زنا بالجبر میں DNAٹیسٹ کو بطورِ شھادت قبول کرنے نہ کرنے کی بحث
زنا بالجبر میں DNAٹیسٹ کو بطورِ شھادت قبول کرنے نہ کرنے کی بحث
تحریر:
مفتی محمد ابراھیم القادری حفظہ اللہ عزوجل
پسِ منظر: وزارتِ مذھبی امور نے اپنے ایک مراسلے میں اسلامی نظریاتی کونسل سے استدعا کی کہ وزارتِ مذھبی امور میں استفسارات موصول ہورہے ہیں جن میں یہ تجویز برائے غور پیش کی جاتی ہے کہ زنا بالجبر کے کیسوں میں ڈی این اے ٹیسٹ کو لازمی قرار دیا جائے چونکہ یہ مسئلہ حساس نوعیت کا ہے اور اس بارے میں اہل علم کی آراء مختلف ہیں لھذا یہ مناسب خیال کیا گیا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے حاصل کی جائے ۔ اس لیئے کونسل سے درخواست ہے کہ جلد از جلد اس مسئلہ میں حتمی رائے پیش کرے۔ کونسل کا فیصلہ : اسلامی نظریاتی کونسل نے ڈی این اے ٹیسٹ کو زنا بالجبر کے کیسز میں قبول کرنے نہ کرنے کے حوالے سے اپنے ١٩١ ویں اجلاس منعقدہ ٢٨/٢٩مئی ٢٠١٣ء میں ایک سفارش کا مسودہ منظور کیا جس کا متن یہ ہے : ڈی این اے ٹیسٹ ایک مفید سائنسی ایجاد ہے جس کے ذریعے بہت سے حقائق کا انکشاف ہوتا ہے اور جرائم کی تفتیش میں اس سے معاونت لی جاسکتی ہے تاہم حدود و قصاص کیسز میں چونکہ قرآن وسنت کی رو سے جرائم کے ثبوت کے لیے ایک متعین معیار اور متعین سزا مقرر ہے اور ان جرائم میں اسی شرعی معیار کو اپنانا ضروری ہے ۔ڈی این اے ٹیسٹ مفید ایجاد ہونے کے باوجود اس معیار پر پورا نہیںاترتا اس لیے تمام کیسز میں اس سے معاونت لی جاسکتی ہے اور یہ بطورِ قرینہ معتبر ہے البتہ حدود و قصاص میں یہ بنیادی شہادت کے طور پر معتبر نہیں ۔ فیصلے کا رد عمل : سفارش کے اس مسودے کی منظوری کے بعد الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں اسے خوب اچھا لاگیااس پر مباحثے ہونے اور کونسل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اگرچہ بعض اہلِ علم نے کونسل کی اس سفارش سے اتفاق کرتے ہوئے اسکا دفاع بھی کیا اس ردِّ عمل کے بعد میں نے مناسب خیال کیا کہ اس موضوع پر شرعی نقطہ نظر کو قدرے تفصیل سے پیش کیا جائے اور اس سلسلے میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا جائے۔ فاقول بتوفیق اللہ تعالیٰ وتوقیفہ۔۔۔۔۔۔ یہاں چار امور قابل بحث ولائق فکر ہیں : امراول : ۔۔۔۔۔۔ زنا کے ثبوت کے لیئے شریعت کی طرف سے متعین کردہ طریقہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟ امر ِ دوم:۔۔۔۔۔۔ ڈی این اے ٹیسٹ کی معاونت کی تشریح کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟ امرِ سوم: ۔۔۔۔۔۔ اس بحث میں چند شبہات کا ذکر اور ان کا ازالہ ۔۔۔۔۔۔!!! امرچہارم:۔۔۔۔۔۔ڈی این اے ٹیسٹ کو شہادت کا درجہ دینے والوں سے چند سوالات ۔۔۔۔۔۔!!!
ثبوتِ زنا کا شرعی طریقہ
شریعتِ مطہرہ میں ثبوتِ زنا کے دو طریقے ہیں :
(١)۔۔۔۔۔۔اقرار (٢)۔۔۔۔۔۔چار عادل مردوں کی گواہی (جن کے قیود و شرائط کی تفصیل کتب فقہ میں مذکور ہے)
اس پر دلائل ملاحظہ ہوں:
(الف)۔۔۔۔۔۔سید عالم ؐ نے جن حضرات پر زنا کی حد جاری فرمائی اس کا سبب ان کا اقرار و اعتراف تھا جیسا کہ کتبِ احادیث کے مطالعہ سے واضح ہے۔
(ب)۔۔۔۔۔۔قرآنِ حکیم میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : فاستشھدوا علیھن اربعۃ منکم (النساء : ١٥)
ترجمہ: ان پر تم میں سے چار گواہ بناؤ۔
(ج)۔۔۔۔۔۔ارشاد باری تعالی ہے :
والذین یرمون المحصنات ثم لم یأتوا بأربعۃ شہداء فاجلدوہم ثمانین جلدۃ۔(النور :٤)
ترجمہ:اور جو پاک دامن عورتوں کو عیب لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کرسکیں تو انہیں اسّی کوڑے لگاؤ۔
(د)۔۔۔۔۔۔پھر اسی سورۃ النور کی آیت ١٣ میں ارشاد فرمایا :
لولا جاء وا علیہ بأربعۃ شہداء فإذ لم یأتوا بالشہداء فأولئک عند اللہ ہم الکاذبون o
ترجمہ:اس پر چار گواہ کیوں نہ لائے تو جب گواہ نہ لائے تو وہی اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں۔
اس اصل شرعی سے واضح ہوا کہ ڈی این اے ٹیسٹ سے زنا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ یہ ٹیسٹ نہ اقرار ہے اور نہ ہی چار آدمیوں کی شہادت ، کیونکہ شہادت اصل واقعہ کے مشاہدہ بیان کرنے کا نام ہے اور یہاں مشاہدہ نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔
ڈی این اے ٹیسٹ کے معاونت کی تشریح:
زنا بالجبرکے کیس میں چار گواہ پیش نہیں کیئے جاسکے اور ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے نامزد شخص کو مجرم قرار دیا گیا تو ہم ملزم پر زنا کی حد جاری نہیں کریں گے ۔
البتہ اگر ڈی این اے ٹیسٹ کے ساتھ ایسے قرائن پائے جائیں جو عدالت کی نظر میں لائقِ اطمینان ہوں توعدالت اپنی صوابدید پر ملزم کو سخت سے سخت سزا حتی کہ سزائے موت دے سکتی ہے۔
مثلاً: ڈی این اے ٹیسٹ کے ساتھ ساتھ ریپ کی وڈیو موجود ہے یا ڈی این اے ٹیسٹ متعدد قابلِ اعتماد لیبارٹریز سے کرایا گیا اور سب کی رپورٹ میں یکسانیت ہے۔
پھر ڈی این اے ٹیسٹ کو قابلِ اعتماد ماننے کی صورت میں یہ امر طے کرنا باقی ہے کہ یہ زیادتی بالرضاہے یا بالجبر۔۔۔۔۔۔!کیونکہ ڈی این اے ٹیسٹ کا رضا یا جبر کے ثبوت سے کوئی تعلق نہیں اسکاتعین بھی قرائن سے ہوگا ۔ مثلاً : ریپ کی وڈیو موجود ہے یا جسکے ساتھ زیادتی ہوئی وہ کمسن بچی ہے یا بالغہ ہے اور اسکے جسم پر تشدد کے نشانات ہیں ایسے قرائن سے جبر کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔
بہر حال ڈی این اے ٹیسٹ دوسرے قرائن کے ساتھ مل کر ایسا قوی قرینہ ہے جسکی بنیاد پر ملزم کو سزا دی جاسکتی ہے۔
اسکی مثال یہ ہے کہ شراب نوشی دو گواہوں کی گواہی سے ثابت ہوتی ہے لیکن اگر موقعہ کے دو گواہ موجود نہ ہوں مگر اس شخص کے منہ سے شراب کی بو محسوس کی جارہی ہے یا وہ نشہ میں ہے یا اس نے شراب کی قے کردی تو اس پر حد قائم نہیں ہوگی کیونکہ شراب نوشی کا جرم شرعی شہادت سے ثابت نہیں ہوا مگر ایسے شخص کو تعزیر لگائی جائے گی کیونکہ اس پر قرینہ قویہ پایا گیا
چنانچہ درِ مختار میں ہے:
(ولا یثبت) الشرب (بہا)بالرائحۃ (ولا بتقایئہا، بل بشہادۃ رجلین)
شرب بو سے ثابت نہیں ہوتا اور نہ ہی شراب کی قے کرنے سے بلکہ دو مردوں کی گواہی سے ثابت ہوتا ہے۔
اس پر شامی میں ہے:
لکنہ یعزر بمجرد الریح أو السکر کما فی القہستانی
البتہ محض بو یا شراب سے تعزیر لگائی جائے گی جیسا کہ قہستانی میں ہے۔
(جلد ١٢ص١٣١/١٣٢ مطبوعہ شام)
شبہات اور ان کا ازالہ
شبہ (١) :
ثبوتِ زنا کے لیے چار مردوں کی شرط اسقدر کڑی اور دشوار ہے کہ اس سے ثبوتِ زنا انتہائی مشکل بلکہ قریب بمحال ہے جس کے نتیجے میں مجرموں کی حوصلہ افزائی اور مظلوم لڑکیوں کی رسوائی ہوگی۔۔۔۔۔۔!!!
شبہ کا ازالہ:
چار مردوں کی گواہی ثبوتِ زنا کے لیے شرط ہے سزا کے لیے شرط نہیں سزا کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ دوسرے قرائن کے ساتھ کافی ہے تو مجرموں کی حوصلہ افزائی کہا ں سے ہوئی ۔
شبہہ (٢):
ایک لڑکی کے ساتھ ریپ ہوا اس نے ایک شخص یا اشخاص کو نامزد کیا لڑکی کے پاس اس کیس میں کوئی گواہ نہیں یا گواہی کا کورم مکمل نہیں تو اس لڑکی نے نامزد شخص پر زنا کی تہمت لگائی جسے وہ ثابت نہ کرسکی الٹا وہ لڑکی مجرم ٹہرے گی اور اس پرحد قذف جاری ہوگی وہ داد رسی کے لیے آئی تھی اور مجرم بن گئی ایسی مظلومہ لڑکی کو کس طرح انصاف دلایا جائیگا۔
شبہہ کا ازالہ:
انصاف کا جواب یہ ہے کہ نامزد شخص کو ڈی این اے ٹیسٹ کی بنیاد پر تعزیر لگائی جائے گی تو لڑکی کو انصاف مل گیا ۔
رہا حد قذف کامعاملہ تو ایسی مظلومہ لڑکی پر حد قذف جاری نہیں ہوگی ۔
اس لیے ڈی این اے ٹیسٹ اسکے حق میں قرینہ ہے کہ اسکے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور جب کسی عورت کے حق میں زیادتی کا قرینہ پایا جائے اور وہ ایک شخص کو نامزد کرکے انصاف کی طالبہ ہو تو اس پر حد قذف جاری نہیں کی جائے گی ۔حدِ قذف اس وقت جاری ہوگی جب زیادتی پر کوئی قرینہ نہ پایا جائے کہ اب اسکا مقصد انصاف کا حصول نہیں بلکہ نامزد شخص کو بدنام کرنا ہے
اس پر ایک حدیث ملاحظہ ہو:
ابو داؤد ” کتاب الحدود ،باب صاحب الحد یجیء فیقر” میں ہے:
أن امرأۃ خرجت علی عہد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ترید الصلاۃ، فتلقاہا رجل، فتجللہا، فقضی حاجتہ منہا، فصاحت، وانطلق، فمر علیہا رجل، فقالت: إن ذاک فعل بی کذا وکذا، ومرت عصابۃ من المہاجرین، فقالت: إن ذلک الرجل فعل بی کذا وکذا، فانطلقوا، فأخذوا الرجل الذی ظنت أنہ وقع علیہا، فأتوہا بہ، فقالت: نعم ہو ہذا، فأتوا بہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، فلما أمر بہ قام صاحبہا الذی وقع علیہا، فقال: یا رسول اللہ، أنا صاحبہا، فقال لہا اذہبی فقد غفر اللہ لک وقال للرجل قولا حسنا۔
حدیث کا مفہوم یہ ہے عہد رسالتِ مآب ؐمیں ایک عورت نماز کے لیے جارہی تھی ایک شخص نے اس سے جبراً زیادتی کی عورت کے چیخنے پر وہ بھاگ گیا ادھر سے مہاجرین کی ایک جماعت کا گذر ہوا اس عورت نے اپنی سرگذشت سنائی اور کسی اور آدمی کے لیے کہا کہ اس نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے ان حضرات نے اس شخص کو پکڑکر بارگاہِ رسالت ؐمیں پیش کیا عورت نے کہا :کہ اس نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے ابھی رسول اللہ ؐ اس شخص کے بارے میں تحقیق و تفتیش کا حکم دینے ہی والے تھے کہ اصل مجرم نے اپنے آپ کو پیش کردیا اور کہا کہ یہ غلطی مجھ سے سرزد ہوئی ہے سید عالم ؐ نے عورت سے فرمایا جا اللہ تعالی نے تجھے معاف فرمادیا اور جسے غلطی سے نامزد کیا گیا اسکے حق میں اچھے کلمات ارشاد فرمائے ۔
مشکوٰۃ شریف میں یہ بھی الفاظ آئے ہیں :
وقال للرجل الذی وقع علیھا ارجموہ ۔۔۔۔۔۔کہ اصل مجرم کے لیے فرمایا اسے رجم کرو۔
(کتاب الحدود ،الفصل الثانی،٢،١٠٦١، الحدیث:٣٥٧٢،مطبوعہ : المکتب الاسلامی ،بیروت)
ملاحظہ فرمائیے :۔۔۔۔۔۔جب عورت نے بے قصور شخص کو نامزد کرکے کہا کہ اس نے مجھ سے زنا کیا ہے بعد میں ظاہر ہوا مجرم دوسرا آدمی ہے تو عورت کو اس الزام کی پاداش میں حدِقذف لگنی چاہیے ۔لیکن آپ نے حدِقذف جاری نہیں فرمائی کیونکہ وہ عورت مظلومہ تھی اس نے مغالطے میں دوسرے شخص کو نامزد کردیا اسکا مقصد اسے بدنام کرنا نہیں تھا بلکہ انصاف کا حصول تھا معلوم ہوا کہ جس عورت پر ظلم واضح ہوجائے پھر وہ طلبِ انصاف کے لیے کسی شخص کو نامزد کرے اگرچہ شرعی شہادت پیش نہ کرسکے تو عورت کو حدِقذف نہیں لگائی جائے گی خصوصاً جب ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹ بھی عورت کی تائید کرتی ہو۔
ڈی این اے ٹیسٹ کو شہادت کا درجہ دینے والوں سے چند سوالات
سوال (١ ):
ایک شخص کو اپنی بیوی کے چال چلن پر شبہ ہے اور اس سے اسکی اولاد بھی ہے اُس شخص نے اپنا اور بچوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا رپورٹ سے یہ ظاہر ہوا کہ ان کے ڈی این اے میچ نہیں کررہے۔
تو آپ کے اصول کے مطابق یہ بچے کس کے کہلائیں گے اگر شوہر کے کہلائیں گے تو کیوں۔۔۔۔۔۔؟ ؟؟
اور اگر آپ کے قاعدہ کے مطابق اُس شخص کے نہیں کہلائیں گے تو آپ اُس عورت پر حد زنا جاری کرنے کی وکالت فرمائیں گے۔۔۔۔۔۔؟؟؟
سوال(٢)
ڈی این اے ٹیسٹ کسی کو مجرم نامزد کرنے کا قرینہ ہے مگر اسمیں غلطی کا امکان ہے اور اسکا بھی امکان ہے کہ دباؤ یا رشوت سے مطلب کی رپورٹ حاصل کی گئی ہو تو نامزد شخص کے بے قصور ہونے کا شبہہ پیدا ہوگیا اور شبہات سے حدود ثابت نہیں ہوتیں اُلٹا ساقط ہوجاتیں ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں ہے :
ادرء وا الحدود عن المسلمین ما استطعتم
مسلمانوں سے جس قدرہوسکے حدود کو ساقط کرو۔
(مشکوٰۃ شریف،کتاب الحدود ،ص٣١١، قدیمی کتب خانہ کراچی )
تو کیا شبہ کی بنیاد پر اس شخص کو زانی قرار دینا اسکے ساتھ صریح زیادتی نہیں ۔۔۔۔۔۔؟؟؟
سوال (٣):
نام نہاد روشن خیال طبقہ سے میرا یہ بھی سوال ہے کہ اگر ایک اجنبی مرد اور عورت کسی ہوٹل کے کمرہ میں مشکوک حالت میں پائے گئے ۔ دونوں کے ڈی این اے ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ اس مرد کی منی اُس عورت کے اندام نہانی میں پائی گئی اب سوال یہ ہے کہ اگر ڈی این اے ٹیسٹ شہادت کے قائم مقام ہے تو کیا ہمارے متجددین ان دونوں پر حدِ زنا قائم کرنے کی تائید فرمائیں گے ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ڈی این اے زدہ طبقہ کسی طرح ان پر حدِ قذف قائم کرنے کی حمایت نہیں کرے گا بلکہ اُلٹا اسپر واویلا مچائے گا اور انکی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوگا۔
در اصل اس نام نہاد روشن خیال طبقے کی نظر میں زنا صرف جبر کی صورت میں جرم ہے اور رضا کی صورت میں جرم نہیں۔
بریں عقل ودانش بباید گریست