سوال :

فتاوی شامی کیا ہے اور کیوں علماء فتوے کے وقت اسکی طرف رجوع کرتے ہیں ؟

جواب:

فتاوی شامی جسے رد المحتار بھی کہتے ہیں ،یہ شرعی مسائل پر مشتمل ایک کتاب ہے ،اس میں طہارت سے لے کر مرنے کے بعد وراثت کی تقسیم تک کے تمام ضروری شرعی احکام درج ہیں ۔

علماء فتوے کے وقت اس کی طرف کیوں رجوع کرتے ہیں ؟

اس کی بہت سی وجوہات ہیں

سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہ ہزار سالہ علماء کی تحقیقات کا نچوڑ ہے اور اسکے ساتھ ساتھ اس میں راجح اور مفتی بہ قول بھی ذکر کر دیا جاتا ہے، ورنہ اکثر کتب فقہ میں تمام اقوال ذکر کر دیے جاتے ہیں ، راجح اور مفتی بہ قول کا تعین نہیں کیا جاتا ،اس صورت میں راجح و مرجوح اور صحیح اور اصح کا فیصلہ کرنا خود قاری کے ذمے ہوتا ہے ،جو کافی مشکل کام ہے ۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ اس میں انہوں نے اپنی طرف سے بہت ہی کم لکھا ہے ،ہر موقع پر پچھلے علمائے کرام کی تحقیقات کوپیش کیا ہے۔

مثلا

علامہ شامی نے مفتی بہ اور راجح کا فیصلہ بھی خود نہیں کیا بلکہ متاخرین میں سے معتبر اصحاب فتوی پر اعتماد کیا ہے،جن میں ابن ہمام ، قاسم ،ابن حاج ، رملی ، ابن نجیم ،اسماعیل ،حائک ،خانوتی اور سراج جیسے متقی علمائے کرام شامل ہیں ۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ اس میں مسائل کو مکمل تحقیق کے بعد پوری احتیاط سے لکھا گیا ہے ،آپ اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ انہوں نے جب بھی کسی کا قول نقل کیا ہے تو اس کی اصل عبارت اصل کتاب سے تلاش کرکےلکھی ہے ،بعض اوقات مجبوری سے خلاصہ ذکر کیا ہے۔

مثلا

اگر انہوں نے امام طحاوی یا امام سرخسی کا قول لکھا ہے ،تو انہوں نے ہدایہ جیسی کسی کتاب سے نہیں لکھ دیا بلکہ ان بزرگوں کی اصل کتابوں کی طرف رجوع کیا اور ان کی اصل عبارت کو تلاش کرکے درج کیا ہے ، تاکہ غلطی اور خطا ء کا امکان کم سے کم ہو ۔یہ کام انتہائی مشکل ہے لیکن انتہائی مفید بھی ہے ،کیونکہ بعض اوقات ایسے ہوتا ہے کہ ناقل کسی قول کو پوری ایماندار ی سے اپنے الفاظ میں درج کر دیتا ہے لیکن اس سے جملے کا معمولی سا مفہوم بدل جاتا ہے ،جس کا اثر مخصوص باریک صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے ،امام ابن عابدین شامی نے امت کو اس سے بچانے کیلئے یہ محنت اٹھائی اور اللہ نے انکی کتاب کہ وہ شہرت عطا فرمائی جو کم ہی کتابوں کے حصے میں آئی ہے ۔

یہاں میں چند باتیں مزید فتاوی شامی کے حوالے سے درج کر دیتا ہوں ،جو ان شاء اللہ مفید ثابت ہوں گی ۔

فتاوی شامی امام ابن عابدین شامی کی تصنیف ہے ،انہیں ابن عابدین اس وجہ سے کہا جاتا تھا کیونکہ ان کے جد اعلی بہت نیک انسان تھے ،انکی نیکی کی وجہ سے انہیں عابدین کہا جاتا تھا ،پھر اسی خاندان میں سے امام شامی کو شہرت ملی ،تو لوگ انہیں اپنے جد کی نسبت سے ابن عابدین شامی کہنے لگے ۔

یاد رہے فتاوی شامی بنیادی طور پر تین کتابوں کامجموعہ ہے

تنویر الابصار ،در مختار اور رد المحتار

یہاں یہ بات بھی بڑی قابل توجہ ہے کہ تنویر الابصار ،در مختار اور رد المحتار نام رکھنے کا بھی ایک خاص پس منظر ہے

مثلا سب سے پہلے امام تمرتاشی نے ایک کتاب لکھی ،جس میں بڑی بڑی کتب ِفقہ میں پھیلے ہوئے ، معتبر اور مستند مسائل کو جمع کیا اور ایک مختصر سی کتاب کی صورت میں پیش کر دیا، اس کتاب کی وجہ سے بڑی سہولت پیدا ہوگئی ،جن مسائل کو دیکھنے کے لیے کئی جلدوں پر مشتمل کتب کو دیکھنا پڑتا تھا ،اب اس مختصر کتابچے کے ذریعے انہیں پڑھا اور یاد کیا جا سکتا تھا ،اسی وجہ سے انہوں نے اس کا نام ” تنویر الابصار ” (یعنی آنکھوں کی ٹھنڈک ) رکھا ۔

اس کی شرح امام حصکفی نے د س جلدوں میں لکھنے کا ارادہ کیا ،لیکن جب لکھنے لگے تو خیال آیا ،ایساکرتا ہوں کہ تفصیلی کتاب نہیں لکھتا بلکہ بس “چُنے ہوئے موتیوں “کو جمع کر دیتا ہوں ،اس لیے انہوں نے چنے ہوئے موتیوں کو ہی جمع کیا اور اس کتاب کا نام ” الدر المختار ” (یعنی چُنے ہوئے موتی ) رکھ دیا ۔

امام شامی نےدیکھا ،یہ کتاب بہت مفید ہے ،لیکن اپنے اختصار کی وجہ سے کافی مشکل ہو گئی ہے،طالب علم اسے سمجھنے کے معاملے میں تردد اور شک میں مبتلا ہیں اور اسے چھوڑ کر

دو سری کتابوں کی طرف جا رہے ہیں ،امام شامی نے ارادہ کیا کہ کیوں نہ متردد طالب علموں کو اس کتاب کی طرف واپس لایا جائے ،تو انہوں نے اس پر ایک وضاحتی حاشیہ لکھا اور اس کا نام رکھا

رد المحتار علی الدر المختار (جس کا مطلب ہے حیران ،پریشان ،شک اور تردد میں مبتلا طالب علم کو چُنے ہوئے موتیوں کی طرف واپس لانا )

فتاوی شامی میں ہے :

قد ارشدت من احتار من الطلاب فی فھم معانی ھذا الکتاب فلھذا سمیتھا رد المحتار علی الدر المختار

فتاوی شامی پڑھنے والے کو چاہیے کہ وہ فتاوی شامی میں ذکرہ کردہ چند علامات کو ہمیشہ ذہن میں رکھے ،تاکہ اسے مطالعہ کے دوران پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے

مثلا

امام شامی جب ” ح “لکھتے ہیں

تو اس سے انکی مراد ہوتی ہے کہ یہ بات امام حلبی کی شرح در مختار میں لکھی ہوئی ہے

جب امام شامی ” ط ” لکھتے ہیں

تو اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ بات میں نے امام طحطاوی کے حاشیہ در مختار سے لی ہے

جب امام شامی ” ھ” لکھتے ہیں

تو اس سے ان کی مراد ہوتی ہے کہ جو بات چل رہی تھی اب و ہ اس ھ کے بعد ختم ہو گئی ہے

جب امام شامی ” ملخصا ” کا لفظ لکھتے ہیں

تو اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ بات میں نے اصل الفاظ میں نہیں لکھی بلکہ اس کا خلاصہ لکھا ہے ۔

جب امام شامی ” قاموس ” کا لفظ لکھتے ہیں

تو اس سے ان کی مراد فیروز آبادی کی قاموس ہوتی ہے

جب وہ مصنف یا شارح کا لفظ لکھتے ہیں

تو اس سنے انکی مراد بالترتیب امام تمرتاشی اور اسکے شارح امام حصکفی ہوتے ہیں

جب امام شامی ” فافہم ” کا لفظ لکھتے ہیں

تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ میں ادب کی وجہ سے صراحت نہیں کر رہا کہ امام حلبی یا طحطاوی سے مجھے اختلاف ہے ،آپ خود سمجھ جائیں ۔

یہاں ہم اختصار کے ساتھ یہ بھی بیان کر دیتے ہیں کہ ا ٓپ اس سے اپنے سوال کا جواب کیسے نکال سکتے ہیں ،سب سے پہلے تو آپ سوچیں کہ آپ کا مسئلہ فقہ کے ابواب میں سے کس باب میں ملے

مثلا

کتاب الصلوۃ میں ملے گا یا کتاب البیوع میں ،کتاب الطہارۃ میں ملے گا یا کتاب السیر میں ۔

جب یہ سمجھ میں آجائے کہ یہ مسئلہ فلاں باب میں ملے گا، تو اس باب کی فہرست کو دیکھیں کیونکہ فتاوی شامی کی فہرست میں عموما مشہور مسائل درج ہیں ،اگر وہاں نہ ملے ،تو صرف درمختار کی عبارت کو پڑھتے جائیں ،جہاں شک ہو کہ اس مقام پر میرا مطلوبہ مسئلہ ہوسکتا ہے ،وہاں رد المحتار کی شرح بھی پڑھیں گے ،جہاں تک یہ مکمل بحث ختم نہ ہو جائے ،پڑھتے رہیں ،اگر مطلوبہ مسئلہ مل جائے ،تو احتیاطا ایک دو صفحے پچھلے اور ایک دو صفحے اگلے بھی پڑھ لیں ۔تاکہ اگر پہلے یا بعد میں کوئی قید ذکر کی گئی ہو تو وہ بھی آپ کے سامنے آجائے ۔

یہاں آخری چند باتیں فقہ کے متعلق لکھ کر میں اپنے مضمون کو ختم کر رہا ہوں ،فقہ بنیادی طور پر شریعت کا قانون دانوں کا مرتب کردہ دستور ہے ،اس میں چار مشہور مذاہب ہیں ،حنفی ،شافعی ،مالکی ،حنبلی۔

میں دعوے سے کہتا ہوں

آپ ہر مسئلے کو قرآن و حدیث سے حل کرنے کی کوشش کریں ،اگر کوئی مسئلہ حل نہ ہو سکے تو آپ فقہاء کی کتب کا مطالعہ کریں ، ییہاں وہی مسئلہ دس منٹوں میں حل ہو جائے گا، میں کہتا ہوں علم فقہ اورعلم فتاوی، ماضی میں بھی کارآمد تھا ،اب بھی کار آمد ہے ،آئندہ بھی کار آمد رہے گا ۔

جسے اس مضمون سے فائدہ ہو،وہ ضرور میری والدہ کیلئے دعا کرے۔اللہ کریم ان کی قبر پر کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے ۔

از

احسان اللہ کیانی