خوشاب واقعہ قتل پر ایک مختصر تبصرہ

از: افتخار الحسن رضوی

گزشتہ دنوں خوشاب میں ایک بینک مینجر کا قتل ہوا۔ اس پر بین الاقوامی میڈیا نے رپورٹنگ کی، ایک بار پھر پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین اور معاشرے میں اس حوالے سے پائی جانے والی تشویش نمایاں ہوئی۔ معاشرتی تقسیم، حکومت، عوام، قانون نافذ کرنے والے اداروں، اشرافیہ، عدلیہ، عوام اور مسالک کے درمیان موجود طبقاتی تقسیم اور ملکی قانونی کمزوریوں کا بھرپور مظاہرہ ہوا۔ مقتول کے جنازے میں موجود تمام مسالک کے لوگوں نے ثابت کر دیا کہ یہ قتلِ ناحق تھا۔ خوشاب میں موجود ذمہ دار احباب سے حاصل ہونے والی معلومات کے پیش نظر کچھ حقائق ملاحظہ فرمائیں۔

مقتول بریلوی نہیں تھا، وھابی افکار کا حامل تھا۔ بینک کے اندر گفتگو کے دوران وہ کچھ متعصب گفتگو کرتا تھا مثلاِ زیارتِ قبور، استمداد و استغاثہ ، میلاد النبی ﷺ کے احتفالات اور دیگر مروجہ مستحب معمولات اہل سنت کا انکار کرتا تھا۔ دوسری طرف جاہل سیکیورٹی گارڈ کے ساتھ اس کا کچھ تناؤ چل رہا تھا۔ اس سیکیورٹی گارڈ نے اسی بنا پر اسے گستاخ قرار دے کر بھون ڈالا۔ قتل کے بعد سیکیورٹی گارڈ کی گفتگو میں سنا جا سکتا ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ مقتول نبیوں کو نہیں مانتا تھا۔

قارئین کرام!

زیارتِ قبور کا منکر ہونا، استمداد و استغاثہ حتٰی کے نبی کریم ﷺ کے نور ہونے کا انکار، میلاد النبی ﷺ پر احتفالات کے عدم جواز کا قائل ہونا کسی بھی شخص کے کفر کی دلیل نہیں ہے۔ ایسے خیالات و نظریات کو گمراہی تو کہا جا سکتا ہے، تاہم نہ ہی یہ blasphemy ہے اور نہ ہی کفر۔ یہ خالص جہالت ہے، ہاتھوں میں ٹوکے اٹھائے، مناظرے کے نام پر تذلیل و تحقیر کے رویے، سپیکروں کا ناجائز استعمال، فقط خود کو ہی خالص مخلص عاشقِ رسول سمجھنا، اپنے مسلک کے علاوہ دیگر کو گستاخ وکافر سمجھنا ہمارے معاشرے کا ناسور ہے۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ ایسی منافرت پھیلانے والے تمام خطباء کو بلا تاخیر و رعایت تاحیات جیل میں ڈالے۔ پاکستان کا ہر شہری برابر عزت کا مستحق ہے۔ مذہب کے نام پر گلے کاٹنے کا یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ دیوبندی، وھابی، شیعہ یا بریلوی ہوں یا پھر کسی بھی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے انسان، سب اس ملک کا اثاثہ ہیں۔ ملکی قانون انہیں تحفظ و برابری فراہم کرتا ہے۔ اگر آپ کسی کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتے تو اس کی نوکری چھوڑ دیں، دوستی ترک کر دیں لیکن اختلاف رائے کی بنیاد پر کسی کا گلا مت کاٹیں۔ اگر واقعی کوئی گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے تو اس پر شرعی حکم جاری کرنا علماء کا کام ہے، قانونی گرفت حکومتی ذمہ داری ہے، آپ کو یہ حق حاصل نہیں کہ خود سے فیصلے کرتے پھریں۔

بریلوی علماء خصوصا علامہ خادم حسین رضوی، دعوتِ اسلامی، جماعت اہل سنت، سنی تحریک اور دیگر ذمہ دار شخصیات و تنظیمات کو چاہیے کہ اس واقعہ کی نہ صرف مذمت کریں، بلکہ مقتول کے گھر جا کر دعائے مغفرت، لواحقین کی دلجوئی کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں انصاف دلانے کے لیے بھرپور کوشش بھی کریں۔ دعوت اسلامی مقبول و معروف ہے، مدنی چینل کے ذریعے ناموس رسالت و مسئلہ ختم نبوت پر عوام میں رائے ہموار کریں، اس پر تربیتی لیکچرز نشر کیے جائیں۔ معاشرے میں توازن پیدا کرنے کے لیے اس طرح کے حساس معاملات پر ذمہ دارانہ انداز میں نشریات کا اہتمام کیا جائے۔

میں گزشتہ کئی سالوں سے کہتا آیا ہوں کہ توہین رسالت کے نام پر جاری اس ذاتی عناد و جہل پروری کی سیریز پاکستانی بریلویوں کو صوفی محمد، تحریکِ طالبان، سپاہِ صحابہ اور تحریکِ جعفریہ کی راہ پر لے جا رہی ہے۔ اغیار و دین دشمن عناصر یہی چاہتے ہیں کہ بریلوی بھی شدت پسند ہو جائیں اور پھر مذکورہ تحریکوں کی طرح انہیں بھی دہشت گرد قرار دے کر بلیک لسٹ کر دیا جائے اور پاکستانی میں قادیانی نواز لابی کو نوازا جائے۔

اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ

املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ

ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ

شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ

کتبہ: افتخار الحسن رضوی

۲۵ ربیع الأول ۱۴۴۲

۱۱ نومبر ۲۰۲۰

IHRizvi