خوابوں کے متعلق اسلامی نقطۂ نظر
خوابوں کے متعلق اسلامی نقطۂ نظر
مفتی منیب الرحمان
عربی زبا ن میں خواب دیکھنے اور خواب میں نظر آنے والی چیزوں کو’’ اَلرُّوْیَا‘‘کہاجاتاہے،اس کا مادہ’’اَلرُّوْیَۃ ‘‘ہے،جس کا معنی ہے: دیکھنا،خواہ بیداری کی حالت میں ہو یا نیندمیں،البتہ علامہ زمخشری کے بقول یہ فقط نیند میں دکھائی دینے والی چیزوں کے ساتھ خاص ہے ،(تفسیرِ کشاف:ج:2ص:444)‘‘۔عربی زبان میں خواب کے لیے’’ اَضْغَاثُ اَحْلَام‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے،اس کا معنی ہے:خوابِ پریشاں،یعنی وہ خواب جن کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی اورجوتفکرات و خیالات یا شیطانی وسوسوں کے باعث نظر آتے ہیں۔
خواب کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں،بعض ماہرینِ نفسیات کے مطابق انسان کو خواب میں جو چیزیں نظر آتی ہیں وہ درحقیقت ان خواہشات وجذبات کا مظہر ہوتی ہیں جو اس کے شعورمیں جاگزیں ہوتی ہیں،الغرض جو جذبات واحساسات پوشیدہ طور پر موجود ہوتے ہیں،وہی متشکل ہوکر خواب کی صورت میں نظر آتے ہیں ۔ماہرین نفسیات کی یہ بات بعض خوابوں کی حدتک تو درست ہے،لیکن تمام خواب اس قسم کے نہیں ہوتے، بہت سے خواب ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کا انسان کے شعور سے تعلق ہی نہیں ہوتا اور وہ خواب میں ایسی چیزیں دیکھتا ہے جو اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتیں اور بعض خواب ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کا بیداری کی حالت میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ وہ انسانی دستر س سے بالاتر ہوتے ہیں،جبکہ بعض خواب ایسے بھی ہوتے ہیں جو حقائق پر مبنی ہوتے ہیںاورخواب دیکھنے کے بعداُن کی عملی تصویر ہمارے سامنے آتی ہے ۔
خوابوں کے بارے میں اسلام نے جو ہماری رہنمائی کی ہے ،اس کے مطابق نہ تو ہر خواب جھوٹا اورنفسانی خیالات کا عکاس ہوتا ہے اور نہ ہر خواب سچاہوتا ہے ،بعض خواب وہ ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دکھائے جاتے ہیں ، وہ برحق اور سچے ہوتے ہیںاور کچھ خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں،جو انسان کے لیے افسردگی اور غم کا باعث ہوتے ہیں،جبکہ کچھ خواب تخیلاتی ہوتے ہیں،انسان بیداری کے عالم میں جن چیزوں کے بارے میں غور وفکر کرتا ہے اور جو اس کے پوشیدہ احساسات وجذبات ہوتے ہیں،بسا اوقات وہ اُسے خواب بن کر نظر آجاتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’خواب تین قسم کے ہوتے ہیں:بعض خواب ڈراؤنے ہوتے ہیں، یہ شیطان کی طرف سے انسان کو پریشان کرنے کے لیے ہوتے ہیں، بعض خواب وہ ہوتے ہیں کہ انسان بیداری کی حالت میں جو کچھ سوچتا رہتا ہے، وہی کچھ خواب میں نظر آجاتا ہے اور بعض (خواب)وہ ہیں جو نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہیں،( ابن ماجہ:3907)‘‘، علمائے اسلام نے خواب کی درجِ ذیل اقسام بیان کی ہیں:
(1):بعض اوقات انسان کو نیند میں ایسی بے ربط اور خلافِ واقع چیزیں نظر آتی ہیں جو لائقِ توجہ نہیں ہوتیں ،مثلاً انسان خواب میں یہ دیکھے کہ آسمان میں ایک درخت اُگا ہوا ہے یایہ کہ زمین میں ستارے نمودارہو رہے ہیں یا دیکھے کہ ہاتھی چیونٹی پر سوار ہے،ایسے خوابوں کو عربی میں’’ اَضْغَاثُ اَحْلَام‘‘ او ر اُردو میں خوابِ پریشان کہتے ہیں۔ علماء فرماتے ہیں: اس قسم کے خواب شیطانی عمل کی وجہ سے نظر آتے ہیں اور اَطِبّاء کہتے ہیں کہ ہاضمے کی خرابی یا بلڈپریشر ہائی ہونے کی وجہ سے اس قسم کے خواب نظر آتے ہیں۔
(2):انسان جو کچھ سوچتا رہتا ہے وہ اُسے خواب میں نظر آتا ہے، بعض اوقات وہ اپنی ناتمام خواہشوں کو خواب میں پورا ہوتے ہوئے دیکھ لیتا ہے، مثلاً: بھوکا شخص خواب میں پسندیدہ چیزیں کھاتے ہوئے اور پیاسا شخص لذیذ اور خوش ذائقہ مشروبات پیتے ہوئے خود کو دیکھتا ہے اور محبوب کے فراق میں غمزدہ عاشق محبوب کا قرب دیکھتا ہے، اس قسم کے خواب نفس کے وسوسے اور تخیلات کہلاتے ہیں۔
(3):کبھی سونے والے شخص کے منہ پر لحاف کا دبائو ہوتا ہے، جس سے اس کا سانس گھٹ رہا ہوتا ہے اور وہ خواب میں دیکھتا ہے کہ کوئی اس کا گلا گھونٹ رہا ہے، کبھی بارش کے چھینٹے کھڑکی کے شیشے سے ٹکراتے ہیں یا ہوا کے زور سے کوئی چیز کھڑکھڑاتی ہے اور وہ خواب میں دیکھتا ہے کہ وہ میدان کار زار میں ہے اور گولیاں چل رہی ہیں ، کبھی سونے والے کے چہرے پر دھوپ پڑنے سے اس کا چہرہ تمتمانے لگتا ہے اور وہ خواب میں دیکھتا ہے کہ وہ آگ میں جل رہا ہے، اس قسم کے خواب دیکھ کر بعض اوقات وہ ڈر جاتا ہے،ان خوابوں کو محسوسات کا اثر کہا جاتا ہے۔
(4):بعض اوقات انسان کے ذہن میں غیر شعوری خواہشیں ہوتی ہیں، جن کو وہ کسی کے احترام یا کسی اور مانع کی وجہ سے پورا کرنا نہیں چاہتا ،پھر اس کو خواب میں ایسی مثالیں نظر آتی ہیں جن کی تعبیر بعینہٖ واقع نہیں ہوسکتی، لیکن ان مثالوں میں کسی اور چیز کی طرف رمز اور اشارہ ہوتا ہے، مثلاً: کوئی اپنے ماتحت کو مارے تو غیر شعوری طور پر اس کے دل میں انتقام لینے کا خیال آتا ہے، لیکن اس کا مرتبہ یا احترام اس خواہش کو پورا کرنے سے مانع ہوتا ہے ،پھر وہ خواب میں دیکھتا ہے کہ اس نے کسی شیر کو مار دیا ہے یا کسی اژد ہے کو مار دیاہے یا کسی ظالم بادشاہ کو قتل کردیا اور ظالم بادشاہ یا اژدہا غیر شعوری طور پر اس مارنے والے سے کنایہ ہوتا ہے۔خواب میں صرف اشارے اور رمز کی مثال یہ آیت ہے:’’ جب یوسف نے اپنے والد سے کہا : اباجان! بیشک میں نے گیارہ ستاروں اورسورج اور چاند کو دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں،(یوسف:4)‘‘۔سورج اور چاند سے اُن کے والدین اور گیارہ ستاروں سے ان کے گیارہ بھائیوں کی طرف اشارہ ہے، ایسے خواب کو’’ رمزی خواب ‘‘کہتے ہیں۔
(5):پانچویں قسم ’’اَلرُّوْیَا الصَّادِقَۃ‘‘ یعنی سچے خواب ہیں۔قرآن مجید میں چھ سچے خوابوں کا ذکر ہے ،چار خوابوں کا ذکر سورۂ یوسف میں ہے، ایک خواب حضرت یوسف علیہ السلام نے دیکھا تھا، جس میں گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا، (یوسف:4)،دو خواب قیدخانے میں دو قیدیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو سنائے تھے، ایک نے کہا تھا :’’ میں خواب میں شراب (انگور)نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا تھا کہ میں سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں، جن کو پرندے کھا رہے ہیں، (یوسف:36)‘‘ اور ایک خواب مصر کے بادشاہ نے دیکھا تھا :’’ سات فربہ گائیں سات لاغر گایوں کو کھا رہی ہیں اور سات ہرے بھرے خوشے ہیں اور سات سوکھے ہوئے خوشے ہیں، (یوسف :43)‘‘۔ موخر الذکر تینوں خوابوں کی تعبیر حضرت یوسف علیہ السلام نے بیان فرمائی۔ ایک خواب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہے ،اُنہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے (اسماعیل )کو ذبح کر رہے ہیں، (الصفٰت: 102) اور ایک ہمارے نبی سیدنا محمدﷺکے خواب کا ذکر ہے کہ مسلمان امن وسلامتی کے ساتھ عمرہ کرنے کے لیے مکہ مکرمہ میں داخل ہوں گے، (الفتح: 27)‘‘۔انبیائے کرام علیہم السلام کے خواب نفسانی یا تخیلاتی نہیں ہوتے، بلکہ انہیں وحی کا درجہ حاصل ہوتاہے اوراُنہیں نظرآنے والے خواب اللہ کی طرف سے وحی ہوتے ہیں،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے بیٹے(حضرت اسماعیل علیہ السلام )کو ذبح کرنے کا حکم خواب ہی میں دیا تھا،پس اُنہوں نے اس خواب کو تخیلاتی ونفسانی خواب کہہ کر ردّ نہیں کیا ،بلکہ خواب دیکھنے کے بعداس کی تکمیل کے لیے کمر بستہ ہوگئے اور اپنے بیٹے سے کہا:’’میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں ،لہٰذا تم مجھے اپنی رائے سے آگاہ کرواور بتاو ٔ،کیاتم اس خواب کی تکمیل میں تم میرا ساتھ دوگے‘‘، حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی چونکہ انوارِنبوت سے مشرف تھے اور جانتے تھے کہ یہ کسی عام انسان کا خواب نہیں، بلکہ ایک نبی کا خواب ہے اور وحیِ الٰہی ہے ،سواُنہوں نے فوراً ہی جواب دیا:’’اباجان!آپ کوجو حکم دیاگیا ہے اُسے کرگزریے،عنقریب آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے، (الصافات:102)‘‘۔اِسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے جوخواب دیکھاتھاوہ ایک عرصے بعد سچا ثابت ہوا،آپ نے فرمایا:’’اے میرے والد!یہ میرے پہلے دیکھے ہوئے خواب کی تعبیر ہے ،بے شک میرے رب نے میرے خواب کو سچ کردکھایا ، (یوسف:100)‘‘۔حضرت یوسف نے اپنے خواب کے سچا ہونے کو حق قرار دیا ،جس سے معلوم ہوا کہ انبیائے کرام کاخواب حق اور سچ ہوتا ہے ۔حضرت عبداللہ بن عباس نے حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب کی تفسیر میں ارشاد فرمایا:’’انبیائے کرام کے خواب وحیِ خداوندی ہوتے ہیں،(اَلْمُسْتَدْرَکْ لِلْحَاکِم:3613)‘‘۔
انبیائے کرام کے خوابوں کے برحق اور سچے ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب وہ نیند میں ہوتے ہیں تو صرف ان کی آنکھیں سوتی ہیں،جبکہ اُن کادل ہر وقت اور ہر لحظہ بیدار ومستعد رہتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام کے لیے نیندوضوٹوٹنے کاباعث نہیں ہے،حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں: نبی کریمﷺ تہجد سے فارغ ہونے کے بعدسوجاتے اور پھر رات کے آخری حصے میں بیدار ہوکر وضو کیے بغیر وتر پڑھتے،میں نے عرض کی:یا رسول اللہ!آپ وتر پڑھنے سے پہلے سوجاتے ہیں(اور پھر وضو کیے بغیرآپ وتر پڑھتے ہیں) نبی ﷺنے فرمایا:اے عائشہ !میر ی صرف آنکھیں سوتی ہیں،جبکہ میرا دل بیدار رہتا ہے ،(بخاری:2013)‘‘۔
(6):بعض خواب وہ ہوتے ہیں جن میں مستقبل میں پیش آنے والے کسی واقعے کی طرف اشارہ ہوتاہے، حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں: جب نبیﷺ پر وحی کی ابتدا کی گئی تو سب سے پہلے آپ کو سچے خواب دکھائے گئے، آپ جو خواب بھی دیکھتے ،اس کی تعبیر سپیدۂ سحر کی طرح آجاتی،( بخاری:3)‘‘۔
(7):بعض اچھے خواب وہ کہتے ہیں جو نیک وصالح مؤمن کو دکھائے جاتے ہیں،نبی ﷺ نے فرمایا:’’نیک شخص کا اچھا خواب نبوت کے چھیالیس اجزاء میں سے ایک جز ہے،( بخاری:6983)‘‘۔ ان خوابوں میں مشکل حقائق منکشف ہوجاتے ہیں، مثلاً مشہور صوفی شاعر حضرت شرف الدین بوصیری کو فالج ہوگیا، انہوں نے رسول اللہﷺکی مدح میں ایک قصیدہ کہنا شروع کیا ،اثناء ِقصیدہ میں انہوں نے ایک مصرع کہا :’’ وَمَبْلَغُ الْعِلْمِ فِیْہِ اَنَّہٗ بَشَرٌ ‘‘اور ان میں اس کے دوسرے مصرع کو مکمل کرنے کی طاقت نہ رہی، انہوں نے بہت کوشش کی، لیکن دوسرا مصرع اُن کی زبان پر نہیں آیا، جب وہ رات میں سوئے تورسول اللہ ﷺنے ان کو زیارت سے مشرف فرمایا،ان کی خیریت دریافت کی ، حضرت بوصیری نے عرض کی کہ دوسرا مصرع موزوںنہیں ہوسکا، رسول اللہ ﷺنے فرمایا :دوسرا مصرع اس طرح بنادو :’’وَاَنَّہٗ خَیْرُ خَلْقِ اللّٰہِ کُلِّھِمٖ ‘‘، پھر رسول اللہ ﷺنے انہیں چادر پہنائی اور جس جگہ ان کے جسم پر فالج تھا، اس جگہ پر اپنا دست مبارک پھیرا،حضرت بوصیری جب نیند سے بیدار ہوئے تو وہ اپنے مرض سے مکمل شفایاب ہوچکے تھے ،چنانچہ انہوں نے اس قصیدہ کا نام ’’الْبُرْدَۃ ‘‘رکھاجس کے معنی چادر کے ہیں، اس قسم کے خوابوں کا ابن سینا، ابن رشد اور ابن خلدون نے بھی اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ بہت سے خواب ایسے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے لَایَنْحَلْ مسائل حل ہوجاتے ہیں۔
اچھا یا بُرا خواب دیکھنے کی صورت میں نبی کریمﷺ نے کچھ مسنون اعمال کی تعلیم ارشاد فرمائی ہے: (1) ” نبیﷺ فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص ایسا خواب دیکھے جو اُسے پسند ہو تو وہ اللہ کی جانب سے ہے، وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کرے اور وہ اس خواب کو بیان کرے اور جب وہ کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو وہ شیطان کی طرف سے ہے، وہ اس کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرے اور وہ خواب کسی کے سامنے بیان نہ کرے، پھر وہ خواب اس کو ضرر نہیں دے گا‘‘ (صحیح بخاری:6984)، (2) ”نیک خواب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہیں اور برے خواب شیطان کی طرف سے ہیں، پس جب کوئی شخص ناپسندیدہ خواب دیکھے تو اپنی بائیں جانب تین مرتبہ تھوک دے اور شیطان سے پناہ طلب کرے، تو پھر وہ خواب اس کو ضرر نہیں دے گا اور شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا‘‘ (صحیح بخاری:6995)، (3) ”جب تم میں سے کوئی شخص کوئی برا اور ناپسندیدہ خواب دیکھے تو وہ تین مرتبہ تھتکار دے اور شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے اور جس کروٹ پر پہلے تھا، اس کروٹ کو بدل دے‘‘ (صحیح مسلم:2262)۔
احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کا اچھا خواب اس کے لیے نہ صرف بشارت ہوتا ہے بلکہ نبوت کا چھیالیسواں حصہ بھی ہوتا ہے۔ حضرت عبادہؓ بن صامت بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ سے قرآنِ مجید میں مذکور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے متعلق سوال کیا: اُن کے لیے دنیا کی زندگی میں خوشخبری ہے (یونس:64)، آپﷺ نے فرمایا: ”یہ خوشخبری نیک خواب ہیں‘ جن کو مومن دیکھتا ہے یا مومن کو دکھائے جاتے ہیں‘‘ (سنن ترمذی:2275)، آپﷺ نے فرمایا: ”صالح آدمی کا اچھا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے‘‘ (صحیح بخاری:6983)۔
نبوت کا سلسلہ نبی کریمﷺ پر ختم ہو چکا ہے، آپﷺ کے بعد ظلّی و بروزی کسی قسم کا کوئی نیا نبی نہیں آ سکتا، البتہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبوت کے بعد صرف مُبَشِّرَات یعنی اچھے خواب باقی رہ گئے ہیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: نبوت میں سے صرف مُبَشِّرَات باقی رہ گئے ہیں، صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ! مُبَشِّرَات کیا ہیں؟ فرمایا: مومن کے اچھے خواب‘‘ (صحیح بخاری:6990)۔ آپﷺ نے فرمایا: ”بے شک رسالت ونبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے، پس میرے بعد کوئی رسول اور کوئی نبی نہیں ہے، یہ بات صحابہ کرام پر دشوار ہوئی تو اُنہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ! مُبَشِّرَات کیا ہیں، آپﷺ نے فرمایا: صالح مسلم کا خواب جوکہ نبوت کے اجزا میں سے ایک جز ہے‘‘ (سنن ترمذی: 2272)۔ احادیث میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ سب سے سچا خواب اس مومن بندے کا ہوتا ہے جو اپنی گفتگو میں سچا ہو۔ آپﷺ نے فرمایا: ”تم میں سب سے زیادہ سچے خواب والا وہ ہے جو تم میں گفتگو کے اعتبار سے سب سے سچا ہو‘‘ (مسند احمد: 7642)۔ بعض احادیث میں ہے: ”صالح مؤمنین کو قربِ قیامت میں سچے خواب نظر آئیں گے، آپﷺ نے فرمایا: ”جب قیامت کا وقت نزدیک ہو گا تو نیک مومن کا خواب جھوٹا نہیں ہو گا‘‘ (صحیح بخاری:7017)۔
احادیث میں نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام کے بعض خوابوں اور ان کی تعبیرات کا ذکر موجود ہے، جن میں چند حسبِ ذیل ہیں:
(1): رسول اللہﷺنے فرمایا: ”جب میں سویا ہوا تھا تو مجھے (خواب میں) دودھ کا پیالہ دیا گیا، میں نے اس سے دودھ پی لیا حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ میرے ناخنوں سے سیرابی نکل رہی ہے، میں نے اپنا بچا ہوا دودھ عمرؓ بن خطاب کو دے دیا، آپﷺ کے گرد بیٹھے ہوئے صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! اس کی تعبیر کیا ہے، آپﷺ نے فرمایا: علم‘‘ (صحیح بخاری: 7007)، (2) آپﷺ نے فرمایا: ”جس وقت میں سویا ہوا تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگ قمیص پہنے ہوئے میرے سامنے پیش ہو رہے ہیں، بعض کی قمیص سینوں تک تھی، بعض کی اس سے بھی کم تھی، پھر عمرؓ بن خطاب آئے اور ان کی قمیص پیروں کے نیچے گھسٹ رہی تھی۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: یا رسول اللہﷺ! اس کی تعبیر کیا ہے؟ فرمایا :دین‘‘ (صحیح بخاری: 7008)، (3) نبی کریمﷺ نے فرمایا: ”میں نے خواب میں ایک سیاہ فام عورت کو دیکھا، جس کے بال بکھرے ہوئے تھے‘ وہ مدینہ سے باہر نکلی اور جُحْفَہ میں جا کر ٹھہر گئی، میں نے اس کی یہ تعبیر نکالی کہ مدینہ کی وبا جُحْفَہ کی طرف منتقل کر دی جائے گی‘‘ (صحیح بخاری: 7038)۔ (4) نبیﷺ نے فرمایا: ”میں مکہ سے ایسی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جس میں کھجور کے درخت ہیں، مجھے یہ گمان ہوا کہ یہ جگہ یمامہ یا ہَجَر ہے، لیکن وہ مدینہ یثرب تھی اور میں نے اس میں گائے کو دیکھا اور اللہ کی قسم خیر کو دیکھا، گائے سے مراد وہ ہے کہ جنگ اُحد میں جب مسلمانوں نے کفار کے حملے سے بھاگنے کا ارادہ کیا تھا اور خیر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ جنگ بدر میں (فتح) لایا تھا‘‘ (صحیح بخاری:7035)۔ (5) نبیﷺ نے فرمایا: ”میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے تلوار کو لہرایا تو اس کا اگلا حصہ ٹوٹ گیا اور اس کی تعبیر وہ تھی جو جنگ اُحد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی، پھر میں نے دوبارہ تلوار کو لہرایا وہ پہلے سے اچھی حالت میں آگئی اور اس کی تعبیر وہ تھی جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا کی تھی اور مسلمان مجتمع ہوگئے تھے‘‘ (صحیح بخاری: 7041)۔ (6) ”حضرت ام علاء انصاریہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ”میں نے رسول اللہﷺ سے بیعت کی، پھر جب مہاجرین کی رہائش کے لیے انصار نے قرعہ اندازی کی تو رہائش کے لیے حضرت عثمانؓ بن مظعون ہمارے حصہ میں آ گئے، وہ بیمار پڑ گئے، ہم نے ان کی تیمارداری کی، لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے اور فوت ہو گئے، ہم نے ان کو کفن میں لپیٹ دیا۔ رسول اللہﷺ تشریف لائے، تو میں نے کہا: اے ابو السائب! تم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تمہاری تکریم فرمائے گا۔ آپﷺ نے پوچھا: تمہیں یہ کیسے پتا چلا؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ کی قسم! میں نہیں جانتی۔ آپﷺ نے فرمایا: رہے عثمان بن مظعون! تو ان پر موت آ چکی ہے اور میں اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے خیر کی توقع کرتا ہوں اور اللہ کی قسم! میں ازخود نہیں جانتا، حالانکہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ حضرت ام العلاء نے کہا: پس اللہ کی قسم! اس کے بعد میں نے کسی کی ستائش نہیں کی، انہوں نے کہا: میں نے خواب دیکھا کہ حضرت عثمانؓ کے لیے ایک چشمہ بہہ رہا ہے۔ میں نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس خواب کا ذکر کیا، آپﷺنے فرمایا: اس سے مراد اس کا جاری رہنے والا عمل ہے‘‘ (صحیح بخاری:7018)۔
(7) حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں: ”ایک شخص نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا: میں نے آج رات یہ خواب دیکھا ہے کہ ایک سائبان سے گھی اور شہد ٹپک رہا ہے، میں نے دیکھا کہ لوگ اس کو ہتھیلیوں میں جمع کر رہے ہیں، بعض لوگ زیادہ جمع کر رہے ہیں اور بعض کم اور میں نے دیکھا کہ آسمان سے زمین تک ایک رسی پہنچ رہی ہے، میں نے دیکھا کہ آپﷺ اس رسی کو پکڑ کر اوپر چڑھنے لگے، پھر ایک شخص نے اس رسی کو پکڑا اور اوپر چڑھ گیا، پھر دوسرا شخص اس رسی کو پکڑ کر اوپر چڑھا، پھر تیسرے شخص نے رسی کو پکڑا اور وہ بھی چڑھ گیا، اس کے بعد چوتھے نے وہ رسی پکڑی تو وہ ٹوٹ گئی، لیکن پھر رسی جڑ گئی۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ! آپﷺ پر میرا باپ قربان ہو، قسم بخدا! اس خواب کی تعبیر بتانے کی آپ مجھے اجازت دیں۔ نبیﷺنے فرمایا: تم تعبیر بیان کرو، حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: اس سائبان سے مراد اسلام ہے اور جو شہد اور گھی سائبان سے ٹپک رہا تھا، وہ قرآن مجید اور اس کی حلاوت ہے، پس بعض لوگ زیادہ قرآن مجید حاصل کرتے ہیں اور بعض کم اور وہ رسی جو آسمان سے زمین تک پہنچ رہی ہے، اس سے مراد وہ حق ہے جس پر آپﷺ قائم ہیں، آپﷺ اس پر حق کے ساتھ عمل کرتے رہیں گے، پھر اللہ آپﷺ کو اپنے پاس بلا لے گا، پھر آپﷺ کے بعد ایک اور شخص اس پر عمل کرے گا اور مرتے دم تک اس پر قائم رہے گا، اس کے بعد دوسرا شخص آئے گا، وہ بھی مرتے دم تک اس پر قائم رہے گا، پھر تیسرا شخص آئے گا، اس کا بھی یہی حال ہو گا، پھر چوتھا شخص آئے گا جب وہ حق کو تھامے گا تو وہ حق منقطع ہو جائے گا، پھر اس شخص کے لیے دوبارہ جوڑ دیا جائے گا اور وہ اس پر عمل کرے گا۔ یا رسول اللہﷺ! آپ پر میرا باپ فدا ہو، مجھے یہ بتائیے کہ میں نے صحیح تعبیر کی ہے یا غلط؟ نبیﷺ نے فرمایا: تمہاری بعض تعبیر صحیح ہے اور بعض غلط، حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! اللہ کی قسم آپ مجھے ضرور بتائیے: میں نے کیا غلطی کی ہے، آپﷺ نے فرمایا :قسم مت کھائو‘‘ (صحیح بخاری:7046)۔
خواب کی تعبیر بتانا ہر شخص کا کام نہیں ہے اور نہ ہر عالم خواب کی تعبیر بتا سکتا ہے، خواب کی تعبیر بتانے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں خواب کی جو تعبیریں بیان کی گئیں ہیں ان پر عبور ہو، الفاظ کے معانی، ان کے کنایات اور مجازات پر نظر ہو اور خواب دیکھنے والے کے احوال اور اس کے معمولات سے واقفیت ہو، سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ شخص متقی اور پرہیزگار ہو، عبادت گزار اور شب زندہ دار ہو، کیونکہ یہ وہبی علم ہے اور جب تک کسی شخص کا دل گناہوں کی کثافت کی آلودگی سے پاک اور صاف نہ ہو، اس وقت تک اس کا دل محرمِ اسرار الٰہیہ نہیں ہوگا۔ اس علم کے ماہرین نے اس موضوع پر کتابیں بھی لکھی ہیں، ان میں امام ابن سیرین کی تعبیر الرویا اور علامہ عبدالغنی نابلسی کی تعبیر المنام بہت مشہور ہیں۔ مناسب یہ ہے کہ علمائے کرام ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد خواب کی تعبیر بتائیں اور محض اٹکل پچو سے خواب کی تعبیر بتانے سے گریز کریں۔
بعض لوگوں کو جھوٹے خواب بیان کرنے کا بڑا شوق ہوتا ہے، حالانکہ حدیث میں اس پر سخت وعید آئی ہے: نبیﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے ایک خواب بیان کیا جس کو اس نے نہیں دیکھا، اس کو (قیامت کے دن) دو جو کے درمیان گرہ لگانے کا حکم دیا جائے گا اور وہ ان میں ہرگز گرہ نہیں لگا سکے گا اور جس شخص نے کچھ لوگوں کی باتیں کان لگا کر سننے کی کوشش کی جبکہ وہ اس کو ناپسند کرتے ہوں یا اس سے بھاگتے ہوں، قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا اور جس شخص نے تصویر بنائی اس کو عذاب دیا جائے گا اور اس کو اس بات کا مکلف کیا جائے گا کہ وہ اس میں روح پھونکے اور وہ اس میں ہرگز روح نہیں پھونک سکے گا‘‘ (صحیح بخاری: 7042)۔ (ختم)