🌹ناکامی سے دوچار احباب کے لیئے عظیم تحفہ 🌹
(تحریر طویل ضرور ہے لیکن مکمل پڑھنے سے آپ کو فائدہ ضرور ملے گا ۔ إن شاء الله تبارك و تعالى )
▪علامہ سعد الدين مسعود بن عمر بن عبدالله تفتازانی منقول و معقول علوم و فنون کے جامع ، اپنے دور میں حنفی مفتی بھی آپ ہی تھے اور شافعی بھی ، تفسیر، اصول ، کلام ، بلاغت، ادب ، نحو میں امھات کتب کے مصنف ، واحد مصنف جن کی سب سے زیادہ تصانیف روز تصنیف سے ہی درس نظامی میں بالترتیب پڑھائی جاتی ہیں ۔
صفر 722 ھ کو تفتازان میں پیدا ہوئے اور بروز پیر 22 محرم سن 792 ھ میں سمرقند میں وفات پائی ، وہیں دفن کیئے گئے لیکن پھر سرخس منتقل کیئے گئے اور بدھ 9 جمادى الأولى کو یہاں دوبارہ تدفین ہوئی ۔ اور آپ کا بدن مبارک اور کفن صحیح سالم تھے ۔
(🔎 علماء ربانیین جب انبیاء کرام على نبينا و عليهم الصلوة والسلام کے وارث ہیں تو ان کے جسموں کو بھی زمین کوئی گزند کیسے پہنچا سکتی ہے ۔)
حضرت تفتازانی رحمة الله عليه محنت انتہاء درجہ کی فرماتے لیکن ذہن بہت کمزور تھا۔ کتب میں لکھا ہے کہ آپ کے تمام ساتھیوں میں آپ سے زیادہ کند ذہن اور کوئی نہ تھا ۔ یہاں تک کہ آپ کے استاذ محترم عضد الدين عبد الرحمن بن أحمد بن عبد الغفار المتوفى سن 756 ھ اکثر اوقات کند ذہنی کی مثال کے طور پر بھی آپ کا نام لیتے ۔ لیکن نہ آپ مایوس ہوئے اور نہ ہی آپ کی سخت محنت اور خلوص میں کوئی کمی ائی
بالآخر وہ سعید وقت آ گیا کہ اس دین متین کے معلم اعظم ، نبی اکرم صلى الله عليه و على آله و اصحابه و بارك و سلم نے اپنے دین کے اس محنتی ، سچے ، سچے طالب کے جذبہ خلوص کو پذیرائی عطاء فرمائی ۔
ایسا ہوا کہ تفتازانی تنہائی میں سبق کے اعادہ میں مشغول تھے کہ آپ کو ایک باوقار اجنبی نظر آئے جو آپ کو کہہ رہے تھے ۔
: يا سعد الدين اٹھئے ذرا سیر کو چلتے ہیں ۔
حضرت نے جواب دیا :
میں سیر سپاٹے کے لیئے نہیں پیدا کیا گیا ۔ اتنا مطالعہ کرنے کے باوجود بھی ککھ پلے نہیں پڑتا ! اگر سیر کے لیئے نکلوں اور مطالعہ نہ کروں تو پھر کس قدر پتلی حالت ہو گی۔
آنے والے واپس پلٹ گئے لیکن تھوڑی دیر بعد پھر آ کر وہی کہا۔
: آئیں ناں ہمارے ساتھ سیر کے لیئے ۔
حضرت نے وہی پہلے والا جواب دے دیا ۔
اجنبی واپس گئے اور کچھ دیر بعد پھر آن موجود ہوئے اور وہی دعوت سیر دے ڈالی ۔ حضرت کا غصہ میں آنا فطری تھا ۔ بول دیا
تجھ سے بڑھ کر چغد میں نے نہیں دیکھا ! تمہیں کہا نہیں کہ سیر سپاٹا میرا مقصد تخلیق نہیں ۔!

اجنبی گویا ہوئے : رسول الله صلى الله عليه وسلم اپ کو بلا رہے ہیں!!

اب تو تفتازانی دیوانوں کی طرح اٹھے ، جوتے بھی نہیں پہنے اور ننگے پاؤں ساتھ ساتھ تقریبا بھاگے جا رہے ہیں ۔ شہر کے باہر چند درختوں کے ایک مختصر جھنڈ کے پاس پہنچ جاتے ہیں جن کے سایہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور چند صحابہ کرام کا دیدار ہوتا ہے ۔
کریم آقا اپنے دین کے اس محنتی طالب علم کو دیکھ کر تبسم فرماتے ہیں اور پیار کی انتہاء کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
بار بار آپ کو بندہ بھیج کر بلوا رہے ہیں اور آپ ہیں کہ آتے ہی نہیں ۔
عرض کیا : يا رسول الله! مجھے علم نہ تھا کہ آپ بھیج رہے ہیں اور آپ کو تو بخوبی علم ہے کہ میں نے اپنے سوء فهم اور قلت حفظ کا عذر پیش کیا تھا اور آپ حضور کی جناب میں بھی میں اپنی اسی حاجت و طلب کو عرض کرتا ہوں !
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اپنا منہ کھولیئے۔
تفتازانی نے اپنا منہ کھولا :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب مبارک ان کے منہ میں ڈالا اور دعا دی ۔ پھر واپس جانے کا حکم دیا یہ خوشخبری دیتے ہوئے کہ فتح ربانی عطاء ہو چکی ۔
حضرت کو خود بھی لگ رہا تھا کہ علم ونور کے سمندر سینے میں موجزن ہیں ۔
اگلا دن طلوع ہوا ۔ اپنے استاذ عضد الدین کی مجلس درس میں اپنی جگہ پر بیٹھ گئے ( شاگردوں کی جگہیں ان کے ذہن کے لحاظ سے ہوا کرتی تھیں ۔ حضرت آخری قطار میں ہوا کرتے تھے )
محترم شیخ صاحب کے درس کے دوران آپ نے کچھ علمی نکات اٹھائے ۔ ساتھی طلبہ نے تو وہی سابق تفتازانی خیال کرتے ہوئے بس ایویں سی باتیں خیال کرتے ہوئے کوئی توجہ ہی نہ کی لیکن شیخ محترم ان کی تہ تک پہنچ چکے تھے ۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور فرمایا ۔
سعد الدین! آپ کا معاملہ اب میری طرف ہے ۔ آج آپ پہلے والے نہیں ۔ شیخ محترم یہ کہتے ہوئے اپنی مسند تدریس سے اٹھے ۔ آپ کے پاس آ کر آپ کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنی نشست پر بٹھا کر فرمایا ۔
ابھی سے یہ مسند آپ کے حوالے ۔
اس طرح آپ نے اپنے استاذ محترم کی جگہ پر سبق کا آغاز فرمایا ۔ اور پھر آپ کی شان تدریس و علم و فضل و فن کا ڈنکا دور دور تک بجنے لگا ۔
📗 شذرات الذهب از ابن العماد، سن وفات 791هـ: 6/319).

❤ اگر ہوجذبہ صادق تو اکثر ہم نے دیکھا ہے
وہ خود تشریف لے آتے ہیں، تڑپایا نہیں کرتے
✍🏼 فقیر خالد محمود کی تحریر کو مختصر رکھنے کی بھرپور کوشش ہوتی ہے مگر پیاروں کو اپنے مقصد سے شناسا کرنا بھی تو ضروری ہوتا ہے ۔

  • اس تحریر کو پھر سے پڑھیں ۔
    دیگر کئی فوائد کے ساتھ ، اہل سنت و جماعت کے عقائد کی تائید آپ کو ملے گی ۔
    ☆ نبی اکرم صلى الله عليه و على آله و اصحابه و بارك و سلم کی اس وقت حیات ، علم و نظر و ادراک و جسد اطہر کے ساتھ تشریف آوری و امداد و فیضان ، امت کے احوال و ضروریات سے آگاہی اور ان کا حل ،
    تفتازانی کا عقیدہ کہ میرے کہے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری حالت و ضرورت کا علم ہے ۔ اور آپ اب بھی علم و فہم عطاء فرما سکتے ہیں
    ☆عنوان تحریر تھا
    ” ناکامی سے دوچار احباب کے لیئے عظیم تحفہ “
    تو دوستو وہ اس طرح سے کہ
  • پہلے تو اپنا عقیدہ ، قرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے مستفاد سلف صالحین کے مطابق کیجئے ۔
  • اپنا مقصد قرآن و سنت اور اس دنیا میں اپنی بعثت کے مطابق کیجئے
  • اس مقصد کے حصول کو اولیت دیجئے ۔
  • اس کے لیئے بھرپور مخلصانہ جد و جہد اپنائیے ۔
  • دعائیں کیجئے ۔
  • اللہ اور اس کے رسول کو یاد کیجئے ۔
    بشکریہ🌴 شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی خالد محمود صاحب🌴
    🌲مہتمم ادارہ معارف القران کراچی🌲