میں بھی میلاد منانا چاھتا ہوں مگر ؟ کا مدلل جواب

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : بعض وہابیوں اور دیوبندیوں نے فقیر کی بعض پوسٹوں کے نیچے ایک کمنٹ بار بار کیا عنوان یہ تھا میں بھی میلاد منانا چاھتا ہوں مگر ؟ حدیث وفقہ کی کتابوں کی ایک فہرست تیار کی اور اس کے اوپر لکھا مجھے ان کتابوں میں عید میلا النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی فضیلت نہیں ملی لہٰذا یہ عید بدعت ہے ۔

آٸیے دیابنہ اور وہابیہ کی بغض نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں کی گئی اس محنت کا جواب پڑھتے ہیں :

جنابِ من ان تمام کتابوں میں کون سی ایسی کتاب ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ہو کہ حدیث کی کتابوں میں جس چیز کے فضائل نہیں وہ بدعت ہے ؟

ان تمام کتابوں میں چشمہ لگانے کی فضیلت کہیں بھی نہیں تو کیا قرآن پڑھتے وقت چشمہ لگانا بدعت یے ؟

بدعت کیا ہے ؟

بدعت صرف وہ نئے اعمال ہیں جو سنت کے خلاف ہیں

رسول ﷲ صلی الله علیه و آلہ وسلم نے فرمایا کہ : من سن سنة حسنة فلہ اجرھا واجر من عمل بھا ۔

ترجمہ : جس نے اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اپنے ایجاد کرنے کا ثواب بھی ملے گا اور جو اس طریقے پرعمل کریں گے ان کا اجر بھی اسے ملے گا ۔ (صحیح مسلم، کتاب العلم، باب من سنّ سنة حسنة ۲/ ۳۴۱۔چشتی)۔(مشکوۃ المصابیح، جلد 1،حدیث 208)

معلوم ہوا دین مین اچھا کام ایجاد کرنے کا ثواب بھی ہے اور اسے پھیلانا بھی ثواب ہے .

روی ابن مسعودرضی ﷲ تعالٰی عنہ مرفوعاً وموقوفاً ماراٰہ المسلمون حسنًا فھو عند ﷲ حسن ۔

ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی الله تعالى عنه نے نبی صلی الله تعالی عليه و آله وسلم کے ارشاد اورخود ان کے قول سے مروی ہوئی کہ: اہل اسلام جس چیز کو نیک جانیں وہ خدا کے نزدیک بھی نیک ہے ۔ (المستدرک للحاکم, کتاب معرفۃ الصحابۃ, ۳/ ۷۸)

معلوم ہوا جس کام کو اہل اسلام نیک جانیں وہ خدا کے نزدیک بھی نیک ہے .

شریعت کا یہ قاعدہ ہے کو جس چیز کے متعلق شریعت میں منع نہ کیا گیا ہو وہ جائز و مباح ہے ۔ اور یہ وہابیہ دیابنہ کی خودساختہ شریعت ہے کہ جو قرآن و حدیث میں نہیں اس سے صاف انکار کردو ۔ (معاذ الله)

علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں : ان کانت مما یندرج تحت مستحسن فی الشرع فھی بدعة حسنة وان کانت مما یندرج تحت مستقبح فی الشرع فھی بدعۃ مستقبحة ۔

ترجمہ : اگر وہ بدعت شریعت کے پسندیدہ امورمیں داخل ہے تو وہ بدعت حسنہ ہوگی، اور اگر وہ شریعت کے ناپسندیدہ امورمیں داخل ہے تو وہ بدعت قبیحہ ہوگی . (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب التراویح ۱۱/ ۱۲۶،چشتی)

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فلیس کل ما ابدع منھیابل المنھی بدعة تضاد سنة ثابتة و ترفع امرا من الشرع بقاء علته (احیاء العلوم، 3:2)

ترجمہ : ہر بدعت منع نہیں ہوتی بلکہ منع صرف وہی بدعت ہوتی ہے جو سنت ثابتہ کی الٹ ہو اور سنت کی علت کے ہوتے ہوئے امر شریعت کو ختم کر دے ۔

علامہ ابن اثیر جزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وعلی ھذا التاویل یحمل الحدیث الآخر کل محدثة بدعة انما يريد ما خالف اصول الشریعة و يوافق السنة ۔ (النہایہ فی غریب الحدیث والاثر، 106:1)

ترجمہ : ان دلائل کے بناء پر حدیث “کل محدثة بدعة” کی وضاحت یوں ہوگی کہ اس سے مراد وہ نیا کام ہوگا جو اصول شریعت کے خلاف ہو اور سنت سے کوئی مطابقت نہ رکھتا ہو ۔

مفتی حرمین علامہ ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : المراد من قوله صلی الله تعالی عليه وآله وسلم من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منه ماینا فیه اولا یشھد له قواعد الشرع والادلة العامة ۔

ترجمہ : یعنی حدیث کی مراد یہ ہے کہ وہی نو پیدا چیز بدعت سیئہ ہے جو دین وسنت کا رد کرے یا شریعت کے قواعد اطلاق ودلائل عموم تک اس کی گواہی نہ دیں ۔ (مجموعہ فتاوٰی، کتاب الحظر والاباحة، ۲/۹)

امام الوہابیہ مولوی وحیدالزماں لکھتے ہیں : اما البدعة اللغویة فھی تنقسم الی مباحة ومکروھة وحسنة و سیئه ۔

ترجمہ : با اعتبار لغت بدعت کی درج ذیل اقسام ہیں، بدعت مباحہ، بدعت مکروہہ ، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ ۔ (ہدیہ المھدی صفحہ نمبر 117)

امام الوہابیہ مولوی وحیدالزماں حسن بھوپالی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں

والتی لا ترفع شیئا منھا فلیست من البدعة بل ھی مباح الاصل ۔ (ہدیة المہدی ،117)

ترجمہ : جس بدعت سے کسی سنت کا رد نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔

کیا جو کام صحابہ رضی اللہ عنہم نے نہ کیا وہ بدعت ہے ؟

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : القائل ان ذالك بدعة لم یکن فی صحابة فلیس کل ما یحکم باباحة منقولا عن اصحابه رضی الله تعالى عنه انما المحذور بدعة تراغم سنة مامور الیھا (احیاء علوم دین ، 223/2)

ترجمہ : یہ کہنا کہ یہ بات بدعت ہے کیونکہ صحابہ کے زمانے میں نہیں تھی، یہ بات صحیح نہیں کیونکہ کل مباحات صحابہ سے منقول نہیں. بدعت وہ ہے جو سنت کے خلاف ہو جس کو شریعت میں منع نہیں کیا گیا اس کو بدعت کہنا صحیح نہیں ۔

ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ثم الثابت بعد ھذا نفی المندوبیة اما ثبوت الکراھة فلا الا ان يدل دليل آخر ۔ (فتح القدیر 466/1)

ترجمہ : یعنی (نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے) نہ کرنے سے اس قدر ثابت ہوا کہ مندوب نہیں، رہا کراہت کا ثبوت تو جب تک دلیل نہ دی متحقق نہیں ہوتا ۔

علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جمیع ما ابتدعه العلماء والعارفون ممالم تصرح الشریعة بالا مربه لا یکون بدعة الا ان خالف صریح السنة فان لم یخالفھا فھوا محمود ۔ (تفسیر روح البیان، 257/4،چشتی)

ترجمہ : یعنی وہ سب کام جن کو علماء و عارفین نے نکالا ہے اور جن کے امر کی شرع میں تصریح نہیں وہ بدعت نہیں البتہ بدعت وہ کام ہیں جو صریح سنت کے خلاف ہو اور اگر خلاف نہ ہوں تو وہ اچھے ہیں ۔

امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : الفعل یدل علی الجواز و عدم الفعل لایدل علی المنع ۔

ترجمہ : فعل تو جواز کے لئے دلیل ہوتا ہے اور نہ کرنے سے منع نہیں سمجھا جاتا ۔ (فتح الباری، 155/10)

ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : المراد من قوله صلی الله تعالی عليه وآله وسلم من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منه ماینا فیه اولا یشھد له قواعد الشرع والادلة العامة ۔

ترجمہ : یعنی حدیث کی مراد یہ ہے کہ وہی نو پیدا چیز بدعت سیئہ ہے جو دین وسنت کا رد کرے یا شریعت کے قواعد اطلاق ودلائل عموم تک اس کی گواہی نہ دیں ۔ (مجموعہ فتاوٰی ، کتاب الحظر والاباحة، ۲/۹۔چشتی)

امام الوہابیہ مولوی وحیدالزماں لکھتے ہیں : اما البدعة اللغویة فھی تنقسم الی مباحة ومکروھة وحسنة و سیئه ۔

ترجمہ : با اعتبار لغت بدعت کی درج ذیل اقسام ہیں، بدعت مباحہ، بدعت مکروہہ ، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ ۔ (ہدیہ المھدی 117)

آگے حسن بھوپالی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : والتی لا ترفع شیئا منھا فلیست من البدعة بل ھی مباح الاصل ۔ (ہدیة المہدی ،117)

ترجمہ : جس بدعت سے کسی سنت کا رد نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔

علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں : ان کانت مما یندرج تحت مستحسن فی الشرع فھی بدعة حسنۃ وان کانت مما یندرج تحت مستقبح فی الشرع فھی بدعۃ مستقبحة ۔

ترجمہ : اگر وہ بدعت شریعت کے پسندیدہ امورمیں داخل ہے تو وہ بدعت حسنہ ہوگی ، اور اگر وہ شریعت کے ناپسندیدہ امورمیں داخل ہے تو وہ بدعت قبیحہ ہوگی ۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب التراویح ۱۱/ ۱۲۶،چشتی)

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فلیس کل ما ابدع منھیا بل المنھی بدعة تضاد سنة ثابتة و ترفع امرا من الشرع بقاء علته ۔ (احیاء العلوم، ٣/٢)

ترجمہ : ہر بدعت منع نہیں ہوتی بلکہ منع صرف وہی بدعت ہوتی ہے جو سنت ثابتہ کی الٹ ہو اور سنت کی علت کے ہوتے ہوئے امر شریعت کو ختم کر دے ۔

علامہ ابن اثیر جزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وعلی ھذا التاویل یحمل الحدیث الآخر کل محدثة بدعة انما يريد ما خالف اصول الشریعة و يوافق السنة ۔ (النہایہ فی غریب الحدیث والاثر، 106:1)

ترجمہ : ان دلائل کے بناء پر حدیث “کل محدثة بدعة” کی وضاحت یوں ہوگی کہ اس سے مراد وہ نیا کام ہوگا جو اصول شریعت کے خلاف ہو اور سنت سے کوئی مطابقت نہ رکھتا ہو ۔

منع کرنے کی دلیل لاؤ

یہ اصول جو ایجاد کیا گیا ہے کہ جو امر قرآن و حدیث میں نہیں وہ حرام ، ناجائز وغیرہ وغیرہ یہ کوئی شرعی اصول نہیں . کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ، اس پوسٹ میں ان کے اسج اصول کا جنازہ نکالا گیا ہے . اصح اصول یہ ہے کہ جو شخص جس فعل کو ناجائز وحرام یا مکروہ کہے اس پر واجب کہ اپنے دعوے پر دلیل قائم کرے اور جائز ومباح کہنے والوں کو ہرگز دلیل کی حاجت نہیں کہ ممانعت پر کوئی دلیل شرعی نہ ہونا یہی جواز کی دلیل کافی ہے ۔

قد فصلا لکم ما حرم علیکم ۔ ( قرآن 119/6)

ترجمہ : وہ (الله) تم سے مفصل بیان کرچکا جو کچھ تم پر حرام ہوا ۔

اب جب الله نے تمام حرام چیزوں کو واضح پہلے ہی کر دیا تو یہ نجدی چینخ چینخ کر میلاد کو کس دلیل سے حرام کہتے ہیں ؟

جی اس کی اصل یہ حدیث ہے

الحلال مااحل الله فی کتابہ والحرام ماحرّم ﷲ فی کتابه وماسکت عنه فھو مما عفاعنه ۔

ترجمہ : الله تعالی نے جواپنی کتاب میں حلال کردیا وہ حلال ہے اور جوحرام فرمادیا وہ حرام ہے اور جس سے سکوت اختیار کیا وہ معاف ہے . (جامع الترمذی، ابواب اللباس، باب ماجاء فی لبس. ۱/ ۲۰۶)

جس چیز پر کتاب میں خاموشی اختیار کی گئی وہ معاف ہے ، سوال ہے کہ میلاد کا حرام ہونا قرآن سے ثابت کر دیں ورنہ چور بن کر کوتوال کو نہ ڈانٹیں .

ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : الفعل یدل علی الجواز و عدم الفعل لایدل علی المنع ۔

ترجمہ : فعل تو جواز کے لئے دلیل ہوتا ہے اور نہ کرنے سے منع نہیں سمجھا جاتا ۔ (فتح الباری ، 155/10)

ولیس الاحتیاط فی الافتراء علی الله تعالی باثبات الحرمة والکراھة الذین لابدلھما من دلیل بل فی الاباحة التی ھی الاصل ۔

ترجمہ : حرام اور مکروہ قرار دینے میں الله تعالی پر افتراء باندھنے میں احتیاط نہیں ہے ان دونوں حکموں کے لئے دلیل چاہئے بلکہ احتیاط اباحت میں ہے جو اصل حکم ہے ۔ (الصلح بین الاخوان)

علامہ علی مکی رسالہ اقتدا بالمخالف میں فرماتے ہیں : من المعلوم ان الاصل فی کل مسئلة ھو الصحۃ واما القول بالفساد والکراہة فیحتاج الی حجة ۔

ترجمہ : مسلمہ بات ہے کہ ہر مسئلہ میں اصل صرف اباحت ہے فساد اور کراہت کے حکم کے لئے دلیل کی ضرورت ہے ۔ (الاقتداء بالمخالف)

کل ماعدم فیہ المدرک الشرعی للحرج فی فعلہ وترکہ فذلک مدرک شرعی لحکم الشارع بالتخییر ۔ (مسلم الثبوت المقالة الثانیه، الباب الثانی، ص۲۴)

ترجمہ : کسی کام کے کرنے میں اور نہ کرنے میں حرج کے مسئلہ میں کوئی شرعی دلیل نہ ہو تو یہ خود شرعی دلیل ہے کہ شرعا اختیار ہے ۔

امام ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ثم الثابت بعد ھذا نفی المندوبیة اما ثبوت الکراھة فلا الا ان يدل دليل آخر ۔ (فتح القدیر 466/1)

ترجمہ : یعنی (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے) نہ کرنے سے اس قدر ثابت ہوا کہ مندوب نہیں ، رہا کراہت کا ثبوت تو جب تک دلیل نہ دی متحقق نہیں ہوتا .

لایلزم منہ ان یکون مکروھا الابنھی خاص لان الکراھة حکم شرعی فلابدله من دلیل۔

ترجمہ : اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ مکروہ ہوگا مگر کسی نہی خاص کے ساتھ کیونکہ کراہت حکم شرعی ہے اس کے لئے دلیل کا ہونا ضروری ہے ۔ (ردالمحتار، مطلب بیان السنۃ والمستحب الخ، ۱/۴۸۳،چشتی)

امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ رسالہ اقتداء بالمخالف میں فرماتے ہیں : من المعلوم ان الاصل فی کل مسئلة ھوالصحة واما القول بالفساد اوالکراھة فیحتاج الٰی حجة من الکتاب والسّنّة او اجماع الامة ۔

ترجمہ : یقینی بات ہے کہ اصل ہر مسئلہ میں صحت ہے اورفساد یاکراہت ماننا یہ محتاج اس کا ہے کہ قرآن یاحدیث یااجماع امت سے اس پر دلیل قائم کی جائے ۔ (رسالہ الاقتداء بالمخالف )

شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وایں دلیل ست برآنکہ اصل در اشیاء اباحت است ۔

ترجمہ : یہ دلیل ہے اس بات پر ہےکہ اشیاء میں اصل اباحت (جائز ہونا) اباحت (جائز ہونا) ہے ۔ (اشعۃ اللمعات، تحت حدیث ۴۲۲۸ ۳/ ۵۰۶)

لایلزم من ترک المستحب ثبوت الکراھۃ اذلابدلھا من دلیل خاص ۔

ترجمہ : ترکِ مستحب سے کراہت کا ثبوت نہیں ہوتا کیونکہ اس کیلئے خاص دلیل کی ضرورت ہے ۔ (البحرالرائق، باب العیدین ۲/۱۶۳)

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : نہ کردن چیزے دیگر است ومنع فرمودن چیزے دیگر ۔

ترجمہ : نہ کرنا اور چیز ہے اور منع کرنا اور چیز ۔

پھر کیسی جہالت ہے کہ نہ کرنے کو منع کرنا ٹھہرا رکھا ہے ۔

( تحفہ اثنا عشریہ، باب دہم درمطا عن الخ، ص۲۶۹)

شیخ الکل غیر مقلد وہابی حضرات نذیر حسین دہلوی لکھتے ہیں : او مدہوش بے عقل ، اللہ عز و جل اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جائز نہ کہنا اور بات ہے اور ناجائز کہنا اور بات، یہ بتاؤ کہ تم جو ناجائز کہتے ہو خدا اور رسول نے ناجائز کہاں کہا ہے ۔ (فتاوی نذیریہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)