أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمَا يَسۡتَوِى الۡاَحۡيَآءُ وَلَا الۡاَمۡوَاتُ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُسۡمِعُ مَنۡ يَّشَآءُ ۚ وَمَاۤ اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ مَّنۡ فِى الۡقُبُوۡرِ ۞

ترجمہ:

اور نہ زندہ لوگ اور مردے برابر ہیں بیشک اللہ جس کو چاہے سنا دیتا ہے اور آپ ان کو سنانے والے نہیں ہیں جو قبروں میں ہیں

فاطر : ٢٢ میں فرمایا : اور نہ زندہ لوگ اور مردے برابر ہیں۔

یہ مومنوں اور کافروں کی دوسری مثال ہے اور بعض مفسرین نے کہا یہ علماء اور جہلاء کی مثال ہے۔

قبر والوں کے سننے کا مسئلہ 

اس کے بعد فرمایا : اللہ جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے، یعنی جس کو چاہتا ہے سننے والا بنا دیتا ہے، اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو سننے والے بنایا ہے، اس لئے اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے ایسا سننے والا بنا دیتا ہے جو اس کی آیات میں غور و فکر کرتا ہے اور حق بات کو قبول کرلیتا ہے، اس آیت میں کفار کو مردوں اور قبر والوں سے تشبیہ دی ہے، یعنی جس طرح قبر میں مردے غور و فکر کے ساتھ نہیں سنتے اور حق بات کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ اب وہ مکلف نہیں رہے، اسی طرح دنیا میں یہ کفار آپ کے وعظ و نصیحت کو نہیں سنتے کیونکہ یہ اپنے آباء و اجداد کی تقلید پر اصرار کرنے کی وجہ سے کفر میں راسخ ہوچکے ہیں۔

دراصل اس آیت میں سنانے کی نفی فرمائی ہے اور سنانے سے مراد سماعت کو پیدا کرنا ہے، حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سماعت کو پیدا کرتا ہے اور یہ کفار جو اثر قبول نہ کرنے میں قبر والوں کی طرح ہیں، آپ ان کو نہیں سناتے یعنی آپ ان میں سماعت کو پیدا نہیں کرتے۔

علامہ قرطبی متوفی 668 ھ نے اس کی تفسیر میں فرمایا : آپ ان کافروں کو سنانے والے نہیں ہیں جو اپنے دلوں کو مردہ کرچکے ہیں، یعنی جس طرح آپ ان کو نہیں سناتے جن کے اجسام مردہ ہیں، اسی طرح ان کو نہیں سناتے جن کے دل مردہ ہیں، اور اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ آپ ان کافروں کے ایمان کی بالکل توقع نہیں رکھیں، کیونکہ جس طرح قبر والے کسی بات کو سن کر اس سے نفع نہیں اٹھاتے اور اس کو قبول نہیں کرتے۔ اسی طرح یہ کفار بھی آپ کے ارشادات سے نفع نہیں اٹھائیں گے اور اس کو قبول نہیں کریں گے۔

اس آیت کی نظیر یہ آیت ہے :

(القصص : ٥٦) آپ جس کو پسند کریں اس کو ہدایت نہیں دیتے، لیکن اللہ جس کو چاہے ہدایت دے دیتا ہے۔

اس آیت میں بھی یہ بتایا ہے کہ ہدایت کو پیدا کرنا آپ کا کام نہیں ہے، ہدایت کو پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے، آپ کا منصب اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہدایت کو نافذ کرنا ہے، اسی طرح اپنے ہر چاہے ہوئے کو کرلینا یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو چاہتے تھے کہ تمام کفار مکہ مسلمان ہوجائیں لیکن آپ کی بسیار کوشش کے باوجود ایسا نہیں ہوا، اس قسم کی آیات سے اللہ تعالیٰ نے مقام الوہیت کو مقام نبوت سے ممیز کردی ہے، تاکہ آپ کی امت کو الوہیت اور نبوت میں اشتباہ نہ ہو، اور وہ اللہ کے راستہ سے گم راہ نہ ہوجائیں، جیسے گزشتہ بعض امتیں گم راہ ہوگئیں، بعض نے کہا عزیز ابن اللہ ہیں اور بعض نے کہا مسیح ابن اللہ ہیں، اور یہ اللہ تعالیٰ کی اس امت پر کمال رحمت ہے۔

قبر والوں کے غور و فکر نہ کرنے پر ایک اعتراض کا جواب 

اس جگہ پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ آپ نے اس آیت کی تقریر میں یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کو مردوں سے تشبیہ دی ہے جو کسی بات کو سن کر اس میں غور و فکر نہیں کرسکتے، حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مردوں سے ایسا کلام فرمایا جس میں ان کو غور و فکر کرنے کے لئے فرمایا تھا اور آپ نے ان کے سننے کی بھی تصریح فرمائی جیسا کہ اس حدیث میں ہے :

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقتولین بدر کو تین دن تک پڑے رہنے دیا پھر آپ ان کے پاس جا کر کھڑے ہوئے اور ان کو پکار کر فرمایا : اے ابوجہل بن ہشام ! اے امیہ بن خلف ! اے عتبہ بن ربیعہ ! اے شیبہ بن ربیعہ ! کیا تم نے اپنے رب کے کئے ہوئے وعدہ کو سچا پا لیا، بیشک میرے رب نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا میں نے اس کو سچا پایا ہے، حضرت عمر (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کو سن کر عرض کیا، یا رسول اللہ ! یہ کیسے سنیں گے اور کس طرح جواب دیں گے، حالانکہ یہ مردہ اجسام ہیں، آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ! میں جو کچھ ان سے کہہ رہا ہوں اس کو تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو، لیکن یہ جواب دینے پر قادر نہیں ہیں، پھر آپ کے حکم سے ان کی لاشوں کو گھسیٹ کر بدر کے نوئیں میں پھینک دیا گیا۔ (صحیح مسلم صفتہ الجثہ : ٧٧ رقم الحدیث : ٢٨٧٤ الرقم المسلسل : ٧٠٩٠)

اس کا جواب یہ ہے کہ عام طور پر مردوں کا یہی قاعدہ ہے کہ وہ کسی بات کو سن کر غور و فکر نہیں کرتے اور نہ کسی پیغام کو قبول کرتے ہیں لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ بدر کے ان مردہ کافروں کو اللہ تعالیٰ نے زندہ فرما دیا ہوتا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس کلام کو سنیں اور اس پر غور و فکر کریں اور انہوں نے کفر اور شرک پر جو اصرار کیا تھا اس پر نادم ہوں، بہرحال اس آیت سے مردوں کے مطلقاً سننے کی نفی نہیں ہوتی بلکہ کسی بات کو سن کر اس پر غور و فکر کرنے اور کسی پیغام کو قبول کرنے کی نفی ہوتی ہے اور ہم نے سماع موتی، پر مفصل بحث تبیان القرآن ج ص 576-589 میں کی ہے وہاں اس کا مطالعہ فرمائیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 22