایا جو لوگوں کے نفع کے لیے بنائی گئی ہے ‘ اور میری امت کو معتدل امت بنایا اور میری امت کو اول اور آخر بنایا ‘ اور اس نے میرا سینہ کھول دیا میرا بوجھ اتار دیا اور میرے لیے مرا ذکر بلند کیا اور مجھ کو افتتاح کرنے والا اور (نبیوں کو) ختم کرنے والا بنایا۔ (مسند البز اررقم الحدیث : ٥٥‘ مجمع الزوائد ج ١ ص ٧١)
(١٦) حضرت ابو سعید خدری (رض) حدیث معراج میں بیان کرتے ہیں کہ جب آپ بیت المقدس پہنچے ‘ آپ نے اپنی سواری کو ایک بڑے پتھر کے ساتھ باندھ دیا پھر آپ نے مسجد میں داخل ہو کر فرشتوں کے ساتھ نماز پڑھی ‘ نماز کے بعد نبیوں نے حضرت جبریل سے پوچھا یہ آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا یہ محمد رسول اللہ خاتم النبیین ہیں۔(المواہب الدنیہ ج ٢ ص ٣٦٢‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٦ ھ)
(١٧) حضرت علی (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شمائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں آپ کے دو کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی اور آپ خاتم النبیین تھے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٦٣٨‘ شمائل ترمذی رقم الحدیث : ١٩۔ ٧‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١١ ص ٥١٢‘ دلائل النبوۃ ج ١ ص ٢٦٩‘ شرح السنہ رقم الحدیث : ٣٦٥٠ )
(١٨) حضرت ابو امامہ باھلی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (فتنہ دجال کے متعلق ایک طویل حدیث میں) فرمایا : میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠٧٧)
(١٩) حضرت ابو قنیلہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا : میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں ہے سو تم اپنے رب کی عبادت کرو اور پانچ نمازیں پڑھو ‘ اپنے مہینہ کے روزے رکھو ‘ اپنے حکام کی اطاعت کرو اور اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جائو۔(المعجم الکبیر ج ٢٢ رقم الحدیث : ٧٩٧‘ ج ٨ رقم الحدیث : ٧٥٣٥۔ ٧٦١٧)
(٢٠) حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ابو ذر ! پہلے رسول آدم ہیں اور آخری رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ (کنزالعمال رقم الحدیث : ٣٢٢٦٩ )
(٢١) حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب نبی ہوتے۔(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢٨٦‘ مسند احمد ج ٤ ص ١٥٤‘ المستدرک ج ٣ ص ٥٨‘ المعجم الکبیر ج ١٧ رقم الحدیث : ٨٥٧ )
(٢٢) حضرت جبیر بن مطعم (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے کئی اسماء ہیں ‘ میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں ماحی (مٹانے والا) ہوں اللہ میرے سبب سے کفر کو مٹائے گا ‘ اور میں خاشر (جمع کرنے والا) ہوں جس کے عبد کوئی نبی نہیں ہوگا۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٥٣٢‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٥٤‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٨٤٠‘ السنن الکبری رقم الحدیث : ١١٥٩٠)
(٢٣) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں احمد ہوں ‘ اور محمد ہوں ‘ اور حاشر ہوں اور مقفی (سب نبیوں کے بعد مبعوث ہونے والا) ہوں اور خاتم ہوں۔(المعجم الصغیر رقم الحدیث : ١٥٦‘ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٤٠٦٢ )
(٢٤)حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں قیامت کے ساتھ ان دو انگلیوں کی طرح مبعوث کیا گیا ۔ صحیح البخاری ۶۵۰۵
(٢۵) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کی نماز سے فارغ ہو کر فرماتے تھے کیا تم میں سے کسی ایک نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے ؟ پھر فرماتے میرے بعد نبوت میں سے صرف اچھے خواب باقی رہ گئے ہیں۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٥٠١٧)
(٢٦) وہب بن منبہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دراز قد تھے اور ان کے بال گھونگریالے تھے ‘ گویا کہ وہ قبیلہ شنئوۃ سے تھے اور ان کے داہنے ہاتھ میں مہر نبوت تھی ‘ مگر ہمارے نبی سید نام محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی ‘ اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا میرے شانوں کے درمیان وہ مہر نوبت ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں پر ہوتی تھی ‘ کیونکہ میرے بعد کوئی نبی ہوگا نہ رسول۔(المستدرک ج ٢ ص ٧ ء ٥ قدیم ‘ المستدرک رقم الحدیث : ٤١٠٥ جدید ‘ المتبۃ العصر یہ ‘ ١٤٢٠ ھ)
(٢٧) اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے پوچھا کیا آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاجزادے حضرت ابراہیم کو دیکھا تھا ؟ انہوں نے کہا وہ کم سنی میں فوت ہوگئے اور اگر ان کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد زندہ رہنا مقدر ہوتا تو وہ نبی ہوتے لیکن آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٥١٠‘ صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦١٩٤)
(٢٨) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹے حضرت ابراہیم زندہ ہوتے تو سچے نبی ہوتے۔ (مسند احمد ج ٣ ص ١٣٣‘ تاریخ دمشق ج ٣ ص ٧٦‘ رقم الحدیث : ٥٧٩‘ الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٧٤٥٣‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٦١٩٤)
(٢٩) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نبوت میں سے صرف مبشرات باقی بچے ہیں ‘ مسلمانوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! مبشرات کیا ہیں۔ آپ نے فرمایا اچھے خواب۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٠ ٦٩٩)
(٣٠) حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت میں ستائیس دجال اور کذاب ہوں گے ‘ ان میں سے چار عورتیں ہوں گی اور میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (مسند احمد ج ٥ ص ٣٩٦‘ حافظ زین نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے حاثیہ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٣٣٥١‘ دارالحدیث قاہرہ)
(٣١) حضرت زید بن حارثہ (رض) ایک طویل حدیث کے آخر میں بیان کرتے ہیں کہ ان کے باپ اور چچا ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غلامی سے آزاد کرانے کے لیے آئے اور آپ سے کہا آپ جو چاہے اس کی قیمت لے لیں اور اس کو ہمارے ساتھ بھیج دیں ! آپ نے ان سے فرمایا میں تم سے یہ سوال کرتا ہوں کہ تم لا الہ الا اللہ کی شہادت دو اور اس کی کہ میں خاتم الانبیاء والرسل ہوں میں اس کو تمہارے ساتھ بھیج دوں گا ‘ انہوں نے اس پر عذر پیش کیا اور دیناروں کی پیش کش کی ‘ آپ نے فرمایا اچھا زید سے پوچھو اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہیے تو میں اس کو تمہارے ساتھ بلامعاوضہ بھیج دیتا ہوں ‘ حضرت نے کہا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنے باپ کو ترجیح دوں گا اور نہ اپنی اولاد کو ‘ یہ سن کر حضرت زید کے والد حارثہ مسلمان ہوگئے اور کہا اشھد ان لا الہ الا اللہ وان محمد اعبدہ ورسولہ ‘ اور ان کے باقی رشتہ داروں نے کلمہ پڑھنے سے انکار کردیا۔ (المستدرک ج ٣ ص ٢١٤ طبع قدیم ‘ المستدرک رقم الحدیث : ٤٩٤٦ طبع جدید)
(٣٢) حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں ایک ہزار یا اس سے زائد انبیاء کا خاتم ہوں۔ (المستدرک ج ٢ ص ٥٩٧ طبع قدیم ‘ المستدرک رقم الحدیث : ٤١٦٨ طبع جدید)
ایک ہزار سے زائد انبیاء سے مراد ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء ہیں جیسا کہ المستدرک رقم الحدیث : ٤١٦٨ میں اس کی تصریح ہے۔
(٣٣) حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھے درد ہوگیا تو میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ‘ آپ نے مجھے اپنی جگہ کھڑا کیا اور خود نماز پڑھنے لگے اور مجھ پر اپنی چادر کا پلو ڈال دیا ‘ پھر فرمایا اے ابو طالب کے بیٹے ! تم ٹھیک ہوگئے اور اب تم کو کوئی تکلیف نہیں ہے ‘ میں نے اللہ تعالیٰ سے جس چیز کا سوال کیا ہے ‘ تمہارے لیے بھی اس چیز کا سوال کیا ہے ‘ اور میں نے اللہ تعالیٰ سے جس چیز کا بھی سوال کیا ‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ عطا فرمادی سوا اس کے کہ مجھ سے کہا گیا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٧٩١٣‘ حافظ الھیشمی نے کہا اس حدیث کے رجال صحیح ہیں ‘ مجمع الزوائد ج ٩ ص ١١٠)
(٣٤) بہزبن حکیم اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہم قیامت کے دن ستر امتوں کو مکمل کریں گے ہم ان میں سب سے آخری اور سب سے بہتر امت ہیں۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٨٧‘ مسند احمد ج ٤ ص ٤٤٧‘ سنن دارمی رقم الحدیث : ٧٦٢)
(٣٥) حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں حضرت عباس بن عبدالمطلب (رض) نے آپ سے ہجرت کرنے کی اجازت طلب کی ‘ آپ نے ان سے فرمایا : آپ اسی جگہ ٹھہریں جہاں آپ ہیں ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ پر اس طرح ہجرت کو ختم کرے گا جس طرح مجھ پر نبوت کو ختم کیا ہے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٥٨٢٨‘ مجمع الزوائد ج ٩ ص ٢٦٩‘ اس کی سند میں اسماعیل بن قیس متروک ہے)
(٣٦) قتادہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ آیت پڑھتے : واذ اخذنا من النبیین میثا قھم ومنک ومن نوح ( الاحزاب : ٧) تو آپ فرماتے مجھ سے خیر کی ابتداء کی گئی ہے اور میں بعث میں سب نبیوں میں آخر ہوں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٣١٧٥٣‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٦ ھ)
(٣٧) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب مجھے آسمانوں کی معراج کرائی گئی تو میرے رب عزوجل نے مجھے اپنے قریب کیا حتی کہ میرے اور اس کے درمیان دو کمانوں کے سروں کا فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی زیادہ نزدیک ‘ بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک ‘ اللہ عزوجل نے فرمایا اے میرے حبیب ! اے محمد ! کیا آپ کو اس کا غم ہے کہ آپ کو سب نبیوں کا آخر بنایا ہے ‘ میں نے کہا اے میرے رب ! نہیں ! فرمایا : آپ اپنی امت کو میرا سلام پہنچادیں اور ان کو خبردیں کہ میں نے ان کو آخری بنایا ہے تاکہ میں دوسری امتوں کو ان کے سامنے شرمندہ کروں اور ان کو کسی امت کے سامنے شرمندہ نہ کروں۔ (الفردوس بما ثور الخطاب رقم الحدیث : ٥٣٢١‘ کنزالعمال رقم الحدیث ٣٢١١١‘ تاریخ بغداد ج ٥ ص ١٣٠‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٣ ص ٢٩٦‘ ٢٩٥‘ رقم الحدیث : ٨١١‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤٢١ ھ)
(٣٨) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب حضرت آدم (علیہ السلام) کو ھند میں اتارا گیا تو وہ گھبرائے پس جبریل نے نازل ہو کر اذان دی ‘ اللہ اکبر ‘ اللہ اکبر ‘ اشھد ان لا لہ الا اللہ دو دفعہ ‘ اشھد ان محمدا رسول اللہ دو دفعہ ‘ حضرت آدم (علیہ السلام) نے پوچھا محمد کون ہیں ‘ حضرت جبریل نے کہا وہ آپ کی اولاد میں سے آخر الانبیاء ہیں۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٧ ص ٣١٩‘ رقم الحدیث : ١٩٧٩‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
(٣٩) حافظ سیوطی نے مسند ابو یعلی اور امام ابن ابی الدنیا کے حوالہ سے حضرت تمیم داری کی ایک طویل حدیث روایت کی ہے اس کے آخر میں ہے : فرشتے قبر میں مردہ سے سوال کریں گے تیرا رب کون ہے ؟ تیرا دین کیا ہے اور تیرا نبی کون ہے ؟ وہ کہے گا میرا رب اللہ وحدہ لاشریک ہے اور اسلام میرا دین ہے اور (سید نا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے نبی ہیں اور وہ خاتم النبیین ہیں ‘ فرشتے کہیں گے تم نے سچ کہا۔ (الدر المثور ج ٨ ص ٣٣‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
(٤٠) حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا جب تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھو تو اچھی طرح پڑھو ‘ تم کو علم نہیں ہے شاید یہ درود آپ پر پیش کیا جائے گا ‘ لوگوں نے کہا اے ابو عبدالرحمان آپ ہمیں تعلیم دیجئے انہوں نے کہا تم اس طرح درود پڑھو : اللھم اجعل صلواتک ورحمتک وبرکاتک علی سید المرسلین و امام المتقین و خاتم البیین محمد عبدک ورسولک امام الخیر وقائد الخیر و رسول الرحمۃ۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٩٠٦‘ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٥٢٦٧‘ المستدرک ج ٢ ص ٢٦٩ )
(٤١) حضرت ابن عباس (رض) نے شفاعت کبری کے متعلق ایک طویل حدیث روایت کی ہے اس کے آخر میں ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فرمائیں گے میں شفاعت کا اہل نہیں ہوں ‘ میری اللہ کے سوا پرستش کی گئی ہے ‘ آج مجھے صرف اپنی فکر ہے ‘ یہ بتائو کہ اگر کسی سیل بند برتن میں کوئی چیزہو تو کیا کوئی شخص سیل توڑے بغیر اس کو کھول سکتا ہے ؟ لوگوں نے کہا نہیں ‘ حضرت عیسیٰ نے فرمایا پس (سید نا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم النبیین ہیں اور وہ یہاں موجود ہیں اللہ نے ان کے اگلے اور پچھلے بہ ظاہر خلاف اولیٰ کام معاف فرمادیئے ہیں۔ (مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٢٣٢٨‘ مسند احمد ج ١ ص ٢٨١‘ مسند الطیا لسی رقم الحدیث : ٢٧٩٨)
(٤٢) حضرت عمر بن الخطاب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گوہ سے پوچھا میں کون ہوں ؟ تو اس نے کہا آپ رسول رب العلمین اور خاتم النبیین ہیں (حافظ عسقلانی ‘ علامہ آلوسی اور مفتی شفیع دیوبندی نے بھی اس حدیث سے استدلال کیا ہے) (المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٩٤٨‘ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٤٠٨٦)
(٤٣) ایاس بن سلمہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ابوبکر تمام لوگوں سے افضل ہیں مگر وہ نبی نہیں ہیں۔ (الکامل لابن عدی ج ٦ ص ٤٨٤‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٨ ھ)
(٤٤) حضرت ابو الطفیل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے رب کے پاس دس نام ہیں ‘ حضرت ابو الطفیل نے کہا مجھے ان میں سے آٹھ یاد ہیں ‘ محمد ‘ احمد ‘ ابو القاسم ‘ الفاتح (نبوت کا افتتاح کرنے والا) الخاتم (نبوت کو ختم کرنے والا) العاقب (جس کے بعد کوئی نبی نہ آئے) الحاشر الماحی (شرک کو مٹانے والا) ۔(دلائل النبوت لابی نعیم ج ١ ص ٦١‘ رقم الحدیث : ٢٠ )
(٤٥) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل کی گئی تو انہوں نے اس میں اس امت کا ذکر پڑھا پس انہوں نے کہا : اے میرے رب ! میں نے تورات کی الواح میں پڑھا ہے کہ ایک امت تمام امتوں کے آخر میں ہوگی اور قیامت کے دن سب پر مقدم ہوگی اس کو میری امت بنا دے فرمایا وہ امت احمد ہے۔ (دلائل النبول لابی نعیم ج ١ ص ٦٨ رقم الحدیث : ٣١)
(٤٦) حضرت حسان بن ثابت (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے مدینہ کے ٹیلوں میں سے ایک ٹیلے پر دیکھا ایک یہودی کے پاس آگ کا شعلہ تھا ‘ لوگ اس کے گردجمع تھے اور وہ یہ کہہ رہا تھا یہ احمد کا ستارہ ہے جو طلوع ہوچکا ہے یہ صرف نبوت کے موقع پر طلوع ہوتا ہے اور انبیاء میں سے اب صرف احمد کا آنا باقی رہ گیا ہے۔ (دلائل النبوت لابی نعیم ج ١ ص ٧٦۔ ٧٥‘ رقم الحدیث : ٣٥)
(٤٧) حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت زید بن خارجہ انصاری (رض) جب فوت ہوگئے تو ان پر جو کپڑا تھا اس کے نیچے سے آواز رہی تھی ‘ لوگوں نے ان کے سینہ اور چہرہ سے کپڑا ہٹایا تو ان کے منہ سے آواز آرہی تھی : محمد رسول اللہ النبی الامی خاتم النبیین ہیں ان کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (رسائل ابن ابی الدنیا ج ٣ ص ٣٨٨‘ مئو سستہ الکتب الثفافیہ بیروت ‘ ١٤١٤ ھ)
(٤٨) حضرت ابوہریرہ (رض) معراج کی ایک طویل حدیث روایت کرتے ہیں اس میں مذکور ہے کہ مسجد اقصی میں نبیوں نے حضرت جبریل سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا :ھذا محمد رسول اللہ خاتم النبیین۔ یہ محمد رسول اللہ خاتم النبیین ہیں۔(مسند البز ارج ١ ص ٤٠‘ رقم الحدیث : ٥٥‘ مجمع الزوائد ج ١ ص ٦٩ )
اسی روایت میں مذکور ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام نبیوں کے خطاب کے بعد حسب ذیل خطبہ پڑھا :
الحمد للہ الذی ارسلنی رحمۃ للعلمین و کافۃ للناس بشیرا ونذیرا وانزل علی الفرقان فیہ تبیان کل شیء وجعل امتی خیر امتی امۃ اخرجت للناس وجعل امتی وسطا وجعل امتی ھم الا ولون والا خرون وشرح لی صدری وجعلنی فاتحاو خاتما۔
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا اور تمام لوگوں کے لیے ثواب کی بشارت دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا اور مجھ پر قرآن نازل کیا جس میں ہر چیز کا بیان ہے اور میری امت کو تمام امتوں میں بہتر اور کامل بنایا جس کو لوگوں کے سامنے بھیجا گیا اور میری امت کو (قیامت میں) اول اور (دنیا میں) آخر بنایا اور میرے سینہ کو کھول دیا اور مجھے نبوت کی ابتداء کرنے والا اور نبوت کو ختم کرنے والا بنایا۔
اور اس حدیث کے آخر میں ہے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا :
قد اتخذتک خلیلا وھو مکتوب فی التوراۃ محمد حبیب الرحمان وارسلتک الی الناس کافۃ وجعلت امتک ھم الاولون وھم الا خرون وجعلت امتک لا تجوز لھم خطبۃ حتی یشھدوا انک عبدی و رسولی وجعلتک اول النبیین خلقا واخرھم بعثا (الی قولہ) وجعلتک فاتحاو خاتما۔
میں نے آپ کو خلیل بنایا ‘ اور تورات میں لکھا ہوا ہے محمد رحمان کے حبیب ہیں اور میں نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے رسول بنایا اور آپ کی امت کو اول اور آخر بنایا اور جب تک آپ کی امت یہ گواہی نہ دے کہ آپ میرے بندے اور میرے رسول ہیں ان کا خطبہ جائز نہیں ہوگا ‘ اور میں نے آپ کو پیدائش میں تمام نبیوں سے پہلے بنایا اور دنیا میں سب سے آخر میں بھیجا اور آپ کو نبوت کی کی ابتداء کرنے والا اور نبوت کو ختم کرنے والا بنایا۔ (مسند البز ارج ١ ص ٤٤‘ رقم الحدیث : ٥٥‘ مجمع الزوائد ج ١ ص ٧١)
(٤٩) حضرت ابن زمل (رض) نے ایک خواب دیکھا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خوب کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : رہی وہ اونٹنی جس کو تم نے خواب میں دیکھا اور یہ دیکھا کہ میں اس اونٹنی کو چلارہا ہوں تو اس سے مراد قیامت ہے ‘ نہ میرے بعد کوئی نبی ہوگا اور نہ میری امت کے بعد کوئی امت ہوگی۔ (دلائل النبوۃ ج ٧ ص ٣٨‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٨١٤٦‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٤٢٠١٨)
حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر المتوفی ٧٧٤ ھ نے الواقعہ : ١٣ کی تفسیر میں اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔(تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٣١٥‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)
(٥٠) حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس طرح درود شریف پڑھو :
لبیک اللھم ربی وسعدیک صلوات اللہ البر الرحیم ‘ والملائکۃ المقربین والنبیین والصدیقین والشھداء والصالحین وما سبح لک من شیء یا رب العلمین علی محمد بن عبد اللہ خاتم النبیین وسید المرسلین و امام المتقین و رسول رب العلمین الشاھد البشیر الداعی ا الیک باذنک السراج المنیر و (علیہ السلام) ۔
(الشفاء ج ٤ ص ٦٠‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ ‘ نسیم الریاض ج ٥ ص ٥٤۔ ٥٣‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
احادیث ختم نبوت کی صحیح تعداد
ہم نے پچاس احادیث صحیحہ اور مقبولہ مکمل حوالہ جات کے ساتھ ذکر کی ہیں جن میں ہمارے نبی سید محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاتم النبیین ہونے کی صاف تصریح ہے ‘ ہم نے اس سلسلہ میں مکرر احادیث کا ذکر نہیں کیا اور نہ ایسی احادیث کا ذکر کیا ہے جن کی ختم نبوت پر التزامی ‘ تضمنی یا دوراز کار یا بعید دلالت ہو ؎ ١ اور محض تعداد بڑھانے اور بھرتی کے لیے احادیث کو جمع نہیں کیا اس کے برخلاف بعض علماء نے ختم نبوت پر دو سو سے زائد احادیث جمع کی ہیں ‘ لیکن ان میں اکثر احادیث مکررہ ہیں اور ایک حدیث کی عبارت جتنی کتابوں میں مذکور ہے اس حدیث کا اتنی بار شمار کرلیا گیا ہے ‘ مفتی محمد شفیع دیو بندی نے اپنی کتاب ختم نبوت (ادارۃ المعار کراچی ١٤١٩ ھ) میں دو سو دس احادیث ذکر کی ہیں لیکن اس کتاب میں مکررات کو کو الگ الگ حدیث شمار کیا گیا ہے ‘ مثلا ایک حدیث کی عبارت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) سے فرمایا کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے حضرت موسیٰ کے لیے حضرت ہارون تھے مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا مفتی صاحب نے اس حدیث کو بارہ مرتبہ ان نمبروں سے ذکر کیا ہے : حدیث نمر : ٧‘ حدیث نمر : ٢٤‘ حدیث نمر : ٣٨‘ حدیث نمر : ٥١‘ حدیث نمر : ٥٢‘ حدیث نمر : ٧٢‘ حدیث نمر : ٧٣‘ حدیث نمر : ٧٤‘ حدیث نمر : ٧٥‘ حدیث نمر : ٧٦‘ حدیث نمر : ٨٢‘ حدیث نمر : ١٣٠۔ اس کے برخلاف ہم نے اس حدیث کو صرف ایک بار متعدد کتب حدیث کے حوالے سے حدیث نمبر : ٥ میں ذکر کیا ہے۔ اسی طرح اور کئی احادیث ہے مکررہ ہیں جن کے الگ الگ نمبر ڈالے گئے جن میں حضرت ابن زمل کے خواب والی حدیث ‘ تیس دجالوں والی حدیث ہے ‘ عاقب والی حدیث ہے اور کئی احادیث ہیں۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد مدعی نبوت کی تصدیق کرنے ——–
والوں کو فقہاء اسلام کا کافر اور مرتدقرار دینا
ہم نے یہ لکھا ہے کہ اس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری نبی ہیں اور یہ قرآن مجید کی ظریح آیات اور حادیث متواترہ سے ثابت ہے اور اس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔
امام محمد بن محمد زالی متوفی ٥٠٥ ھ اس مسئلہ پر بہث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ہمیں اجماع اور مختلف قرائن سے یہ معلوم ہوا ہے کہ لانبی بعدی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا ہے اور خاتم النبیین سے مراد بھی مطلق انبیاء ہیں ‘ غرض ہمیں یقینی طور پر معلوم ہوا کہ ان لفظوں میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے اور جو شخص اس حدیث میں تاویل یا تخصیص کرے وہ اجماع کا منکر ہے۔ (الاقتصادفی الاعتقاد (مترجم) ص ١٦٣‘ محصلاً ‘ مطبوعہ سنگ میل پبلی کیشنز لاہور)
قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی ٥٤٤ ھ لکھتے ہیں :
اسی طرح ہم اس شخص کو کافر قرار دیتے ہیں جو ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ یا آپ کے عبد کسی نبوت کا دعویٰ کرے (الی قولہ) اسی طرح ہم اس شخصکو کافر کہتے ہیں جو یہ دعویٰ کرے کہ اس کی طف وحی کی جاتی ہے خواہ وہ نبوت کا دعویٰ نہ کرے ‘ پس یہسب لوگ کافر ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرنے والے ہیں ‘ کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ خبر دی ہے کہ آپ خاتم النبیین ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا اور آپ نے اللہ کی طرف سے یہ خبر دی ہے کہ آپ خاتم النبیین ہیں اور آپ کو تمام لوگوں کی طرف رسول بنایا گیا ہۃ ے اور امت کا اس پر اجماع ہے کہ یہ کلام اپنے ظاہر پر محمول ہے اور اس کا ظاہر مفہوم مراد ہے اور اس کلام میں کوئی تاویل یا تخصیص نہیں ہے ‘ اور ان لوگوں کا کفر قطعی اجماعی اور سماعی ہے۔
(الشفاء ج ٢ ص ٢٣٨۔ ٢٣٧‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
علامہ شہاب الدین احمد بن محمد خفا جی حنفی متوفی ١٠٦٩ ھ اور ملاعلی سلطان محمد القاری الحنفی المتوفی ١٠١٤ ھ نے بھی الشفاء کی اس عبارت کو مقرر رکھا ہے۔
(نسیم الریاض ج ٦ ص ٣٥٦۔ ٣٥٥‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ ‘ شرح الشفاء ج ٢ ص ٥١٦۔ ٥١٥‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
نیز قاضی عیاض بن موسیٰ مالی متوفی ٥٤٤ ھ لکھتے ہیں :
عبدالملک بن مروان الحارث نے نبوت کے دعویٰ دار ایک شخص کو قتل کردیا اور اس کو سولی پر لٹکا دیا اور متعدد خلفاء اور بادشاہوں نے اسی طرح مدعیان نبوت کو قتل کیا اور اس زمانہ کے علماء نے ان کے اس اقدام کو صحیح قرار دیا۔ (الشفاء ج ٢ ص ٢٤٥‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
علامہ خفا جی حنفی نے اس کی شرح میں کہا کیونکہ مدعیان نبوت نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کی تکذیب کی کہ آپ خاتم الرسل ہیں اور آپ کے عبد کوئی رسول مبعوث نہیں ہوگا۔ (نسیم الریاض ج ٦ ص ٣٩٤ بیروت)
ملا علی قاری حنفی نے لکھا کہ ان مدعیان نبوت کو انکے کفر کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ (شرح الشفاء ج ٢ ص ٥٣٤)
علامہ ابو الحیان محمد بن یوسف غزناطی اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ لکھتے ہیں :
جس کا یہ مذہب ہے کہ نبوت کسبی ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی یا جس کا یہ مذہب ہے کہ ولی نبی سے افضل ہے وہ زندیق ہے او اس کا قتل کر ھنا واجب ہے ‘ اور کئی لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور ان کو لوگوں نے قتل کردیا۔ اور ہمارے زمانہ میں مالقہ (اندلس کا شہر) کے فقراء میں سے ایک شخص نے نبوت کا دعوی کیا تو اس کو سلطان ابن الاحمر بادشاہ اندلس نے قتل کردیا اور اس کو سولی پر لٹکا دیا۔ (البحر المحیط ج ٨ ص ٤٨٥‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٢ ھ)
علامہ محمد الشر بینی الشافعی من القران السابع لکھتے ہیں :
جو شخص ہمار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی مدعی نبوت کی تصدیق کرے وہ کافر ہے۔
(مغنی المحتاج ج ٤ ص ١٣٥‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٣٥٢ ھ)
علامہ موفق الدین عبد اللہ بن احمد بن قدامہ حنبلی متوفی ٦٢٠ ھ لکھتے ہیں :
جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا یا جس شخص نے کسی مدعی نبوت کی تصدیق کی وہ مرتد ہوگیا ‘ کیونکہ جب مسیلمہ نے دعویٰ نبوت کیا اور اس کی قوم نے اس کی تصدیق کی تو وہ سب اس کی تصدیق کرنے کی وجہ سے مرتد ہوگئے ‘ اسی طرح طلیحہ الاسدی اور اس کے مصدقین بھی مرتد ہوگئے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ تیس کذاب نکلیں گے اور ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔ (المغنی ج ٩ ص ٣٣‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤٠٥ ھ)
امام غزالی کی الاقتصاد کی عبارت پر فقہائے اسلام کے تبصرے
امام محمد بن محمد الغزالی الشافعی المتوفی ٥٠٥ ھ لکھتے ہیں :
نظام معتزلی اور اس کے موافقین صری خبر متواتر کو دین میں حجت قطعیہ مانتے ہیں اور اجماع کے حجت قطعیہ ہونے کا انکار کرتے ہیں ‘ نظام نے کہا اس پر کوئی عقلی یا شرعی قطعی دلیل نہیں ہے کہ اہل اجماع پر خطاء محال ہے ‘ اور نظام کا یہ قول تابعین کے اجماع کے مخالف ہے ‘ کیونکہ ہم کو معلوم ہے کہ ان کا اس پر اجماع ہے کہ جس بات پر صحابہ کرام نے اجاع کیا ہے وہ قطعی حق ہے اور اس کا خلاف ممکن نہیں ہے ‘ پس نظام معتزلی نیاجماع کی حجیت کا انکار کر کے اجماع کے خلاف کیا۔
اور یہ ایک اجتہادی امر ہے اور میرے اس میں کئی اعتراض ہیں ‘ کیونکہ اجماع کے حجت ہونے میں کئی اشکالات ہیں اور یہ نظام کے عذرہونے کی گنجائش رکھتا ہے ‘ لیکن اگر اجماع کے حجت ہونی پر عدم اعتمادہ کا دروازہ کھول دیا جائے تو اس سے کئی خرابیاں لازم آئیں گی۔
ان خرابیوں میں سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ہمار نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی کسی نبی کا مبعوث ہونا ممکن ہے تو اس کی تکفیر میں توقف کرنا بعید ہوگا۔
اور اس کو کافر کہنے کی بناء لامحالہ اجماع کی مخالفت پر رکھی جائے گی ‘ کیونکہ آپ کے بعد کسی نبی کی بعثت کو عقل محال نہیں قرار دیتی ‘ اور وہ جو حدیث میں ہے لا نبی بعدی میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور قرآن مجید میں خاتم النبیین ہے ‘ تو منکر اجماع اس کی تاویل سے عاجز نہیں ہے ‘ وہ کہہ سکتا ہے کہ خاتم النبیین سے مراد یہ ہے کہ آپ اولوا العزم رسولوں کے خاتم ہیں ‘ مطلقاً الانبیاء کے خاتم نہیں ہیں ‘ اور اگر اس پر اصرار کیا جائے کہ النبیین عام ہے تو عام کی تخصیص کرنا بھی کوئی مس بعد چیز نہیں ہے ‘ اور یہ جو آپکا ارشاد ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو اس حدیث میں آپ نے رسول کے آنے کی نفی نہیں کی ہے اور نبی اور رسول میں فرق کیا گیا ہے اور نبی کا مرتبہ رسول سے بلند ہے ‘ منکر اجماع کے پاس اس طرح کے اور بھی ہذیان ہیں۔ اس قسم کے فضول ہذیانوں کی وجہ سے ہمارے لیے یہ دعویٰ کرنا ممکن نہیں ہے کہ محض خاتم النبیین کا لفظ اس پر دلیل ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اور بعض نصوص صریحہ میں اس سے بھی زیادہ بعید تاویلات کی جاتی ہیں لیکن ان بعید تاویلات کی وجہ سے وہ نصوص باطل نہیں ہوتیں۔۔
تاہم اس منکر اجماع پر اس طرح روکا جائے گا کہ تمام امت نے بالا جماع اس لفظ (خاتم النبیین) سے یہی معنی سمجھا ہے (کہ آپ کے بعد کسی نبی کا مبعوث ہونا ممکن نہیں ہے) اور آپ کے احوال کے قرائن سے بھی یہی بات مفہوم ہوتی ہے کہ آپ کے بعد کبھی بھی کوئی رسول نہیں آسکتا اور اس میں کوئی تاویل اور تخصیص نہیں ہوسکتی اور اس بات کا انکار وہی کرے گا جو اجماع کا منکر ہوگا۔ (الاقتصادنی الاعتقاد ص ٢٧٣۔ ٢٧٢‘ دارومکتبۃ الہلال بیروت ‘ ١٩٩٣ ھ)
ہر چند کہ امام غزالی کے نزدیک سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی اور نبی کا آنا کبھی بھی ممکن نہیں ہے اور اس آیت میں تاویل کرنا اور اسی طرح اس حدیث میں تخصیص کرنا ان کے نزدیک باطل اور ہذیان ہے۔ لیکن اس کو کافر قرار دینے میں ان کو تامل ہے وہ کہتے ہیں کہ اس کی تکفیر اجماع کی بناء پر ہوگی اور اجماع ان کے نزدیک حجت قطعی نہیں ہے اور جب تک اجماع کو ساتھ نہ ملایا جائے صرف خاتم النبیین کے لفظ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کے بعد اور کوئی نبی نہیں آسکتا ‘ ہاں اس پر تمام امت کا اجماع ہے لیکن ان کے نزدیک اجماع حجت قطعی نہیں ہے کہ اس کے منکر کو کافر قرار دیا جائے۔
علامہ ابو عبد اللہ قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ نے امام غزالی کی اس عبارت سے اتفاق نہیں کیا اور اس پر حسب ذیل تبصرہ کیا ہے :
الغزالی نے اپنی کتاب ” الاقتصاد “ میں اس آیت کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ میرے نزدیک الحاد ہے اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ختم نبوت کے متعلق مسلمانوں کے عقیدہ ختم نبوت کو تشویش میں ڈالنا ہے اور یہ بہت خبیث راستہ ہے ‘ سو اس نظریہ سے بچو ‘ اس نظریہ سے بچو ‘ اور اللہ ہی اپنی رحمت سے ہدایت دینے والا ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٤ ص ١٧٨‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
اور علامہ محمد بن خلیفہ الوثتانی الابی المالکی المتوفی ٨٢٨ ھ نے علامہ قرطبی کی عبارت پر یہ تبصرہ کیا ہے :
الغزالی نے ختم نبوت کے متعلق جو اس آیت میں ذکر کیا ہے وہ الحاد ہے اور مسلمانوں کے عقیدہ ختم نبوت کو تشویش میں ڈالنے کے لیے خبیث طریقہ ہے ‘ سو اس نظریہ سے بچو ! اس نظریہ سے بچو ‘ یہ ابن بزیزہ کی عبارت ہے۔
امام غزالی کی عبارت میں ایسا کوئی لفظ نہیں ہے جو ختم نبوت کے عقیدہ کے خلاف وہم پیدا کرے ‘ امام غزالی کے حاسدین نے ان کی طرف یہ تہمت لگائی ہے ‘ اور ابن عطیہ نے ان پر یہ حملہ کیا ہے اور امام غزالی اس تہمت سے بری ہیں ‘ اور انہوں نے اپنی تحریروں میں اس بدعقیدگی سے برأت کا اظہار کیا ہے ‘ کیونکہ یہ بات تو مبتدعین کہتے ہیں کہ نبوت کسبی چیز ہے اور انہوں نے اس مشہور حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ایک جملہ کو زائد ڈال دیا گیا ہے ” عنقریب میرے بعد تیس ایسے آدمیوں کا ظہور ہوگا جن ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا مگر جس کو اللہ چاہے “ اس آخری جملہ (مگر جس کو اللہ چاہے) کو محمد بن سعید شامی نے زائد کیا تھا اور اس کو اس کی زندیقی کی بناء پر سولی دے گئی ‘ بعض لوگوں نے حضرت عیسیٰ کے نزول کی وجہ سے اس حدیث پر اعتراض کیا ہے مگر اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) زمین والوں کی طرف رسول بن کر اور مبعوث ہو کر نازل نہیں ہوں گے۔ (اکمال اکمال المعلم ج ١ ص ٦٠٧۔ ٦٠٦‘ ج ٨ ص ٢٣۔ ٢٢‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
علامہ ابی کے شاگرد علامہ محمد بن محمد بن یوسف السنوسی الحسنینی بھی حسب معمول اس متام عبار کو بیعنہ نقل کیا ہے۔
(مکمل اکمال الا کمال مع شرح الابی ج ١ ص ٦٠٧۔ ٦٠٦‘ ج ٨ ص ٢٣۔ ٢٢‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
امام غزالی کی ظاہر عبارت پر بہر حال یہ احتراض ہوتا ہے کہ ان کو انکار ختم نبوت کو کفر قرار دینے میں تامل ہے وہ کہتے ہیں کہ اسکا کفر ہونا اجماع سے ثابت ہوگا اور اجماع ان کے نزدیک حجت قطعیہ نہیں ہے ‘ تاہم وہ آیت ختم نبوب اور حدیث ختم نبوت میں تاویل اور تخصیص کو باطل اور ہذیان قرار دیتے ہیں ‘ امام غزالی کو اعتراض سے بچانے کے لیے بعض علماء نے امام غزالی کی عبارت کا صرف اتنا حصہ ہی نقل کیا ہے۔
مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی ١٣٩٦ ھ لکھتے ہیں :
بے شک امت نے اس لفظ (یعنی خاتم النبیین اور لانبی بعدی) اور قرائن احوال سے بالا جماع یہی سمجھا ہے کہ آپ کے بعد ابد تک نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ کوئی رسول اور یہ کہ نہ اس میں کوئی تاویل چل سکتی ہے نہ تخصیص۔
(ختم نبوت (کامل) ص ٣٢٩‘ ادارۃ المعارف کراچی ‘ ١٤١٩ ھ)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی ‘ متوفی ١٣٤٠ ھ نے امام غزالی سے اعتراض اٹھانے کے لیے ان کی عبارت میں تصرف کرکے اس عبارت کو یوں نقل کیا ہے۔
یعنی تمام امت محمد یہ علیٰ صاحبہا الصلوۃ والتحیۃ نے لفظ خاتم النبیین سییہی سمجھا کہ وہ بتاتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کبھی کوئی نبی نہ ہوگا حضور کے بعد کوئی رسول نہ ہوگا اور تمام امت نے یہی مانا کہ اس لفظ میں نہ کوئی تاویل ہے کہ آخر البیین کے سوا خاتم البیین کے کچھ اور معنی گھڑے ‘ نہ اس عموم میں کچھ تخصیص ہے کہ حضور کے ختم نبوت کو کسی زمانہ یا زمین کے کسی طبقہ سیخاص کیجئے اور جو اس میں تاویل اور تخصیص کو راہ دے اس کی بات جنون یا نشے یا سر سام میں بہکنے برانے یا بکنے کے قبیل سے ہے اسے کافر کہنے سے کچھ ممانعت نہیں کہ وہ آیت قرآن کی تکذیب کررہا ہے جس میں اصلاً طاویل و تخصیص نہ ہونے پر امت مرحومہ کا اجماع ہوچکا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ ج ١٥ ص ٧٢٤ طبع جدید ‘ رضا فائونڈیشن لاہور ‘ ١٤٢٠ ھ)
اعلیٰ حضرت پر یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ انہوں نے امام غزالی کی عبارت میں تحریف کی ہے اور تکفیر کے لفظ کا اضافہ کیا ہے کیونکہ اعلیٰ حضرت نے تمام امت کے اجماع کی بناء پر ختم نبوت میں تاویل اور تخصیص کو امام غزالی کے نزدیک کفر کہا ہے اور اجماع امت کی بناء پر امام غزالی بھی اس کو کافر کہتے ہیں البتہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اجماع امت سے صرف نظر کرکے صرف خاتم النبیین کے لفظ سے اس کے منکر کا کفر ثابت نہیں ہوگا اور اجماع ان کے نزدیک قطعی حجت نہیں ہے ‘ بہر حال یہ ایک علمی اصلاح ہے اور امام غزالی کے نزدیک بھی آیت ختم نبوت اور حدیث ختم نبوت میں کوئی تاویل اور تخصیص جائز نہیں ہے۔
منکرین ختم نبوت کا اجمالی جائزہ
اس وقت دنیا میں بہائی اور قادیانی ہیں جو ختم نبوت کے منکر ہیں۔ یا امریکا میں کچھ لوگ ہیں جو علی جاہ کی نبوت کے قائل ہیں۔ بہائی اور علی جاہ کے پیرو کار بہت کم تعداد میں ہیں ‘ سب سے زیادہ قادیانی ہیں جو مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکار ہیں ان کے دو فرقے ہیں ان کی غالب اکثریت مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی اور رسول مانتی ہے ‘ دوسرا فرقہ مرزا قادیانی کو مجدد اور محدث مانتا ہے اس کو لاہوری جماعت کہا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مرزا کو الہام اور وحی میں اشتباہ ہوگیا ‘ قادیانی فرقہ ان کو کافر کہتا ہے۔ بلکہ وہ اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو کافر کہتا ہے ‘ ان کے نزدیک جو بھی مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت پر ایمان نہ لائے وہ کافر ہے۔
مرزا غلم احمد قادیانی مشرقی پنجاب کے ضلع گورداسپور کے ایک گائوں قادیان میں ١٨٤٠ ء میں پیدا ہوا ‘ وہ لکھتا ہے کہ جب اس کی عمر چالیس سال کی ہوگئی تو اس پر زور شور سے مکالمات الہیہ کا سلسہ شروع ہوا۔ (کتاب البریہ ص ١٣٦)
١٨٨٠ ء میں مرزا ایک مبلغ کی حیثیت سے ظاہر ہوا پھر اس نے محدث ہونے کا دعویٰ کیا اور اس نے یہ کہا کہ اس کو الہام کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قرب قیامت میں آسمان سے نازل ہونے اور اب تک زندہ ہوے کا جو مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے وہ غلط ہے۔ اور اس عقیدہ کو ختم نبوت کے منافی قراردیا اور ١٨٩٠ ء تک برابر کہتا رہا کہ میرے نزدیک نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم النبیین اور آخری نبی ہیں ‘ پھر اس نے خود کو مثل مسیح اور مسیح موعود قرارد یا ‘ اور ١٨٩١ ء میں اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور ١٩٠٨ ء تک اس دعویٰ پر قائم رہا اور اسی سال کی عمر میں قے اور اور ہیضہ میں مبتلا ہو کر مرگیا۔
ان تمام عنوانات پر پروفیسر محمد الیاس برنی (رح) نے اپنی کتاب ” قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ “ میں خود مرزا غلام احمد قادیانی اور دیگر صنادید مرزائیوں کی تصانیف کے حوالوں سے لکھا ہے ‘ ہم قارئین کی معلومات کے لیے اس کتاب کے ان اقتباسات کو پیش کررہے ہیں جن سے خود مرزا اور دیگر ضادید کے حوالوں سے مر زا کا محدث کا دعوثٰ کرنا ‘ پھر مثیل موعود کا دعویٰ کرنا اور ختم نبوت کا اقرار کرنا اور پھر نبوت کا دعویٰ کرنا اور ختم نبوت کا انکار کرنا واضح ہوتا ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی کا ختم نبوت پر ایمان و اصرار
” قرآن شریف میں مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کا تو کہیں بھی ذکر نہیں لیکن ختم نبوت کا بہ کمال تصریح ذکر ہے اور پرانے یا نئے نبی کی تفریق کرنا یہ شرارت ہے نہ حدیث میں نہ قرآن میں یہ تفریق موجود ہے اور حدیث لا نبی بعدی میں بھی نفی عام ہے۔ پس یہ کس قدر جرأت اور دلیری اور گستاخی ہے کہ خیالات رکیکہ کی پیروی کرکے نصوص صریحہ قرآن کو عمداً چھوڑ دیا جائے اور خاتم الانبیاء کے بعد ایک نبی کا آنا مان لیا جائے اور بعد اس کے جو وحی نبوت منقطع ہوچکی تھی ‘ پھر سلسلہ وحی نبوت کا جاری کردیا جائے۔ کیونکہ جس میں شان نبوت باقی ہے ‘ اس کی وحی ہوئی۔ “ (ایام صلح “ ص ١٤٦ ” روحانی خزائن “ ص ٣٩٢۔ ٣٩٣‘ ج ١٤ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)
” اور اللہ کو شایان نہیں کہ خاتم النبیین کے بعد نبی بھیجے اور نہیں شایان کہ سلسلہ نبوت کو دوبارہ از سر نو شروع کردے۔ بعد اس کے کہ اسے قطع کرچکا ہو اور بعض احکام قرآن کریم کے منسوخ کردے اور ان پر بڑھادے “۔ (ترجمہ)
( ” آئینہ کمالات اسلام “ ص ٣٧٧“ روحانی خزائن “ ص ٣٧٧ ج ٥‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)
” اور ظاہر ہے کہ یہ بات مستلزم محال ہے کہ خاتم النبیین کے بعد پھر جبرئیل (علیہ السلام) کی وحی رسالت کے ساتھ زمین پر آمد و رفت شروع ہوجائے اور ایک نئی کتاب اللہ ‘ گو مضمون میں قرآن شریف سے توارد رکھتی ہو ‘ پیدا ہوجائے اور جو امر ستلزم محال ہو ‘ وہ محال ہوتا ہے “۔ (فتدبر) ( ” ازالہ اوہام “ حصہ دوم ص ٥٨٣ ” روحانی خزائن “ ص ٤١٤ ج ٣‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)
” اور اللہ تعالیٰ کے اس قول ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین میں بھی ارشارہ ہے۔ پس اگر ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اللہ کی کتاب قرآن کریم کو تمام آنے والوں زمانوں اور ان زمانوں کے لوگوں کے علاج اور دوا کی رو سے مناسب نہ ہوتی تو اس عظیم الشان نبی کریم کو ان کے علاج کے واسطے قیامت تک ہمیشہ کے لیے نہ بھیجتا اور ہمیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی نبی کی حاجت نہیں کیونکہ آپ کے برکات ہر زمانہ پر محیط اور آپ کے فیض اولیاء اور اقطاب اور محدثین کے قلوب پر بلکہ کل مخلوقات پر وارد ہیں۔ خواہ ان کو اس کا علم بھی نہ ہو کہ انہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پاک سے فیض پہنچ رہا ہے۔ پس اس کا احسان تمام لوگوں پر ہے۔ “ (ترجمہ)
( ” حمامۃ البشری “ ‘ ٤٩‘ طبع اول ‘ ص ٦٠‘ طبع دوم ‘ روحانی خزائن “ ص ٢٤٣۔ ٢٤٤‘ ج ٧‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)
” میں ایمان لاتا ہوں اس پر کہ ہمارے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم الانبیاء ہیں اور ہماری کتاب قرآن کریم ہدایت کا وسیلہ ہے اور میں ایمان لاتا ہوں اس بات پر کہ ہمارے رسول آدم کے فرزندوں کے سردار اور رسولوں کے سردار ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ نبیوں کو ختم کردیا۔ “ (ترجمہ)
(آئینہ کمالات اسلام ص ٢١‘ روحانی خزائن ص ٢١ ج ٥‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی )
” میں ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جیسا کہ اہل سنت جماعت کا عقیدہ ہے۔ ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن اور حدیث کی رو سے مسلم الثبوت ہیں اور سیدنا ومولانا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت و رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ وحی رسالت حضرت آدم صفی اللہ سے شروع ہوئی اور جناب رسول اللہ محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم ہوگئی “۔
(مرزا غلام احمد قادیانی کا اشتہار ‘ مجموعہ اشتہارات ص ٢٣٠‘ ج امور خہ ٢ اکتوبر ١٨٩١ ء مندرجہ تبلیغ رسالت جالد دوم ص ٢)
محدثیت سے نبوت تک ترقی
” ہمارے سید و رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم الانبیاء ہیں اور بعد انحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی نبی نہیں آسکتا۔ اس لیے اس شریعت میں نبی کے قائم مقام محدث رکھے گئے ہیں۔ “
(شہادت القرآن ص ٢٨‘ روحانی خزائن ص ٣٢٣۔ ٣٢٤‘ ج ٦‘ مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)
” میں نبی نہیں ہوں بلکہ اللہ کی طرف سے محدث اور اللہ کا کلیم ہوں تاکہ دین مصطفیٰ کی تجدید کروں “۔ (ترجمہ)
(آئینہ کمالات اسلام ص ٣٨٣‘ روحانی خزائن ص ٣٨٣‘ ج ٥‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)
” میں نے ہرگز نبوت کا دعوی نہیں کیا اور نہ میں نے انہیں کہا ہے کہ میں نبی ہوں لیکن ان لوگوں نے جلدی کی اور میرے قول کے سمجھنے میں غلطی کی۔ میں نے لوگوں سے سوائے اس کے جو میں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے اور کچھ نہیں کہا کہ میں محدث ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے اسی طرح کلام کرتا ہے جس طرح محدثین سے۔ “ (ترجمہ)
(حمامۃ البشری ص ٩٦‘ روحانی خزائن ص ٢٩٦۔ ٢٩٧‘ ج ٧‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)
” لوگوں نے میرے قول کو نہیں سمجھا ہے اور کہہ دیا کہ یہ شخص نبوت کا مدعی ہے اور اللہ جانتا ہے کہ ان کا قول قطعاً جھوٹ ہے۔ جس میں سچ کا شائبہ نہیں اور نہ اس کی کوئی اصل ہے۔ ہاں میں نے یہ ضرور کہا ہے کہ محدث میں تمام اجزائے نبوت پائے جاتے ہیں لیکن بالقوۃ ‘ بالفعل نہیں تو محدث بالقوۃ نبی ہے اور اگر نبوت کا دروازہ بند نہ ہوجاتا تو وہ بھی نبی ہوجاتا ہے “۔
(حمامۃ البشری ص ٩٩‘ روحانی خزائن ص ٣٠٠‘ ج ٧‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)
” نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدثیت کا دعویٰ ہے جو خدائے تعالیٰ کے حکم سے کیا گیا ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ محدثیت بھی ایک شعبہ قویہ نبوت کا اپنے اندر رکھتی ہے۔ “ (ازالہ اوہام ص ٤٢١‘ روحانی خزائن ص ٣٢٠ ج ٣‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)
” اس (محدثیت) کو اگر ایک مجازی نبوت قرار دیا جائے یا ایک شعبہ قویہ نبوت کا ٹھہرایا جائے تو کیا اس سے نبوت کا دعویٰ لازم آگیا “۔ (ازالہ اوہام ص ٤٢٢‘ روحانی خزائن ص ٣٢١ ج ٣‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)
مسیح موعود کی اہمیت
” اول تو یہ جاننا چاہیے کہ مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہمارے ایمانیات کی کوئی جزو یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے کوئی رکن ہو۔ بلکہ صدہا پیشنگوئیوں میں سے یہ ایک پیش گوئی ہے جس کو حقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ جس زمانہ تک یہ پیش گوی بیان نہیں کی گئی تھی ‘ اس زمانہ تک اسلام کچھ ناقص نہیں تھا اور جب بیان کی گئی تو اس سے اسلام کچھ کامل نہیں ہوگیا “۔ (ازالہ اوہام طبع اول ص ١٤٠‘ روحانی خزائن ص ١٧١ ج ٧‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)
” اگر یہ اعتراض پیش کیا جائے کہ مسیح کا مثل بھی نبی چاہیے ‘ کیونکہ مسیح نبی تھا تو اس کا اول جواب تو یہی ہے کہ آنے والے مسیح کے لیے ہمارے سید و مولیٰ نے نبوت شرط نہیں ٹھہرائی بلکہ صاف طور پر یہی لکھا ہے کہ وہ ایک مسلمان ہوگا اور عام مسلمانوں کے موافق شریعت فرقانی کا پابند ہوگا اور اس سے زیادہ کچھ بھی ظاہر نہیں کرے گا کہ میں مسلمان ہوں اور مسلمان کا امام ہوں۔ “ (توضیح المرام ص ١٩‘ روحانی خزائن ص ٥٩‘ ج ٣ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)
مثیل مسیح بننے پر قناعت (م)
” اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدد وقت ہے اور روحانی طور پر اس کے کمالات مسیح ابن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک کو دوسرے سے بہ شدت مناسبت و مشابہت ہے۔ “ (اشتہار مندر ج تبلیغ رسالت ‘ جلد اول ص ١٥‘ مجموعہ اشتہارات ص ٢٤ ج ١)
مرزا صاحب حقیقی نبی
” در حقیقت خدا کی طرف سے خدا تعالیٰ مقرر کردہ اصطلاح کے مطابق قرآن کریم کے بتائے ہوئے معنوں کی رو سے نبی ہو اور نبی کہلانے کا مستحق ہو ‘ تمام کمالات نبوت اس میں اس حدتک پائے جاتے ہوں جس حد تک نبیوں میں پائے جانے ضروری ہیں تو میں کہوں گا کہ ان معنوں کی رو سے حضرت مسیح موعود حقیقی نبی تھے “۔
(القول افصل ص ١٢‘ مصنف میاں محمود احمد صاحب خلیفہ قادیان)
” پس شریعت اسلام نبی کے جو معنی کرتی ہے اس کے معنی سے حضرت (مرزا) صاحب ہرگز مجازی نبی نہیں ہیں ‘ بلکہ حقیقی نبی ہیں “۔ (حقیقۃ النبوۃ ص ١٧٤‘ مصنف میاں محمود احمد صاحب خلیفہ قادیان)
” حضرت مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی صاحب) رسول اللہ اور نبی اللہ جو کہ اپنی ہر ایک شان میں اسرائیلی مسیح سے کم نہیں اور ہر طرح بڑھ چڑھ کر رہے “۔ (کشف الاختلاف ص ٧‘ مصنف سید محمد سرور شاہ صاحب قادیانی)
” حضرت مسیح موعود (علیہ السلام) کے زمانے میں ‘ میں نے اپنی کتاب ” انوار اللہ “ میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود بموجب حدیث صحیح حقیقی نبی ہیں اور ایسے ہی نبی ہیں جیسے حضرت موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) و آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی ہیں (لانفرق بین احد من رسلہ) ہاں صاحب شریعت جدیدہ نبی نہیں۔ جیسے کہ پہلے بھی بعض صاحب شریعت نبی نہ تھے۔ “
یہ کتاب حضرت مسیح موعود نے پڑھ کر فرمایا ” آپ نے ہماری طرف سے حیدر آباد دکن میں حق تبلیغ ادا کردیا ہے۔ “
(اخبار الفضل قادیان ج ٣ ص ٣٨۔ ٣٩‘ مورخہ ١٩ ستمبر ١٩١٥ ء)
” غرضیکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ مسیح موعود (یعنی مرزا غلام احمد قادیانی صاحب) اللہ تعالیٰ کا ایک رسول اور نبی تھا اور وہی نبی تھا جس کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبی اللہ کے نام سے پکار اور وہی نبی تھا جس کو خود اللہ نے اپنی وحی میں یا ایھا النبی کے الفاظ سے مخاطب کیا “۔ (کلمۃ الفصل مصنف صاحب زادہ بشیر احمد صاحب قادیانی ‘ مندرجہ رسالہ ریویو آف ریلچز قادیان ص ١١٤ نمبر ٣‘ جلد ١٤)
” محترم ڈاکٹر صاحب ! اگر آپ حضرات ( یعنی لاہوری جماعت) صرف مسئلہ خلافت کے منکر ہوتے تو مجھے رنج نہ ہوتا کیونکہ آپ سے پہلے بھی ایک گروہ خوارج کا موجود ہے مگر غضب تو یہ ہے کہ آپ حضرت اقدس (مرزا صاحب) کو مسیح موعود ‘ مہدی نبی نہیں مانتے۔ اگر حضرت مرزا صاحب نبی نہیں تھے تو مسیح موعود بھی نہ تھے۔ (نعوذ باللہ) اور اس لیے آپ کا ماننا نہ ماننا برابر ہے اور ضرور حقیقی نبی تھے اور خدا کی قسم ضرور بہ ضرور نبی تھے اور آپ کے مخالف حضرات کا بھی وہی حشر ہوگا جو دیگر انبیاء کے مخالفین کا۔ میں اس عقیدہ پر علی وجہ البصیرت قائم ہوں۔ “ (مکتوب محمد عثمان خان صاحب قادیانی ‘ مندرجہ المہدی نمبر ١‘ ص ٥٤‘ مولف حکیم محمد حسین قادیانی لاہوری)
ختم نبوت کی تجدید
ان حوالوں سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اس امت میں سوائے مسیح موعہد کے اور کوئی نبی نہیں ہوسکتا کیونکہ سوائے مسیح موعود کے اور کسی فرد کی نبوت پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیقی مہر نہیں اور اگر بغیر تصدیقی مہر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور کسی کو بھی نبی قرار دیا جائے تو اسکے دوسرے معنی یہ ہوں کے گے کہ وہ نبوت صحیح نہیں۔(تشحیذ الاذہان قادیان نمبر ٨‘ جلد ١٢‘ صفحہ ٢٥‘ بابت ماہ اگست ١٩١٧ ء)
پس اس وجہ سے (اس امت میں) نبی کا نام پانے کے لیے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔ اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا جیسا کہ احدیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک ہی ہوگا ‘ وہ پیش گوئی پوری ہوجائے۔(حقیقت الوحی ص ٣٩١‘ روحانی خزائن ص ٤٠٧۔ ٤٠٦‘ ج ٢٢‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)
اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نبوت ختم کی گئی ہے اس لیے آپکے عبد اس کے سوا کوئی نبی نہیں جسے آپکے نور سے منور کیا گیا ہو اور جو بارگاہ کبریائی سے آپ کا وارث بنایا گیا ہو۔ معلوم ہوا کہ ختمیت ازل سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی گئی ‘ پھر اس کو دی گئی جسے آپ کی روح نے تعلیم دی اور اپنا ظل بنایا۔ اس لیے مبارک ہے وہ جس نے تعلیم دی اور وہ جس نے تعلیم حاصل کی ‘ پس بلاشبہ حقیقی حتمیت مقدر تھی چھٹے ہزار میں جو رحمان کے دنوں میں سے چھٹا دن ہے۔
(ما الفرق فی آدم و المسیح الموعود۔ ضمیمہ خطبۃ الہامیہ ص ب ‘ روحانی خزائن ص ٣١٠‘ ج ١٦‘ مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)
اسی طرح مسیح موعود چھٹے ہزار میں پیدا کیا گیا۔
(ما الفرق فی آدم والمسیع الموعود۔ ضمیمہ خطبۃ الھامیہ ص ج ‘ روحانی خزائن ص ٣١٠‘ ج ٢٢‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد صرف ایک ہی نبی کا ہونا لازم ہے اور بہت سارے انبیاء کا ہونا خدا تعالیٰ کی بہت سی مصلحتوں اور حکمتوں میں رخنہ واقع کرتا ہے۔ (تشحیذ الاذہان قادیان ‘ نمبر ٨‘ جلد ١٢ ص ١١‘ ماہ اگست ١٩١٧ ء)
ولکن رسول اللہ و خاتم النبین۔ اس آیہ میں ایک پیش گوئی مخفی ہے اور وہ یہ کہ اب نبوت پر قیامت تک مہر لگ گئی ہے۔ اور بجز بروزی وجود کے ‘ جو خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود ہے ‘ کسی میں یہ طاقت نہیں کہ جو کھلے طور پر نبیوں کی طرح خدا سے کوئی علم غیب پاوے۔ اور چونکہ وہ بروز محمدی جو قدیم سے موعود تھا ‘ وہ میں ہوں ‘ اس لیے بروزی رنگ کی نبوت مجھے عطا کی گئی اور اس نبوت کے مقابل پر اب تمام دنیا بےدست و پا ہے کیونکہ نبوت پر مہر ہے ایک بروز محمدی جمیع کمالات محمدیہ کے ساتھ آخری زمانہ کے لیے مقدر تھا ‘ سو وہ ظاہر ہوگیا۔ بجز اس کھڑکی کے اور کوئی کھڑکی نبوت کے چشمے سے پانی لینے کے لیے باقی نہیں۔ (ایک غلطی کا ازالہ ص ١١‘ روحانی خزائن ص ٢١٥ ج ١٨‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی)
ہلاک ہوگئے وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول کو قبول نہ کیا۔ مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا۔ میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں۔ بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے۔ (کشتی نوح ص ٥٦‘ روحانی خزائن ص ٦١ ج ١٩‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)
بروزی کمالات گویا مرزا صاحب خود سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات
غرض خاتم النبیین کا لفظ ایک الہٰی مہر ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر لگ گئی ہے۔ اب ممکن نہیں کہ کبھی یہ مہر ٹوٹ جائے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ دنیا میں بروزی رنگ میں آجائیں اور بروزی رنگ میں اور کمالات کے ساتھ اپنی نبوت کا بھی اظہار کریں اور یہ بروز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک قرار یافتہ عہدہ تھا ‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : واخرین منھم لما یلحقوا بھم۔
(اشتہار ‘ ایک غلطی کا ازالہ ‘ روحانی خزائن ‘ ص ٢١٤۔ ٢١٥‘ ج ١٨‘ مندر جہ تبلیغ رسالت جلد دہم ‘ مجموعہ اشتہارات مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)
ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ حقیقی اور واقعی طور پر تو یہ امر ہے کہ ہمارے سید و مولا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم الانبیاء ہیں اور انجناب کے بعد مستقل طور پر کوئی نبوت نہیں اور نہ کوئی شریعت ہے اور اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے تو بلاشبہ وہ بےدین اور مردود ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے ابتداء سے ارادہ کیا تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کمالات معتدبہ کے اظہار و اثبات کے لیے کسی شخص کو آنجناب کی پیروی اور متابعت کی وجہ سے وہ مرتبہ کثرت مکالمات اور مخاطبات الہٰیہ بخشے کہ جو اس کے وجود میں عکسی طور پر نبوت کا رنگ پیدا کردے ‘ سو اس طرح سے خدا نے میرا نام نبی رکھا۔ یعنی نبوت محمدیہ میرے آئینہ نفس میں منعکس ہوگئی اور ظلی طور پر نہ اصلی طور پر مجھے یہ نام دیا گیا۔ تاک میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیوض کا کامل نہ ٹھہروں۔
(چشمہ معرفت ص ٣٢٤‘ روحانی خزائن ص ٣٤٠ ج ٢٣‘ حاثیہ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)
مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ‘ جو درحقیقت ” خاتم النبیین “ تھے ‘ رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں اور نہ اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے کیونکہ میں بار ہا بتلا چکا ہوں کہ میں بموجب آیہ واخرین منھم لما یلحقوا بھم۔ بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود قرار دیا ہے پس اس طور سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاتم الا نبی اء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا۔ اور چونکہ میں ظلی طور پر محمد ہو (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پس اس طور سے خاتم النبیین کی مہر نہیں ٹوٹی کیونکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں۔ تو پھر کون سا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔ (ایک غلطی کا ازالہ ‘ روحانی خزائن ص ٢١٢‘ ج ١٨‘ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی)
یہ مسلمان کیا منہ لے کر دوسرے مذاہب کے بالمقابل اپنا دین پیش کرسکتے ہیں تاوقتیکہ وہ مسیح موعود کی صداقت پر ایمان نہ لائیں جو فی الحقیقت وہی ختم المرسلین تھا کہ خدائی وعدے کے مطابق دوبارہ آخرین میں مبعوث ہوا۔
وہ وہی فخر اولین و آخرین ہے جو آج سے تیرہ سو برس پہلے رحمۃ للعالمین بن کر آیا تھا اور اب اپنی تکمیل تبلیغ کے ذریعہ ثابت کردیا گیا کہ واقیع اس کی دعوت جمیع ممالک و ملل عالم کے لیے تھی۔ (اخبار الفضل قادیان ‘ ج ٣‘ نمبر ٤١‘ مورخہ ٢٦‘ ستمبر ١٩١٥ ء)
مرزا صاحب کا دعوی کہ وہ تشریعی نبی ہیں
یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر ونہی بیان کیے اور اپنی امت کے لیے ایک قانون مقرر کیا۔ وہی صاحب شریعت ہوگیا۔ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔ مثلا یہ الہام قل للمؤمنین بغضوا من ابصارھم ویحفظوا فروجھم ذالک ازکی لھم یہ براہین احمد یہ میں درج ہے اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔ اور اس پر تیس برس کی مدت بھی گزر گئی اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی اور اگر کہو کہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے جس میں نئے احکام ہوں تو باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان ھذا لفی الصحف الاولی صحف ابراھیم و موسیٰ یعنی قرآنی تعلیم تورات میں بھی موجود ہے۔ (اربعین نمبر ٤‘ ص ٧‘ ٨٣‘ روحانی خزائن ص ٤٣٥۔ ٤٣٦ ج ١٧)
چونکہ میری تعلیم میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور شریعت کے ضروری احکام کی تجدید ہے اس لیے خدا تعالیٰ نے میری تعلیم کو اور اس وحی کو جو میرے پر ہوتی ہے ‘ فلک یعنی کشتی کے نام سے موسوم کیا۔ اب دیکھو خدا نے میری وحی اور میری تعلیم اور میری بیعت کو نوح کی کشتی قرار دیا اور تمام انسانوں کے لیے اس کو مدار نجات ٹھہرایا۔ جس کی آنکھیں ہوں دیکھے اور جس کے کان ہوں سنے۔ (حاثیہ اربعین نمبر ٤‘ ص ٧‘ ٨٣‘ روحانی خزائن ص ٤٣٥‘ ج ١٤‘ حاثیہ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)
مرزا صاحب کا جہاد کو منسوخ قرار دینا
جہاد یعنی دینی لڑائیوں کی شدت کو خدا تعالیٰ آہستہ آہستہ کم کرتا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ کے وقت میں اس قدر شدت تھی کہ ایمان لانا بھی قتل سے بچا نہیں سکتا تھا اور شیر خوار بچے بھی قتل کیے جاتے تھے۔ پھر ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت میں بچوں اور بڈھوں اور عورتوں کا قتل کرنا حرام کیا گیا اور پھر بعض قوموں کے لیے بجائے ایمان کے صرف جزیہ دے کر مواخذہ سے نجات پانا قبول کیا گیا اور پھر مسیح موعود کے وقت قطعاً جہاد کا حکم موقوف کردیا گیا۔
(اربعین نمبر ٤‘ ص ١٥‘ حاثیہ روحانی خزائین ص ٤٤٣‘ ج ١٧ حاثیہ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)
آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا ‘ خدا کے حکم کے ساتھ بند کیا گیا۔ اب اس کے بعد جو شخص کافر پر تلوار اٹھاتا اور اپنا نام غازی رکھتا ہے ‘ و اس رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرتا ہے ‘ جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے فرما دیا ہے کہ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہوجائیں گے۔ سو اب میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں۔ ہماری طرف سے امان اور صلح کاری کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا۔ (تبلیغ رسالت ج ٩‘ ص ٤٧‘ مجموعہ اشہتارات ص ٢٩٥ ج ٣)
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کے لیے حرام ہے اب جنگ اور قتال
اب آگیا مسیح جو دیں کا امام ہے دین کے تمام جنگوں کا اب اختتام ہے
اب آسماں سے نور خدا کا نزول ہے اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
(اعلان مرزا غلام احمد قادیانی صاحب ‘ مندر جہ تبلیغ رسالت جلد نہم ‘ مولف میر قاسم علی صاحب قادیانی ص ٤٩‘ مجموعہ اشتہارات ص ٢٩٨۔ ٢٩٧‘ ج ٣‘ روحانی خزائن ص ٧٧ ج ٧)
١٤ اگست ١٩٤٧ ء کو جب مملکت پاکستان قائم ہوگئی تو مسلمانوں کو اس مسئلہ سے بےچینی ہوئی کہ قادیانی جو مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مان کر اسلام سے نکل چکے ہیں اور وہ خود بھی اہل اسلام کو کافر کہتے ہیں ‘ ان کا اس ملک میں بہ حیثیت مسلمان رہنا اور اس مملکت کے کلیدی عہدوں پر فائز رہنا کس طرح جائز ہے ‘ پاکستان کے ہر طبقہ اور ہر مکتب فکر کے مسلمانوں کا متفقہ مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے پس ١٩٥٣ ء میں پاکستان کے تمام علماء کی طرف سے اس سلسلہ میں زبردست تحریک چلائی گئی۔
١٩٥٣ ء کی تحریک ختم نبوت
مولانا محمد صدیق ہزاروی مجاہد تحریک ختم نبوت مولانا عبدالستار خاں نیازی (رح) کے تذکرہ میں لکھتے ہیں :
برکت علی اسلامیہ ہال لاہور میں آل مسلم پارٹیز کنونشن منعقد ہوا۔ اس کنونشن نے کراچی کے مرکزی کنونشن کے لیے مندوبین منتخب کیے۔ ٢٠۔ ٢١ جنوری ١٩٥٣ ء کو کراچی میں مرکزی کنونشن منعقد ہوا ‘ جس میں مطالبات مرتب کیے گئے :
(١) وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کو برخاست کیا جائے
(٢) قادیانیوں کو کافر اقلیت قرار دیا جائے۔
(٣) قادیانیوں کو کلیدی اسامیوں سے الگ کیا جائے۔
تحریک ختم نبوت میں آپ نے مثالی کردارادا کیا۔ آپ کو اس تحریک میں خصوصیت حاصل تھی ‘ وہ یہ کہ آپ اسمبلی کے ممبر تھے۔ نیز تحریک پاکستان میں کام کرنے کی وجہ سے مسلم لیگی کارکنوں سے آپ کے گہرے تعلقات تھے۔
مجلس عمل تحفظ ختم نبوت نے کراچی میں کنونشن کیا تو اس کے تیرہ نمائندوں میں آپ کا نام بھی تھا ‘ لیکن آپ کو اس میں شامل نہ کیا گیا ‘ کیونکہ انہیں آپ کی تیزی طبع کی وجہ سے خطرہ تھا کہ وقت سے پہلے تصادم نہ ہوجائے۔
جب تحریک تیز ہوئی اور مجلس عمل کے نمائندے خواجہ ناظم الدین سے کراچی میں ملاقات کرنے گئے تو مورخہ ٢٥ فروری ١٩٥٣ ء کو انہیں گرفتار کرلیا گیا۔
گرفتاری اور پھانسی
آپ کا پروگرام تھا کہ قصور سے بس کے ذریعے اسمبلی گیٹ تک پہنچ جائیں اور اسمبلی میں تقریر کرکے ممبران اسمبلی کو تحریک کے بارے میں مکمل تفصیلات سے آگاہ کردیں ‘ لیکن قصور میں آپ جن لوگوں کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے ‘ انہوں نے غداری کرتے ہوئے ملٹری کو بتادیا ‘ آپ صبح کی نماز کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ اپنے کارکن مولوی محمد بشیر مجاہد کے ہمراہ گرفتار کرلیے گئے۔
قصور سے گرفتار کر کے آپ کو لاہور شاہی قلعہ لایا گیا ‘ جہاں سے بیانات لینے کے بعد ١٢ اپریل کو آپ جیل منتقل کردیئے گئے اور آپ کو چارج شیٹ دے دی گئی۔ ملٹری کورٹ میں کیس چلا ‘ جو ١٧ اپریل کو شروع ہوا اور مئی تک چلتا رہا۔
٧ مئی کی صبح کو سپیشل ملٹری کورٹ کا ایک آفیسر اور ایک کیپٹن آپ کو بلا کر ایک کمرے میں لے گئے جہاں قتل کے نو اور ملزم بھی تھے ‘ مگر ڈی ایس پی فردوس شاہ قتل کا کیس ثابت نہ ہوسکا اور آپ کو بری کردیا گیا۔
دوسرا کیس بغاوت کا تھا جس میں آپ کو سزائے موت کا حکم سنا یا گیا جو اس طرح تھا :
you will be hanged by neck till you are dead.
” تمہاری گردن پھانسی کے پھندے میں اس وقت تک لٹکائی جائے گی ‘ جب تک تمہاری موت نہ واقع ہوجائے۔ “
Is that all? I was prepared to take more than that. If I would have got One hundred thousan lives. I would have laid down those lives for the cause Of Holy Prophet Mohammad may the peace Glory Of God be Upon Him.
یہی کچھ سزا لائے ہو ‘ اگر میرے پاس ایک لاکھ جانیں ہوتیں ‘ تو میں ان کو محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پر قربان کردیتا۔
١٤ مئی کو آپ کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی گئی اور پھر مئی ١٩٥٥ ء کو آپ کو باعزت طور پر بری کردیا گیا۔
(تعارف علماء اہل سنت ص ١٦٤‘ ٥٧ ١ ملخصا مکتبہ قادریہ لاہور ‘ ١٣٩٩ ھ)
تحریک ختم نبوت (١٩٥٣ ء) میں آپ کراچی میں مولانا عبدالحامد بدایونی (م ١٥ جمادی الاولیٰ ‘ ٢٠ جولائی ١٣٩٠ ھ ‘ ١٩٧٠ ء) اور دیگر علماء کے ساتھ تحریک میں شریک ہوئے۔ آرام باغ میں جمعہ کے دن تحریک کا آغاز ہا ‘ تو علامہ نورانی پیش پیش تھے۔ گرفتاری کے لیے رضا کاروں کی تیاری کے علاوہ دیگر ضروری انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
کراچی میں آل پاکستان مسلم پارٹیز کے پہلے اجلاس کے بعد آئندہ اجلاس کے انتظامات کے لیے گیارہ ممبروں پر مشتمل جو بورڈ بنایا گیا ‘ آپ اس کے ممبر تھے۔
١٩٦٩ ء میں پاکستان آنے کے بعد آپ نے سب سے پہلا بیان قادیانیوں ہی کے بارے میں جاری کیا تھا۔ آپ نے یحییٰ خان (اس وقت کا صدر) کو مخاطب کرتے ہوئے صاف کہا تھا کہ تمہارا قادیانی مشیر ایم ایم احمد پاکستان کی معیشت کو تباہ کر رہا ہے جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ (تعارف علماء اہل سنت ص ٣٩۔ ٣٨‘ مکتبہ قادریہ لاہور ١٣٩٩ ھ)
١٩٧٤ ء کی تحریک ختم نبوت
تحریک ختم نبوت (١٩٧٤ ء) میں مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردینے کی خاطر قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی طرف سے جو قرار داد ٣٠ جون ١٩٧٧ ء کو پیش کی گئی ‘ اس کا سہرا بھی علامہ شاہ احمد نورانی کے سر ہے ‘ اس قرار داد پر حزب اختلاف کے بائیس افراد ( جن کی تعداد بعد میں ٣٧ ہوگئی) نے دستخط کیے ‘ البتہ مولوی غلام غوث ہزاروی اور مولوی عبدالحکیم نے اس قرار داد پر دستخط نہیں کیے۔ اس تحریک میں آپ کو قومی اسمبلی کی خصوص یکمیٹی اور رہبر کمیٹی کم ممبر بھی منتخب کیا گیا اور آپ نے پوری ذمہ داری کے ساتھ دونوں کمیٹیوں کے اجلاس میں شرکت کی۔
آپ نے قادیانیت سے متعلقہ ہر قسم کا لٹریچر اسمبلی کے ممبروں میں تقسیم کرنے کے علاوہ ممبروں سے ذاتی رابطہ بھی قائم کیا اور ختم نبوت کے مسئلہ سے انہیں آگاہ کیا۔
اس تحریک میں تین ماہ کے دوران آپ نے صرف پنجاب کے علاقے میں تقریباً چالیس ہزار میل کا دورہ کیا۔ ڈیڑھ سو شہروں ‘ قصبوں اور دیہاتوں میں عام جلسوں سے خطاب کرنے کے علاوہ سینکڑوں کتابوں کا مطالعہ کیا۔
(تعارف علماء اہل سنت ص ٣٩‘ مکتبہ قادریہ لاہور ‘ ١٣٩٩ ھ)
سید محمد حفیظ قیصر لکھتے ہیں :
پیپلزپارٹی کے جے رحیم اور شیخ رشیدنے بہت ہنگامہ کیا مگر وزیر اعظم بھٹو ‘ مولانا شاہ احمد نورانی سے مکالمے کے دوران اپنے منشور کے اس جملے کی بناء پر شکست کھاچکے تھے کہ ” اسلام ہمارا دین ہے “۔ اب بھٹو کا موقف یہ تھا کہ اسلام کی بات ہے اور پیپلزپارٹی اس کی مخالفت نہیں کرے گی۔ آخر مولانا شاہ احمد نورانی کا سچا عشق رسول جیت گیا اور مرزاناصر قومی اسمبلی میں 180 سوالات میں لاجواب ہو کر شکست سے دوچار ہوا۔ مرزائیت کو اپنے انجام تک پہنچانے والی جو تاریخی قرارداد 30 جون 1974 ء کو پیش کی گئی اس کا متن یہ تھا :
٭ چونکہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد جو اللہ کے آخری نبی ہیں نبوت کا دعویٰ کیا۔
٭ چونکہ اسکا جھوٹا دعویٰ نبوت قرآن کریم کی بعض آیات میں تحریف کی سازش اور جہاد کو ساقط کردینے کی کوشش ‘ اسلام سے بغاوت کے مترادف ہے۔
٭ چونکہ مسلم امہ کا اس بات پر کامل اتفاق ہے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار خواہ وہ مرزا غلام احمد کو نبی مانتے ہوں یا اسے کسی اور شکل میں اپنا مذہبی پیشوا یا مصلح مانتے ہوں وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
٭ چونکہ اس کے پیروکار خواہ انہیں کسی نام سے پکارا جاتا ہو وہ دھوکا دہی سے مسلمانوں ہی کا ایک فرقہ بن کر اور اس طرح ان سے گھل مل کر اندرونی اور بیرونی طور پر تخریبی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔
٭ چونکہ مسلمانوں کی تنظیموں کی ایک کا نفرنس جو 6 تا 10 اپریل 1974 ء مکہ مکرمہ میں رابطہ عالم اسلامی کے زیر اہتمام منعقد ہوئی۔ جس میں دنیا بھر کی 114 اسلامی تنظیموں اور انجمنوں نے شرکت کی اس میں مکمل اتفاق رائے سے یہ فیصلہ صادر کردیا گیا کہ قادیانیت جس کے پیروکار دھوکا دہی سے اپنے آپ کو اسلام کا ایک فرقہ کہتے ہیں۔ دراصل اس فرقہ کا مقصد اسلام اور مسلم دینا کے خلاف تخریبی کارروائیاں کرنا ہے۔
اس لیے اب یہ اسمبلی اعلان کرتی ہے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار خواہ انہیں لاہوری ‘ قادیانی یا کسی نام سے بھی پکارا جائے مسلمان نہیں ہیں اور یہ کہ اسمبلی میں ایک سرکاری بل پیش کیا جائے تاکہ اس اعلان کو دستور میں ضروری ترامیم کے ذریعے عملی جامہ پہنایا جاسکے۔
7 ستمبر 1974 ء کو وہ گھڑی آن پہنچی جس کا انتظار 1901 ء سے مسلم امہ کو تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے جس طرح مسیلمہ کذاب کو اس کے انجام سے دوچار کیا تھا۔ آج انہیں کی اولاد مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کی قرارداد کے مطابق حکومت نے باضابطہ طور پر قادیانی گروہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیے دیا اور یوں امت مسلمہ کا خواب ٧٣ سال کے بعد حقیقت میں ڈھل گیا۔ (ایک عالم ایک سیاست دان ص ٣٧۔ ٣٥‘ نورانی پر نٹنگ انڈسٹری کراچی ‘ ١٩٩٩ ء)
اس اعتراض کا جواب کہ اگر آپ کے صاجزادے حضرت ابراہیم زندہ رہتے تو نبی بن جاتے
قادیانیوں کے اہل اسلام کے دلائل پر بعض اعتراضات ہیں ان میں سے ایک مشہور اعتراض اس حدیث پر ہے :
حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹے حضرت ابراہیم زندہ ہوتے تو سچے نبی ہوتے۔
(مسند احمد ج ٣ ص ١٣٣ طبع قدیم ‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٣ ص ٧٦‘ رقم الحدیث : ٥٧٩)
اس حدیث پر قادیانیوں کا یہ اعتراض ہے کہ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کے نبی بننے سے مانع ان کی موت تھی اگر وہ زندہ رہتے تو نبی بن جاتے ‘ یہ مطلب نہیں ہے کہ چونکہ آپ کے بعد نبی کا آنا محال تھا اس لیے آپ کے بیٹے کو زندہ نہیں رکھا گیا ‘ اسکی مثال اس طرح ہے جیسے کوئی شخص کہے اگر میرا بیٹا زندہ رہتا تو ایم۔ اے کرلیتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایم۔ اے پاس کرنا محال ہے ‘ اس لیے میرا بیٹا زندہ نہیں رہا ‘ بلکہ ایم۔ اے پاس کرنا تو ممکن ہے ‘ لیکن چونکہ میرا بیٹا زندہ نہیں رہا اس لیے وہ ایم اے نہیں کرسکا ‘ اسی طرح سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نبی آنا تو ممکن تھا ‘ لیکن چونکہ آپ کے بیٹے حضرت ابراہیم زندہ نہیں رہے اس لیے وہ نبی نہیں بنے اگر وہ زندہ رہتے تو نبی بن جاتے ‘ سو اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کے بعد نبی نہیں آسکتا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ” اگر ابراہیم زندہ رہتے تو سچے نبی ہوتے “ اس حدیث میں قضیہ شرطیہ ہے۔ جیسے یہ قضیہ ہے : اگر سورج طلوع ہوگا تو دن روشن ہوگا اور قضیہ شرطیہ میں جز اول کا ثبوت جز ثانی کے ثبوت کو مستلزم ہوتا ہے ‘ جیسے سورج کا طلوع ہونا دن کی روشنی کو مستلزم ہے ‘ اور جز ثانی کی نفی جز اول کی نفی کو مستلزم نہیں ہوتی یعنی سورج کا طلوع نہ ہونا اس کو مستلزم نہیں ہے کہ دن روشن نہ ہو ‘ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ سورج طلوع ہو لیکن دن اس وجہ سے روشن نہ ہو کہ سخت ابر ہو یا بارش ہو یا سورج کو گہن لگا ہو یا سخت آندھی آئی ہوئی ہو اسی لیے جز اول کی نفی جز ثانی کی نفی کو مستلزم نہیں ہوتی ‘ اس لیے اس حدیث کا یہ معنی نہیں ہے کہ چونکہ حضرت ابراہیم زندہ نہیں رہے اس لیے وہ سچے نبی نہیں ہوئے ‘ بلکہ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی سچے نبی کا آنا ممکن نہیں تھا اس لیے حضرات ابراہیم کو زندہ نہیں رکھا گیا۔
الاعراف : ٣٥ سے اجراء نبوت کا معارضہ اور اس کا جواب
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
یبنی ادم اما یا تینکم رسول منکم یقصون علیکم ایتی لا فمن اتقی واصلح فلا خوف علیہم ولا ھم یحزنون (الاعراف : ٣٥)
اے اولاد آدم ! اگر تمہارے پاس تم میں سے ایسے رسول آئیں جو تمہارے سامنے میری آیتیں بیان کریں سو جو شخص اللہ سے ڈرا اور نیک ہوگیا تو ان پر کوئی خوف نہیں ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
مرزائیہ اس آیت سے اجراء نبوت پر استدلال کرتے ہیں اور پھر اجراء نبوت سے مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت پر دلیل کشید کرتے ہیں ‘ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام اولاد آدم کو حکم دیا ہے جب بھی ان کے پاس ایسے رسول آئیں جو تمہارے سامنے میری آیتیں بیان کریں سو جو شخص اللہ سے ڈرا یعنی جس نے ان رسولوں کے احکام کو مانا اور ان پر ایمان لایا اس پر کوئی غم اور خوف نہیں ہوگا ‘ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے قیامت تک رسول آتے رہیں گے کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے آنے کا کوئی استثناء نہیں بیان فرمایا اور نہ کوئی ہے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت تک رسولوں کے مبعوث ہونے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں بہت جگہ ایک حکم بیان کیا جاتا ہے اور دوسری کسی آیت میں اس حکم کی تخصیص بیان کردی جاتی ہے جس سے وہ حکم عام نہیں رہتا ‘ اسی طرح بہ ظاہر اس آیت میں قیامت تک رسولوں کی بعثت کا حکم عام بیان فرمایا ہے لیکن جب الاحزاب : ٤٠ میں فرما دیا ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین تو اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر فرمادیا کہ الاعراف : ٣٥ میں رسولوں کی بعثت کے سلسلہ کا جو ذکر فرمایا تھا۔ سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد وہ سلسلہ نبوت منقطع اور ختم ہوگیا ہے اور آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی آسکتا ہے نہ رسول ‘ نہ تشریعی نبی نہ امتی نبی ‘ نہ کامل نبی نہ ناقص نبی ‘ نہ اصلی نبی اور نہ ظلی ‘ اور بروزی نبی۔
اب ہم اس کی چند نظائر بیان کرتے ہیں کہ کسی آیت میں کوئی حکم عام بیان کیا جائے پھر دوسری آیت میں اسکی تخصیص کردی جائے تو پھر وہ حکم عام نہیں رہتا ‘ دیکھیے اللہ تعالیٰ نے عام حکم بیان فرمایا :
کل نفس ذآئقۃ الموت (العنکبوت : ٥٧) ہر نفس موت کو چکھنے والا ہے۔
اور حسب ذیل آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو بھی نفس فرمایا ہے :
قل لمن ما فی السموت والارض ط قل للہ ط کتب علی نفسہ الرحمۃ۔ (الانعام : ١٢)
آپ پوچھیے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے وہ کس کی ملکیت ہے ؟ آپ کہیے وہ سب اللہ ہی کی ملکیت ہے ‘ اس نے اپنے نفس پر رحمت کو لازم کرلیا۔
فقل سلم علیکم کتب ربکم عل نفسہ الرحمۃ۔ (الانعام : ٥٤ )
آپ کہیے تم پر سلام ہو ‘ تمہارے رب نے اپنے نفس پر رحمت کو لازم کرلیا ہے۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے :
تعلم مافی نفسی ولآ اعلم ما فی نفسک ط انک انت علام الغیوب۔ (المائدہ : ١١٢)
(اے اللہ ! ) تو جانتا ہے میرے نفس میں کیا ہے اور میں نہیں جانتا کہ تیرے نفس میں کیا ہے ‘ بیشک تو تمام غیوب کو بےحد جاننے والا ہے۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو بھی نفس کہا ہے اور العنکبوت : ٥٧ میں فرمایا ہے ہر نفس موت کو چکھنے والا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی (العیاذ باللہ) موت کو چکھنے والا ہے ‘ سو اس آیت کے عام حکم کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر بھی موت آئے گی اور دوسری آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس پر کبھی موت نہیں آئے گی وہ آیت یہ ہے :
وتو کل عل الحی الذی لایموت۔ (الفرقان : ٥٨ )
آپ اس پر توکل کیجئے جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے جس پر کبھی موت نہیں آئے گی۔
پس اس آیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ موت کو چکھنے کے عام حکم سے مستثنی ہے ‘ اور اب یہ حکم عام نہیں ہے ‘ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاتم النبیین فرمادیا تو اب الاعراف : ٣٥ میں رسولوں کی بعثت کے عام حکم میں تخصیص ہوگئی اور اب آپ کی بعثت کے بعد کسی اور نبی کا آنا ممکن نہیں۔ اس کی نظیر دوسری یہ آیت ہے :
والمطلقت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء۔ (البقرہ : ٢٢٨)
اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔
المطلقات جمع کا صیغہ ہے اور اس میں طلاق یافتہ عورتوں کے لیے عام حکم یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ تین حیض تک عدت گزاریں ‘ لیکن دوسری آیت میں فرمایا ہے کہ غیر مدخولہ عورت کو طلاق دی جائے تو اس کی کوئی عدت نہیں ہے :
یایھا الذین امنوآ اذا نکحتم المؤمنت ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فمالکم علیھن من عدۃ تعتدو نھا۔ (الاحزاب : ٤٩ )
اے ایمان والو ! جب تم ایمان والی عورتوں سے نکاح کرو ‘ پھر تم ان کو عمل زوجیت سے پہلے طلاق دے دو تو ان پر تمہاری عدت گزارنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
اسی طرح وہ طلاق یافتہ بوڑھی عورت جس کو حیض نہ آتاہو وہ کمسن لڑکی جس کا حیض شروع نہ ہوا ہو اس کی عدت تین ماہ ہے اور طلاق یافتہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے اور یہ بھی اس عام حکم سے خاص ہیں ان کا ذکر اس آیت میں ہے :
الئی یئسن منالمحیض من نسآ ئکم ان ارتبتم فعدتھن ثلثۃ اشھر لا والئی لم یحضن ط واولات الاحمال اجلھن انیضعن حملھن ط (الطلاق : ٤)
تمہاری جو طلاق یافتہ عورتیں حیض آنے سے مایوس ہوچکی ہوں اور تم کو ان کی مدت میں شبہ ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور اسی طرح (ان کم سن مطلقہ عورتوں کی عدت بھی تین ماہ ہے) جن کا ابھی حیض آنا شروع نہ ہوا ہو ‘ اور حاملہ عورتوں کی عدت و ضع حمل تک ہے۔
پس البقرہ : ٢٢٨ میں جو مطلقہ عورتوں کی عدت تین حیض فرمائی ہے اس حکم عام سے غیرمدخولہ ‘ سن رسیدہ ‘ کم سن اور حاملہ عورتوں کی عدت کی تخصیص کرلی گئی ہے ‘ اسی طرح الا عراف : ٣٥ میں جو رسولوں کی بعثت کا عام حکم بیان کیا گیا ہے آیت خاتم النبیین سے اس عام حکم کی تخصیص کرلی گئی ہے اور اب سید نامحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد کسی اور نبی کا آنا جائز نہیں ہے۔
اس اعتراض کا جواب کہ ختم نبوت کا معنی مہر نبوت ہے اور آپ کی مہر سے نبی بنتے ہیں
مرزائیوں کا ایک مشہور اعتراض یہ ہے کہ خاتم کا معنی آخر نہیں ہے ‘ بلکہ خاتم کا معنی مہر ہے ‘ اور مہر نبوت کا معنی ہے جس پر آپ کی مہر لگ جاتی ہے وہ نبی بن جاتا ہے ‘ سو غلام احمد قادیانی پر بھی مہر لگ گئی اور وہ بھی نبی نن گئے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ خاتم کا یہ معنی کرنا درست نہیں ہے کہ اگر خاتم کا معنی مہر ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب کسی چیز کو بند کرکے اس پر مہر لگادی جائے تو اس میں کوئی اور چیز داخل نہیں ہوسکتی ‘ سو نبوت کو بند کر کے اس پر آپ کی مہر لگا دی گئی اب نبوت میں کوئی اور چیز داخل نہیں ہوسکتی۔
علامہ جمال الدین محمد بن مکرم افریقی مصری متوفی ٧١١ ھ لکھتے ہیں :
معنی ختم الغطیۃ علی الشیء والا ستیثاق من ان لا ید خلہ شیء۔ ختم کا معنی ہے کسی چیز کو ڈھانپنا اور اس کو اس طرح بند کردینا کہ اس میں کوئی اور چیز داخل نہ ہو سکے۔
نیز لکھتے ہیں خاتمھم اخر ھم ‘ خاتم القوم کا معنی ہے اخرالقوم ‘ وخاتم النبیین ای آخر ھم اور خاتم النبیین کا معنی ہے آخر النبیین (لسان العرب ج ١٢ ص ١٦٥۔ ١٦٣‘ مطبوعہ ایران ‘ ١٤٠٥ ھ)
اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک نبوت منقطع ہوچکی ہے پس میرے بعد کوئی نبی ہوگا نہ رسول۔
(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٢٧٢)
اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
وانا اخر الانبیاء وانتم اخر الا مم۔ میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔
(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠٧٧)
اور قتادہ نے خاتم النبیین کی تفسیر میں کہا ای آخرھم۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢١٧٦٥ )
تصریحات لغت ‘ احادیث صحیحہ اور تابعین کی تفسیر سے واضح ہوگیا کہ خاتم کا معنی مہر کرنا باطل ہے بلکہ خاتم کا معنی آخر ہے۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ شاہ عبدالعزیز خاتم الحدثین ہیں تو کیا اس کا عرف میں یہ معنی ہوتا ہے کہ شاہ عبدالعزیز کی مہر سے محدث بنتے ہیں اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ علامہ شامی خاتم الفقہاء ہیں تو کیا اس کا یہ معنی ہوتا ہے کہ علامہ شامی کی مہر سے فقہاء بنتے ہیں اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ علامہ آلوسی خاتم المفسرین ہیں تو کیا اس کا یہ معنی ہوتا ہے علامہ آلوسی کی مہر سے مفسرین بنتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ احادیث ‘ تفاسیر ‘ لغت اور عرف سب کے اعتبار سے خاتم کا معنی مہر کرنا صحیح نہیں ہے۔
مرزائی کہتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی متوفی ١١٧٦ ھ نے اس آیت کے تحت و خاتم النبیین کے ترجمہ میں لکھا ہے و مہر پیغامبر ان است (ترجمہ شاہ ولی اللہ ص ٥١٠‘ تاج کمپنی لمیٹیڈ لاہور)
اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں پر مہر اس معنی میں نہیں ہے جیسا کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے لکھا ہے :
جس کامل انسان پر قرآن شریف نازل ہوا ۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ خاتم الانبیاء بنے مگر ان معنوں سے نہیں آئندہ اس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا ‘ بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحب خاتم ہے ‘ بجز اس کی مہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا۔ اور بجز اس کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں۔ ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لیے امتی ہونا لازمی ہے۔
(حقیقۃ الوحی ص ٢٧‘ روحانی خزائن ج ٢٣ ص ٣٠۔ ٢٩ )
خاتم النبیین کے بارے میں حضرت مسیح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپ کی مہر کے بغیر کسی کی نبوت کی تصدیق نہیں ہوسکتی۔ جب مہر لگ جاتی ہے تو وہ کاغذ سند ہوجاتا ہے اور مصدقہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح آنحضرت کی مہر اور تصدیق جس نبوت پر نہ ہو وہ صحیح نہیں ہے۔ (ملفوظات احمد یہ حصہ پنجم ص ٢٩٠)
قادیانیوں نے خاتمکا جو یہ معنی بیان کیا وہ غلط اور باطل ہے اور شاہ ولی اللہ کے نزدیک مہر سے مراد مہر تصدیق نہیں ہے بلکہ مہر سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کو بند کر کے اس پر مہر لگادی جائے تاکہ اس میں اور کوئی چیز داخل نہ ہو سکے جیسا کہ لغت ‘ عرف ‘ احادیث اور تفاسیر سے واضح ہوچکا ہے ‘ خود شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ایک حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں :
سچا خواب انبیاء کے حق میں نبوت کا ایک جزو ہے پس یقین رکھو کہ وہ برحق ہوتا ہے اور نبوت کے اجزاء ہیں اور اس کا ایک جز خاتم الانبیاء کے بعد بھی باقی ہے۔ (المسوی ج ٢ ص ٤٢٦‘ المطبعۃ السفیہ مکہ المکرمۃ ‘ ١٣٥٣ ھ)
مرزا غلام احمد قادیانی کے متبعین نے لکھا ہے :
ان حوالوں سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اس امت میں سوائے مسیح موعود کے اور کوئی نبی نہیں ہوسکتا کیونکہ سوائے مسیح موعود کے اور کسی فرد کی نبوت پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیقی مہر نہیں اور اگر بغیر تصدیقی مہر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور کسی کو بھی نبی قرار دیا جائے تو اس کے دوسرے معنی یہ ہوں گے وہ نبوت صحیح نہیں۔
( ” تشحیذ الاذھان “ قادیان نمبر ٨‘ جلد ١٢ ص ٢٥‘ بابت ماہ اگست ١٩١٧ ء)
اور خود مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے :
پس اس وجہ سے ( اس امت میں) نبی کا نام پانے کے لیے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں ‘ اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا ‘ تاجیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک ہی ہوگا۔ وہ پیش گوئی پوری ہوجائے۔
(حقیقت الوحی ص ٣٩١‘ روحانی خزائن ص ٤٠٧۔ ٤٠٦ ج ٢٢‘ مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی صاحب)
اگر مرزائیہ کے دعوی ٰ کے مطابق بہ فرض محال ختم نبوت کا معنی مہر تصدیق ہو اور اس کا معنی یہ ہو کہ جس پر آپ اپنی مہر لگا دیتے ہیں وہ نبی بن جاتا ہے تو پھر اس کا تقاضا یہ تھا کہ آپ کی مہر سے زیادہ س زیادہ نبی بنتے ‘ تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس مہر سے صرف غلام احمد قادیانی ہی نبی بنا ! صحابہ کرام رضوان اللہ علہم اجمعین جن کی اطاعت پر مقبولیت کی سند اللہ تعالیٰ نے (رض) فرما کر عطا کردی وہ نبی نہیں بنے ‘ اگر ختم نبوت کا معنی مہر تصدیق ہوتا تو وہ نبی بنتے اور جب وہ نبی نہیں بنے تو معلوم ہوا کہ ختم نبوت کا معنی مہر تصدیق نہیں ہے بلکہ وہ مہر ہے جو کسی چیز کو بند کرنے کے لیے لگائی جاتی ہے ‘ علاوہ ازیں نبی بنانا اور رسول بھیجنا اللہ کا کام ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ منصب نہیں ہے کہ وہ اپنی مہر لگا کر کسی کو نبی بنا کر بھیج دیں۔
مرزائی یہ بھی کہتے ہیں کہ جس طرح خاتم المحدثین ‘ خاتم المفسرین وغیرہ کہا جاتا ہے اسی طرح آپ کو خاتم النبیین کہا گیا ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ جن علماء کو خاتم الحدثین اور خاتم المفسرین کہا گیا ہے وہ مجاز کہا گیا ہے اور آپ حقیقۃ خاتم النبیین ہیں نیز مجاز کا ارتکاب اس وقت کیا جاتا ہے جب حقیقت محال ہو اور آپ کے خاتم النبیین ہونے میں کوئی شرعی یا عقلی استحالہ نہیں ہے۔
اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا حضرت عباس (رض) کو خاتم المہاجرین فرمایا اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عباس نے مکہ سے سب کے آخر میں ہجرت کی تھی اس کے بعد مکہ دار الاسلام بن گیا تھا سو اس حدیث میں بھی خاتم یہ معنی آخر ہے۔
مرزائی یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ہے میری مسجد آخر المساجد ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اس ارشاد کی وضاحت دوسری حدیث میں ہے آپ نے فرمایا میں خاتم الانبیاء ہوں اور میری مسجد ‘ مساجد الانبیاء کی خاتم ہے۔
(کنزالعمال رقم الحدیث : ٣٤٩٩٩)
اس اعتراض کا جواب کہ لا نبی بعدی میں لا نفی کے لیے نہ کہ نفی جنس کے لیے
مرزائیوں کا ایک اور مشہور اعتراض یہ ہے کہ لا نبی بعدی میں لا نفی جنس ہے ‘ نفی کمال کے لیے ہے جیسے لا صلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب میں ہے۔ یعنی سورة فاتحہ کے بغیر نماز کامل نہیں ہوتی اسی طرح لا نبی بعدی کا معنی ہے میرے بعد کوئی کامل نبی نہیں ہوگا اور ناقص اور امتی نبی کی نفی نہیں ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرح تو کوئی مشرک کہہ سکتا ہے کہ لا الہ الا اللہ میں بھی نفی کمال کے لیے ہے یعنی اللہ کے علاوہ کامل خدا کوئی نہیں ہے ‘ ناقص خدا موجود ہیں ‘ اور اس کا حل یہ ہے کہ لا نفی جنس کا نفی کمال کے لیے ہونا اس کا مجازی معنی ہے اور نفی جنس کے لیے ہونا اس کا حقیقی معنی ہے اور جب تک حقیقت محال یہ متعذر نہ ہو اس کو مجاز پر محمول نہیں کیا جاتا لا نبی بعدی میں حقیقت متعذر نہیں ہے اس لیے اس کا معنی ہے میر بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ‘ اور لاصلوۃ الا بفاتحۃ الکتا میں اس طرح نہیں ہے سورة فاتحہ کے بغیر نماز ہوجاتی ہے لیکن چونکہ سورة فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے اس لیے نماز کامل نہیں ہوتی اور یہاں حقیقت متعذر ہے اس لیے لا کو نفی کمال اور مجاز پر محمول کیا ہے۔
اسی طرح مرزائیہ اعتراض کرتے ہیں کہ حدیث میں ہے جب کسری مرجائے گا تو اس کے بعد کوئی کسری نہیں ہوگا اور جب قیصر ہلاک ہوجائے گا تو پھر اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہوگا (صحیح مسلم ج ٢ ص ٣٩٦‘ کراچی) اور کسریٰ ایران کے بادشاہ کو اور قیصر روم کے بادشاہ کو کہتے ہیں اور ان کے بعد بھی ایران اور روم کے بادشاہ ہوتے رہے ہیں۔
علامہ نووی اس کے جواب میں لکھتے ہیں :
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں کسریٰ ایران کا بادشاہ تھا اور قیصر روم کا باد شاہ تھا اس طرح وہ بعد میں بادشاہ نہیں ہوں گے اور اسی طرح ہوا ‘ کسریٰ کا ملک روئے زمین سے منقطع ہوگیا اور اس کا ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ‘ اور قیصر شکست کھا کر شام سے بھاگ گیا اور مسلمانوں نے ان دونوں ملکوں کو فتح کرلیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ بعد میں اس نام کے باد شاہ نہیں گزرے۔
مرزائیہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے فرمایا : خاتم النبیین کہو اور یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج ٥ ص ٣٣٧‘ رقم الحدیث : ٢٦٦٣٣‘ دارالکتب العلمیہ بیروت)
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عائشہ (رض) کا منشاء یہ ہے کہ چونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے آسمان سے نازل ہونا ہے اس لیے یوں نہ کہو کہ کوئی نبی نہیں آئے گا بلکہ یوں کہو کہ کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا کیونکہ جب مطلقاً یہ کہا جاے کہ کوئی نبی نہیں آئے گا تو اس کا متبادر معنی یہ ہے کہ کوئی نیا نبی آئے گا نہ پرانا ‘ اور حضرت عائشہ (رض) کا یہ قول ان احادیث کے خلاف نہیں ہے جن میں یہ تصریح ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا خود حضرت عائشہ (رض) سے صحیح سند کے ساتھ روایت ہے :
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مبشرات کے سوا میرے بعد نبوت میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہے گی ‘ صحابہ نے پوچھا اور مبشرات کیا ہیں ؟ فرمایا سچے خواب جن کو کوئی شخص دیکھتا ہے یا کوئی شخص اس کے لیے دیکھتا ہے۔ (مسند احمد ج ٦ ص ١٢٩‘ حافظ زین نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے ‘ حاشیہ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٤٨٥٨‘ دارالحدیث قاہرہ ‘ ١٤١٦ ھ)
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان سے نازل ہونے کے متعلق احادیث
تیسرا مشہور اعتراض یہ ہے کہ اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی نبی کا آنا محال ہے تو پھر ان احادیث کی کیا توجیہ ہوگی جن کے مطابق قرب قیامت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول ہوگا وہ احادیث حسب ذیل ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے عنقریب تم میں ابن مریم نازل ہوں گے ‘ احکام نافذ کرنے والے ‘ عدل کرنے والے ‘ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے ‘ خنزیر کو قتل کریں گے ‘ جزیہ موقوف کردیں گے اور اس قدر مال لٹائیں گے کہ اس کو قبول کرنے والا کوئی نہیں ہوگا ‘ حتیٰ کہ ایک سجدہ کرنا دنیا اور مافیہا سے بہتر ہوگا ‘ اور تم چاہو تو (اس کی تصدیق میں) یہ آیت پڑھو :” وان من اھل الکتب الا لیؤ منن بہ قبل موتہ “” اہل کتاب میں سے ہر شخص حضرت عیسیٰ کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئے گا “۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٤٨‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٢‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٤٤٠‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠٧٨‘ مسند احمد ج ٣ رقم الحدیث : ١٠٩٤٤‘ صحیح ابن حبان ج ١٥‘ رقم الحدیث : ٦٨١٨‘ مصنف عبدالرزاق ج ١١ ص ٣٩٩‘ رقم الحدیث : ٢٠٨٤٠‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٥ ص ١٤‘ رقم الحدیث : ١٩٣٤١‘ شرح السنہ ج ٧ ص ٤١٧٠)
نیز امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس وقت تمہاری کیا شان ہوگی جب تم میں ابن مریم نازل ہوں گے اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٤٩‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٤۔ مسند احمد ج ٢ ص ٣٣٦‘ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٢٠٨٤١‘ شرح السنہ ج ٧‘ رقم الحدیث : ٤١٧٢)
امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہ کر جنگ کرتی رہے گی اور وہ قیامت تک غالب رہے گی حتی کہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نازل ہوں گے ‘ ان (مسلمانوں) کا امیر کہے گا آئیے آپ ہم کو نماز پڑھائیے۔ حضرت عیسیٰ اس امت کی عزت افزائی کے لیے فرمائیں گے نہیں تمہارے بعض ‘ بعض پر امیر ہیں۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٣٨٤۔ ٣٤٥ ذ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت)
امام مسلم بن حجاج قشیری متوفی ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ‘ عیسیٰ بن مریم فج روحاء (مدینہ سے چھ میل دور ایک جگہ) میں ضرور بلند آواز سے تلبیہ (لبیک الھم لبیک ‘ لبیک لاشریک لک لبیک) کہیں گے درآں حالیکہ وہ حج کرنے والے ہوں گے ‘ یا عمرہ کرنے والے ہوں گے یا (دونوں کو ملاکر) حج قران کرنے والے ہوں گے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٢٥٢ )
امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے ‘ خنزیر کو قتل کریں گے ‘ صلیب کو مٹادیں گے ‘ اور ان کے لیے نماز جماعت سے پڑھائی جائے گی ‘ وہ مال عطا کریں گے ‘ حتی کہ اس کو ‘ کوئی قبول نہیں کے گا ‘ وہ خراج کو موقوف کردیں گے ‘ وہ مقام روحاء پر نازل ہوں گے ‘ وہاں حج یا عمرہ کریں گے یا قران کریں گے ‘ پھر حضرت ابوہریرہ نے یہ آیت تلاوت کی وان من اھل الکتاب الا لیؤ منن بہ قبل موتہ حنظلہ کا خیال ہے حضرت ابوہریرہ نے ” قبل موت عیسیٰ “ پڑھا تھا ‘ پتا نہیں یہ بھی حدیث کا جز ہے یا حضرت ابوہریرہ نے خود تفسیر کی تھی۔
(مسنداحمد ج ٢ ص ٢٩٠‘ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت)
ہم نے تبیان القرآن ج ٢ ص ٨٧٣۔ ٨٦٢‘ پر نزول مسیح کے متعلق چالیس احادیث ذکر کی ہیں :
اس امت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے احکام نافذ کرنے کی توجیہ
سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاتم النبیین ہونے کا معنی یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا ‘ اور جو نبی پہلے مبعوث ہوچکے ہیں ان کا آپ کے بعد دنیا میں آنا آپ کی ختم نبوت کے منفی نہیں ہے ‘ جیسے شب معراج تمام نبی مسجد اقصیٰ میں آئے اور انہوں نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی یا جس طرح جن لوگوں کے نزدیک حضرت خضر (علیہ السلام) زندہ ہیں تو ان کا آپ کے بعد دنیا میں آنا آپ کے خاتم النبیین ہونے کے منافی نہیں ہے ‘ اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قرب قیامت میں آسمان سے زمین پر نازل ہونا بھی آپ کی ختم نبوت کے منافی نہیں ہے ‘ کیونکہ یہ تمام انبیاء آپ سے پہلے مبعوث ہوچکے ہیں آپ کے بعد مبعوث نہیں ہوئے۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا شریعت اسلامیہ پر مطلع ہو کر مسلمانوں میں احکام جاری فرمانا
اب رہا یہ سوال کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ہمارے رسول سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کا علم کیسے ہوا حتی کہ وہ اس علم کے مطابق آپ کی شریعت کے مطابق اس امت میں احکام جاری کرسکیں ‘ تو اس کے متعدد جوابات ہیں ایک جواب یہ ہے کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کو ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کا علم تھا تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی آپ کی شریعت کا علم تھا اور اسی کے مطابق آپ اس امت میں احکام جاری کریں گے ‘ انبیاء سابقین کو ہماری شریعت کا علم تھا اس کی دلیل حسب ذیل احادیث ہیں :
امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
وہب بن منبہ نے ذکر کیا ہے کہ جب اللہ عزوجل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے سرگوشی کرنے کے لیے ان کو قریب کیا تو انہوں نے کہا اے میرے رب ! میں نے تورات میں یہ پڑھا ہے کہ ایک امت تمام امتوں میں افضل ہے جو لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہے وہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور اللہ پر ایمان رکھیں گے ‘ تو ان کو میری امت بنا دے ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ امت احمد ہے ‘ حضرت موسیٰ نے کہا میں نے تورات میں پڑھا ہے کہ ایک امت تمام امتوں کے آخر میں مبعوث ہوگی اور قیامت کے دن وہ سب پر مقدم ہوگی ‘ تو ان کو میری امت بنا دے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ امت احمد ہے۔
حضرت موسیٰ نے کہا اے میرے رب ! میں نے تورات میں پڑھا ہے کہ ایک امت صدقات کو کھائے گی اور اس سے پہلے کی امتیں جب صدقہ دیتیں تو اللہ تعالیٰ ایک آگ بھیجتا جو اس صدقہ کو کھا جاتی ‘ اور اگر وہ صدقہ قبول نہ ہوتا تو آگ اس صدقہ کے قریب نہیں جاتی تھی اے اللہ تو ان لوگوں کو میری امت بنادے ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ امت احمد ہے۔
حضرت موسیٰ نے کہا اے میرے رب میں نے تورات میں پڑھا ہے کہ ایک امت جب گناہ کا منصوبہ بنائے گی تو اس کا گناہ نہیں لکھاجائے گا اور جب وہ اس گناہ کا کام کرے گی تو اس کا صرف ایک گناہ لکھاجائے گا اور جب وہ نیکی کا منصوبہ بنائے گی اور اس نیکی کو نہیں کرے گی تو اس کی ایک نیکی لکھی جائے گی اور جب وہ نیکی کرے گی تو اس کو دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک اجر دیا جائے گا ‘ اے اللہ تو اس امت کو میری امت بنادے ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ امت احمد ہے۔
(دلائل النبوۃ ج ١ ص ٣٨٠۔ ٣٧٩‘ دارالکتب العلمیہ بیروت)
یہ ہماری شریعت کے وہ احکام ہیں جو سابقہ شریعتوں میں نہیں تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان احکام پر مطلع فرمادیا۔ اسی طرح حضرت دائود (علیہ السلام) کے متعلق ہے :
وہب بن منبہ نے حضرت دائود (علیہ السلام) کے متعلق بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف زبور میں وحی کی کہ اے دائود ! عنقریب تمہارے بعد ایک نبی آئے گا جس کا نام احمد اور محمد ہوگا ‘ وہ صادق اور سردار ہوگا ‘ میں اس پر کبھی ناراض نہیں ہوں گا اور نہ کبھی وہ مجھ سے ملول ہوگا ‘ اس کی امت کو میں نفل پڑھنے پر انبیاء کے نوافل کا اجر عطا فرمائوں گا ‘ اور اس کے فرائض پر انبیاء اور رسل کے فرائض کا جرعطا فرمائوں گا ‘ حتی کہ جب وہ قیامت کے دن میرے پاس آئیں گے تو ان پر انبیاء کی طرح نور ہوگا ‘ کیونکہ میں نے ان پر ہر نماز کے لیے اس طرح وضو کرنا فرض کیا ہے جس طرح ان سے پہلے نبیوں پر وضو فرض کیا تھا ‘ اور ان پر اس طرح غسل جنابت فرض کیا ہے جس طرح ان سے پہلے نبیوں پر فرض کیا تھا ‘ اور ان پر اس طرح حج فرض کیا ہے جس طرح ان سے پہلے نبیوں پر فرض کیا تھا اور ان کو اس طرح جہاد کا حکم دیا ہے جس طرح ان سے پہلے نبیوں کو جہاد کا حکم دیا تھا۔ (دلائل النبوۃ ج ١ ص ٣٨٠‘ دارالکتب العلمیہ بیروت)
یہ بھی ہماری شریعت کے مخصوص احکام ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود (علیہ السلام) کو مطلع فرما دیا تھا ‘ سو اسی طرح جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی ہماری شریعت کے احکام سے مطلع فرمادیا ہو اور وہ اس کے مطابق قرب قیامت میں احکام جاری فرمائیں۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قرآن مجید میں اجتہاد کرکے احکام جاری فرمانا
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ قرآن مجید میں غور کرکے اس شریعت کے تمام احکام کو حاصل کرلیں ‘ کیونکہ قرآن مجید تمام احکام شرعیہ کا جامع ہے ‘ اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن مجید ہی کے تمام احکام کو اپنی سنت سے بیان فرمایا ہے اور امت کی عقلیں نبی کی طرح ادراک کرنے سے عاجز ہیں۔
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اسی چیز کو حلال کرتا ہوں جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کیا ہے اور میں اسی چیز کو حرام کرتا ہوں جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کیا ہے۔
(المعجم الاوسط لبطبرانی بہ حوالہ الحاوی للفتاوی ج ٢ ص ١٦٠ )
اسی لیے امام شافعی نے فرمایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس قدر احکام بیان فرمائے ہیں ان سب کو آپ نے قرآن مجید سے حاصل فرمایا ہے۔ پس جائز ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اسی طرح قرآن مجید سے اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سے اسلام کے احکام حاصل کرکے اس امت میں نافذ فرمائیں۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ——-
بالمشافہ اسلام کے احکام کا علم حاصل کرنا
تیسری صورت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نبی ہونے کے باوجود ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں شامل ہیں اور اس پر حسب ذیل احادیث شاہد ہیں :
حافظ ابوالقاسم علی بن الحسن ابن عسا کر المتوفی ٥٧١ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کعبہ کے گرد طواف کررہا تھا ‘ میں نے دیکھا کہ آپ نے کسی سے مصافحہ کیا اور ہم نے اس کو نہیں دیکھا ‘ ہم نے کہا یا رسول اللہ ! ہم نے آپ کو کسی سے مصافحہ کرتے ہوئے دیکھا ہے ‘ اور جس سے آپ نے مصافحہ کیا اس کو کسی نے نہیں دیکھا ‘ آپ نے فرمایا وہ میرے بھائی عیسیٰ بن مریم ہیں میں ان کا انتظار کررہا تھا حتی کہ انہوں نے اپنا طواف مکمل کرلیا پھر میں نے ان کو سلام کیا۔
(تاریخ دمشق الکبیر ج ص ٣٣٩‘ رقم الحدیث : ١١٣٠٢‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمام انبیاء باپ شریک بھائی ہیں ‘ ان کی مائیں (شریعتیں) مختلف ہیں اور ان کا دین واحد ہے ‘ اور میں عیسیٰ بن مریم کے سب سے زیادہ قریب ہوں ‘ کیونکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ‘ اور وہ جس وقت نازل ہوں گے تو میری امت پر خلیفہ ہوں گے ‘ جب تم ان کو دیکھو گے تو پہچان لوگے ‘ وہ متوسط القامت ہوں گے ان کا سرخی مائل سفیدرنگ ہوگا ‘ ان کے سر پر پانی نہ بھی ہو تو یوں معلوم ہوگا کہ ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہے ‘ وہ دو گیروے رنگ کے کپڑے پہن کر چل رہے ہوں گے ‘ وہ صلیب کو توڑ الیں گے ‘ خنزیر کو قتل کریں گے اور مال بہت تقسیم کریں گے ‘ جزیہ کو موقوف کردیں گے اور اسلام کے لیے جنگ کریں گے حتی کہ ان کے زمانہ میں تمام بد مذاہب ختم ہوجائیں گے اور زمین میں امن ہوجائے گا ‘ سیاہ سانپ کے ساتھ اونٹ چریں گے اور چیتے بیلوں کے ساتھ گشت کریں گے اور بھیڑیے بکریوں کے ساتھ ‘ اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے اور وہ ان کو نقصان نہیں پہنچائیں گے ‘ وہ زمین میں چالیس سال ٹھہریں گے پھر فوت ہوجائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے (اس حدیث سے یہ وہم نہ کیا جائے کہ حضرت عیسیٰ ہمارے نبی کی شریعت کو منسوخ کرنے والے ہیں بلکہ منسوخ کرنے والے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہیں ‘ کیونکہ آپ نے بتادیا کہ جزیہ اور جہاد کی مشروعیت کی مدت نزول عیسیٰ تک ہے۔ سعیدی)
(تاریخ دمشق الکبیر ج ٥٠ ص ٢٥٩‘ رقم الحدیث : ١١٢٧٤‘ داراحیاء التراث بیروت : ١٤٢١ ھ)
ان احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کے حکم میں ہیں اس لیے یہ ہوسکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہ راہ راست اور بالمشافہ احکام حاصل کیے ہوں ‘ اور نزول عیسیٰ کے بعد چونکہ سب لوگ مسلمان ہوجائیں گے اس لیے پھر جہاد اور جزیہ کی ضرورت نہیں رہے گی۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ——
قبر انور سے اسلام کے احکام کا علم حاصل کرنا
چوتھی صورت یہ ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہمارے نبی سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک پر جائیں اور قبر پر جا کر آپ سے استفادہ کریں ‘ اس کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس ذات کے قبضہ وقدرت میں ابوالقاسم کی جان ہے ‘ عیسیٰ بن مریم ضرور نازل ہوں گے ‘ امام اور انصاف کرنے والے حاکم اور عادل ہوں گے وہ صلیب کو توڑدیں گے ‘ خنزیر کو قتل کریں گے ‘ لوگوں میں صلح کرائیں گے اور بغض کو دور کریں گے ‘ ان پر مال کو پیش کیا جائے گا تو وہ مال کو قبول نہیں کریں گے ‘ پھر اللہ کی قسم ! اگر وہ میری قبر پر کھڑے ہو کر مجھے پکار کر کہیں ” یا محمد “ تو میں ان کو ضرور جواب دوں گا۔ (مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٦٥٨٤‘ تاریخ دمشق الکبیر رقم الحدیث : ١١٣١٣‘ مجمع الزوائد ج ٨ ص ٥‘ المطالب العالیہ ج ٤ ص ٢٣ )
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عیسیٰ حج یا عمرہ کے لیے جائیں گے اور فج روحاء کے راستہ سے گزریں گے اور میری قبر پر کھڑے ہو کر مجھ کو سلام کریں گے اور میں ان کے سلام کا جواب دوں گا۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٥٠ ص ٢٣٤‘ رقم الحدیث : ١١٣١٢)
حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ اور ان کی اتباع میں علامہ آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ نے ان احادیث سے اس صورت پر استدلال کیا ہے۔ (الحاوی للفتاوی ج ٢ ص ١٦٣۔ ١٦٢‘ روح المعانی جز ٢٢ ص ٥١۔ ٥٠ )
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت اور آپ کی تعلیم سے مستفید ہونا
نیز ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٧٤) حضرت موسیٰ اور حضرت یونس (علیہما السلام) کو تلبیہ پڑھتے ہوئے دیکھا (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٦) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حج کرتے ہوئے دیکھا (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧١) اور جس طرح ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبی اء سابقین سے ملاقات ممکن ہے اسی طرح حضرت عیسیٰ کی ہمار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ملاقات ممکن ہے تو ہوسکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کر کے آپ سے اسلام کے احکام حاصل کیے ہوں۔
حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ نے لکھا ہے کہ امام غزالی ‘ علامہ تاج الدین سبکی ‘ علامہ یافعی ‘ علامہ قرطبی مالکی ‘ علامہ ابن ابی جمرہ اور علام ابن الحاج نے مدخل میں یہ تصریح کی ہے کہ اولیاء اللہ نیند اور بیداری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کرتے ہیں اور آپ سے استفادہ کرتے ہیں ‘ ایک مرتبہ ایک فقیہ نے ایک ولی کے سامنے حدیث بیان کی ‘ ولی نے کہا یہ حدیث باطل ہے ‘ فقیہ نے کہا آپ کو کیسے علم ہوا ؟ ولی نے کہا تمہارے سر کے پاس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے فرما رہے ہیں میں نے یہ حدیث نہیں کہی اور اس فقیہ کو بھی آپ کی زیارت کرادی ‘ سو جب اس امت کے اولیاء کا یہ حال ہے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا مرتبہ اس سے کہیں زیادہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیادرت سے مستفید نہ ہوں اور آپ کی تعلیم سے مستفیض نہ ہوں۔ (الحاوی للفتاوی ج ٢ ص ١٦٣‘ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ لائل پور)
اولیاء کرام کا نیند اور بیداری میں آپ کی زیارت کرنا اور آپ سے استفادہ کرنا
نیز علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :
شیخ سراج الدین بن الملقن نے طبقات الاولیاء میں لکھا ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ ‘ نے فرمایا میں نے ظہر کی نماز سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کی ‘ آپ نے فرمایا اے میرے بیٹے ! اپنا منہ کھولو ‘ میں نے منہ کھولا تو آپ نے میرے منہ میں سات مرتبہ لعاب دہن ڈالا اور فرمایا لوگوں کے سامنے وعظ کرو اور حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ انہیں اپنے رب کی طرف دعوت دو ‘ پس میں ظہر کی نماز پڑھ کر بیٹھ گیا اور میرے سامنے بہت خلقت جمع ہوگئی ‘ پھر مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی پھر میں نے دیکھا کہ اس مجلس میں میرے سامنے حضرت علی (رض) کھڑے ہوئے ہیں ‘ آپ نے فرمایا : اے میرے بیٹے ! تم وعظ کیوں نہیں کرتے ؟ میں نے کہا اے میرے ابا جان ! مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی ہے ‘ آپ نے فرمایا اپنا منہ کھولو ‘ میں نے منہ کھولا تو آپ نے میرے منہ میں چھ مرتبہ اپنا لعاب دہن ڈالا ‘ میں نے پوچھا آپ نے سات مرتبہ لعاب دہن ڈال کر مکمل کیوں نہیں کیا ہے ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ادب کی وجہ سے ‘ پھر آپ مجھ سے غائب ہوگئے ‘ پھر جب یوں لگا جیسے علوم و معارف کا ایک عظیم سمندر میرے سینہ میں موجزن ہے اور میں اپنی زبان سے حقائق اور دقائق کے یو اقیت اور جواہر بیان کررہا ہوں۔ (روح المعانی جز ٢٢ ص ٥١ )
١٩٩٣ ء میں جب میں دوسری بار برطانیہ گیا تھا تو میں ڈربی شائر میں حافظ فضل احمد صاحب کی جامع مسجد میں حضرت غوث اعظیم سیدنا عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کے مناقب پر تقریر کررہا تھا میں نے روح المعانی کے حوالے سے مذکور الصدر روایت بیان کی اس پر ہمارے احباب میں سے صاجزادہ حبیب الرحمن محبوبی زید علمہ نے یہ سوال بھیجا کہ حضرت غوث الاعظم کے منہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لعاب دہن ڈالنے کے بعد کیا کمی رہ گئی تھی جس کو پورا کرنے کے لیے عبد میں حضرت علی (رض) نے اپنا لعاب دہن ڈالا ‘ میں نے اس کے جواب میں عرض کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لعاب دہن اور آپ کے فیضان میں کوئی کمی نہیں تھی ‘ حضرت علی (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لعاب دہن سے استفادہ اور حصول فیضان کو سہل اور آسان بنانے کے لیے اپنا لعاب دہن ڈالا ‘ جس طرح قرآن مجید کے فیضان میں کوئی کمی نہیں ہے لیکن اس سے فیضان کے حصول کو آسان بنانے کے لیے اس کی تفسیر کی جاتی ہے اسی طرح احادیث کی افادیت میں کوئی کمی نہیں ہے لیکن ان سے استفادہ کو سہل اور آسان بنانے کے لیے ان کی شروح لکھی جاتی ہیں۔
نیز علامہ آلوسی لکھتے ہیں :
اور علامہ سراج الدین ابن الملقن نے لکھا ہے کہ شیخ خلیفہ بن موسیٰ النھر ملکی نیند اور بیداری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بہ کثرت زیارت کرتے تھے اور وہ نیند اور بیداری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت فیض حاصل کرتے تھے ‘ انہوں نے ایک رات میں سترہ مرتبہ آپ کی زیارت کی ‘ ایک مرتبہ آپ نے ان سے فرمایا اے خلیفہ تم میری زیارت کے لیے اتنے بےقرار نہ ہوا کرو ‘ کیونکہ کتنے الویاء تو میرے دیدار کی حسرت میں ہی فوت ہوچکے ہیں ‘ اور شیخ تاج الدین بن عطاء اللہ نے لطائف المنن میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے ابو العباس المرسی سے کا آپ نے بہت شہروں میں بہت لوگوں سے ملاقات کی ہے آپ اپنے اس ہاتھ سے میرے ساتھ مصافحہ کرلیں ‘ انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! میں نے اپنے اس ہاتھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی آنکھوں سے اوجھل پائوں میں تو میں اس ساعت میں خود کو مسلمان شمار نہیں کرتا اور اس قسم کی عبارات اولیاء کرام سے بہت منقول ہیں۔
(روح المعانی جز ٢٢ ص ٥١‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)
ایک وقت میں متعدد مقامات پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کی کیفیت
خاتم الحفاظ حافظ جلال الدین سیوطی نے تنویر الحوالک میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد آپ کی زیارت پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس نے مجھ کو نیند میں دیکھا وہ مجھ کو عنقریب بیداری میں بھی دیکھے گا اور شیطان میری مثل نہیں بن سکتا۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٩٩٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٦٦‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٧٣٧١)
علامہ ابن ابی جمرہ نے لکھا ہے کہ متعدد عارفین نے نیند کے بعد بیداری میں آپ کی زیارت کی اور آپ سے سوالات کر کے دینی مسائل کی مشکلات کو سمجھا اور اس حدیث کی تصدیق کی۔
علماء کا اس میں کافی اختلاف ہے کہ آپ کو بیداری میں دیکھنے والا آپ ہی کے جسم اور بدن کو دیکھے گا یا آپ کی مثال کو دیکھے گا ‘ علامہ جلال الدین سیوطی نے عبارات علماء کو نقل کرنے کے بعد لکھا کہ احادیث اور عبارات علماء سے یہ ثابت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے جسم مبارک اور اپنی روح کے ساتھ زندہ ہیں اور آپ اطراف عالم میں جہاں چاہتے ہیں ‘ تشریف لے جاتے ہی اور تصرف فرماتے ہیں ‘ اور آپ اسی حالت میں ہیں جس حالت میں آپ وفات سے پہلے تھے اور اس میں سرموفرق نہیں ہوا ‘ اور آپ زندہ وہنے کے باوجود لوگوں کی نظروں سے اس طرح غائب ہیں جس طرح فرشتے ان کی نظروں سے غائب ہیں ‘ اور جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندہ کو آپ کی زیارت سے مشرف فرمانا چاہتا ہے تو آپ کے اور اس بندہ کے درمیان جو حجابات ہیں ان کو اٹھا دیتا ہے اور اس سے کوئی چزی مانع نہیں ہے تو پھر آپکی مثال کے قول کی کیا ضرورت ہے ‘ او باقی تمام انبیاء علہم السلام بھی زندہ ہیں ‘ اور ان کو اپنی قبروں سے باہر جانے اور اس جہان میں تصرف کرنے کا اذن دیا گیا ہے او اس پر بہ کثرت احادیث ناطق اور شاہد ہیں۔
علامہ آلوسی فرماتے ہیں میرا ظن غالب یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد آپ کی زیارت اس طرح نہیں ہوتی جیسے عام طور پر لوگ ایک دوسرے کو دنیا میں دیکھتے ہیں یہ ایک الت برزخیہ اور امر وجدانی ہے اس کی حقیقت کو وہی شخص پاسکتا ہیجس کو یہ مرتبہ حاصل ہوا ہو ‘ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دیکھنے والا آپ کی روح کو دیکھتا ہے اور وہ روح کسی صورت میں متمثل ہوجاتی ہے جب کہ وہ روح اس وقت آپ کے اس جسم مبارک میں بھی ہوتی ہے جو روضہ مبارکہ میں ہے جس طرح حضرت جبریل آپ کے سامنے حضرت وحیہ کلبی کی شکل میں موجود ہوتے ہیں یا کسی اور صورت میں اور اس وقت وہ سدرۃ المنتہی سے بھی جدا نہیں ہوتے ‘ اور رہا آپ کا جسم مثالی تو اس کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح قدسیہ متعلق ہوتی ہے اور اس سے کوئی چیز مانع نہیں ہے کہ آپ کے غیر متناہی اجسام مثالی ہوں اور ان میں سے ہر ایک کے ساتھ آپ کی روح واحدہ متعلق ہو اور یہ اس طرح ہو جیسے روح واحدہ کا تعلق ایک جسم کے متعدد اجزاء کے ساتھ ہوتا ہے ‘ اور ہماری اس تقریر سے شیخ ابوالعباس طنجی کے اس قول کی وجہ ظاہر ہوجاتی ہے کہ انہوں نے آسمان ‘ زمین ‘ عرش اور کرسی کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھرا ہوا دیکھا اور یہ عقدہ بھی حل ہوجاتا ہے کہ متعدد مقربین نے ایک ہی وقت میں متعدد مقامات پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کی۔ (روح المعانی جز ٢٢ ص ٥٣۔ ٥٢‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)
اس اعتراض کا جواب کہ عہد صحابہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ——-
زیارت اور آپ سے استفادہ کا اس قدر ظہور کیوں نہیں ہوا ؟
اولیاء کرام کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جو زیارت ہوتی ہے اور وہ آپ سے دینی اور فقہی معاملات میں استفادہ کرتے ہیں اور اپنے اشکالات کو حل کراتے ہیں اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ خلفاء راشدین اور دیگر اکابر صحابہ کرام کو جو اشکالات پیش آتے تھے ‘ مثلا حضرت فاطمہ (رض) کو فدک کی میراث دینے یا نہ دینے کا مسئلہ تھا ‘ حضرت ابوبکر کی خلاف کا مسئلہ تھا ‘ حضرت عثمان (رض) کے قصاص کا معاملہ تھا جس کی وجہ سے جنگ جمل اور جنگ صفین برپا ہوئیں ‘ تو ان اکابر صحابہ کرام کو آپ کی زیارت کیوں نہیں ہوئی اور انہوں نے آپ سے ان الجھے ہوئے معاملات میں رہنمائی کیوں نہیں حاصل کی ‘ بعد کے اولیاء کرام جن کو نیند اور بیداری میں آپ کی زیارت ہوتی رہی ہے اور وہ آپ سے اپنی مشکلات میں رہنمائی حاصل کرتے رہے ہیں ان سے تو بہر حال ان صحابہ کرام کا آپ سے قرب بہت زیادہ تھا اور بعد کے عارفین اور مقربین سے ان کا مرتبہ بہت بڑھ کر تھا۔
علامہ سید محمود آلوسی نے اس کے جواب میں یہ کہا ہے کہ نیند اور بیداری میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت اور آپ سے استفادہ اولیاء کرام کی باقی کرامات کی طرح خلاف عادت امور سے ہے ‘ اور عہد صحابہ میں ان کرامات اور خلاف عادت امور کا ظہور بہت کم تھا کیونکہ اس دور میں عہد رسالت اور آفتاب نبوت بہت قریب تھا اور جس طرح سورج کی موجود گی میں ستارے نظر نہیں آتے اسی طرح آفتاب رسالت کے ہوتے ہوئے صحابہ کرام کی کرامات کے ستارے نظر نہیں آتے تھے۔
(روح المعانی جز ٢٢ ص ٥٦۔ ٥٥‘ دارلفکر بیروت ‘ ٩ ١٤١ ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 40