اہلِ سُنت کا علمی مُستقبل؟

۔

علامہ قاضی عبدالرزاق بھترالوی رَحِمَہُ اللّہُ عَلَیْہِ اپنی کتاب “ارفع الدّرجات “میں لکھتے ہیں! فارسی اور علم الصرف کی چھ کتابیں اور نحو کی کچھ کتابیں پڑھنے کے بعد والدصاحب کی علالت کی وجہ سے سلسلہء تعلیم کو موقوف کر کے تین سال کھیتی باڑی کرتا رہا ۔۔۔

دینی علوم کا حصول تو آباءاجداد سے کئ نسلوں سے آرہا تھا والد صاحب نے دوبارہ پڑھنے کی اجازت دی اور میں جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو لاہور پہنچ گیا ۔۔

یہاں جامعہ نعیمیہ میں مجھے رئیس المحققین والمدققین مولانا محمد اشرف سیالوی سے شرفِ تَلَمّذْ حاصل ہوا ۔۔

استاذی المُکَرّمْ مدرسہ وقت سے زائد ڈیرھ گھنٹہ پڑھاتے تھے آپ کی محنت اور تعلیم کو دیکھ کر میری کلاس کو محنت کی عادت پڑگئ ۔

طلباء نے جب بھی استاذی المُکَرّم سے سبق پڑھنے کی خواہش کی آپ نے اُسی وقت پڑھایا ۔ظھر کے بعد بھی ہماری کلاس نے استاد صاحب سے سبق پڑھے، عشاء کے بعد بھی پڑھے ۔۔

علامہ صاحب لکھتے ہیں سبق سنانے کا انداز بھی یہ تھا کہ جب کوئی طالب علم استاد صاحب کی خدمت گزاری کےلئے پاس بیٹھا آپ نے سبق سن لیا، عصر کے بعد سیاحت کےلئے ساتھ چلا آپ نے اُن سے سبق سن لیا ۔۔

استاذی المُکرّم کی یہی وہ محنت تھی جس کی بدولت میرے جیسا شخص جھالت سے نکل کر اہلِ علم کی نظر میں علماء کی صف میں آکھڑا ہوا ورنہ من آنم کہ من دانم ۔۔۔

تبصرہ۔

سبحان الله! کیا شان تھی ہمارے اکابر علماء کی کہ اُن کے علم اور محنت سے متاثر ہوکر طلبائے کرام بھی محنتی بن جاتے تھے ۔۔

درسِ نظامی کرنے کا سب سے اہم مقصد اسلامی ماخذ قرآن وحدیث کی فھم تک رسائی پانا ہے، اکابر علمائے کرام کی تصنیفات کو سمجھنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔کیا موجودہ دور کی ڈھائی سالہ، چار سالہ، پانچ سالہ، چھ سالہ والی درسِ نظامیاں اور اُن میں پڑھنے پڑھانے کا انداز ایک طالب علم کو اِس قابل بنادیتی ہیں کہ وہ دینِ اسلام کے اصل ماخذ اور اکابر علمائے دین کی تحقیقات کو سمجھ سکے؟ ۔۔

جوابِ سوال اگر اِثْبات میں آئے تو فَبِھَا بہت اچھی بات ہے اللھم زدفزد ۔۔۔۔۔۔۔اور اگر صورتحال برعکس دکھائی دے اور حقیقت میں بھی 99%99 صورتحال برعکس ہی ہے کیونکہ ہدایہ شریف، بیضاوی شریف پڑھنے والوں میں سے بھی کثیر تعداد کو قَوْلاً مصدر سے ماضی مضارع بنانے کا طریقہ وتصریفاتِ صغیرہ وکبیرہ یاد نہیں ہیں تو خود سوچیئے اہلِ سُنت کا علمی مُستقبل کیا ہوگا ۔۔۔؟۔

آجکل جس طرح کے نمونے تدریس کا منصب سنبھالتے جارہے ہیں یہ طلباء میں کیا علم وعمل وکردار ڈلیور کریں گے، اسلامی علوم کی محبت کیسے اُن کے دلوں میں اُنڈیلیں گے میں تو سوچ سوچ کر حیران ہوں ۔۔۔۔۔ایسے نمونوں کی علمی پوزیشن کیا ہے اِس پر کلام کرنے کی جرات میں اپنے اندر نہیں پارہا کیونکہ مدارس کی عقیدت کی سوئ نے میرے لب سی دیئے ہیں، ہاتھ باندھ دیئے ہیں ۔۔۔۔

ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے

انجامِ گلستان کیا ہوگا

✍️ ابوحاتم

08/12/2020/