أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ يُصَلُّوۡنَ عَلَى النَّبِىِّ ؕ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَيۡهِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِيۡمًا‏ ۞

ترجمہ:

بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود پڑھتے ہیں ‘ اے ایمان والو ! تم بھی ان پر درود پڑھو اور بہ کثرت سلام پڑھو

اللہ تعالیٰ اور اس کے غیر کا ایک صیغہ یا ایک ضمیر میں ذکر کرنے کی تحقیق 

اس آیت میں اللہ اور فرشتوں کو ایک فعل میں شریک کیا ہے اور فرمایا ہے : اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود پڑھتے ہیں ‘ اس آیت پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے غیر کو ایک فعل میں شریک کرنے سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے ‘ حدیث میں ہے :

حضرت عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے کہا جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی اس نے ہدایت پالی اور جس نے ان کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہوگیا ‘ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم برے خطیب ہو یوں کہو جس نے اللہ کی نافرمانی کی اور اس کے رسول کی وہ گمراہ ہوگیا۔(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٠ ٨٧‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٩٨١‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٢٧٩‘ مسند احمد رقم الحدیث : ١٨٢٧٥‘ دارالفکر بیروت)

اس کا جواب یہ ہے کہ عام لوگوں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے غیر کا ذکر ایک ضمیر میں جمع کریں کیونکہ اس سے سننے والوں کو یہ وہم ہوگا کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے غیر کو برابر سمجھتا ہے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے غیر کا ذکر الگ الگ صیغوں میں کیا جائے البتہ اللہ تعالیٰ کسی حکم یا کسی قاعدہ کا پاپند نہیں ہے ‘ وہ ایک صیغہ اور ایک ضمیر میں اللہ اور اس کے غیر کا ذکر کرے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ‘ ایک صیغہ میں دونوں کا ذکر کرنے کی مثال یہ آیت ہے اس میں فرمایا ہے : ان اللہ و ملائکتہ یصلون اللہ اور اس کے فرشتے درود پڑھتے ہیں ‘ اور ایک ضمیر میں دونوں کے ذکر کے مراد لیتے کی مثال یہ آیت ہے :

وما نقموآ الآ ان اغنھم اللہ ورسولہ من فضلہ (التوبہ : ٧٤) اور ان (منافقین کو) یہ نہ گوار ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے غنی کردیا۔

اس آیت میں من فضلہ کی ضمیر واحد اللہ اور رسول دونوں کی طرف راجع ہے ‘ اسی طرح یہ آیت ہے :

واللہ ورسولہ احق ان یرضوہ۔ (التوبہ : ٦٢) اللہ اور اس کا رسول اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کو راضی کیا جائے۔

اس آیت میں بھی یرضوہ کی ضمیر واحد اللہ اور اس کے رسول دونوں کی طرف راجع ہے۔

اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس قاعدہ کے پابند نہیں ہیں اور آپ نے بھی اللہ اور اس کے رسول کو ایک ضمیر میں جمع فرمایا ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے :

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص میں تین خصلتیں ہوں وہ ایمان کی مٹھاس کو پالے گا ‘ ایک یہ ہے کہ 

ان یکون اللہ ورسولہ احب الیہ مما سوا ھما۔ اللہ اور اس کا رسول اس کو ان کے ماسوائے زیادہ محبوب ہو۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٦‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٣‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦٢٤‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٩٨٨)

خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ادب اور اس کی تعظیم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اور اس کے یغر دونوں کا ایک ضمیر میں ذکر کرنا جائز نہیں ہے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قاعدہ کے پابند نہیں ہیں اور وہ ایک صیغہ یا ایک ضمیر میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے غیر کو بھی جمع کردیتے ہیں ‘ کیونکہ جب دوسرے لوگ ایک صیغہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے غیر کا ذکر کریں گے تو ان کے متعلق یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے غیر کو ہم مرتبہ اور مساوی سمجھتے ہیں اس لیے دونوں کا ایک صیغہ یا ایک ضمیر میں ذکر کررہے ہیں ‘ لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق یہ گمان نہیں کیا جاسکتا اس لیے اگر وہ ایک صیغہ یا ایک ضمیر میں دونوں کا ذکر کریں تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

فقہاء اسلام کے نزدیک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ تعالیٰ—————-

اور فرشتوں کی صلوٰۃ کا معنی ہے آپ کی حمد وثناء کرنا 

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں پر صلوٰۃ پڑھتا ہے اس کا معنی ہے وہ ان کی حمدو ثناء فرماتا ہے اور ان کا تزکیہ فرماتا ہے ‘ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو مسلمانوں پر صلوٰۃ پڑھتے ہیں اس کا معنی ہے آپ ان کے لیے برکت کی دعا کرتے ہیں ‘ اور فرشتے جوصلوٰۃ پڑھتے ہیں اس کا معنی ہے وہ مسلمانوں کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ (المفردات ج ٢ ص ٣٧٤‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطف الباز مکہ مکرمہ ١٤١٨ ھ)

قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی ٥٤٤ ھ لکھتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر صلوٰۃ پڑھتے ہیں ‘ اس کا معنی ہے وہ ان پر برکت نازل فرماتے ہیں۔ مبرد نے کہا صلوٰۃ کا اصل معنی ہے رحمت ‘ پس اللہ کے صلوٰۃ پڑھنے کا معنی ہے وہ رحمت نازل فرماتا ہے اور فرشتوں کے صلوٰۃ پڑھنے کا معنی ہے وہ مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے رحمت طلب کرتے ہیں ‘ اس سلسلہ میں یہ حدیث ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تک تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز کی جگہ بیٹھا رہے اور بےوضو نہ ہو ‘ فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں ‘ اے اللہ ! اس کی مغفرت فرما ‘ اے اللہ اس پر رحم فرما۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٥٩‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٩٣٧٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٤٩ )

ابوبکر قشیری نے کہا جب اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ کسی اور پر صلوٰۃ پڑھے تو اس کا معنی ہے رحمت نازل فرمانا اور جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ پڑھے تو اس کا معنی ہے آپ کی زیادہ عزت افزائی اور تکریم کرنا۔

امام ابو العالیہ نے کہا اللہ کے آپ پر صلوٰۃ پڑھنے کا معنی ہے فرشتوں کے سامنے آپ کی حمد وثناء کرنا اور فرشتوں کے صلوٰۃ پڑھنے کا معنی ہے دعا کرنا۔ (صحیح البخاری تفسیر سورة الاحزاب باب : ١٠)

اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو سلام پڑھنے کا ذکر ہے اس کے تین معنی ہیں :

(١) یہ دعا کی جائے کہ آپ کے لیے سلامتی ہو اور آپ کے ساتھ سلامتی ہو ‘ یعنی تم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رحمت و سلامتی کو طلب کرو۔

(٢) اللہ آپ کا محافظ ہو اور آپ کی رعایت کرے اور آپ کا متولی اور کفیل ہو۔ یعنی تم آپ پر رحمت اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور رحمت کو طلب کرو۔

(٣) سلام کا معنی ہے تسلیم کرنا ‘ مانا لینا ‘ اطاعت کرنا اور سرتسلیم خم کرنا۔ گویا مومنوں سے فرمایا ہے تم آپ پر صلوٰۃ پڑھو اور اس حکم کو مان لو اور تسلیم کرلو اور اس حکم کی اطاعت کرو۔ (الشفاء ج ٢ ص ٥١۔ ٥٠‘ ملخصا دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

علامہ ابو السعادات المبارک بن محمد ابن الاثیر الجزری المتوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

صلوٰۃ کا معنی عبادت مخصوصہ (نماز) ہے ‘ اور اس کا اصل معنی دعا ہے ‘ اور نماز میں بھی دعا ہوتی ہے ‘ ایک قول یہ ہے کہ صلوۃ کا اصل معنی تعظیم کرنا ہے ‘ اور نماز کو صلوٰۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے ‘ اور تشہد میں کہتے ہیں التحیات للہ والصلوات ‘ اس سے تعظیم کے وہ کلمات مراد ہیں جن کا اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی مستحق نہیں ہے ‘ اور جب ہم کہتے ہیں اللھم صل علی محمد تو اس کا معنی ہے اے اللہ ! نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دنیا میں ذکر بلند کر کے آپ کی تعظیم اور تکریم فرما اور آپ کے پیغام کو غالب فرما اور آپ کی شریعت کو باقی رکھ اور آخرت میں آپ کو اپنی امت کے حق میں شفاعت کرنے والا بنا ‘ اور آپ کے اجرو ثواب کو دگنا چوگنا فرما ‘ ایک قول یہ ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ جب اللہ سبحانہ نے ہم کو آپ پر صلوٰۃ پڑھنے کا حکم دیا اور ہم کو معلوم نہیں تھا کہ آپ کا کیا مرتبہ ہے اور آپ پر کس طرح صلوٰۃ پڑھنی چاہیے تو ہم نے صلوٰۃ پڑھنے کو اللہ کے سپرد کردیا اور ہم نے کہا اے اللہ ! اپنے رسول مکرم کے مرتبہ کو تو ہی جاننے والا ہے تو ان کے مرتبہ کے موافق تو ہی ان پر صلوٰۃ پڑھ۔ (النہایہ ج ٣ ص ٤٦‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٨ ھ ‘ مجمع بحار الانواز ج ٣ ص ٣٤٧‘ مکتبہ الایمان ‘ امدینۃ المنورۃ ‘ ١٤١٥ ھ)

علامہ شمس الدین محمد بن ابوبکر ابن القیم الجوزیہ المتوفی ٧٥١ ھ لکھتے ہیں :

صلوٰۃ کا معنی ہے جس پر صلوٰۃ پڑھی جائے اس کی حمد وثناء کرنا ‘ امام بخاری نے ابو العالیہ سے نقل کیا ہے کہ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ پڑھنے کا معنی ہے فرشتوں کے سامنے آپ کی حمد وثناء کرنا اور فرشتوں کے صلوٰۃ پڑھنے کا معنی یہ ہے کہ آپ کے حق میں دعا کرنا ‘ اور اللہ تعالیٰ نے الاحزاب : ٥٦ میں اپنی اور فرشتوں کی صلوٰۃ کو جمع فرمایا ہے سو اس آیت میں معنی یہ ہے کہ اللہ اور فرشتے دونوں آپ کی حمد وثناء کرتے ہیں کیونکہ لفظ مشترک سے دو معنوں کا ارادہ کرنا جائز نہیں ہے ‘ پس جب صلوٰۃ کا معنی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمد وثناء کرنا اور آپ کے شرف اور فضیلت اور آپ کی تعظیم اور تکریم کو ظاہر کرنا تو پھر لفظ صلوٰۃ اس آیت میں دو معنوں میں مستعمل نہیں ہے بلکہ ایک ہی معنی میں مستعمل ہے اور وہ ہے آپ کی تعظیم و تکریم کرنا۔

اور ہم کو جو آپ پر صلوٰۃ اور سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اسی صلوٰۃ کو طلب کریں جوصلوٰۃ اللہ آپ پڑھتا ہے اور جو صلوٰۃ فرشتے آپ پر پڑھتے ہیں ‘ یعنی ہم اللہ تعالیٰ سے یہ طلب کریں گے وہ آپ کی حمد وثناء کرے اور آپ کی فضیلت اور شرف کو ظاہر کرے اور آپ کی تکریم کرے اور آپ کو اپنا مقرب بنانے کا ارادہ فرمائے ‘ اور ہمارے اس سوال اور دعا کو ہماری صلوٰۃ دو وجہوں سے فرمایا ہے :

(١) یہ دعا آپ کی حمد وثناء اور آپ کے شرف اور فضیلت کے ذکر اور آپ کی محبت کو متضمن ہے ‘ اور صلوٰۃ کا معنی ہے جس پر صلوٰۃ پڑھی جائے اس کی حمد و ثنا کرنا۔

(٢) اس دعا میں ہم اللہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ آپ پر صلوٰۃ پڑھے ‘ اور اللہ کی آپ پر صلوٰۃ یہ ہے کہ وہ آپ کی حمد وثناء کرے اور آپ کے ذکر کو بلند کرنے اور آپ کو مقرب بنانے کا ارادہ فرمائے ‘ اور جب ہم آپ پر صلوٰۃ پڑھتے ہیں تو اللہ س ایسا کرنے کی دعا کرتے ہیں۔ اور آپ پر صلوٰۃ پڑھنے کا یہ معنی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے آپ پر نزول رحمت کو طلب کرتے ہیں بلکہ ہم اللہ سے یہ طلب کرتے ہیں کہ وہ آپ کی حمد وثناء کرے اور آپ کی تعظیم و تکریم کرے۔ (جلاء الا فہام ص ٨٧۔ ٨٥‘ ملقطا و ملخصا دارالکتاب العربی ‘ ٤١٤٧ ھ)

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی صلاۃ کے معنی میں کئی اقوال ہیں ‘ امام بخاری نے ابو العالیہ سے نقل کیا ہے ‘ اور ان کے غیر نے ربیع بن انس سے ‘ اور حلیمی نے شعب الایمان میں لکھا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں آپ کا ذکر بلند کرکے اور آپ کے دین کو غالب کرکے اور آپ کی شریعت کو باقی رکھ کر آپ کی تعظیم کو ظاہر فرمائے اور آخرت میں آپ کو اپنی امت کے لیے شفاعت کرنے والا بنائے اور آپ کے اجرو ثواب کو زیادہ اور دگنا چوگنا فرمائے اور آپ کو مقام محمود عطا فرما کر اولین اور آخرین پر آپ کی فضیلت کو ظاہر فرمائے اور تمام مقربین پر آپ کو مقدم فرمائے اور صلوٰۃ میں آپ کے ساتھ آپ کی آل اور اصحاب کا ذکر اس معنی کے منافی نہیں ہے کیونکہ ہر ایک کی تعظیم اس کے مرتبے کے حساب سے اور اس کی شان کے لائق کی جاتی ہے۔ (روح المعانی جز ٢٢ ص ١٠٩‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

شیخ محمد بن علی بن محمد الشو کانی المتوفی ١٢٥٠ ھ لکھتے ہیں :

اس جگہ یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جب صلوٰۃ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے رحمت کو نازل کرنا اور جب اس کی نسبت فرشتوں کی طرف ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے دعا کرنا اور اس آیت میں فرمایا ہے : اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر صلوٰۃ پڑھتے ہیں تو ایک لفظ یصلون سے دو معنوں کا ارادہ کرنا کس طرح جائزہ وگا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کی صلوٰۃ اور فرشتوں کی صلوۃ دونوں سے مراد ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شرف اور آپ کی فضیلت کا اظہار کرنا ‘ اور آپ کی شان کی عظمت بیان کرنا ‘ اور اس آیت سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو خبر دی ہے کہ اس کے نزدیک ملائکہ مقربین میں سے اس کے نبی کا کیا مرتبہ ہے کہ وہ ملائکہ کے سامنے اپنے نبی کی حمد وثناء کرتا ہے اور ملائکہ بھی اس کے نبی کی حمد وثناء کرتے ہیں اور اس نے اپنے بندوں کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ بھی فرشتوں کی اقتداء کریں اور اس کے نبی کی حمد وثناء کریں۔ (فتح القدیر ج ٤ ص ٣٩٧‘ دارالوفاء بیروت ‘ ١٤١٨ ھ)

غیر مقلدین کے مشہور عالم نواب صدیق حسن خاں بھوپالی متوفی ١٣٠٧ ھ نے بھی اس عبارت کو نقل کرکے اس پر اعتماد کیا ہے۔ (فتح البیان ج ٥ ص ٤٠١‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢٠ ھ)

مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی ١٣٩٦ ھ نے بھی اس سوال کا یہی جواب دیا ہے۔ (معارف القرآن ج ٧ ص ٢٢٢‘ ادارۃ المعارف کراچی ‘ ١٣٩٧ ھ)

صدر الا فاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی متوفی ١٣٦٧ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

درود شریف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکریم ہے ‘ علماء نے اللھم صل علی محمد کے یہ معنی بیان کیے ہیں یا رب ! محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عظمت عطا فرما ‘ دنیا میں ان کا دین بلند اور ان کی دعوت غالب فرما کر اور ان کی شریعت کو بقاء عنایت کر کے اور آخرت میں ان کی شفاعت قبول فرما کر اور ان کا ثواب زیادہ کرکے ‘ اور اولین اور آخرین پر ان کی فضیلت کا اظہار فرما کر اور انبیاء مرسلین و ملائکہ اور تمام خلق پر ان کی شان بلند کرکے ان کی عظمت ظاہر فرما۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی متوفی ١٣٩٩ ھ لکھتے ہیں :

صلوٰۃ کا لفظ جب اللہ کی طرف منسوب ہو تو اس کا معنی ہے مائل ہونا اور محبت کے ساتھ کسی کی طرف جھکنا اور اس آیت میں یہ دونوں معنی مراد ہیں اور جب یہ لفظ بندوں کے لیے بولا جائے گا خواہ وہ فرشتے ہوں یا انسان تو وہ تین معنوں میں ہوگا ‘ اس میں محبت کا مفہوم بھی ہوگا ‘ مدح وثناء کا مفہوم بھی اور رحمت کا مفہوم بھی لہٰذا اہل ایمان کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں صلوا علیہ کا حکم دینے کا مطلب یہ ہے کہ تم ان کے گرویدہ ہوجائو ان کی مدح وثناء کرو اور ان کے لیے دعا کرو۔(تفہیم القرآن ج ٤ ص ١٢٥۔ ١٢٤‘ ادارہ ترجمان القرآن لاہور ‘ ١٩٨٣ ئ)

صلوٰۃ وسلام کا معنی بیان کرتے ہوئے ہم نے متعدد فقہاء اسلام کی تقریرات اور تحقیقات پیش کی ہیں اور ہمارے نزدیک اس میں بہترین تقریر اور تحقیق علامہ ابن قیم جو زیہ نے کی ہے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ وسلام پڑھنے کی فضیلت میں احادیث اور آثار 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے مجھ پر ایک بار درود پڑھا اللہ اس پر دس بار درود پڑھتا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٠٨‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٥٣٠‘ سنن الترمذی ٤٨٥‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٩٠٦‘ مسند احمد ج ٣ ص ٣٧٥۔ ٣٧٢‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٤٠ ص ٢٨‘ رقم الحدیث : ٨١٢٣‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

(٢) حضرت فضالہ بن عبید (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنا ایک شخص نماز میں دعا کررہا تھا اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود نہیں پڑھا ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس شخص نے عجلت کی ہے ‘ پھر اس کو یا کسی اور کو بلا کر فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو پہلے اللہ کی حمد اور اس کی ثناء کرے ‘ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھے ‘ پھر اس کے بعد جو چاہے دعا کرے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٤٧٧‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٤٨١‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١٢٨٤‘ مسند احمد ج ٦ ص ١٨)

(٣) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کچھ لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور اللہ کا ذکر نہ کریں اور نہ اس کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھیں تو قیامت کے دن ان کی وہ مجلس ان کے لیے باعث ندامت ہوگی ‘ اللہ چاہے گا تو ان کو معاف فرمادے گا اور اگر وہ چاہے گا تو ان سے مواخذہ فرمائے گا۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٨٥٥‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ١٠٢٣٨‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ١٥٩٠‘ المستدرک ج ١ ص ٤٩١‘ حلیۃ الا ولیاء ج ٨ ص ١٣٠‘ کبری للبیھقی ج ٣ ص ٢١٠‘ مسند احمد ج ٢ ص ٤٣٢)

(٤) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہیں پڑھا اور اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے اوپر ماہ رمضان داخل ہوا اور اس کی مغفرت سے پہلے وہ ختم ہوگیا ‘ اور اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے پاس اس کے ماں باپ بوڑھے ہوں اور انہوں نے اس کو جنت میں داخل نہیں کیا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٤٥‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٩٠٨‘ مسند احمدج ٢ ص ٢٥٤ )

(٥) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائو اور تم میری قبر کو عید نہ بنائو اور مجھ پر درود پڑھو کیونکہ تمہارا درود مجھ تک پہنچتا ہے خواہ تم کہیں ہو۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٠٤٢‘ مسند احمد ج ٢ ص ٢٦٧ )

(٦) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو مسلمان بھی مجھ پر سلام پڑھتا ہے اللہ میری روح کو اس کی طرف متوجہ کردیتا ہے حتی کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٠٤١‘ مسند احمد ج ٢ ص ٥٢٧ )

(٧) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے میری قبر پر درود پڑھا ‘ اللہ وہاں ایک فرشتہ مقرر کردیتا ہے جو اس کا درود مجھے پر پہنچاتا ہے اور وہ درود اس کی دنیا اور آخرت کے لیے کافی ہوتا ہے اور میں قیامت کے دن اس کے لیے گواہ اور شفاعت کرنے والا ہوں گا۔(تاریخ بغداد ج ٣ ص ٢٩٢۔ ٢٩١‘ شعب الایمان رقم الحدیث : ١٥٨٣‘ کتاب الضعفاء للعقیلی ج ٤ ص ١٣٧۔ ١٣٦‘ اللآلی المصنوعۃ ج ١ ص ٢٥٨ )

(٨) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس شخص نے مجھ پر ایک بار صلوٰۃ پڑھی اللہ اس پر دس بار صلوٰۃ پڑھتا ہے اور اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے۔ (المستدرک ج ١ ص ٥٥٠ قدیم ‘ المستدرک رقم الحدیث : ٢٠١٨ جدید ‘ کنزالعمال ج ١ ص ٤٩١)

(٩) حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری حضرت جبریل (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے خوش خبری دی کہ آپ کا رب فرماتا ہے جو شخص آپ پر صلوٰۃ پڑھے گا تو میں اس پر صلوٰۃ پڑھوں گا ‘ اور جو شخص آپ پر سلام پڑھے گا تو میں اس پر سلام پڑھوں گا ‘ تو میں نے اللہ کے لیے سجدہ شکر کیا۔ امام ذہبی نے کہا یہ حدیث صحیح ہے۔ (المستدرک ج ١ ص ٥٥٠‘ قدیم ‘ المستدرک رقم الحدیث : ٢٠١٩‘ کنزالعمال ج ١ ص ٥٠٢)

(١٠) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن میرے سب سے قریب وہ شخص ہوگا ‘ جو مجھ پر سب سے زیادہ درود پڑھتا ہوگا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٤٨٤‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٩١١)

(١١) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کے کچھ فرشتے ہیں جو زمین میں گھومتے رہتے ہیں اور میری امت کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔(مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٣١١٦‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٩١٤‘ المستدرک ج ٢ ص ٤٢١‘ مسند احمد ج ١ ص ٤٤١) 

(١٢) حضرت ابی بن کعب (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں آپ پر بہت درود پڑھتا ہوں میں اپنی دعائوں میں سے آپ پر درود کتنا پڑھوں ؟ آپ نے فرمایا جتنا تم چاہو ‘ میں نے عرض کیا میں اپنی دعائوں میں سے چوتھائی حصہ آپ پر درود پڑھوں ؟ آپ نے فرمایا جتنا تم چاہو اور اگر تم زیادہ کرو تو وہ بہتر ہے ‘ میں نے عرض کیا نصف حصہ ؟ آپ نے فرمایا جتنا تم چاہو اور اگر تم زیادہ کرو تو وہ بہتر ہے ‘ میں نے کہا دو تہائی ؟ آپ نے فرمایا جتنا تم چاہو اور اگر تم زیادہ کرو تو وہ بہتر ہے ! میں نے عرض کیا میں اپنی تمام دعائوں میں آپ پر دورد شریف پڑھوں گا ‘ آپ نے فرمایا یہ تمہاری مہم کے لیے کافی ہے اور تمہارا گناہ بخش دیا جائے گا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٤٥٧‘ المستدرک ج ٢ ص ٥١٣‘ مسند احمد ج ٥ ص ١٣٦‘ مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٦٠‘ جلاء الافہما رقم الحدیث : ٥٩‘ دارالکتبات العربی ‘ ١٤١٧ ھ)

(١٣) حضرت اوس بن اوس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے ‘ اس میں حضرت آدم پیدا ہوئے ‘ اسی دن میں ان کی روح قبض کی گئی ‘ اسی دن صور پھونکا جائے گا ‘ اسی دن بےہوشی ہوگی ‘ تم اس دن میں مجھ پر بہ کثرت درود پڑھا کرو ‘ کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ‘ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! آپ پر ہمارا درود کیسے پیش کیا جائے گا حالانکہ آپ کا جسم بوسیدہ ہوچکا ہوگا ‘ آپ نے فرمایا اللہ نے انبیاء کے اجسام کھانے کو زمین پر حرام کردیا۔(سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٠٤٧‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٠٨٥‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٩١٠‘ المستدرک ج ١ ص ٢٧٨‘ مسند احمد ج ٤ ص ٨)

(١٤) حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر جمعہ کے دن مجھ پر بہ کثرت درود پڑھا کرو ‘ کیونکہ میری امت کا درود مجھ پر ہر جمعہ کے دن پیش کیا جاتا ہے اور جو میری امت میں سے مجھ پر زیادہ درود پڑھنے والا ہوگا ہو میرے زیادہ قریب ہوگا۔ (سنن کبری للبیھقی ج ٣ ص ٢٤٩‘ الفردوس بما ثور الخطاب رقم الحدیث : ٢٥٠ )

(١٥) حضرت عمار (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عمار ! بیشک اللہ نے ایک فرشتے کو تمام مخلوق کی سماع عطا کی ہے اور جب میری وفات ہوگی تو وہ قیامت تک میری قبر پر کھڑا رہے گا ‘ پس میری امت میں سے جو شخص بھی مجھ پر درود پڑھے گا ‘ وہ اس کا اور اس کے باپ کا نام لے کر کہے گا اے محمد ! فلاں فلاں شخص نے آپ پر درود پڑھا ہے ‘ پھر اللہ عزوجل اس کے ہر درود کے بدلہ میں اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔(مسند البز اررقم الحدیث : ٣١٦٣‘ ٣١٦٢ ذ حافظ الھیشمی نے کہا اس کی سند میں ایک راوی نعیم بن ضمضم ضعیف ہے اور اس کی سند کی باقی رجال صحیح ہیں ‘ مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٦٢ )

(١٢) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے کسی کتاب میں مجھ پر درود لکھا ‘ جب تک اس کتاب میں میرا نام ہے ‘ فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے رہیں گے۔(المعجم الاوسط رقم الحدیث : ١٨٥٦‘ مجمع الزوائد ج ١ ص ١٣٦‘ کنزالعمال رقم الحدیث :: ٢٢٤٣‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٦ ص ١٢١‘ رقم الحدیث : ١٦٠١٨)

(١٧) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے اپنی کتاب میں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھا جب تک وہ کتاب رہے گی فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے رہیں گے۔(الالی المصنوعۃ ج ١ ص ١٨٦‘ اتحاف السادۃ المتقین ج ٥ ص ٥٠ )

(١٨) (حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اس کو مجھ پر درود پڑھنا چاہیے۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٤٩٤٥‘ حافظ الھشیمی نے کہا اس حدیث کے رجال صحیح ہیں ‘ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٧٣٠٠)

(١٩) حضرت حسین بن علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بخیل وہ شخص ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے۔(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٦١٤‘ مسند احمد رقم الحدیث : ١٧٣٦‘ مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٦٧٧٦ ذ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٨٨٥)

(٢٠) ابو امامہ بن سہل بن حنیف بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے ایک شخص نے بیان کیا کہ جنازہ میں سنت یہ ہے کہ امام تکبیر پڑھے ‘ پھر پست آواز سے سورة فاتحہ پڑھے ‘ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھے ‘ پھر میت کے لیے دعا کرے پھر آہستگی سے سلام پھیردے۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔(سنن کبری لببیھقی ج ٤ ص ٤٠‘ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٦٤٢٨‘ المستدرک ج ١ ص ٣٦٠ )

(٢١) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو بندہ بھی مجھ پر درود پڑھتا ہے تو فرشتہ اس درود کو لے کر اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچتا ہے ‘ پھر ہمارا رب تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے اس بندہ کی قبر پر جا کر اس بندہ کے لیے ایسا استغفار کرو جس سے اس بندہ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ (الفردوس بما ثورالخطاب رقم الحدیث : ٦٠٢٦‘ زھر الفردوس ج ٤ ص ٣)

(٢٢) حضرت ابو الدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور جو بندہ بھی مجھ پر درود پڑھتا ہے اس کی آواز مجھ تک پہنچتی ہے خواہ وہ بندہ کہیں پر ہو ‘ ہم نے پوچھا آپ کی وفات کے بعد بھی ؟ آپ نے فرمایا میری وفات کے بعد بھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے کھانے کو زمین پر حرام کردیا ہے۔ (جلاء الا فہما رقم الحدیث : ١١٠‘ ص ٦٤‘ دارالکتاب العربی ‘ ١٤١٧ ھ)

دعا کے اول و آخر میں درود پڑھنے کی فضیلت میں احادیث اور آثار 

(٢٣) حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھ رہے تھے ‘ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) بھی آپ کے ساتھ تھے ‘ جب میں بیٹھ گیا تو میں نے پہلے اللہ عزوجل کی ثناء کی ‘ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھا پھر میں نے اپنے لیے سوال کیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم سوال کرو تم کو عطا کیا جائے گا۔ یہ حدیث صحیح ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٥٩٣‘ شرح السنہ رقم الحدیث : ١٤٠١‘ المسند الجامع رقم الحدیث : ٩٠٣٨)

(٢٤) حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر دعا اور آسمان کے درمیان حجاب ہوتا ہے حتی کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھا جائے ‘ پس جب نبی (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھ لیا جائے تو وہ حجاب پھٹ جاتے ہیں اور دعا قبول ہوجاتی ہے ‘ اور جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود نہ پڑھا جائے تو دعا قبول نہیں ہوتی۔(الفردوس بما ثور الخطاب رقم الحدیث : ٦١٤٨‘ الکامل لا بن عدی ج ٢ ص ٦٠٤‘ المعجم الا وسط رقم الحدیث : ٧٢٥‘ حافظ الھیشمی نے کہا اس حدیث کے رجال ثقات ہیں ‘ مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٦٠ )

(٢٥) حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے فرمایا دعا آسمان اور زمین کے درمیان موقوف رہتی ہے ‘ اس میں سے کوئی چیز اوپر نہیں چڑھتی حتی کہ تم اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھ لو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٨٦)

شیخ ابن قیم الجوازیہ المتوفی ٧٥١ ھ لکھتے ہیں :

(٢٦) احمد بن الحواری نے کہا میں نے ابو سفیان الدارنی سے یہ سنا ہے کہ جو اللہ سے اپنی حاجت کے سوال کا ارادہ کرے وہ پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھے ‘ پھر اپنی حاجت کا سوال کرے ‘ آخر میں پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھے ‘ بیشک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پڑھے ہوئے درود کو قبول کیا جاتا ہے اور وہ اس سے بہت کریم ہے کہ وہ درمیان کی دعائوں کو رد کردے۔ (جلاء الافہما ص ٢١٧‘ دارالکتاب العربی بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں :

علامہ الباجی نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب تم اللہ سے دعا کرو تو اپنی دعا میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ کو بھی رکھو ‘ کیونکہ آپ پر صلوٰۃ کو قبول کیا جاتا ہے ‘ اور اللہ عزوجل اس سے بہت کریم ہے کہ وہ بعض دعا کو قبول کرے اور بعض کو رد کردے۔

(احیاء العلوم ج ١ ص ٢٩٠‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٩ ھ ‘ اتحاف السادۃ المتقین ج ٥ ص ٤١‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٤ ھ)

اور جو چیز مجھ پر ظاہر ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ درود کے قطعاً قبول ہونے سے مراد یہ ہے کہ درود اصلاً مردود نہیں ہوتا ‘ درود دعا ہے ‘ اور بعض دعائیں مقبول ہوتی ہیں اور بعض دعائیں کسی حکمت کی وجہ سے مقبول نہیں ہوتیں ‘ اور درود دعائوں کے عموم سے خارج ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خبردی ہے کہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی ضر درود پڑھتے ہیں اور یہ جملہ اسمیہ ہے اور اس کی خبر فعل مضارع ہے اس کا تقاضا استمرار تجددی ہے اور اس جملہ کو تاکید سے بھی موکد کیا ہے ‘ اس کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ پر درود پڑھتا رہتا ہے ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر بھی احسان فرمایا اور ان کو بھی آپ پر درود پڑھنے کا حکم دیا تاکہ ان کو مزید فضل اور شرف حاصل ہو ‘ ور نہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کے صلوٰۃ پڑھنے کی وجہ سے ان کی صلوٰۃ سے مستغنی ہیں پس جب مومن اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرے گا کہ وہ آپ پر صلوٰۃ پڑھے تو اس کی یہ دعا قطعاً مقبول ہوگی ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود یہ خبر دی ہے کہ وہ آپ پر صلوٰۃ پڑھتا ہے ‘ اور باقی دعائیں اور عبادات اس طرح نہیں ہیں۔(ردالمختار ج ٢ ص ٢٠٦‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

بعض دیگر مواقع اور مقامات پر درود پڑھنے کی فضیلت میں احادیث اور آثار 

(٢٧) حضرت عبد اللہ بن عمر و بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم مؤذن کی اذان سنو تو اس کی مثل کلمات کہو پھر مجھ پر درود پڑھو ‘ کیونکہ جو مجھ پر ایک بار درود پڑھتا ہے ‘ اللہ اس پر دس بار درود پڑھتا ہے ‘ پھر میرے لیے وسیلہ (جنت میں ایک بلند مقام) کا سوال کرو ‘ وہ جنت میں ایک مقام ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا ‘ اور مجھے توقع ہے کہ وہ میں ہوں ‘ پس جس شخص نے میرے لیے وسیلہ کا سوال کیا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوجائے گی۔(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٨٤‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٥٣٣‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٩٠‘ السنن الکبری للبھقی ج ١ ص ١٤٠ )

(٢٨) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلام عرض کرے اور یہ دعا کرے اللھم افتح لی ابواب رحمتک اور جب مسجد سے نکلے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلام عرض کرے اور یہ دعا کرے اللھم اجرنی من الشیطان۔(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٧٧٣‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٩٩١٨‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٠٤٧‘ المستدرک ج ١ ص ٢٠٧‘ السنن الکبری للبیھقی ج ٢ ص ٤٤٢‘ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٦٧٠)

(٢٩) حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب تم مسجد میں گزرو تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھو۔(جلاء الافہام ص ٢٣٤)

(٣٠) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے کتاب میں مجھ پر دررود لکھا تو جب تک اس کتاب میں میرا نام ہے اس پر درود پڑھا جاتا رہے گا۔

سفیان ثوری نے کہا صاحب حدیث کے لیے اس سے بڑا اور کیا فائدہ ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود لکھتا ہے اور جب تک اس کی کتاب میں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھا ہوا ہو اس پر درود پڑھا جاتا رہے گا۔

محمد بن ابی سلیمان نے کہا میں نی اپنے والد کو خواب میں دیکھا میں نے پوچھا : اے ابا جان آپ کے ساتھ اللہ نے کیا کیا ؟ کہا اللہ نے مجھے بخش دیا ! میں نے پوچھا کس وجہ سے ؟ انہوں نے بتایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود لکھنے کی وجہ سے۔

عبد اللہ بن عمرو نے کہا میرے بعض معتمد دوستوں نے مجھے بتایا کہ میں نے ایک محدث کو خواب میں دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا اللہ نے آپ کے ساتھ کیا کیا ؟ کہا مجھ پر رحم فرمایا اور مجھے بخش دیا میں نے پوچھا کس سبب سے ؟ انہوں نے کہا میں جب بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام کے پاس سے گزرتا تو وہاں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھا دیتا۔

حافظ ابو موسیٰ نے متعدد محدثین سے روایت کیا ہے کہ ان کو ان کی وفات کے بعد خواب میں دیکھا گیا اور انہوں نے بتایا کہ اللہ نے انہیں اس لیے بخش دیا کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام کے ساتھ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھتے تھے۔ (جلاء الافہما ص ٢٣٧۔ ٢٣٦‘ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

(٣١) حضرت ابوالدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے صبح کے وقت دس بار مجھ پر درود پڑھا اور شام کو مجھ پر دس بار درود پڑھا وہ قیامت کے دن میری شفاعت کو پالے گا۔

(المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٥٢٧‘ حافظ الھیشمی نے کہا امام طبرانی نے اس حدیث کو دو سندوں سے روایت کیا ہے ان میں سے ایک حدیث کی سند جید ہے اور اس کے رال کی توثیق کی گئی ہے۔ مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٢٠ )

(٣٢) حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے جس شخص کے پاس صدقہ نہ ہو وہ اپنی دعا میں یہ پڑھے : اللھم صل علی (سیدنا) محمد عبدک ورسولک وصل علی المؤمنین والمؤمنات والمسلمین والمسلمات تو یہ اس کی زکوۃ ہوجائے گی۔ (المستدرک ج ٤ ص ١٣٠۔ ١٢٩‘ الفردوس بما ثور الخاط رقم الحدیث : ١٣٩٥‘ مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ١٣٩٧‘ حافظ الھیشمی نے کہا اس حدیث کی سند حسن ہے ‘ مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٦٧ )

(٣٣) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر وہ کام جس کی ابتداء اللہ کے ذکر سے نہ ہو اور مجھ پر درود سے نہ ہو وہ نا تمام رہتا ہے اور ہر قسم کی برکت سے منقطع رہتا ہے ‘ اس کی سند ضعیف ہے۔(جلاء الافہام ص ٢٥١‘ دارالکتاب العربی ‘ القول البدیع ص ٣٤٩‘ مکتبہ المؤید الطائف)

(٣٤) حضرت ابو رافع (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کا کان بجنے لگے ‘ تو وہ مجھ پر درود پڑھے ‘ اور یہ دعا کرے کہ اللہ اس کو خیر کے ساتھ یاد کرے جو مجھے یاد کرتا ہے۔ اس حدیث کی سند حسن ہے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٩٥٨‘ المعجم الصغیر رقم الحدیث : ١١٠٤‘ مسند البز اررقم الحدیث : ٣١٢٥‘ مکارم الاخلاق ص ٥٤٥‘ حافظ الھیشمی نے کہا امام طبرانی کی سند حسن ہے ‘ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٧١٤٢ )

(٣٥) قاسم بن محمد بیان کرتے ہیں ہیں کسی شخص کے لیے مستحب یہ ہے کہ جب وہ تلبیہ (حج میں اللھم لبیک کہنے) سے فارغ ہو تو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھے۔ اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ (سنن دار قطنی رقم الحدیث : ٢٦٣ )

(٣٦) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا چاندنی رات اور روشن دن میں تم مجھ پر زیادہ درود پڑھو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔(المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٢٤٣‘ حافظ الھیشمی نے کہا اس کی سند میں ایک ضعیف راوی ہے ‘ مجمع الزوائد ج ٢ ص ١٦٩ )

(٣٧) عبد اللہ بن دینار بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کو دیکھا کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر پر کھڑے ہو کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھ رہے تھے اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) کے لیے دعا کررہے تھے۔(جلاء الافہام ص ٢٣٠)

(٣٨) حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم کوئی چیز رکھ کر بھول جائو تو مجھ پر درود پڑھو ‘ انشاء اللہ تم اس کو یاد کر لوگے (اس حدیث کی ضعیف ہے) (القول البدیع ص ٣٢٦ )

(٣٩) حضرت عثمان بن ابی حرب الباھلی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص کسی حدیث کو بیان کرنے کا ارادہ کرے پھر اس کو بھول جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ مجھ پر درود پڑھے ‘ کیونکہ مجھ پر درود پڑھنے کی وجہ سے توقع ہے کہ اس کو وہ حدیث یاد آجائے گی (اس حدیث کی سند ضعیف ہے) ۔(القول البدیع ص ٣٢٧‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٤١٦٦٤‘ عمل الیوم واللیلۃ لابن سنی رقم الحدیث : ٢٨٢)

(٤٠) حضرت کعب بن عجرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! آپ پر سلام پڑھنے کو تو ہم نے جان لیا ہے ‘ پس آپ پر صلوٰۃ کیسے پڑھی جائے ‘ آپ نے فرمایا تم اس طرح پڑھو۔ اللھم صل علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ال ابراھیم انک حمید مجید ‘ اللھم بارک علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی آل ابراھیم انک حمید مجید۔ اور روایت میں یہ الفاظ ہیں : کما صلیت علی ابراھیم وبارک علی محمد وآل محمد کمابارکت علی ابراھیم و آل ابراھیم۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٧٩٨۔ ٤٧٩٧‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٩٧٦‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٨٣‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١٢٨٩‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٩٠٤)

درود ابراہیمی میں تشبیہ اور دوسرے اعتراض کا جواب 

اس حدیث پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ے ہمیں یہ حکم دیا کہ ہم اس کے نبی پر صلوٰۃ بھیجیں ‘ ہم نے اس پر اس طرح عمل کیا کہ اے اللہ تو اپنے نبی پر صلوٰۃ بھیج دے ‘ یہ اس کے حکم پر کیسے عمل ہوا ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر شخص کی جناب میں اس کے مرتبہ اور مقام کے موافق تحفہ پیش کیا جاتا تو گویا ہم نے یہ عرض کیا کہ ہم تیرے نبی کے مرتبہ اور مقام سے کما حقہ واقف نہیں ہیں ‘ ان کے مرتبہ اور مقام سے تو ہی واقف ہے سو ان کے مرتبہ اور مقام کے مطابق صلوٰۃ کو بھی تو ہی پیش فرما۔

دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اس حدیث میں خصوصیت کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صلوٰۃ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی صلوٰۃ کے ساتھ کیوں تشبیہ دی گئی ہے اور کسی نبی کی صلوٰۃ کے ساتھ کیوں تشبیہ نہیں دی گئی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کا نام امت مسلمہ رکھا اس لیے خصوصیت کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صلوٰۃ کو ان کی صلوٰۃ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ‘ درج ذیل آیات میں یہ ذکر ہے کہ انہوں نے ہمارا نام مسلمان رکھا۔

ھو سمکم المسلمین لا من قبل۔ (الحج : ٧٨) ابراہیم نے اس سے پہلے تمہارا نام مسلمین رکھا۔

ربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنآ امۃ مسلمۃ لک۔ (البقرہ، ١٢٨) اے ہمارے رب ہمیں مسلمان (اپنا اطاعت شعار) رکھ ‘ اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک امت کو مسلمان (اپنااطاعت شعار) رکھ۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اپنا خلیل بنایا تھا سو ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ تو ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایسی صلوٰۃ نازل فرما کہ آپ کو بھی اپنا خلیل بنالے ‘ اور یہ دعا مقبول ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اپنا خلیل بنا لیا ‘ حدیث میں ہے : آپ نے فرمایا :

اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا لیکن تمہارے پیغمبر اللہ کے خلیل ہیں۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٦٥٤‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٨٣‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٩٣)

ایک اور مشہور اعتراض یہ ہے کہ قاعدہ یہ ہے کہ تشبیہ میں مشبہ بہ مشبہ سے اقویٰ اور افضل ہوتا ہے اور اس حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صلوٰۃ مشبہ ہے اور حضرت ابراہیم کی صلوٰۃ مشبہ بہ ہے۔ پس لازم آیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی صلوٰۃ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صلوٰۃ سے افضل ہو۔ اس اعتراض کے حسب ذیل جوابات ہیں :

(١) یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے بعض اوقات مشبہ ‘ مشبہ بہ سے افضل ہوتا ہے جیسے ہماری امت پچھلی امتوں سے افضل ہے اس کے باوجود روزے فرض کرنے میں ہمار امت کو پچھلی امتوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ‘ قرآن مجید میں ہے :

کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم۔ (البقرہ : ١٨٣) تم پر اس طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح پچھلی امتوں پر روزے فرض کیے گئے تھے۔

(٢) اس حدیث میں کاف تشبیہ کے لیے نہیں ہے بلکہ تعلیل کے لیے ہے اور اس کا معنی ہے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ نازل فرما کیونکہ تو نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر صلوٰۃ نازل فرمائی ہے۔

(٣) ہمارے نبی کی صلوٰۃ کو صرف حضرت ابراہیم کی صلوۃ سے تشبیہ نہیں دی بلکہ ابراہیم اور آل ابراہیم کی صلوٰۃ سے تشبیہ دی ہے اور آل ابراہیم میں خود ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی داخل ہیں ‘ پس مشبہ بہ حضرت ابراہیم اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں کی صلوٰۃ ہے اور دونوں کی صلوٰۃ صرف ہمارے نبی کی صلوٰۃ سے افضل ہے۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھنے کے حکم میں مذاہب ائمہ 

امام ابوحنیفہ اور امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ پوری عمر میں صرف ایک بار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھنا فرض ہے ‘ ہرچند کہ اس آیت (الاحزاب : ٥٦) میں آپ پر صلوٰۃ وسلام پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن امر کسی کام کو بار بار کرنے کا تقاضا نہیں کرتا۔

امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ تشہد اخیر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھنا واجب ہے۔

امام احمد کے دو قول ہیں ‘ ایک قول امام ابوحنیفہ کی مثل ہے اور ایک قول امام شافعی کی مثل ہے۔

امام طحاوی کا مسلک یہ ہے کہ جب بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کیا جائے آپ پر درود شریف پر ھنا واجب ہے ‘ اور صحیح یہ ہے کہ ایک مجلس میں اگر آپ کا ذکر متعدد بار کیا جائے تو ایک بار درود پڑھنا واجب ہے اور ہر بار درود پڑھنا مستحب ہے۔

(جلاء الا فہام ص ٢٢٠۔ ٢١٩‘ القول البدیع ص ٢٠‘ الجامع لا حکام القرآن جز ١٤ ص ٢١٠‘ روح المعانی جز ٢٢ ص ١١٦‘ ردالمختار ج ٢ ص ٢٠١۔ ٢٠٠)

ہر بار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر پر درود پڑھنے کے دلائل اور ان کے جوابات 

جو فقہاء یہ کہتے ہیں کہ جب بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کیا جائے تو آپ پر پھر درود پڑھنا واجب ہے ان کی دلیل یہ حدیث ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس شخص کی ناک خاک آلودہ ہو جس کے سامنے میرا ذرک کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہیں پڑھا۔ الحدیث (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٤٥‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٩٠٨)

اور جو فقہاء یہ کہتے ہیں کہ مجلس میں ہر بار آپ کا ذکر سننے سے آپ پر درود شریف پڑھنا واجب نہیں ہوتا ان کے دلائل حسب ذیل ہیں :

(١) صحابہ کرام اور سلف صالحین ہر بار آپ کے ذکرکے ساتھ درود نہیں پڑھتے تھے ‘ بسا اوقات وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کرتے ہوئے صرف یارسول اللہ کہتے تھے اور آپ پر درود نہیں پڑھتے تھے ‘ اگر ہر بار آپ کے ذکر کے ساتھ آپ پر درود پڑھنا واجب ہوتا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو درود ترک کرنے قر منع فرماتے۔

(٢) اگر ہر بار آپ کے ذ کر کے ساتھ آپ پر درود پڑھنا واجب ہوتا تو مؤذن پر واجب ہوتا کہ وہ اذا میں اشھد ان محمد ارسول اللہ پڑھنے کے بعد آپ پر درود پڑھتا۔

(٣) اسلام میں داخل ہونے کے لیے جب کوئی شخص کلمہ شہادت میں آپ کا ذکر کرتا تو اس پر واجب ہوتا کہ وہ آپ پر درود بھی پڑھے۔

اور جس حدیث میں آپ نے فرمایا ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے وہ بخیل ہے یا اس کی ناک خاک آلودہ ہو ‘ یہ حدیثیں اس شخص پر محمول ہیں جو آ پکا ذکر سن کر مطلقاً آ پر درود نہ پڑھتاہو ‘ یا آپ پر درود پڑھنے کا منکر ہو ‘ یا استخفافاً آپ پر درود نہ پڑھتا ہو یا اس کو غیر اہم سمجھ کر ترک کرتا ہو یا آپ سے بغض رکھنے کی وجہ سے آپ پر درود نہ پڑھے ‘ یا وہ نماز میں مشغول ہو یا قرآن مجید پڑھنے میں یا اور اد اور تسبیح وغیرہ پڑھنے میں یا دینی کتب کا مطالعہ کرنے میں یا وہ بیمار ہو یا وہ کسی پریشانی اور غم میں مبتلا ہو اور اس وجہ سے وہ ہر بار آ پکا ذکر سن کر آپ پر درود نہ پڑھے تو وہ ان وعیدوں میں داخل نہیں ہے ‘ البتہ ہر بار آپ کا ذکر سن کر آپ پر درود پڑھنے میں فضیلت ہے بلکہ ہر فارغ وقت میں آپ پر درود پڑھنے میں فضیلت ہے۔

اذان سے پہلے اور بعد درود پڑھنے کا حکم 

اذان کے بعد درد شریف پڑھنا اور آپ کے لیے وسیلہ کی دعا کرنا اور آپ کی شفاعت کے حصول کی دعا کرنا مسنون اور مستحب ہے ‘ اور ہمارے ملک کے اکثر علاقوں میں یہ رواج ہوگیا ہے کہ مؤذن نماز مغرب اور خطبہ جمعہ کے علاوہ جب لائوڈ اسپیکر پر اذان یدیتے ہیں تو اذان سے کچھ وقفہ پہلے اور کچھ وقفہ بعد ‘ مختلف الفاظ اور مختلف صیغوں میں تعداد کی تعین کے بغیر آپ پر صلوۃ وسلام پڑھتے ہیں ‘ اور ان کا یہ فعل محض آپ کی محبت اور آپ کے ساتھ عقیدت کی وجہ سے اور آپ کی تعظیم اور تکریم کے لیے ہوتا ہے اس لیے اس کے مستحسن اور محمود ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے ‘ چونکہ عہد رسالت میں اس کا معمول اور رواج نہیں تھا اس بناء پر اس کو فقہاء اسلام نے بدعت حسنہ لکھا ہے ‘ تاہم عہد رسال اور بعد کے مشہود بالخیر ادوار میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فضائل کے ذکر ‘ آپ کے ذکر کی کثرت ‘ محافل میلاد ‘ جلوس اور مجالس نعت کو بدعت اور مکروہ بھی نہیں کہا جاتا تھا اس لیے اس کی ضرورت بھی نہیں تھی ‘ اور ہمارے زمانہ میں بعض لوگ مختلف حیولوں بہانوں سے آپ کی فضیلت اور آپ کے ذکر کی کثرت اور صلوٰۃ وسلام کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے محبین اور آپ پر صلوٰۃ وسلام پڑھنے کے شائقین ہر حیلہ اور ہر بہانے سے اور ہر مناسب موقع پر آپ پر صلوٰۃ وسلام پڑھتے ہیں ‘ سو وہ اذان سے پہلے اور بعد بھی وقفہ کے ساتھ آپ پر صلوٰۃ وسلام پڑھتے ہیں اور اس کو فرض یا واجب نہیں کہتے مستحب ہی سمجھتے ہیں۔

جن مواقع پر فقہاء اسلام نے صلوٰۃ وسلام پڑھنے کو مستحب کہا ہے 

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں :

جب کوئی مانع نہ ہوت و ہر وقت صلوٰۃ وسلام پڑھنا مستحب ہے ‘ اور فقہاء نے حسب ذیل مواقع پر صلوٰۃ وسلام پڑھنے کے مستحب ہونے کی تصریح کی۔

جمعہ کے دن اور جمعہ کی شب کو ‘ اور ہفتہ ‘ اتوار اور جمعرات کے دن بھی کیونکہ ان تین دنوں کے متلعق بھی احادیث وارد ہیں ‘ اور صبح اور شام کو ‘ اور مسجد میں دخول اور مسجد سے خروج کے وقت ‘ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر انور کی زیارت کے وقت ‘ اور صفا اور مروہ کے پاس ‘ اور خطبہ جمعہ اور موذن کی اذان کے کلمات کے جواب دینے کے بعد اور اقامت کے وقت ‘ اور دعا کے اول ‘ اوسط اور آخر میں ‘ اور دعاقنوت کے بعد ‘ اور تلبیہ (حج میں اللہم لبیک کہنے) کے بعد ‘ اور لوگوں کے ساتھ جمع ہونے اور ان سے الگ ہونے کے وقت ‘ اور وضو کے وقت اور کان میں بھنبھناہٹ کے وقت ‘ اور کسی چیز کے بھولنے کے وقت ‘ اور وعظ کہنے اور علوم کی اشاعت کے وقت ‘ اور حدیث پڑھنے کی ابتداء اور انتہاء کے وقت ‘ سوال اور فتویٰ لکھتے وقت ‘ ہر تصنیف ‘ درس اور خطبہ کے وقت منگنی اور نکاح کے وقت ‘ رسائل میں اور ہر اہم کام میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسم مبارک ذکر کرتے وقت ‘ آپ کا اسم سنتے وقت اور آپ کا اسم شریف لکھتے وقت ‘ اس کی تفصیل علامہ فاسی نے دلائل الخیرات میں کی ہے۔ (ردالمختار ج ٢ ص ٢٠٤‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

اذان اور اقامت کے وقت صلوٰۃ وسلام پڑھنے کی تحقیق 

مذکور الصدر عبارت میں علامہ شامی نے اذان کے بعد صلوٰۃ وسلام پڑھنے کو مستحب لکھا ہے ‘ ہمارے شہروں میں عموماً مؤذن اذان سے پہلے صلوٰۃ وسلام پڑھتے ہیں ‘ ہرچند کہ کچھ فصل کر کے اذان سے پہلے صلوٰۃ وسلام پڑھنے میں بھی حرج نہیں ہے ‘ تاہم اصل یہ ہے کہ اذان کے بعد کچھ وقفہ کر کے صلاۃ وسلام پڑھا جائے ‘ علامہ محمد بن علی بن محمد الحصکیف الحنفی المتوفی ١٠٨٨ ھ لکھتے ہیں :

اذان کے بعد سلام پڑھنے کی ابتداء سات سو اکیاسی ہجری (٧٨١ ھ) کے ربیع الاخر میں پیر کی شب عشاء کی اذان سے ہوئی اس کے بعد جمعہ کے دن اذان کے بعد سلام پڑھا گیا ‘ اس کے دس سال عبد مغرب کے سوا تمام نمازوں میں دو مرتبہ سلام پڑھا جانے لگا اور یہ بدعت حسنہ ہے۔ (الدر المختار مع رد المختار ج ٢ ص ٥٢‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

علامہ شمس الدین سخاوی متوفی ٩٠٢ ھ لکھتے ہیں :

مؤذنوں نے جمعہ اور صبح کے علاوہ فرائض کی تمام اذانوں کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ وسلام پڑھنا شروع کردیا ہے۔ اس کی ابتداء سلطان ناصر الدین یوسف بن ایوب کے زمانہ میں اس کے حکم سے ہوئی ‘ اس سے پہلے جب حاکم ابن العزیز قتل کیا گیا تھا تو ابن العزیز کی بہن جو بادشاہ کی بیٹی تھی ‘ اس نے حکم دیا تھا کہ اذان کے بعد اس کے بیٹے ظاہر پر سلام پڑھا جائے جس کی یہ صورت تھی السلام علی الا مام الظاہر ‘ پھر اس کے بعد یہ طریقہ اس کے خلفاء میں جاری رہا تاآنکہ سلطان صلاح الدین نے اس کو ختم کیا ‘ اللہ تعالیٰ اس کو جزائے خیر دے ‘ اذان کے بعد صلوٰۃ وسلام پڑھنے میں اختلاف ہے کہ یہ مستحب ہے ‘ مکروہ ہے ‘ بدعت ہے یا جائز ہے ‘ صحیح یہ ہے کہ حسنہ ہے اور اس کے فاعل کو حسن نیت کی وجہ سے اجر ملے گا۔

(القول البدیع ص ٢٨٠۔ ٢٧٩‘ ملخصا مکتبہ الموید الطائف الملکۃ ا العربیۃ السعود یہ ‘ ١٤٠٨ ھ) 

علامہ شہاب الدین احمد بن محمد بن حجر الہیتمی المل کی المتوفی ٩٧٤ ھ ‘ علامہ عمر بن ابراہیم ابن نجیم الحنفی المتوفی ١٠٠٥ ھ ‘ علامہ احمد بن محمد بن محمد الطحطاوی الحنفی المتوفی ١٢٣١ ھ ‘ اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی المتوفی ١٢٥٢ ھ وغیر ہم نے علامہ جلال الدین السیوطی المتوفی ١١٩ ھ کی حسن الحاضرۃ فی اخبار مصر و القاہرۃ کے حوالے سے اس کو بدعت حسنہ لکھا ہے۔(الفتاوی الکبریٰ ج ١ ص ١٩١‘ النھر الفائق ج ٢ ص ١٧٢‘ حاثیۃ الدر رالمختار ج ١ ص ١٨٦‘ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص ١٩٣‘ رد المختار ج ٢ ص ٥٢ )

ان حوالہ جات سے یہ ظاہر ہوگیا کہ جب اذان کے ساتھ صلوٰۃ وسلام پڑھنا شروع ہوا تو وہ اذان کے بعد ہی شروع ہوا تھا نہ کہ اذان سے پہلے ‘ نیز اذان کے بعد صلوٰۃ وسلام پڑھنے کی حدیث میں بھی اصل ہے اور وہ حدیث یہ ہے :

حضرت عبد اللہ بن عمر و بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم مؤذن سے اذان کے کلمات سنو تو ان کلمات کی مثل کہو ‘ پھر مجھ پر صلوٰۃ پڑھو ‘ کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک بار صلوٰۃ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں بھیجتا ہے ‘ پھر میرے لیے وسیلہ (بلند درجہ) کی دعا کرو کیونکہ وسیلہ جنت میں ایک درجہ ہے ‘ جو اللہ کے بندوں میں سے کسی ایک بندہ ہی کو ملے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں گا ‘ سو جو شخص میرے لیے وسیلہ کا سوال کرے گا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوجائے گی۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٨٤‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٥٢٣‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٦١٦‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٦٧٨)

رہا اقامت سے پہلے صلوٰۃ وسلام پڑھنے کا مسئلہ تو علامہ طحطاوی نے اس کو بدعت مکروہہ لکھا ہے (حاشیہ الطحطاوی علی مراتی الفلاح ص ٢٠٠‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٨ ھ) ہوسکتا ہے علامہ طحطاوی کی مراد یہ ہو کہ اذان سے متصل بلا فصل صلوٰۃ وسلام پڑھنا مکروہ ہے اور اگر صلوٰۃ وسلام پڑھ کر کچھ وقفہ کیا جائے پھر اقامت شروع کی جائے تو یہ مکروہ نہیں ہے ‘ فتاویٰ رضویہ میں بھی اسی طرح ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلو متوفی ١٣٤٠ ھ سے سوال کیا گیا :

مسئلہ : ازد من خرو عملداری پر تگال مسئولہ مولوی ضیاء الدین صاحب ١٥ ذیقعدہ ١٣١٨ ھ 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید اقامت کے قبل درود شریف بآواز بلند پڑھتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اقامت یعنی تکبیر شروع کردیتا ہے کہ جس سے عوام کو معلوم ہوتا ہے کہ درود شریف اقامت کا جز ہے اور عمر و درود شریف نہیں پڑھتا صرف اقامت کہتا ہے تو زید کو یہ فعل اس کا ناپسند آتا ہے اور اصرار سے اس کو پڑھنے کو کہتا ہے اس صورت میں درود شریف جہر سے پڑھنا اور زید کا اصرار کرنا کیسا ہے ؟ بینو اتو جروا۔

الجواب : درود شریف قبل اقامت پڑھنے میں حرج نہیں مگر اقامت سے فصل چاہیے یا درود شریف کی آواز اقامت سے ایسی جدا ہو کہ امتیاز رہے اور عوام کو درود شریف جزء اقامت نہ معلوم ہو ‘ رہا زید کا عمرو پر اصرار کرنا اصلاً کوئی وجہ شرعی نہیں رکھتا یہ زید کی زیادتی ہے واللہ تعالیٰ اعلم۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٢ ص ٣٩٥۔ ٣٩٤ قدیم ‘ مکتبہ رضویہ کراچی ‘ فتاویٰ رضویہ ج ٥ ص ٣٨٦ جدید ‘ رضا فائونڈیشن لاہور ‘ ١٤١٤ ھ)

جن مواقع اور مواضع پر فقہاء اسلام نے صلوٰۃ وسلام پڑھنے کو مکروہ کہا ہے 

تشہد اخیر کے علاوہ نماز میں صلوٰۃ وسلام پڑھنا مکروہ ہے ‘ جماع کے وقت ‘ قضاء حاجت کے وقت ‘ خریدو فروخت کی ترویج کے وقت ‘ پھسلتے وقت اور تعجب کے وقت ‘ ذبح کے وقت ‘ اور چھینکتے وقت ‘ اسی طرح قرآن مجید کے سماع کے وقت ‘ یا خطبہ جمعہ سنتے وقت ‘ کیونکہ قرآن مجید کا سننا فرض ہے اور خطبہ جمعہ کا سننا واجب ہے ‘ عالم گیری میں مذکور ہے اگر اس نے قرآن مجید کی تلاوت کے دوران آپ کا اسم مبارک سنا تو فوراً آپ پر درود پڑھنا واجب نہیں ہے اور اگر تلاوت سے فارغ ہونے کے بعد آپ پر درود پڑھ لیا تو یہ مستحب ہے ‘ اور اگر قرآن مجید میں آپ کا اسم مبارک آگیا تو اس وقت تلاوت کو روک کر آپ کے اسم پر درود پڑھنے سے بہتر یہ ہے کہ قرآن مجید کو مسلسل پڑھتا رہے ‘ تلاوت سے فارغ ہونے کے بعد اگر درود پڑھ لیا توافضل ہے ورنہ کوئی حرج نہیں ہے ‘ تشہد اول میں آپ کے نام پر درود پڑھنا واجب تو کجا مکروہ تحریمی ہے ‘ کیونکہ اس سے تیسری رکعت کے قیام میں تاخیر ہوگی۔

آپ پر درود پڑھتے وقت جب آپ کا نام لے گا مثلاً کہے گا اللھم صل وسلم علی سیدنا محمد تو اس وقت آپ کے نام پر درود پڑھنا واجب نہیں ہے ‘ ورنہ تسلسل لازم آئے گا کیونکہ اگر اس وقت درود پڑھنا واجب ہو تو وہ پھر آپ کا نام لے کرک ہے گا اللھم صل وسلم علی سیدنا محمد اور اس دوسرے درود میں پھر آپ کا نام لے گا اور کہے گا اللھم صل وسلم علی سیدنا محمد تو ہر بار درود میں آپ کا نام آتا رہے گا اس لیے یہ جو کہا جاتا ہے کہ آپ کے نام پر درود پڑھنا واجب ہے اس سے وہ نام مبارک مستثنیٰ ہے جو خود درود میں آتا ہے۔

(ردالمختاری ج ٢ ص ٢٠٥۔ ٢٠٤‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

غیر انبیاء پر استقلالاً صلوٰۃ پڑھنے میں مذاہب ائمہ 

انبیاء علہم السلام کے علاوہ کسی شخص پر لفظ صلوٰۃ کے ساتھ استقلالاً دعا کرنے میں ائمہ کا اختلاف ہے۔

علامہ عینی لکھتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل اس کو جائز قرار دیتے ہیں اور امام ابوحنیفہ ‘ امام ابو یوسف ‘ امام محمد ‘ امام شافعی ‘ امام مالک اور جمہور علماء اس کو ناجائز قرار دیتے ہیں ‘ اس لیے یہ کہنا جائز نہیں ہے اللھم صل علی ال ابی بکر یا اللھم صل علی ال عمر۔ البتہ یوں کہا جاسکتا ہے اللھم صل علی النبی وعلی الہ وعلی ال ابی بکر و عمر۔ (عمدۃ القاری ج ٢ ص ٩٥‘ مصر)

علامہ نووی جمہور کی طرف سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عرف میں لفظ صلوٰۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص ہوگیا ہے اگرچہ معنی کے اعتبار سے یہ دعا ہر مسلمان کے ساتھ جائز ہے۔ جیسا کہ عزوجل کا کلمہ عرف میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے ہرچند کہ معنی کے اعتبار سے یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بھی جائز ہے کیونکہ آپ بھی عزیز و جلیل ہیں اس کے باوجود محمد عزوجل نہیں کہا جاتا ‘ اسی طرح مثلاً ابوبکر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی نہیں کہا جاتا۔ البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ ابوبکر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہنا حرام ہے یا مکروہ تنز یہی ہے ؟ صحیح یہ ہے کہ مکروہ تنز یہی ہے۔ اصحاب شافیعہ میں سے شیخ محمد الجوینی نے کہا ہے کہ لفظ سلام نہیں کہنا چاہیے۔ اور نہ غائب کے ساتھ کہنا چاہیے کہ فلاں (علیہم السلام) نے یہ بات کہی ‘ البتہ زندہ اور فوت شدہ کو اس کے ساتھ خطاب کرنا ‘ مثلاً السلام علیکم کہنا سنت ہے۔ (شرح مسلم للنووی ج ١ ص ٣٤٦‘ کراچی)

غیر انبیاء پر استقلالاً سلام پڑھنے کا بھی ممنوع ہونا 

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ کا بھی یہی مختار ہے وہ لکھتے ہیں :

وہ سلام جو زندہ اور مردہ دونوں کو عام ہے یہ وہ سلام ہے جس سے زندوں سے ملاقات کے وقت تحیت کا قصد کیا جاتا ہے اور جواب کی توقع رکھی جاتی ہے ‘ خواہ وہ سامنے حاضر ہو یا غائب ہو اور اس کو پیغام کے ذریعہ یا لکھ کر سلام بھیجا جائے یا زیارت قبر کے وقت صاحب قبر کو بہ طور تحیت سلام کیا جائے ‘ اور رہا وہ سلام جس میں یہ متصور ہوتا ہے کہ اللہ سے یہ دعا کی جائے کہ اللہ آپ پر سلام بھیجے ‘ جیسے صلوٰۃ میں یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ آپ پر صلوٰۃ بھیجے اور کہتے ہیں اللھم صل وسلم علی سیدنا محمد اور امت کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ آپ پر صلوٰۃ وسلام بھیجے تو یہ سلام امت کی طرف سے آپ کے ساتھ مخصوص ہے اور جس طرح آپ کے علاوہ کسی اور کو علیہ الصلوٰۃ نہیں کہنا چاہیے اسی طرح کسی اور کو (علیہ السلام) بھی نہیں کہنا چاہیے۔ علامہ حلیم کا بھی یہی نظریہ ہے۔ (روح المعانی جز ٢٢ ص ١٢٣‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

علامہ آلوسی نے اس بحث میں علامہ نووی سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر صلوٰۃ اور سلام دونوں کے پڑھنے کا حکم دیا ہے اس لیے آپ کو فقط علیہ الصلوٰۃ کہنا یا فقط (علیہ السلام) کہنا مکروہ ہے (ہمارا مختار یہ ہے کہ آپ پر صلوٰۃ وسلام اس طرح پڑھنا چاہیے : اللھم صل وسلم علی سیدنا محمد وعلی آلہ و اصحابہ وازواجہ۔ سعیدی غفرلہ) (روح المعانی جز ٢٢ ص ١١٩‘ دارالفکر بیروت : ١٤١٩ ھ)

نیز دوسرے نبیوں پر درود پڑھنے کے متعلق یہ حدیث ہے :

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کے نبیوں اور رسولوں پر درود پڑھو ‘ کیونکہ اللہ نے ان کو بھی مبعوث کیا ہے جس طرح مجھے مبعوث کیا ہے (اس حدیث کی سند صحیح ہے)

(شعب الایمان رقم الحدیث : ١٣٢۔ ١٣١‘ تاریخ بغداد ج ٧ ص ٣٨١‘ کنز العمال رقم الحدیث : ٢١٧٠‘ الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٥٠٣٤)

غیر انبیاء کے لیے استقلالاً لفظ صلوٰۃ استعمال نہ کرنے کے دلائل 

غیر انبیاء کے لیے لفظ صلوٰۃ استعمال نہ کرنے پر جو دلائل دیے جاتے ہیں ہم ان کی تلخیص ‘ تحقیق اور توضیح کے ساتھ پیش کررہے ہیں :

(١) امام عبدالرزاق اور امام ابن ابی شیبہ اپنی اسانید کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں :

عن ابن عباس قال لا ینبغی الصلوۃ علی احدالا علی النبیین قال سفیان یکرہ ان یصلی الاعلی نبی۔ (مصنف عبدالررزاق ج ٢ ص ٢١٦)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں : کہ نبیوں کے سوا کسی شخص پر صلوٰۃ نہیں بھیجنی چاہیے۔ سفیان نے کہا نبی کے سوا کسی اور پر صلوٰۃ مکروہ ہے۔

عن ابن عباس قال ما اعلم الصلوۃ تنبغی من احمد علی احد الا علی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ٢ ص ٥١٩)

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کسی اور پر صلوٰۃ کا مجھے علم نہیں ہے۔

(٢) قاضی عیاض نے ذکر کیا ہے کہ اہل بدعت اور وافض کا عقیدہ ہے کہ ائمہ اہل بیت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مساوی ہیں اور اسی بدعقیدگی کی بناء پر وہ ائمہ اہل بیت پر صلوٰۃ وسلام بھیجتے ہیں اور جو کام کسی بد عقیدہ فرقہ کی بدعقیدگی کی بناء پر ہو اس کی مخالفت واجب ہے۔ (الشفاء ج ٢ ص ٦٧‘ ملتان)

ملاعلی قاری حنفی فرماتے ہیں یہ اہل بدعت کا شعار ہے اس لیے اس کی مخالفت واجب ہے۔ (شرح الشفا ج ٢ ص ١٤٩‘ بیروت)

(٣) ابن قیم جو زیہ نے نقل کیا ہے کہ امام مالک (رح) نے فرمایا کہ اگر غیر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ بھیجی جاتی تو سلف صالحین ان پر صلوٰۃ بھیجتے۔ (جلاء الافہام ص ٢٧٨‘ فیصل آباد)

ہم نے تبیان القرآن ج ٥ ص ٢٥١۔ ٢٤٨ میں بھی اس مسئلہ پر بحث کی ہے اور غیر انبیاء پر انفراداً اور استقلالاً صلوٰۃ پڑھنے پر جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں ان کے مفصل جوابات دیئے ہیں۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بغیر سلام کے صرف صلوٰۃ پڑھنے کا بلاکراہت جواز 

علامہ نووی شافعی اور بعض دیگر علماء شافعیہ نے کہا ہے کہ صلوا علیہ وسلم وا (الاحزاب : ٥٦) کا تقاضا یہ ہے کہ صلوٰۃ اور سلام دونوں کو ایک ساتھ پڑھنا واجب ہے اور صرف صلوٰۃ کو بغیر سلام کے پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ ہمارے نزدیک صرف صلوٰۃ پر اقتصار کرنا مکروہ تحریمی نہیں ہے ‘ زیادہ سے زیادہ خلاف اولیٰ ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بہ کثرت احادیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صرف صلوٰۃ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ سلام پڑھنے کا حکم نہیں د یا گیا۔ اگر صلوٰۃ کے ساتھ سلام پڑھنا بھی واجب ہوتا تو آپ متعدد مواقع پر صرف صلوٰۃ کا حکم نہ دیتے۔ ہم نے اس سے پہلے ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ وسلام پڑھنے کی فضیلت میں احادیث اور آثار “ کے عنوان کے تحت ٤٠ احادیث ذکر کی ہیں جن میں سے ١٣٧ احادیث ایسی ہیں جن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ مواقع پر صرف صلوٰۃ (درود) پڑھنے کا حکم دیا ہے۔

اب اگر یہ کہا جائے کہ صلوا علیہ وسلم وا (الاحزاب : ٥٦) کا تقاضا یہ ہے کہ صلوٰۃ اور سلام دونوں کو ایک ساتھ پڑھا جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر دو یا دو سے زائد احکامات ایک ساتھ بیان فرمائے ہیں ‘ لیکن ان میں کہیں بھی احناف یہ موقف اختیار نہیں کرتے کہ ان احکامات پر بیک وقت عمل کرنا واجب ہے اور اس کے خلاف کرنا مکروہ تحریمی یا حرام ہے۔ احناف کا اصول یہ ہے کہ وائو مطلق جمع کے لیے آتا ہے۔ یعنی جب دو چیزوں کو وائو کے ذریعہ ایک ساتھ بیان کیا جائے تو ان میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ان دونوں پر ایک ساتھ عمل کیا جائے ‘ بلکہ علیحدہ علیحدہ عمل کرنا بھی جائز ہوتا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : اقیموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ (البقرہ : ٤٣) نماز قائم کرو اور زکوۃ دو ۔ نیز فرمایا : اذکروا اللہ ذکراً کثیرا لا وسبحوہ بکرۃ واصیلا (الاحزاب : ٤١‘ ٤٢) کثرت سے اللہ کا ذکر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرو۔

مذکورہ دونوں آیات میں کوئی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ نماز اور زکوۃ کو ایک ساتھ ادا کرنا ضروری ہے اور اللہ عزوجل کا ذکر اور تسبیح (صبح وشام) ایک ساتھ کرنا ضروری ہے۔ سو اسی طرح الاحزاب کی آیت : ٥٦ میں جو حکم دیا گیا کہ ” صلوا علیہ وسلم وا تسلیما “۔ اس میں بھی یہی کہا جائے گا کہ نبی علہ الصلوۃ والسلام پر درود اور سلام دونوں پڑھو ‘ لیکن یہ ضروری نہیں ہے تو شرعاً یہ ممنوع نہیں ہے۔ اگر آیت مذکورہ (الاحزاب : ٥٦) میں یہ صراحت ہوتی کہ درود اور سلام دونوں کو ایک ساتھ پڑھو تو پھر کہا جاتا کہ ان کو علیحدہ کرنا حکم قرآن کے خلاف ہے ‘ لیکن آیت میں اس طرح کی نہ کوئی صراحت ہے نہ اشارت ‘ لہٰذا احناف کے اصول کے مطابق صلوا اور سلموا کے حکم پر علیحدہ علیحدہ عمل کرنا جائز ہوگا۔

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ٠ ١٢٧ ھ لکھتے ہیں :

الاحزاب : ٥٦ سے یہ استدلال کرنا کہ ” صلوٰۃ اور سلام کو علیحدہ پڑھنا مکروہ ہے “ میرے نزدیک بہت ضعیف استدلال ہے۔ کیونکہ زیادہ سے زیادہ اس آیت مبارکہ سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ صلوٰۃ اور سلام دونوں کو پڑھنے کا مطلقاً حکم ہے۔ اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ دونوں کو بیک وقت پڑھنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ اس طرح کہ دونوں کو ای دوسرے کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے لہٰذا جس شخص نے مثلا صبح ” صلوۃ “ پڑھی اور شام کو ” سلام “ پڑھا تو یقیناً اس نے بھی آیت مبارکہ کے حکم پر عمل کیا۔ اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ ” نماز قائم کرو اور زکوۃ دو “ نیز یہ ارشاد ہے کہ ” کثرت سے اللہ کا ذکر کرو اور اس کی تسبیح بیان کرو ‘ اور اس طرح کے دیگر احکامات جو ملا کر (ایک ساتھ) دیئے گئے ہیں۔ البتہ چونکہ اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ صلوٰۃ اور سلام دونوں کو ایک ساتھ پڑھا جائے اس لیے میں اس سے عدول کو اچھا نہیں سمجھتا ‘ خصوصاً اس لیے بھی کہ صلاۃ کے ساتھ ساتھ سلام پڑھنے میں ان شکوک و شبہات سے سلامتی مل جاتی ہے جو بیمار ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

نیز علامہ آلوسی نے اس عبارت سے پہلے یہ بھی لکھا ہے جن لوگوں نے بغیر سلام کے فقط صلوٰۃ پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے ‘ علامہ ابن حجر ہیتمی نے یہ لکھا ہے حق یہ ہے کہ اس کراہت سے مراد خلاف اولیٰ ہے کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ کراہت اس وقت ہوتی ہے جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خصوصیت کے ساتھ کسی کام سے منع فرمایا ہو اور یہاں فقط صلوٰۃ پڑھنے سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع نہیں فرمایا ‘ اس لیے فقط صلوٰۃ پر اقتصار کرنا مکروہ نہیں ہوگا (بلکہ ہمارے علماء احناف میں سے علامہ انب نجیم اور علامہ شامی نے یہ تصریح کی ہے کہ کسی کام کے مکروہ تنز یہی ہونے کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خصوصیت کے ساتھ اس سے منع فرمایا وہ ‘ سو فقط صلوٰۃ پر اقتصار کرنا مکروہ تحریمی تو کجا مکروہ تنز یہی بھی نہیں ہے۔ سعیدی غفرلہ) اس کے بعد علامہ آلوسی لکھتے ہیں کہ ہمارے اصحاب میں سے علامہ حموی نے منیۃ المفتی سے نقل کیا ہے کہ صرف صلوٰۃ پڑھنا یا صرف سلام پڑھنا مکروہ نہیں ہے۔ (روح المعانی ‘ جزء ٢٢ ص ١١٩۔ ١٢٠‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

اسی بحث میں علامہ سید احمد طحطاوی متوفی ١٢٣١ ھ لکھتے ہیں :

امام طحاوی نے یہ کہا ہے کہ ایک مجلس میں جتنی بار سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام ذکر کیا جائے ہر بار آپ کے نام کے ساتھ صلاۃ (درود) پڑھنا واجب ہے۔ (علامہ طحطاوی فرماتے ہیں) امام طحاوی نے حضور پر سلام پڑھنے کا ذکر نہیں کیا ‘ حالانکہ آیت میں ” صلوا علیہ وسلم وا “ دونوں کا ذکر ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ” وسلم وا “ کا معنی نہیں ہے کہ آپ پر سلام پڑھو ‘ بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ آپ پر صلوٰۃ پڑھنے کے حکم کو مان لو۔ اسی وجہ سے آپ پر صرف صلوٰۃ پڑھنا مشہور مذہب کے مطابق مکروہ نہیں ہے۔ اس کے بعد آیت میں ” تسلیما “ کا جو ذکر ہے اسکی وجہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ پڑھنے کے حکم کی تاکید ہے۔ اور اس آیت میں یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ پڑھتے ہیں ‘ ان کے سلام پڑھنے کا ذکر نہیں ہے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ ” وسلم وا “ کا حکم اس حکم کو تسلیم کرنے کے لیے ہے۔ (حاثیتۃ الطحطاوی علی الدر المختار ج ١ ص ٢٢٧‘ مطبوعہ دارالمعرفہ ‘ بیروت ‘ ١٣٩٥ ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 56