أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَهُمۡ يَصۡطَرِخُوۡنَ فِيۡهَا ‌ۚ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا نَـعۡمَلۡ صَالِحًـا غَيۡرَ الَّذِىۡ كُـنَّا نَـعۡمَلُؕ اَوَلَمۡ نُعَمِّرۡكُمۡ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيۡهِ مَنۡ تَذَكَّرَ وَجَآءَكُمُ النَّذِيۡرُؕ فَذُوۡقُوۡا فَمَا لِلظّٰلِمِيۡنَ مِنۡ نَّصِيۡرٍ۞

ترجمہ:

اور وہ لوگ دوزخ میں چلائیں گے، اے ہمارے رب ! ہمیں نکال دے، ہم نیک کام کریں گے جو پہلے کاموں کے خلاف ہوں گے، کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں وہ شخص نصیحت قبول کر لیات جو نصیحت قبول کرنا چاہتا ہو، اور تمہارے پاس عذاب سے ڈرانے والا بھی آیا تھا، لو اب مزا چکھو، ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہے

پھر وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہمیں نکال دے ہم نیک کام کریں گے جو پہلے کاموں کے خلاف ہوں گے۔

وہ دنیا میں دوبارہ لوٹائے جانے کا سوال کریں گے، اور اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ اگر ان کو دنیا میں دوبارہ بھیجا گیا تو پھر وہی کام کریں گے جن سے ان کو منع کیا گیا تھا اور وہ جھوٹ بول رہے ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ ان کے سوال کا جواب نہیں دے گا اور فرمائے گا کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی جس عمر میں وہ شخص نصیحت قبول کرلیتا جو نصیحت قبول کرنا چاہتا ہو۔

انسان کو اپنی اصلاح کے لئے کتنی عمر کی ضرورت ہے 

انسان کی ہدیات اور نیکی کو اختیار کرنے اور برائیوں کو ترک کرنے کے لئے کتنیع مر کافی ہے اس مسئلہ میں متعدد اقوال ہیں، ایک قول یہ ہے کہ انسان پر حجت قائم کرنے کے لئے ساٹھ سال کی عمر کافی ہے، اس کی دلیل یہ حدیث ہے :

امام بخاری حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کی موت کو مئوخر کر کے اس کی عمر ساٹھ سال کر ید گئی تو اللہ نے اس پر سب سے زیادہ حجت پوری کردی ( اور اس کے لئے کوئی عذر نہیں چھوڑا۔ ) (صحیح البخاری رقم الحدیث :6419)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا ساٹھ سال کی عمر والے کہاں ہیں یہی وہ عمر ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی جس عمر میں وہ شخص نصیحت قبول کرلیتا جو نصیحت قبول کرنا چاہتا ہو۔ (جامع البیان رقم الحدیث :22205، تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :18005)

اس کا معنی یہ ہے کہ جس شخص کی اللہ تعالیٰ نے عمر ساٹھ سال کردی، اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے کوئی عذر نہیں چھوڑا کیونکہ ساٹھ سال انتہائی عرصہ ہے، اس عمر میں اللہ سے ملاقات کی امید ہونی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے ڈر اور خوف کا غلبہ ہونا چاہیے۔

حضرت ابن عابس (رض) سے چالی سال کی بھی روایت ہے۔

مجاہد کہتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس (رض) کو اس آیت کی تفسیر میں یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، جتنی عمر میں ابن آدم پر اللہ تعالیٰ کی حجت پروری ہوجاتی ہے وہ چالیس سال ہے۔ (جامع البیان رقم الحدیث :22201)

عالمہ قرطبی نے لکھا ہے کہ چلایس سال کی عمر میں انسان کی عقل کامل ہوجاتی ہے اور اس کے بعد اس کی عقل ڈھلنی شروع ہوجاتی ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٤ ص 316، دارالفکر بیروت، 1415 ھ)

یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر تریسٹھ سال تھی اور آپ سے زیادہ کسی کی عقل کامل نہیں تھی بلکہ آپ کی عقل سب سے کامل تھی، کتنے صحابہ، فقہاء تابعین، ائمہ مجتہدین اور علماء دین ساٹھ، ستر اور اسی سال کی عمر پا کر مرحوم ہوئے اور آخر وقت تک ان کی عقل کامل رہی۔ راقم الحروف کی عمر 10 رمضان 1423 ھ کو سرسٹھ سال کی ہوچکی ہے اور الحمد اللہ ابھی تک عقل میں کوئی کمی نہیں آئی جس پر میری تازہ بہ تازہ تصنیفات شاہد عادل ہیں، امام مالک نے کہا ہمارے شہروں میں لوگ دنیاداری میں مصروف رہتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں اور جب ان کی عمر چالیس سال کو پہنچ جاتی ہے تو وہ دنیاداری اور لوگوں کے ساتھ میل جول کو ترک کردیتے ہیں اور اپنی آخرت سنوارنے میں مشغول ہوجاتے ہیں حتیٰ کہ انہیں موت آجاتی ہے۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت کی عمریں ساٹھ سے ستر سال کے درمیان ہوں گی اور بہت کم اس سے متجاوز ہوں گے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :3550 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4236، صحیح ابن حبان رقم الحدیث :2980، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث :5990 المستدرک ج ٢ ص 427 السنن الکبری للبیہقی ج و ص 370)

نذیر کے محامل 

نیز فرمایا : اور تمہارے پاس عذاب سے ڈرانے والا بھی آیا تھا۔

اس کی تفسیر میں اختلاف ہے، زید بن علی اور ابن زید نے کہ کا اس سے مراد رسول ہے، حضرت ابن عباس اور عکرمہ وغیرہ نے کہا اس سے مراد بڑھاپا ہے، ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد اہل اور اقارب کی موت ہے، ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد کمال عقل ہے۔

جب انسان پر بڑھاپا طاری ہوتا ہے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ اب کھیل کود کی عمر گزر گئی ہے اور جب اس کے اصحاب اور اقارب گزر جاتے ہیں تو وہ سوچتا ہے کہ اب اس کی کوچ کا وقت بھی آپہنچا ہے اور جب اس کی عقل کامل ہوجاتی ہے تو وہ حقائق امور میں غور و فکر کرتا ہے اور نیک کاموں اور برے کاموں میں فرق کرنے لگتا ہے پس عقل والا آخرت والا آخرت کے لئے عمل کرتا ہے اور اس کے پاس جو اجر ہے اس کے حصول کی کوشش کرتا ہے اور اخروی عذاب سے بچنے کی فکر کرتا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 37