حدیث میری امت میں تہتر (73) فرقے ہونگے جن میں سے ایک جنّتی ہوگا منکرینِ حدیث کو جواب

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : میری نظر سے منکرینِ حدیث کی ایک پوسٹ گذری جو 73 تہتر فرقوں کے تعلق سے تھی اس پوسٹ میں لکھا ہوا تھا ہم کو فرقوں میں نہیں بٹنا ہے لکھا تھا میرا کوئی فرقہ نہیںں حالانکہ حدیث میں ذکر ہے میری امت میں 73 فرقے ہونگے ( اس نے اس حدیث کا انکار کیا) منکرینِ حدیث کو جواب ۔

نوٹ : یہ جواب گزشتہ سال فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے پوسٹ کیا تھا اب مزید تحقیق وتفصیل کے ساتھ پیش خدمت ہے اہلِ علم کہیں غلطی پائیں تو اصلاح فرما دیں اللہ تعالیٰ ہمیں فتنوں سے بچائے آمین ۔

تفصیل پڑھنے سے پہلے اسے پڑھیئے : غیر مقلد وہابی حضرات کے ممدوح علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : حدیث افتراق میں ناجی گروہ سے مراد اہلسنّت و جماعت ہیں ، وہی جمہور ہیں اور سواد اعظم ہیں ۔ (مجموعۃ الفتاویٰ جز ثالث صفحہ نمبر 215)

ارشاد باری تعالی ہے : وَاعْتَصِمُواْ بِحبل الّلہ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ ۔ (اٰل عمران: ١٠٣)

ترجمہ : اورتم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ مت ڈالو

اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن سید نعیم الدین مراد آبادی فرماتے ہیں کہ حبل کی تفسیر میں مفسرین کے چند اقوال ہیں بعض کہتے ہیں کہ اس سے “قرآن” مراد ہے اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ حبل سے “جماعت” مراد ہے اور فرمایا کہ تم جماعت کو لازم پکڑ لوکہ وہ حبل اللہ ہے جس کو مضبوط تھام نے کا حکم دیا گیا ہے جیسے کہ یھود و نصاری متفرق ہوگئے اس آیت میں ان افعال وحرکات کی ممانعت کی گئی ہے جو مسلمانوں میں تفرق کا سبب ہو طریق مسلمین مذھب اہلسنت ہے اس کے علاوہ کوئی راہ اختیار کرنا تفریق اور ممنوع ہے ۔

مزید اسی سورۃ ال عمران میں ارشاد باری تعالی ہے : وَلاَ تَکُونُواْ کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَأُوْلَـئِکَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ۔ ( آل عمران،آیت:١٠٥)

ترجمہ : ان جیسے نہ ہونا جو آپس میں پھٹ گئے اور ان میں پھوٹ پڑ گئی بعد اس کے کہ روشن نشانیاں انہیں آچکی تھیں اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے ۔

ان آیات سے معلوم ہوا کہ اسلام میں فرقہ پرستی منع ہے اورجس نے اہلسنت وجماعت کے عقائد سے اختلاف کیا گویا اس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عقائد سے اختلاف کرتے ہوئے الگ ہو گیا وہ جہنم میں گیا اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جماعت مسلمین کو لازم پکڑے کا حکم ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جوجماعت الگ ہوا جہنم میں الگ ہوا ۔

حدیث یہ ہے : اتبعوا السوادالاعظم فانہ من شذ شذ فی النار ۔ (رواہ ابن ماجہ)

یعنی سوداعظم کی اتباع کرو پس جو اس سے الگ ہوا وہ جہنم میں الگ ہوا۔

اس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔ (مشکوٰۃ المصابیح،ص:٣٠، قدیمی کتب خانہ)

اس کے علاوہ بھی بے شمار احادیث اس بات پر شاہد ہیں کہ اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے طریقہ پر چلتے ہوئے جماعت کو لازم پکڑنے کے ارشادات موجود ہیں۔ اور اسی احادیث پاک کے ذخیرے میں یہ بات بھی موجود ہے کہ اس امت کے 73 فرقے ہوں گے ۔

وان بنی اسرائیل تفرقت علی ثنتین وسبعین ملۃ وتفترق امتی علی ثلث و سبعین ملۃ کلھم فی النار الا ملۃ واحدۃ قالوا من ھی یارسول ﷲقال ما انا علیہ واصحابی ۔ (رواہ الترمذی وفی روایۃ احمد و ابی داود)

عن معاویۃ ثنتان و سبعون فی النار وواحدۃ فی الجنۃ وھی الجماعۃ ۔

ترجمہ : بے شک بنی اسرائیل کے بہتر 72 فرقے ہوئے اور میری امت میں تہتر فرقے ہوجا ئیں گے ایک فرقہ جنتی ہوگا باقی سب جہنمی ہیں صحابہ کرام علیہم الرضوان نےعرض کی وہ ناجی فرقہ کون ہے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، ارشاد فرمایا وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں یعنی سنت کے پیرو۔

دوسری روایت میں فرمایا وہ جماعت ہے یعنی مسلمانوں کا بڑا گروہ جسے سواد اعظم فرمایا ۔ (مشکوٰۃ المصابیح،ص:٣٠، قدیمی کتب خانہ،چشتی)

اس حدیث پاک کے تحت علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : حدیث افتراق میں ناجی گروہ سے مراد اہلسنّت و جماعت ہیں ، وہی جمہور ہیں اور سواد اعظم ہیں ۔ (مجموعۃ الفتاویٰ جز ثالث صفحہ نمبر 215)

اس حدیث پاک کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں” نبی اسرائیل کے سارے 72 فرقے گمراہ ہو گئے تھے مگر مسلمانوں میں 72 فرقے گمراہ ہوں گے اور ایک ہدایت پر ۔

مسلم شریف اور ابوداؤد کی حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا عیسائیوں نے بہتر (72) بنالئے اور میری امت تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی (72) فرقے ناری ہوں گے اور صرف ایک فرقہ ناجی ہوگا اور وہ جماعت جو میری سنت پر اور میرے صحابہ کی سنت پر عمل کرے گی ۔ حضور غوث پاک علیہ الرحمۃ اور حضرت مجدد شیخ احمد سرہندی علیہ الرحمۃ نے اس حدیث کی شرح میں ناجی فرقے سے مراد اہلسنت و جماعت لیئے ہیں ۔

لفظ الجماعۃ سے مراد اُمت کا اَکثریتی طبقہ ہے ۔ اِس کی وضاحت حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خود الجماعۃ سے سوادِ اَعظم مراد لیتے ہوئے فرمایا : والذي نفس محمد بيده! لتفترقن أمتي علي ثلاث وسبعين فرقة، واحدة في الجنة وثنتان وسبعون في النار. قيل : يارسول ﷲ! من هم ؟ قال : الجماعة.

ترجمہ : اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے! میری اُمت ضرور تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے صرف ایک جنت میں جائے گا اور بہتر (72) جہنم میں داخل ہوں گے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : يا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم من هم ؟ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم وہ جنتی گروہ کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : الجماعة وہ (اُمت میں سب سے بڑی) جماعت ہے ۔ (ابن ماجه کتاب الفتن باب افتراق الأمم، 2 : 1322، رقم : 3992،چشتی)(لالکائي، إعتقاد أهل السنة والجماعة، 1 : 101، رقم : 149)

نوٹ : جو کہتے ہیں ہمارا کوئی فرقہ نہیں در اصل وہ اس حدیث کا انکار کرتے ہیں میرا کوئی فرقہ نہیں کا نعرہ ملحدین اور منکرین حدیث کا ہے امت فرقوں میں بٹے گی یہ حدیث پاک میں موجود ہے حق پر ایک جماعت ہوگی اور وہ اہلسنت و جماعت ہے ۔

خیال رہے کہ جیسے بعض بنی اسرائیل انبیاء علیہم السّم کے دشمن ہیں ایسے ہی مسلمانوں میں بعض فرقے جیسے وہابی دیوبندی اہل حدیث غیرمقلد وغیرہ دشمن سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ۔ غرض اس حدیث کا ظہور یوں پوری طرح ہورہا ہے ۔ ما انا علیہ واصحابی ۔ یعنی میں اور میرے صحابہ ایمان کی کسوٹی ہیں جس کا ایمان ان کا ساہو وہ مومن ماسوائے بے دین ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فان آمنو بمثل ما اٰمنتم بہ فقد اھتدوا) 173/2 (پھر اگر وہ بھی یوں ہی ایمان لائے جیسا تم لائے جب تو وہ ہدایت پا گئے ۔ خیال رہے کہ ما سے مراد عقیدے اور اصول اعمال ہیں نہ کہ فروعی افعال یعنی جن کے عقائد صحابہ رضی اللہ عنہم کے سے ہوں اور ان کے اعمال کی اصل عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں موجود ہو وہ جنتی ورنہ فروع اعمال آج لاکھوں ایسے ہیں جو زمانہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں نہ تھے ان کے کرنے والے دوزخی نہیں صحابہ کرام حنفی ، شافعی یا قادری نہ تھے ہم ہیں ۔ انہوں نے بخاری مسلم نہیں لکھی تھی ، مدرسہ اسل

امی نہ بنائے تھے ، ہوائی جہازوں اور راکٹوں سے جہاد نہ کئے تھے ۔ ہم یہ سب کچھ کرتے ہیں لہٰذا یہ حدیث وہابیوں کی دلیل نہیں بن سکتی کہ عقائد وہی صحابہ رضی اللہ عنہم والے ہیں اور ان سارے اعمال کی اصل وہاں موجود ہے غرضیکہ درخت اسلام عہد نبوی میں لگا عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں پھلا پھولا قیامت تک پھل آتے رہیں گے کھاتے رہو بشرطیکہ اسی درخت کے پھل ہوں ۔

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے آیت کریمہ یوم تبیض وجوه کی تفسیر پوچهی گی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : جن کے چہرے قیامت کے دن روشن ہوں گے وه اہل سنت و جماعت ہیں ۔ اور حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما نے بهی یہی ارشاد فرمایا ۔ (تفسیر ابن کثیر:3/139)۔( تفسیر ابن ابی حاتم،چشتی)۔(تفسیر الدر المنثور: 2/63)۔(تفسیر قرطبی: 5/255)۔(تفسیر خازن: 1/286)

ان مذکوره بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ ناجی فرقہ (نجات والی کامیاب جماعت) وه ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت پرعمل پیرا ہوگی یعنی ” أهل السنة ” اسی کو حدیث میں ” ماأنا عليه ” فرمایا ، اور ” والجماعة فرمایا یعنی سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر عمل کے ساتھ ساتھ سنت صحابہ رضی اللہ عنہم پر بهی وه جماعت عمل کرے گی ، اسی کو حدیث میں “وأصحابي ” فرمایا ۔

حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا معیارِ حق و باطل ہونا کوئی قیاسی مسئلہ نہیں ؛

بلکہ منصوص مسئلہ ہے ۔ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حکیمانہ تشریح سے یہ بات بَیِّنْ طریقہ سے واضح ہوتی ہے کہ اہل السنة والجماعة کا مصداق وہ جماعت ہے جو کتاب اللہ ، سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم کو حجت ِشرعیہ مانتی ہو اور امت کا سوادِ اعظم اسی زمرہ میں آتا ہے ؛ کیونکہ پوری دنیا میں زیادہ تر ائمہٴ اربعہ کے ماننے والے اور ان کے مقلدین ہیں ، جو بالاتفاق اصولِ ثلاثہ کو حجت مانتے ہیں اور طریقہٴ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےساتھ ساتھ اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم ، افعالِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور بالخصوص اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم کو دلیلِ شرعی مان کراتباع کرتے ہیں ایک دوسری حدیث میں یہ مسئلہ صراحت کے ساتھ مذکور ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِيْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَتَمَسَّکُوْا بِہَا وَعَضُّوا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ ۔ (مشکاة المصابیح:۳۰،چشتی)

ترجمہ : تم لوگ میرےطریقہ اور رہنمائی کرنے والے اور راہ یافتہ خلفاء کے طریقہ کو لازم پکڑلو اور اس کومضبوطی سے تھام لو ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی خلفاءِ راشدین رضی اللہ عنہم کے طریقوں اور ان کے اعمال واقوال کو سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مساوی قرار دے رہے ہیں کہ دونوں پر سنت کا لفظ لانا اور پھر بہا میں ضمیر واحد لانا بتاتا ہے کہ حجت شرعیہ ہونےکی حیثیت سے دونوں میں فرقِ مراتب نہیں ؛ بلکہ دونوں مساوی اور برابر ہیں ۔ لہٰذا معلوم ہوتا کہ اہل حق صرف اہل السنة والجماعة ہیں اور اہل السنة والجماعة کا صحیح مصداق ائمہ ٴاربعہ علیہم الرّحمہ کے مقلدین ؛ حنفی ، مالکی ، شافعی اور حنبلی حضرات ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے طرز زندگی اور طریقہ عمل کو “سنّت” کہتے ہیں ۔

“جماعت” کے لغوی معنى تو گروہ کے ہیں ، لیکن یھاں جماعت سے مراد “جماعتِ صحابہ” رضی الله عنھم ہے . اس لفظی تحقیق سے اہلِ سنّت و جماعت کی حقیقت بھی واضح ہوتی ہے ۔

حافظ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی ٧٩٥ھ) نے تحریر فرمایا : سنّت” اس راہ کا نام ہےجس راہ پر چلا جائے اور یہ اس راہ کا تمسک کو مضبوط پکڑنا ہے جس پر وہ یعنی رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور آپ کے” خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم عامل تھے عام اس سے کہ وہ باتیں اعتقادات ہوں یا اعمال و اقوال ، اور یہی سنّت_کاملہ ہے ۔ (جامع العلوم والحکم: ١/١٩١)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی:١٠٥٢ھ) اس کی شرح میں لکھتے ہیں : جس چیز کے بارے میں حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم نے حکم دیا ہے ، اگرچہ وہ ان کے قیاس و اجتہاد سے صادر ہوا ہو ، وہ بھی سنّت کے موافق ہے اور اس پر بدعت کا اطلاق ہرگز صحیح نہیں جیسا کہ گمراہ فرقہ کرتا ہے . (أشعة اللمعات: ١/١٣٠)

اہلِ سنّت و جماعت تین لفظوں سے مرکب ہے

(1) اہل کا مطلب ہے اشخاص ، مقلدین ، اتباع ، پیرو .

(2) سنّت کا معنی راسته مجازا روش . طرز زندگی اورطرز عمل کےمعنی میں بهی آتا ہے .

(3) جماعت کے لغوی معنی تو گروه کے ہیں ۔

لیکن یہاں جماعت سے مراد جماعت صحابه رضی اللہ عنہم ہے ۔ اس لفظی یعنی اہل سنت و جماعت کا اطلاق ان اشخاص پر ہوتا ہے جن کے عقائد و نظریات اور اعمال و مسائل کا محور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت صحیحه اور صحابه کرام رضی اللہ عنہم کا اثر مبارک ہے ۔

سنت کا مقابل لفظ بدعت ہے : بدعت کے لغوی معنی ہیں نئی چیزاصطلاح شریعت میں بدعت کہتے ہیں دین میں نیا کام جو ثواب کیلئے ایجاد کیا جائے اگر یہ کام خلاف دین ہو تو حرام ہے اور اگر اس کے خلاف نہ ہو تودرست یہ دونوں معنی قرآن شریف میں استعمال ہوئے ہیں ۔

رب تعالیٰ فرماتا ہے۔

(1) بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضِ ؕ

وہ اللہ آسمانوں اور زمین کا ایجاد فرمانے والا ہے ۔(پ1،البقرۃ:117)

(2) قُلْ مَا کُنۡتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ

فرمادو کہ میں انوکھا رسول نہیں ہوں۔ (پ26،الاحقاف:9)

ان دونوں آیتو ں میں بدعت لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی انوکھا نیا رب تعالیٰ فرماتا ہے : اور عیسیٰ علیہ السلام کے پیروؤں کے دل میں ہم نے نرمی اور رحمت رکھی اور ترک دنیا یہ بات جو انہوں نے دین میں اپنی طر ف سے نکالی ۔ ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی ہاں یہ بدعت انہوں نے اللہ کی رضا چاہنے کو پیدا کی پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا تو ان کے مومنوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا اور ان میں سے بہت سے فاسق ہیں۔(پ27،الحدید:27)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ عیسائیوں نے رہبانیت اور تارک الدنیا ہونا اپنی طر ف سے ایجاد کیا ۔ رب تعالیٰ نے ان کو اس کا حکم نہ دیا ۔ بد عت حسنہ کے طور پر انہوں نے یہ عبادت ایجاد کی اللہ تعالیٰ نے انہیں اس بدعت کا ثواب دیا مگر جو اسے نباہ نہ سکے یا جو ایمان سے پھر گئے وہ عذاب کے مستحق ہوگئے معلوم ہوا کہ دین میں نئی بدعتیں ایجاد کرنا جو دین کے خلاف نہ ہوں ثواب کا با عث ہیں مگر انہیں ہمیشہ کرنا چاہیے جیسے چھ کلمے ، نماز میں زبان سے نیت ،قرآن کے رکوع وغیرہ ،علم حدیث، محفل میلا د شریف ،اور ختم بزرگان، کہ یہ دینی چیزیں اگر چہ حضور صلی ا للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے بعد ایجاد ہوئیں مگر چونکہ دین کے خلاف نہیں اور ان سے دینی فائدہ ہے لہٰذا باعث ثواب ہیں جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ جو اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کرے اسے بہت ثواب ہوگا ۔

اس سے صاف معلوم ہوگیا که اہلسنت و جماعت کے عقائد کے علاوه سب تمام عقائد و نظریات بدعت ، ضلالت و گمراہی ہیں . قرآن و سنت کی روشنی سے واضح ہوتا ہے کہ اہل سنت و جماعت اسی راستہ پہ گامزن ہیں : اللہ تعالی نے منع فرمایا فرقہ مت بناؤ مگر وہابی دیوبندی اہل حدیث غیرمقلد فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں : ان لوگوں کے عقائد صحابہ رضی اللہ عنہم کے عقائد کے خلاف ہیں تو ہم انہیں دعوت سخن پیش کرتے ہیں آجاؤ اپنی اصل لائن پہ جس پہ اہل سنت سواد اعظم ہیں فرقوں میں تم بٹے ہو نہ کہ اہل سنت و جماعت ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)