وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَآبِّ وَالۡاَنۡعَامِ مُخۡتَلِفٌ اَ لۡوَانُهٗ كَذٰلِكَ ؕ اِنَّمَا يَخۡشَى اللّٰهَ مِنۡ عِبَادِهِ الۡعُلَمٰٓؤُا ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ غَفُوۡرٌ ۞- سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 28
sulemansubhani نے Saturday، 9 January 2021 کو شائع کیا.
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَآبِّ وَالۡاَنۡعَامِ مُخۡتَلِفٌ اَ لۡوَانُهٗ كَذٰلِكَ ؕ اِنَّمَا يَخۡشَى اللّٰهَ مِنۡ عِبَادِهِ الۡعُلَمٰٓؤُا ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ غَفُوۡرٌ ۞
ترجمہ:
اور انسانوں اور جانوروں اور چوپایوں کے بھی اسی طرح مختلف رنگ ہیں، اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء اللہ سے ڈرتے ہیں، بیشک اللہ غالب ہے بہت بخشنے والا
آیت کے شروع میں بھی رنگوں کے اختلاف سے اپنی توحید پر استدلال فرمایا کہ انسانوں، جانوروں اور چوپایوں کے بھی مختلف رنگ ہیں بتائو ان مختلف رنگوں کا خالق کون ہے، حضرت عیسیٰ اور عزیز ان کے خالق نہیں ہوسکتے کیونکہ ان کے پیدا ہونے سے پہلے بھی ان کے مختلف رنگ تھے، سورج، چاند اور ستارے ان کے خالق نہیں ہوسکتے کیونکہ جب یہ غروب ہوجائیں یا ان کو ہگن لگ جائے، تب بھی یہ رگن اسی طرح وجود میں آتے رہتے ہیں نیز سورج اور چاند تو خود ایک نظام کے تابع ہو کر گردش کر رہے ہیں، سیاروں کی گردش اور ستاروں کا طلوع اور غروب بھی ایک نظام کے تابع ہے اور جو خود کسی کے تابع ہو وہ کسی دوسرے کے لئے موثر کب ہوسکتا ہے اور رہی پتھر کی وہ موتریاں جن کو تم خود اپنے ہاتھوں سے تراش کر ان کی پرستش کرتے ہو تو ان کا کسی چیز کے لئے مئوثر ہوتا تو بداہتۃ باطل ہے جو اپنے وجود میں تمہارے بنانے کے محتاج ہیں وہ تمہارے خالق کب ہوسکتے ہیں !
عالم کی تعریف، اس کا اللہ سے ڈرنا اور دائمی عبادت کرنا
اس کے بعد فرمایا : اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء اللہ سے ڈرتے ہیں۔ (فاطر : ٢٨ )
اس آیت میں علماء سے مراد وہ نہیں ہیں جو محض تاریخ، فلسفہ اور دنیاوی اور مروجہ علوم کے عالم ہوں، بلکہ اس سے مراد علماء اس آیت میں علماء دین ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے عالم ہوں، قرآن، حدیث اور فقہ کی کتب پر عبور رکھتے ہوں ان کو قدر ضروری احکام شرعیہ مستحضر ہوں اور ان کو اتنی مہارت ہو کہ وہ عقیدہ اور عمل سے متعلق ہر مطلوبہ مسئلہ کو اس کی متعلقہ کتابوں سے نکال سکتے ہوں اور ان کے دل میں خوف خدا کا غلبہ ہو جس کی بناء پر وہ علم کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوں اور شخص بےعمل ہو وہ عالم کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔
مالک بن مغول روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے شعبی سے پوچھا مجھے بتائیے کہ عالم کون ہے ؟ انہوں نے کہا عالم وہ جو اللہ کا خوف رکھتا ہو۔ (سنن دارمی رقم الحدیث :263، دارالمعرفہ بیروت، 1421 ھ)
حسن بیان کرتے ہیں کہ فقیہ (عالم) وہ ہے جو دنیا سے بےرغبتی کرے، آخرت میں رغبت کرے، اس کو اپنے دین پر بصیرت ہو اور اپنے رب کی عبادت پر دوام اور ہمیشگی کرتا ہو۔ (سنن دارمی رقم الحدیث :299)
سعد بن ابراہیم سے پوچھا گیا کہ اہل مدینہ میں سب سے بڑا فقیہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہو۔ (سنن دارمی رقم الحدیث :300)
مجاہد نے کہا فقیہ وہ شخص ہے جو اللہ سے ڈرتا ہو۔ (سنن دارمی رقم الحدیث :301)
حضرت ابن عباس (رض) نے یہ آیت پڑھی المایخشی اللہ من عبادہ العملاء پھر فرمایا عالم وہ شخص ہے جو اللہ سے ڈرتا ہو۔
خوف خدا کی دو قسمیں
اس آیت میں یہ ذکر ہے کہ اللہ عزیز اور غفور ہے یعنی بہت غالب اور بہت بخشنے والا ہے، جو شخص اللہ کی معصیت پر اصرار کرتا ہو اس کو سزا دینے پر بہت غالب ہے، اور جو شخص اپنے گناہوں پر تائب ہو اس کے لئے بہت بخشنے والا ہے اور جس ذات کی یہ شان ہو اس سے بہت زیادہ ڈرنا چاہیے، خشیت اور ڈر کی دو قسمیں ہیں : ایک یہ کہ آدمی کو یہ خطرہ ہو کہ اس کی تقصیرات اور خطائوں پر قایمت کے دن باز پرس ہوگی اور اگر اس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری نہ ہوا تو وہ عذاب کا مستحق ہوگا اور اس خطرہ کے پیش نظر وہ گناہوں سے مجتنب رہے، اور گار شامت نفس اور اغواء شیطان سے اس سے کوئی گناہ سر زد ہوجائے تو فوراً توبہ کرے اور کسی بھی خطا کو معمولی نہ سمجھے اور جب اس کو اپنے گناہ یاد آئیں ان پر توبہ کرتا رہے اور اشک ندامت بہاتا رہے اور جو گناہ ہوگئے ہیں ان کی تالفی میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرتا رہے کیونکہ نیکیاں بھی گناہوں کو مٹا دیتی ہیں یہی خوف خدا اور خشیت الٰہی کی وہ قسم ہے جو علماء سے مطلوب ہے، اور یہ جو فرمایا کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء اللہ سے ڈرتے ہیں اس آیت میں ڈر کا یہی معنی مراد ہے۔
خوف خدا اور خشیت الٰہی کی دوسری قسم یہ ہے کہ انسان سے کوئی خطا اور گناہ سر زد نہ ہوا ہو پھر بھی وہ اللہ تعالیٰ کی ہیبت اور اس کے جلال سے ڈرتا رہے کہ وہ بےنیاز ذات ہے، نہ جانے کون سی بات پر ناراض ہوجائے اور سک بات پر گرفت کرلے، قیامت کے دن جو انبیاء علہیم السلام نفسی نفسی کہیں گے وہ خوف اور خشیت کی یہی قسم ہے، جس شخص کو اللہ تعالیٰ کا جتنا زیادہ علم ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے اتنا زیادہ خوف زدہ ہوتا ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
ان اتقاکم واعلمکم باللہ انا۔ بیشک میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں، اور تم سب سے زیادہ اللہ کو جاننے والا ہوں۔
اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے قرآن مجید کی بشارتیں
اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے قرآن مجید میں متعدد بشارتیں ہیں :
(یونس 61-63) سنو اللہ کے ولیوں پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے جو ایمان لائے اور ہمیشہ متقی رہے ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔
یاد رکھیے اللہ کا ولی وہی ہوتا ہے جس کو مکمل شریعت کا علم ہو اور وہ اللہ سے ڈرتا ہو اور علم کے تقاضوں پر عمل کرتا ہو۔ اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے یہ نوید ہے :
واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی فان الجنۃ ھی الماوی (النزعت :41-40) رہا وہ شخص جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور اس نے نفس (امارہ) کو خواہش (پوری کرنے) سے روکا تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے۔
ولمن خاف مقام ربہ جنتن (الرحمٰن : ٤٦) اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔
اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے احادیث کی بشارتیں
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ جل ذکرہ قیامت کے دن فرمائے گا ان کو دوزخ سے نکال لو جو میرا ذکر کرتے تھے، یا جو کسی بھی دن کسی بھی جگہ پر مجھ سے ڈرے تھے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :2594 کتاب الزہد الاحمد رقم الحدیث :2164 المستدرک ج ١ ص 60)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کے متعلق سوال کیا :
(المومنون :60) اور وہ جو کچھ (راہ خدا میں) دیتے ہیں وہ اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل (خوف خدا سے) کپا کپا رہے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
کیا یہ آیت ان لوگوں کے متعلق ہے جو شراب پیتے ہیں اور چوری کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اے صدیق کی بٹی ! لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو روزہ رکھتے ہیں، نماز پڑھتے اور صدقہ کرتے ہیں اور اس کے باوجود وہ اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ ان کا یہ عمل قبول نہ کیا جائے گا اور یہ وہ لوگ ہیں جو نیک کام کرنے میں سبقت کرتے ہیں۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :3175 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4198 مسند احمد ج ٥ ص ١٥٩ المستدرک ج ٢ ص 393)
علماء دین کی فضیلت میں احادیث
حضرت ابوالدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو آدمی علم کی طلب میں کسی راستہ پر چلا، اللہ اس کو جنت کے راستہ پر چلائے گا اور طالب علم کی رضا کے لئے فرشتے اپنے پر رکھتے ہیں اور آسمانوں اور زمینوں کی تمام چیزیں عالم کے لئے استغفار کرتی ہیں حتیٰ کہ پانی میں مچھلیاں بھی اور عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جیسے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے اور بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء درہم اور دینار کے وارث نہیں بناتے وہ صرف علم کا وارث بناتے ہیں پس جس نے علم کو حاصل کیا اس نے بڑے حصے کو حاصل کیا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :2682، سنن ابو دائود رقم الحدیث :3641، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :223، مسند احمد ج ٥ ص 196 سنن دارمی رقم الحدیث :349 صحیح ابن حبان رقم الحدیث :88)
حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ایک ان میں سے عابد تھا اور دوسرا عالم تھا، تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، بیشک اللہ اور اس کے فرشتے اور تمام آسمانوں اور زمینوں والے حتیٰ کہ چیونٹی اپنے بل میں اور حتیٰ کہ مچھلی بھی، یہ سب نیکی کی تعلیم دینے والے کے لئے استغفار کرتے ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :2685 المعجم الکبیر رقم الحدیث :7911)
حضرت معاویہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس کے ساتھ اللہ خیر کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین کی فقہ (سمجھ) عطا فرما دیتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :70 صحیح مسلم رقم الحدیبث :2821 سنن الترمذی رقم الحدیث :2855)
انما یخشی اللہ من عبادۃ العلماء میں امام ابوحنیفہ کی قرأت
علامہ محمود بن عمر الزمخشری الخوارزمی التموفی 538 ھ لکھتے ہیں :
انما یخشی اللہ من عبادہ العلموء میں لفظ اللہ پر زبر ہے اور العلموء پر پیش ہے اور اس کا معنی ہے اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء اللہ سے ڈرتے ہیں، حضرت عمر بن عبدالعزیز اور امام ابوحنیفہ سے منقول ہے کہ انہوں نے اس آیت میں لفظ اللہ پر پیش اور العلماء پر زبر بھی پڑھا ہے، اس صورت میں یخشی کا معنی ڈرنا نہیں ہوگا بلکہ مجاز بالا ستعارہ کے طور پر اس کا معنی ہوگا عظمت والا بنادینا، یعنی اللہ اپنے بندوں میں سے صرف علماء کو عظمت والا بناتا ہے اور وجہ استعارہ یہ ہے کہ جس شخص کی لوگوں پر ہیبت ہوتی ہے اور لوگ اس سے ڈرتے ہیں وہ لوگوں کے درمیان عظمت والا ہوتا ہے تو گویا اللہ نے علماء کو ہیبت والا بنادیا جن سے لوگ ڈریں اور جس کی لوگوں کے نزدیک ہیبت ہوتی ہے اور لوگ اس سے ڈرتے ہیں وہ ان کے نزدیک معظم اور جلیل القدر ہوتا ہے تو اس تقدیر پر معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف علماء کو معظم اور جلیل القدر بناتا ہے۔ (الکشاف ج ٣ ص 620 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1417 ھ)
علامہ ابو عبداللہ قرطبی متوفی 668 ھ قاضی بیضاوی متوفی 685 ھ علامہ ابوالحیان اندلسی متوفی 754 ھ عالمہ اسماعیل حقی متوفی 1137 ھ اور علامہ آلوسی متوفی 1270 ھ نے بھی اس تفسیر کو نقل کیا ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٤ ۃ ص 308 تفسیر البیضاوی مع الخفا جی ج ٧ ص 586 البحر المحیط ج ٩ ص ٣١ روح البیان ج ٧ ص ٤٠٤ روح المعانی جز ٢٢ ص 284)
دراصل ان دونوں قرأتوں کا مآل واحد ہے، کیونکہ اگر اس آیت میں بخشی اللہ میں لفظ اللہ پر زبر پڑھی جائے تو اس کا معنی ہوگا کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء اللہ سے ڈرتے ہیں، اور اللہ سے ڈرنے والے متقی ہیں اور جو اللہ سے ڈرنے والے اور متقی ہیں وہی اللہ کے نزدیک معظم اور مکرم ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
ان اکرمکم عند اللہ اتقتکم (الحرات : ١٣) بیشک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے مکرم وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہو۔
پس اس قرأت کا خلاصہ یہ ہے کہ علماء اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معظم اور مکرم ہیں اور اگر اس آیت میں لفظ اللہ پر پیش اور العلماء پر زبر پڑھی جائے تب بھی اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف علماء کو معظم اور جلیل القدر بناتا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 28
ٹیگز:-
Quran , سورہ الفاطر , امام ابوحنیفہ , ڈرنا , تبیان القرآن , فاطر , عبادت , انما یخشی اللہ من عبادۃ العلماء , اللہ , علماء , توحید , سورہ فاطر , عالم , Tibyan ul Quran , خوف خدا , Allama Ghulam Rasool Saeedi , علماء دین