اظہار رائےکیآزادی یا تہذیبیتصادم؟

غلام مصطفےٰ نعیمی

مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی

فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی نمائش پر ایک اسکول ٹیچر کے قتل پر پوری دنیا میں آزادی اظہار رائے (Freedom of expression) کا شور برپا ہے۔اس حادثہ کے بعد امریکہ تا انڈیا مقتول ٹیچر سے ہمدردی جتائی گئی۔آزادی رائے نہ ماننے کے لیے پوری مسلم قوم کو قصوروار قرار دیا جارہا ہے اور اسلام پر دہشت گردی کا الزام لگایا جارہا ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ دنیا میں آزادی رائے کی اجازت تھی نہ روایت!

پیغمبر اسلام نے سب سے پہلے آزادی اظہار رائے کا تصور پیش کیا۔آپ ﷺ نے فاران کی چوٹی سے اعلان نبوت کرتے ہوئے اپنے بارے میں اہل مکہ سے رائے طلب کی تھی۔اس سے پہلے ہر شخص کو آزادی رائے کا حق حاصل نہ تھا۔لیکن حضور ﷺ نے عملی طور پر ہر شخص کو آزادی رائے کا حق دیا۔صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار مکہ کے سفیر سہیل بن عمرو کے اعتراض پر “محمد رسول اللّه” کی جگہ “محمد بن عبد اللہ” لکھوانا،جنگ خندق کے موقع پر حضرت سلمان فارسی کی رائے کو ترجیح دینا آزادی رائے کا ہی بیانیہ ہے جس میں ہر شخص کو آزادی رائے کا مکمل حق دیا گیا ہے۔

موجودہ جمہوریت میں بھی آزادی اظہار رائے کو اہم قرار دیا گیا ہے۔تاکہ انسان کی شخصی آزادی برقرار رہے اور بغیر کسی ڈر خوف کے انسان اپنی رائے ظاہر کر سکے۔دوسری عالمی جنگ کے بعد 10 دسمبر 1948 کو یونیورسل ڈکلیریشن میں آزادی رائے کو انسانی حقوق کا لازمی حصہ قرار دیا گیا۔تیس نکاتی منشور کی تمہید میں یہ مقاصد بیان کیے گیے ہیں:

🔹چونکہ ہر انسان کی ذاتی عزت اور حرمت اور انسانوں کے مساوی اور ناقابل انتقال حقوق کو تسلیم کرنا دنیا میں آزادی، انصاف اور امن کی بنیاد ہے۔

🔹عام انسانوں کی بلند ترین آرزو یہ رہی ہے کہ ایسی دنیا وجود میں آئے جس میں تمام انسانوں کو اپنی بات کہنے اور اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی آزادی حاصل ہو اور خوف اور احتیاج سے محفوظ رہیں۔”

اسی منشور کی بنا پر مغربی دنیا سے ہمارے وطن تک میں دستوری طور پر آزادی اظہار رائے (freedom of expression) کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔لیکن آزادی رائے کی ایک حد بھی مقرر کی گئی ہے۔انگلینڈ میں آزادی رائے کو اہمیت حاصل ہے لیکن اس کی آڑ میں آپ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی توہین نہیں کر سکتے۔اگر کسی نے freedom of expression کے نام پر حضرت عیسٰی علیہ السلام پر تنقید کی تو Blasphemy act کے مطابق عمر قید تک سزا ہوسکتی ہے۔دستور ہند میں دفعہ 19 کے تحت آزادی رائے کو تحفظ دیا گیا ہے لیکن اس پر کچھ امور میں پابندیاں بھی لگائی گئی ہیں:

(الف) ہتک عزت۔(ب) توہین عدالت۔(ج) اخلاقیات۔(د) صوبے کی حفاظت۔(ہ) پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات۔(و) بھارت کی سالمیت اور سلامتی۔ جیسے امور میں کوئی بھی شخص ایک حد تک ہی رائے زنی کر سکتا ہے بصورت دیگر اس پر قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔انسانی حقوق کا عالمی منشور ایک خوش نما اعلان سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔عملاً طاقتور ممالک کے حقوق ہی تسلیم کیے جاتے ہیں کمزور ممالک کی ہمیشہ حق تلفی ہوتی ہے۔جبکہ اسلام میں آزادی رائے کا جتنا حق صاحب ایمان کو ہے اتنا ہی غیر مسلم کو بھی دیا گیا ہے۔

خاکے کیوں بنائے جاتے ہیں؟

خاکہ(Cartoon) بنانا تصویری فن کی ایک شکل ہے۔جس میں عموماً غیر حقیقی یا نیم حقیقی تصویریں اور نقاشیاں کی جاتی ہیں۔کارٹون کا مقصد مزاح پیدا کرنا،ہلکے پھلکے انداز میں کوئی بات کہنا، کسی پر طنز کرنا یا شکل وصورت بگاڑ کر کردار کشی کرنا ہوتا ہے۔

اسلام میں تصویر سازی کی سخت ممانعت ہے۔اسی لیے پیغمبر اسلام ﷺ اور دیگر مقتدر شخصیات کی کوئی بھی تصویر موجود نہیں ہے۔صحابہ کرام نے حضور پاک ﷺ کے حسن وجمال اور آپ کی شخصیت کے ہر ہر گوشے کو بہ کمال بیان کردیا ہے۔اس کے باوجود کسی دور میں بھی حضور کی تصویر سازی کی جرأت نہیں کی گئی۔اس لیے مسلمان اپنے پیغمبر کی مفروضہ تصویر بناتے ہیں نہ پسند کرتے ہیں۔اگر کوئی شخص پیغمبر اسلام کی ذات یا سیرت کے کسی پہلو سے مطمئن نہیں ہے تو وہ علماے اسلام سے اپنا اعتراض پیش کرے، ہر ممکن طریقے پر اعتراضات کا شافی جواب دیا جائے گا اور دیا جاتا رہا ہے۔انتہا پسند افراد Scholarly discussion کی بجائے جہالت وبدتمیزی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی بگڑیل طبیعت کی تصویر وکارٹون بناتے ہیں اور مسلمانوں کی دل آزاری کے لیے اس کارٹون کو پیغمبر اسلام کا نام دے کر فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں۔مسلمانوں کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ وہ کارٹون اور تصاویر ہرگز ہرگز نبی اکرم ﷺ کی نہیں ہے۔آپ ﷺ کے جانی دشمن بھی سرکار کی شکل وصورت میں عیب نہیں نکال سکے تو چودہ سو سال کے بعد عیب جوئی کی شرم ناک حرکت کو اخلاقی رذالت اور اسلام دشمنی کی بدترین مثال ہی کہا جاسکتا ہے۔

پوری دنیا جانتی ہے کہ مسلمان اپنے پیغمبر ﷺ سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔توہین کا ہلکا سا پہلو بھی غیرت ایمانی کے خلاف جانتے ہیں۔یہاں یہ پہلو بھی نگاہ میں رہے کہ مسلمان یہود و نصاریٰ کے پیغمبروں کی عزت و حرمت کا بھی اپنے پیغمبر جتنا ہی خیال رکھتے ہیں۔حتی کہ کفار و مشرکین کے معبودوں کو بھی برا بھلا نہیں کہتے کیوں کہ قرآن نے ایسا کہنے سے سخت منع فرمایا ہے:

وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدۡوًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ؕ

(سورہ انعام:108)

“اور انہیں گالی نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں کہ وہ اللہ کی شان میں بے ادبی کریں گے زیادتی اور جہالت سے۔”

لیکن یہود و نصاریٰ اور کفار ومشرکین لگاتار حضور ﷺ کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں۔

ردّ عمل کے طور پر مسلمان سخت رویہ اپنالیں تو فوراً معصوم بن کر مسلمانوں کو شدت پسند ہونے کا طعنہ دیتے ہیں اور اپنی بدتمیزی کو آزادی رائے کا حق کہہ کر دفاع کرتے ہیں۔

ایک طرف مخالفین مسلمانوں پر عدم برداشت (Intolerance) کا الزام لگاتے ہیں لیکن یہ لوگ اپنے معاملات میں کس قدر Intolerance کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اس کا اندازہ صرف اس سے لگائیں کہ فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی سرکاری اشاعت کے بعد ترک صدر رجب طیب اردگان نے فرانسیسی صدر کو ذہنی مریض کہہ دیا تو یہ تبصرہ صدر فرانس کو اتنا ناگوار گزرا کہ فوراً ترکی سے اپنے سفیر (Ambassador) کو واپس بلا لیا۔یعنی یہ لوگ پیغمبر اسلام کے گستاخانہ خاکے بنائیں تو freedom of speech اور مسلمان جواباً ان کو ذہنی مریض کہہ دیں تو اپنے ہی بنائے ضابطے کے خلاف آگ بگولہ ہوجاتے ہیں اور دہشت گردی کی الزام تراشیاں شروع کر دیتے ہیں۔

فرانسیسی حادثہ کے بعد ہمارے ملک میں بھی کئی افراد نے مسلمانوں پر عدم برداشت کا الزام لگایا حالانکہ یہ وہی لوگ ہیں جو خود پر ادنیٰ سی تنقید بھی برداشت نہیں کر پاتے۔حال ہی میں ٹاٹا جیولری کے ایک اشتہار پر ان لوگوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔جس کی بنا پر کمپنی کو اشتہار واپس لینا پڑا۔اس سے قبل بھی وزیر اعظم ودیگر وزرا کے کارٹون بنانے کے جرم میں کئی لوگوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔جب یہ لوگ خود پر بنے کارٹون برداشت نہیں کر پاتے تو مسلمانوں کو کس منہ سے نصیحت کرتے ہیں؟

فرانسیسی معاشرے میں تسلسل کے ساتھ حضور ﷺ کی گستاخیاں کی جارہی ہیں۔اور

حکومت فرانس freedom of speech کے نام پر پیغمبر اسلام کی گستاخیوں کو جائز ٹھہراتی آئی ہے۔لیکن ان لوگوں کا دوغلاپن اس وقت ظاہر ہوجاتا ہے جب مسلم خواتین کے برقع پہننے پر پابندی لگائی جاتی ہے۔مسلم مردوں کو غیر محرم عیسائی عورتوں سے ہاتھ ملانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔اس وقت انہیں freedom of expression کا سبق یاد نہیں آتا؟ یہ سبق انہیں اپنی بدتمیزیوں کے وقت ہی یاد آتا ہے۔

خوب یاد رکھیں!

موجودہ دنیا Global village بن چکی ہے۔جس کی وجہ سے معاشرہ مختلف تہذیبوں اور کلچر کا مرکز بن گیا ہے۔ایسے ماحول میں دوسرے مذاہب یا محترم شخصیات کی گستاخیاں کرنا دنیا کے امن و امان کو خراب کرنا ہے۔مسلمان کسی بھی قوم کے مذہبی پیشواؤں کی توہین کرتا ہے نہ اپنے خدا ورسول کی توہین برداشت کرتا ہے۔آزادی رائے کی حد وہیں تک ہے جہاں تک کسی کی دل آزاری نہ ہو۔جہاں جان بوجھ کر کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہی آزادی رائے قرار دیا جائے وہی لوگ امن وامان اور انسانیت کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔

022 ربیع الاول 1442ھ

9 نومبر 2020 بروز پیر