اِنَّ الَّذِيۡنَ يَتۡلُوۡنَ كِتٰبَ اللّٰهِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاَنۡفَقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً يَّرۡجُوۡنَ تِجَارَةً لَّنۡ تَبُوۡرَۙ ۞- سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 29
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّ الَّذِيۡنَ يَتۡلُوۡنَ كِتٰبَ اللّٰهِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاَنۡفَقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً يَّرۡجُوۡنَ تِجَارَةً لَّنۡ تَبُوۡرَۙ ۞
ترجمہ:
بیشک جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان چیزوں میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں جو ہم نے ان کو دی ہیں وہ ایس تجارت کرتے ہیں جس میں کبھی خسارہ نہیں ہوگا
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان چیزوں میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں، جو ہم نے ان کو دی ہیں، وہ ایسی تجارت کرتے ہیں جس میں کبھی خسارہ نہیں ہوگا تاکہ اللہ ان کو ان کا پورا ثوراب عطا فرمائے اور اپنے فضل سے ان کو مزید عطا کرے، بیشک وہ بہت بخشنے والا بہت قدر دان ہے اور ہم نے جس کتاب کی آپ کی طرف وحی فرمائی ہے، وہی حق ہے، پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے، بیشک اللہ اپنے بندوں کی بہت خبر رکھنے والا، خوب دیکھنے والا ہے (فاطر :29-31)
تلاوت قرآن، اقامت صلوۃ اور اداء صدقات کے آداب
جو لوگ قرآن مجید کی دائماً تلاوت کرتے ہیں اور اس میں مذکور احکام پر عمل کرتے ہیں، کیونکہ بغیر عمل کے تلاوت کا کما حقہ فائدہ نہیں ہوتا، اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا اس سے عام ہے کہ انسان روزانہ ایک مقررہ مقدار تک قرآن مجید کی تلاوت کرے یا استاذ سے قرآن پڑھے اور یا شاگردوں کو قرآن مجید کی تعلیم دے، لیکن عام طور پر عرف میں قرآن مجید کی تلاوت سے یہ مراد ہوتا ہے کہ وہ بہ طور وظیفہ روزانہ قرآن مجید کی منزل پڑھے جب صالحین کا ذکر پڑھے تو ان میں شمول کی دعا کرے اور جب کفار اور فاسقین کا ذکر پڑھے تو ان سے پناہ طلب کرے۔
نماز پڑھنے سے مراد یہ ہے کہ نماز کو اس کی تمام شرائط، ارکان اور آداب کے ساتھ پڑھے، اس میں فرائض، سنن اور آداب داخل ہیں اور اللہ کی راہ میں پوشیدہ اور ظاہر مال کو خرچ کرے، جس مال کو خرچ کرنا فرض یا واجب ہے جیسے زکوۃ، قربانی، فطرہ اور نذر معین ان کو ظاہراً خرچ کرے اور نفلی صدقات کو پوشیدہ طور پر خرچ کرے اور چونکہ اللہ تعالیٰ یہ ہے کہ وہ چیز اپنی جنس اور مادے کے اعتبار سے حلال ہو حرام نہ ہو مثلاً مردار، شراب اور خنزیر نہ ہو اور طیب کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز جائز ذریعچہ سے حاصل ہوئی ہو مثلاً رشوت یا سود یا چوری یا ڈاکے، کے ذریعہ حاصل نہ ہوئی ہو۔ جب ظاہراً صدقہ دے تو اس میں کسی کو دکھانے یا سنانے کا قصد نہ ہو، نہ اپنی تعریف اور تحسین چاہنے کی نیت ہو بلکہ لوگوں کو ترغیب دینے کی نیت ہو، اور یہ نیت ہو کہ لوگ اس کے متعلق یہ بدگمانی نہ کریں کہ یہ شخص زکوۃ نہیں دیتا یا قربانی نہیں کرتا اور نقلی صدقات اس طرح چھپا کر دے کہ بائیں ہاتھ کو پتا نہ چلے کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے کیونکہ اس پر قیامت کے دن اللہ کے سائے کے حصول کی بشارت ہے، مفصل حدیث اس طرح ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس دن اللہ کے سائے کے سوا اور کسی کا سایہ نہیں ہوگا اس دن سات آدمی اللہ کے سائے میں ہوں گے (ۃ) امام عادل (٢) وہ شخص جو اپنے رب کی عبادت میں جو ان ہوا (٣) وہ شخص جس کا دل مسجد میں معلق رہتا ہے (٤) وہ دو شخص جو اللہ کی محبت میں ملتے ہیں اور اللہ کی محبت میں جدا ہوتے ہیں (٥) وہ شخص جس کو کسی خوبصورت اور مقتدر عورت نے گناہ کی دعوت دی اور اس نے کہا میں اللہ سے ڈرتا ہوں (٦) وہ شخص جو اس طرح صدقہ دے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو پتا نہ چلے کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے (٧) وہ شخص جو تنہائی میں بیٹھ کر اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :660 صحیح مسلم رقم الحدیث :1031 سنن الترمذی رقم الحدیث :391)
اللہ تعالیٰ کے زیادہ اجر عطا فرمانے کی تحقیق
فرمایا : وہ ایسی تجارت کرتے ہیں جس میں کبھی خسارہ نہیں ہوگا۔
تلاوت قرآن کرنے، نماز قائم کرنے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو تجارت اس لئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کاموں پر ثواب عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے اور بندہ اس نیت سے ان کاموں کو کرے تو اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا فرمائے گا اور ان کاموں پر اجر وثواب عطا فرمائے گا تو اللہ کا وعدہ کبھی غلط نہیں ہوگا، سو یہ ایسی تجارت ہے جس میں کبھی گھاٹا نہیں ہوگا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 29