أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِذۡ تَقُوۡلُ لِلَّذِىۡۤ اَنۡعَمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِ وَاَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِ اَمۡسِكۡ عَلَيۡكَ زَوۡجَكَ وَاتَّقِ اللّٰهَ وَتُخۡفِىۡ فِىۡ نَفۡسِكَ مَا اللّٰهُ مُبۡدِيۡهِ وَتَخۡشَى النَّاسَ ‌ۚ وَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشٰٮهُ ؕ فَلَمَّا قَضٰى زَيۡدٌ مِّنۡهَا وَطَرًا زَوَّجۡنٰكَهَا لِكَىۡ لَا يَكُوۡنَ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ حَرَجٌ فِىۡۤ اَزۡوَاجِ اَدۡعِيَآئِهِمۡ اِذَا قَضَوۡا مِنۡهُنَّ وَطَرًا ؕ وَكَانَ اَمۡرُ اللّٰهِ مَفۡعُوۡلًا ۞

ترجمہ:

اور اے رسول مکرم ! یاد کیجئے جب آپ اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے انعام کیا ہے اور آپ نے بھی اس پر انعام کیا ہے کہ تم اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں رہنے دو ‘ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور آپ اپنے دل میں اس بات کو چھپا رہے تھے جس کو اللہ ظاہر فرمانے والا تھا ‘ اور آپ کو لوگوں کے طعنوں کا اندیشہ تھا ‘ اور اللہ آپ کے خوف کا زیادہ مستحق ہے ‘ پھر جب زید نے (اس کو طلاق دے کر) اپنی غرض پوری کرلی ‘ تو ہم نے (عدت کے بعد) آپ کا اس سے نکاح کردیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے متعلق اس میں کوئی حرج نہ رہے ہ جب وہ انہیں طلاق دے کر بےغرض ہوجائیں ( تو وہ ان سے نکاح کرسکیں) اور اللہ کا حکم تو بہر حال ہونے والا تھا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اے رسول مکرم ! یاد کیجئے جب آپ اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے انعام کیا ہے اور آپ نے بھی اس پر انعام کیا ہے کہ تم اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں رہنے دو ‘ اور اللہ سے ڈرتے رہو ‘ اور آپ اپنے دل میں اس بات کو چھپا رہے تھے ‘ جس کو اللہ ظاہر فرمانے والا تھا ‘ اور آپ کو لوگوں کے طعنوں کا اندیشہ تھا ‘ اور اللہ آپ کے خوف کا زیاد مستحق ہے ‘ پھر جب زید نے (اس کو طلاق دے کر) اپنی غرض پوری کرلی تو ہم نے (عدت کے بعد) آپکا اس سے نکاح کردیا ‘ تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے متعلق اس میں کوئی حرج نہ رہے کہ جب وہ انہیں طلاق دے کر بےغرض ہوجائیں (تو وہ ان سے نکاح کرسکیں) اور اللہ کا حکم تو بہر حال ہونے والا تھا (الاحزاب : ٣٧)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انعام دینا ‘ غنی فرمانا اور تقسیم فرمانا 

جس پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے : اس سے مراد حضرت زید بن حارثہ (رض) ہیں ‘ جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ انعام کیا کہ اسلام لانے کی توفیق دی ‘ اور آپ کے دل میں ڈالا کہ آپ ان کی اچھی تربیت کریں اور ان کو آزاد کردیں اور ان کو اپنا قرب عطا کریں اور ان کو اپنا بیٹابنا لیں۔

اور آپ نے بھی اس پر انعام کیا ہے اس سے مراد آپ کا حضرت زید بن حارثہ کو آزاد کرنا ہے ‘ اور ان پر اس قدر شفقت فرمائی اور اس قدر حسن سلوک کیا کہ جب ان کے والد اور چچا ان کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آئے تو انہوں نے اپنے والد اور چچا کے ساتھ جانے پر آپ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی ‘ اس آیت اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو بھی منعم فرمایا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی منعم فرمایا ہے ‘ اس طرح ایک اور آیت میں فرمایا :

وما نقوموآ الا ان اغنھم اللہ ورسولہ من فضلہ۔ (التوبہ : ٧٤) اور ان (منافقوں) کو صرف یہ ناگوار ہوا کہ ان کو اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے غنی کردیا۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں کو غنی کرنے والا قراردیا ہے۔

اور حدیث صحیح میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے۔

وانما انا قسم واللہ یعطی۔ اور میں صرف تقسیم کرنے والا ہوں ‘ اور اللہ عطا فرمانے والا ہے۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٣٧‘ مسند احمد رقم الحدیث : ١٦٩٦٢‘ عالم الکتب)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی عطا سے انعام فرماتے ہیں اور غنی کرتے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ ہر چیز عطا فرماتا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر چیز کو تقسیم فرماتے ہیں ‘ اس کائنات میں جس شخص کو جو نعمت بھی ملی ہے وہ آپ کے واسطہ سے اور آپ کی تقسیم سے ملی ہے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت زینب بنت حجش (رض) کے نکاح کی تفصیلات 

حضرت زید بن بن حارثہ کی بیوی ‘ حضرت زینب بنت حجش (رض) مزاج کی تیز تھیں اور حضرت زید کے مقابلہ میں اپنے نسب اور اپنے خاندان کو برتر خیال کرتی تھیں اور حضرت زید ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر ان کی شکایت کرتے تھے کہ ان کی زبان بہت سخت ہے اس لیے میں انکو طلاق دینا چاہتا ہوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے فرماتے تھے تم اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں رہنے دو ‘ اور اللہ سے ڈرو اور ان کی زبان کی تیزی اور تندی کی وجہ سے ان کو طلاق مت دو ۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے اس سے مطلع فرمادیا تھا کہ بالآخر حضرت زید ‘ حضرت زینب کو طلاق دے دیں گے اور ان کی عدت گزرنے کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت زینب کا نکاح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کردے گا ‘ اور آپ کو یہ خوف اور دشہ تھا کہ پھر کفار اور منافقین آپ پر یہ اعتراض کریں گے کہ پہلے آپ نے حضرت زید کو اپنا بیٹا بنایا پھر اس کی بیوی سے نکاح کرلیا ‘ حالانکہ بیٹے کی بیوی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے ‘ ان اعتراضات کے خدشہ کی وجہ سے آپ حضرت زید سے فرماتے تھے کہ تم زینب کو طلاق مت دو ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور آپ اپنے دل میں اس بات کو چھپا رہے تھے جس کو اللہ ظاہر کرنے والا تھا ‘ اور آپ کو لوگوں کے طعنوں کا اندیشہ تھا ‘ اور اللہ آپ کے خوف کا زیادہ مستحق ہے (حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی سے کسی آیت کو چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو چھپالیتے )(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٨٥‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٧‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢٠٨‘ المعجم الکبیر ج ٩٤‘ رقم الحدیث : ١١١)

اس کے بعد فرمایا : جب زید نے (اس کو طلاق دے کر) اپنی غرض پوری کرلی۔

اور طلاق دینے کے بعد زید کے دل میں ان کی طرف سے کوئی میلان اور رغبت نہ رہی اور نہ ان کے فراق سے ان کے دل میں کوئی وحشت اور گھبراہٹ ہوئی۔

اس کے بعد فرمایا : تو ہم نے (عدت کے بعد) آپ کا اس سے نکاح کردیا۔

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت زینب (رض) کی عدت پوری ہوگئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید بن حارثہ (رض) سے فرمایا تم زینب کے پاس جائو اور ان سے میرا ذکر کرو ‘ حضرت زید ان کے پاس گئے اس وقت وہ آٹا گوندھ رہیں تھیں ‘ وہ کہتے ہیں کہ جب میں نے ان کو دیکھا تو میرے دل میں ان کی بہت عظمت اور ہیبت طاری ہوگئی اور میں ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کی تاب نہیں لارہا تھا کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا ذکر کیا تھا ‘ میں ان کی طرف پیٹھ کر کے اپنی ایڑیوں کے اوپر کھڑا ہوگیا ‘ میں نے کہا اے زینب ! تمہیں خوش خبری مبارک ہو ! مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھیجا ہے وہ تمہارا ذکر فرما رہے تھے ‘ حضرت زینب نے کہا میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کروں گی ‘ پھر اور اپنی نماز پڑھنے کی جگہ چلی گئیں اور اسی وقت قرآن نازل ہوگیا (یعنی یہ آیت : وزوجنکھا) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بغیر اجازت کے ان کے پاس داخل ہوگئے ‘ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولیمہ میں ہمیں روٹیاں اور گوشت کھلا یا۔ الحدیث (سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٢٥١‘ مسند احمد ج ٣ ص ١٩٥‘ طبع قدیم ‘ حافظ زین نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے ‘ حاشیہ مسند احمد رقم الحدیث : ١٢٩٥٩‘ دارالحدیث قاہرہ ‘ ١٤١٢ ھ ‘ الطبقات الکبری ج ٨ ص ١٠٤ طبع قدیم ‘ الطبقات الکبری ج ٨ ص ٨٢ طبع جدید ‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٨ ھ ‘ المستدرک ج ٤ ص ٢٣‘ اسد الغابہ ج ٧ ص ١٢٦ )

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت زینب بنت حجش (رض) کے سلسلہ میں پردہ کے حکم کی آیت نازل ہوئی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیان کے ولیمہ میں روٹیاں اور گوشت کھلایا ‘ اور حضرت زینب ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دوسری ازواج کے سامنے فخر کرتی تھیں اور فرماتی تھیں اللہ تعالیٰ نے میرا آسمانوں میں نکاح کیا ہے ‘ اور حضرت عائشہ کی روایت میں ہے وہ دیگر ازواج کے سامنے فخر کرتی تھیں اور فرماتی تھیں اللہ تعالیٰ نے میرا آسمانوں میں نکاح کیا ہے ‘ اور حضرت عائشہ کی روایت میں ہے وہ دیگر ازواج سے فرماتی تھیں تمہارا نکاح تمہارے گھر والوں نے کیا ہے اور میرا نکاح اللہ نے کیا ہے ‘ اور حضرت عائشہ کی روایت میں ہے وہ دیگر ازواج سے فرماتی تھیں تمہارا نکاح تمہارے گھر والوں نے کیا ہے اور میرا نکاح سات آسمانوں کے اوپر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٤٢٠۔ ٧٤٢١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٢٨‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢١٨‘ مسند احمد رقم الحدیث : ١٢٦٩٨‘ عالم الکتب)

امام ابو الفرج عبدالرحمن بن علی بن محمد جوزی جنبلی متوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں :

اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خصائص میں سے یہ چیز ہے کہ آپ کو یہ اجازت دی گئی کہ آپ بغیر مہر کے نکاح کرلیں تاکہ آپ کی ازواج مطہرات خلوص سے آپ کا قصد کریں نہ کہ مہر کے عوض ‘ اور آپ سے تخفیف ہو ‘ اور ولی کی اجازت کے بغیر بھی آپ کو نکاح کی اجازت دی گئی ہے۔ اسی طرح سے آپ اپنے نکاح میں گواہوں کے حاضر ہونے سے بھی مستغنی ہیں ‘ اسی وجہ سے حضرت زینب (رض) دیگر ازواج مطہرات سے فخر سے یہ کہتی تھیں کہ تمہارا نکاح تمہارے گھروالوں نے کیا ہے اور میرا نکاح اللہ عزوجل نے کیا ہے۔ (زادالمسیر ج ٦ ص ٣٩١‘ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت ‘ ١٤٠٧ ھ)

علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

جب حضرت زینب (رض) نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا تو اللہ تعالیٰ ان کے نکاح کا خود ولی ہوگیا اور اس لیے فرمایا ہم نے آپ سے ان کا نکاح کردیا ‘ امام جعفر بن محمد نے اپنے آباء سے روایت کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبردی کہ اس نے آپ کا نکاح حضرت زینب سے کردیا ‘ تو آپ بغیر اجازت کی حضرت زینب کے پاس داخل ہوگئے ‘ کسی عقد نکاح کی تجدید کی گئی نہ کوئی مہر مقرر کیا گیا او نہ ان شرائط میں سے کوئی چیز تھی جو ہماے نکاحوں میں ہوتی ہیں ‘ اور مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان خصوصیات میں سے ہے جن میں آپکا کوئی شریک نہیں ہے ‘ اسی وجہ سے حضرت زینب دیگر ازواج سے بہ طور فخر یہ کہتی تھیں کہ تمہارا نکاح تمہارے گھروالوں نے کیا ہے اور میرا نکاح آسمانوں پر اللہ عزوجل نے کیا ہے۔ (الجامع لا حکا القرآن جز ١٤ ص ١٧٥‘ دارالفکر بیروت)

حضرت زینب بنت حجش (رض) کی مختصر سوانح 

حافظ اسماعیل بن عمربن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں :

ذوالقعدہ پانچ ہجری میں غزوہ بنو قریظہ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حضرت زینب بنت حجش (رض) سے نکاح ہوا تھا نکاح کے وقت ان کی عمر پینتیس (٣٥) سال تھی۔

حضرت زینب (رض) ان خواتین میں سے تھیں جنہوں نے سب سے پہلے ہجرت کی تھی ‘ وہ بہت نیکی کرنے والی اور بہ کثرت صدقہ اور خیرات کرنے والی تھیں ‘ انکا پہلے نام برہ تھا ‘ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انکا نام تبدیل کرکے زینب رکھ دیا ‘ ان کی کنیت ام الحکم تھی ‘ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں ‘ میں نے ان سے زیادہ نیکوکارہ ‘ صادقہ ‘ اللہ سیڈرے والی ‘ صلہ رحم کرنے والی ‘ خیرات کرنے والی او امانت دار خاتون نہیں دیکھی ‘ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ جب منافقوں نے حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگائی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب (رض) سے میرے متعلق پوچھا اور ازواج مطہرات میں یہی میری ٹکر کی تھیں ‘ ان کے تقوی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو محفوظ رکھا ‘ انہوں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اپنے کانوں اور اپنی آنکھوں کی حفاظت کرتی ہوں۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤١٤١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٧٠‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢١٣٨‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٩٧٠۔ ٢٣٤٧ )

نیز حضرت عائشہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا تم میں سب سے پہلے مجھ سے وہ ملے گی جس کے ہاتھ سب سے زیادہ لمبے ہوں گے سو ہم ناپتے تھے کہ ہم میں سے کس کے ہاتھ سب سے لمبے ہیں ‘ تو حضرت زینب (رض) ہی کے ہاتھ سب سے لمبے تھے کیونکہ وہ بہت صدقہ اور خیرات کرتی تھیں ( آپکی مراد لمبے ہاتھوں سے زیادہ سخاوت کرنا تھی اور ازواج نے اس سییہ سمجھا کہ اس سے مراد جسمانی لمبائی ہے) ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٥٢ )

امام واقدی وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت زینب ٢٠ ھ کو فوت ہوئیں اور حضرت امیر المومنین عمررضی اللہ عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کو بقیع میں دفن کیا گیا۔ (البدایہ والنہایہ ج ٣ ص ٣٠٩‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

حافظ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ وفات کے وقت ان کی عمر پچاس سال تھی اور ایک روایت کے مطابق ان کی عمر ترپپن سال تھی۔ (الاصابہ ج ٨ ص ١٥٥‘ دارالکتب العملیہ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 37