أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَجَعَلۡنَا مِنۡۢ بَيۡنِ اَيۡدِيۡهِمۡ سَدًّا وَّمِنۡ خَلۡفِهِمۡ سَدًّا فَاَغۡشَيۡنٰهُمۡ فَهُمۡ لَا يُبۡصِرُوۡنَ ۞

ترجمہ:

ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کردی اور ایک دیوار ان کے پیچھے کھڑی کردی، سو ہم نے ان کو ڈھانپ دیا پس وہ (کچھ) نہیں دیکھتے

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سورة یٰسین پڑھتے ہوئے کفار کے نرغے سے نکل جانا 

امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں حضرت ابن عباس (رض) سے یٰسین : ٩ کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ ہم نے کفار قریش کی آنکھوں پر ایک پردہ ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے وہ ایذاء پہنچانے کے لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں دیکھ پاتے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ بنو مخزوم کے کچھ لوگوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کی سازش کی، جن میں ابوجہل اور ولید بن مغیرہ بھی تھے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑھ رہے تھے اور وہ آپ کی قرأت سن رہے تھے، انہوں نے آپ کو قتل کرنے کے لئے ولید بن مغیرہ کو بھجیا وہ اس جگہ جہاں آپ نماز پڑھ رہے تھے، وہ آپ کی قرأت سن رہا تھا لیکن اس کو آپ نظر نہیں آئے اس نے واپس جا کر ان کو بتایا، وہ سب اس جگہ پہنچے جہاں آپ نماز پڑھ رہے تھے، انہوں نے اپنے سامنے دیکھا اور اپنے پیچھے دیکھا لیکن آپ ان کو سامنے نظر آئے نہ پیچھے نظر آئے اور یہ اس آیت کا معنی ہے : ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کردی اور ایک دیوار ان کی پیچھے کھڑی کردی، سو ہم نے ان کو ڈھانپ دیا پس وہ کچھ نہیں دیکھ سکتے 

امام ابن اسحاق، امام ابن المنذر، امام ابن ابی حاتم اور امام ابو نعیم نے دلائل النبوۃ میں محمد بن کعب القرظی سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کے دروازے پر قریش جمع ہوگئے اور ان میں ابوجہل بھی تھا، انہوں نے کہا (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کہتے ہیں کہ اگر تم نے ان کا کہنا مان لیا تو عرب اور عجم کے سردار بن جائو گے اور یہ کہ تم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جائو گے پھر تم کو دوزخ کی آگ میں جلایا جائے گا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاک کی ایک مٹھی لے کر نکلے، آپ نے فرمایا ہاں میں کہتا ہوں اور تم بھی ان دوزخیوں میں سے ایک ہو اور اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا سو وہ آپ کو دیکھ نہ سکے، پھر آپ نے وہ خاک کی مٹھی لے کر ان کے سروں پر ڈال دی اور اس وقت آپنے یٰسین والقرآن الحکیم سے لے کر فاغشینھم فھم لایبصرن تک نو آیتیں پڑھیں، حتیٰ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان آیات کے پڑھنے سے فارغ ہوگئے اور ہر شخص کے سر میں وہ مٹی پہنچ گئی، ان میں سے جو شخص بھی اپنے سر پر ہاتھ رکھتا اس کے سر میں وہ مٹی ہوتی، بالآخر انہوں نے کہا وہ ہم سے سچ کہتے تھے۔

امام ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کے دروازے پر قریش جمع ہوگئے وہ اس انتظار میں تھے کہ آپ گھر سے ابہر نکلیں تو وہ آپ کو ایذاء پہنچائیں، آپ پر یہ امر گراں گزرا تو حضرت جبریل سورة یٰسین لے کر آپ کے پاس آئے اور آپ سے کہا کہ آپ ان کے سامنے سے نکل جائیں، آپ نے ایک ہاتھ میں خاک کی مٹھی لی اور سورة یٰسین کی تلاوت کرتے ہوئے ان کے سامنے سے نکلے اور ان کے سروں کے اوپر خاک ڈالتے ہوئے گزرے، آپ ان کے سامنے سے گزر گئے اور وہ آپ کو نہ دیکھ سکے، ان میں سے جو شخص بھی اپنے سر پر ہاتھ لگاتا تو اس کے سر میں مٹی ہوتی، پھر ان کے پاس باہر سے کوئی شخص آیا اور ان سے پوچھا تم یہاں کیوں بیٹھے ہو ؟ انہوں نے کہا ہم (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتظار کر رہے ہیں، اس نے کہا میں نے تو ان کو مسجد میں داخل ہتے ہوئے دیکھا ہے، پھر انہوں نے کہا چلو اٹھو وہ تم پر جادو کر کے نکل گئے۔

امام عبدبن حمید نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ قریش نے جمع ہو کر عتبہ بن ربیعہ کو بلای اور کہا تم اس شخص کے پاس جائو اور اس سے کہو کہ تمہاری قوم کہتی ہے کہ بیشک آپ بہت عظیم دین لے کر آئے ہیں، جس دین پر ہمارے باپ دادا نہیں تھے، اور ہمارے دانشور لوگ اس دین میں آپ کی اتباع نہیں کر رہے اور آپ نے ضرور کسی ضرورت کی بناء پر اس دین کی پیروی کی دعوت دی ہے، پس اگر آپ کو مال چاہیے تو آپ کی قوم مال جمع کر کے آپ کو پیش کردیتی ہے، سو آپ اس دین کو چھڑ دیں اور اسی دین پر عمل کریں جس دین پر آپ کے باپ دادا عمل کرتے تھے، پھر عتبہ آپ کے پاس پہنچا اور جس طرح انہوں نے بتایا تھا اسی طرح اس نے آپ سے کہا، جب وہ اپنا پیغام پہنچا کر خاموش ہوگیا تو آپ نے حم السجدۃ کی تیرہ آیتیں پڑھیں وہ آیتیں یہ ہیں :

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم (اللہ ہی کے نام سے (شروع کرتا ہوں) جو نہایت رحم فرمانے والا بہت مہربان ہے 

(حم السجدہ :1-13) حامیم، نہایت رحم فرمانے والے مہربان کی طرف سے نازل کی ہوئی کتاب جسکی آیتوں کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، قرآن عربی زبان میں اس قوم کے لئے ہے جو جانتی ہے یہ (قرآن) نیک لوگوں کو بشارت دینے والا ہے اور بدکاروں کو عذاب سے ڈرانے والا ہے، اکثر لوگوں نے اعراض کیا وہ غور سے نہیں سنتے انہوں نے کہا تم جس دین کی طرف ہمیں دعوت دے رے ہو ہمارے دلوں پر اس سے پردے ہیں اور ہمارے کانوں میں گرانی ہے اور ہمارے اور آپ کے درمیان حجاب ہے، سو آپ اپنا کام کریں بیشک ہم اپنا کام کر رہے ہیں آپ کہیے کہ میں تصرف تمہاری مثل بشر ہوں میری طرف یہ وحی کی جاتی ہے کہ تمہاری عبادت کا مستحق صرف ایک ہی معبود ہے، سو اسی (کی عبادت) پر جمے رہو اور اس سے مغفرت طلب کرو اور مشرکین کے لئے عذاب ہے جو اپنے مال میں سے ضرورت مندوں پر خرچ نہیں کرتے اور وہی آخرت کا انکار کرنے والے ہیں بیشک جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ان کے لئے دائمی اجر ہے آپ ان سے پوچھیے کیا تم اس ذات کا کفر کر رہے ہو جس نے دو دنوں میں زمین کو پیدا کیا اور تم اس کے شریک قرار دے رے ہو، وہی رب العلمین ہے اور اس نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ رکھ دیئے اور اس میں برکت رکھی اور چار دنوں میں اس کی تمام پیداوار کا نظام بنایا، سو سوال کرنے والوں کے لئے یہ مکمل جواب ہے پھر آسمان کی طرف قصد کیا وہ اس وقت دھواں سا تھا، پس اس نے آسمان اور زمین سے فرمایا تم دونوں خشوی سے یا ناخوشی سے آئو، انہوں نے کہا ہم خوشی سے آنے والے ہیں سو اس نے دو دنوں میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان میں اس کے مناسب احکام کو نافذ کیا اور آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان میں اس کے مناسب احکام کو نافذ کیا اور آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین کیا اور (شیطان سے) محفوظ کردیا یہ بہت غالب اور بےحد جاننے والے کا نظام ہے پس اگر وہ اعراض کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں نے تم کو ایک ایسے کڑک والے عذاب سے ڈرایا ہے جیسا کڑک والا عذاب عاد اور ثمود پر آیا تھا۔

ان آیات کو سن کر عتبہ اپنے کفار ساتھیوں کے پاس گیا اور کہا انہوں نے میرے ساتھ ایسے کلام کے ساتھ خطاب کیا ہے، جو نہ شعر ہے نہ سحر ہے، وہ بہت عجیب کلام ہے، وہ لوگوں کے کلام کی طرح نہیں ہے، اس کے ساتھی اس پر غضب ناک ہوئے اور کہا ان کے پاس ہم سب مل کر جاتے ہیں، جب انہوں نے یہ ارادہ کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خد ان کے پاس تشریف لے آئے، آپ نے ان کا قصد کیا اور ان کے سروں کے پاس آ کر کھڑے ہوگئے، اور آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر یٰسین کی ابتدائی نو آیتیں پڑھیں، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کو ان کی گردنوں پر باندھ دیا اور ان کے سامنے اور ان کے پیچھے ایک دیوار کھڑی کردی، آپ نے ایک خاک کی مٹھی اٹھا کر ان کے سروں پر ڈالی اور ان کے پاس سے چلے گئے اور وہ نہ جان سکے کہ ان کے ساتھ کیا ہوگیا، ان کو بعد میں بہت تعجب ہوا اور کہا ہم نے ان سے بڑھ کر کوئی جادوگر نہیں دیکھا، بھلا دیکھو تو سہی وہ ہمارے ساتھ کیا کر گئے ہیں (الدرالمنثور ج ٧ ص 40-41، داراحیاء التراث العربی بیروت 1421 ھ)

ان احادیث میں مسلمانوں کے لئے یہ رہنمائی ہے کہ جب کبھی ان کے گرد کفار کا گھیرا تنگ ہوجائے اور انہیں بہ ظاہر نجات کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو پھر ان کے نرغے سے نکلنے کی صرف یہی صورت ہے کہ وہ قرآن کا دامن تھام لیں، آج کل مسلمان ممالک ہر طرف سے کفار کے دبائو میں ہیں چیچنیا کے مسلمانوں کو روس نے اپنے مظالم کا شکار بنا رکھا ہے، افغانستان اور عراق امریکا کے استبداد کا نشانہ میں فلسطین کے مسلمان اسرائیل کے تشدد تلے پس رہے ہیں، کشمیر کے مسلمان بھارت کے نرغے میں ہیں، بوسنیا کے مسلمان، سربوں کے ہاتھوں تنگ ہیں، غرض ہر جگہ مسلمان کافروں کے ظلم وستم کا نشانہ بن رہے ہیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اسلام سے رشتہ توڑ کر کفر سے ناطہ جوڑ لیا ہے، ہم فسق و فجور کی دلدل میں غرق ہو رہے ہیں، فرئاض اور واجبات کے تارک ہیں، قرآن کی تعلیم اور اس کا نظام ہمیں قصہ پارینہ اور فرسودہ دکھائی دیتا ہے، مغربی تہذیب اور نت نئے فیشنوں کو اپنانے کے شوق میں ہم اسلامی اقدار سے بہت دور نکل آئے، اب ہمیں اسلامی حدود و تعزیرات، وحشیانہ سزائیں معلوم ہوتی ہیں اور عبادات کو ہم بوجھ سمجھنے لگے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم مثالی مسلمان تو کیا بنتے قابل ذکر انسان بھی نہ بن سکے۔

سامنے اور پیچھے دیوار کھڑی کرنے کے محامل 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کردی اور ایک دیوان ان کے پیچھے کھڑی کردی سو ہم نے ان کو ڈھانپ دیا پس وہ کچھ نہیں دیکھتے (یٰسین : ٩) 

اس میں یہ بتایا ہے کہ کافروں کی گردنوں میں طوق ڈال کر ان کے ہاتھوں کو ان کی ٹھوڑی کے ساتھ باندھا ہوا ہے جس سے ان کا سر اوپر اٹھا ہوا ہے اور انہیں کچھ نظر نہیں آتا، پر ان کے سامنے بھی دیواریں ہیں اور پیچھے بھی دیواریں ہیں تو وہ راستہ نہیں دیکھ سکتے، اللہ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے وہ اپنی عقل سے کام لے کر مظاہر فطرت میں غور کرتے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کرتے، وہ اس کائنات میں پھیلے ہوئے توحید کے دلائل میں غور کر کے ہدایت حاصل کرتے یا خود ان کے نفس میں جو نشانیاں ہیں ان میں غور کرتے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

(حم السجدۃ : ٣٥) ہم ان کو اپنی نشانیاں عنقریب آفاق میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کے اپنے اندر بھی حتیٰ کہ ان پر منکشاف ہوجائے گا کہ وہی حق ہے۔

سو انہوں نے باہر کی دنیا سے ہدایت حاصل کی نہ اپنے اندر سے، ان کے آگے بھی عناد اور جہالت کی دیوار ہے اور ان کے پیچھے بھی تکبر اور سرکشی کی دیوار ہے سو ہر طرف سے اللہ تعالیٰ کے قہر اور اس کی سزا نے ان کو ڈھانپ لیا ہے۔

اس جگہ ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اس آیت میں یہ ذکر فرمایا ہے کہ ان کے سامنے بھی دیوار ہے اور ان کے پیچھے بھی دیوار ہے، سو وہ کچھ نہیں دیکھتے جو انسان کسی راستہ پر جا رہا ہو تو اس کے سامنے جو دیوار ہو وہ تو اس کو راستہ پر چلنے سے مزاحم اور رکاوٹ ہوتی ہے، لیکن جو دیوار اور اس کے پیچھے وہ ہو وہ تو اس کے لنے کے لئے کسی طرح رکاوٹ نہیں ہوتی، اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کے لئے ایک ہدایت فطریہ ہے اور ایک ہدایت نظریہ ہے، ہدایت نظر یہ سے مراد ہے کائنات میں غور و فکر کر کے ہدایت حاصل کرنا اور ہدایت فطریہ سے مراد ہے جبلی اور پیدائشی ہدایت، جیسے فرمایا ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اس فطری ہدایت کو کافر اپنے آباو اجداد کی تقلید میں ضائع کرچکا ہے اور کائنات میں غور و فکر کر کے اس نے ہدایت نظریہ کو حاصل نہیں کیا، سامنے کی دیوار سے مراد ہدایت نظریہ کو حاصل نہ کرنا ہے اور پیچھے کی دیوار سے مراد ہدایت فطریہ کو ضائع کرنا ہے۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ دنیا انسان کے سامنے ہے اور آخرت پیچھے ہے انسان کو چاہیے کہ وہ دنیا کی صلاح کے لئے بھی اللہ کو یاد رکھے اور آخرت کی فلاح کے لئے بھی اللہ کو یاد رکھے، اور کافر دنیا کی صلاح کی فکر کرتا ہے نہ آخرت کی فلاح کی تیاری کرتا ہے اس لئے فرمایا اس کے سامنے بھی اس کے ضد اور عناد کی دیوار ہے اور اس کے پیچھے بھی اس کی غفلت اور جہالت اور انکار اور کفر کی دیوار ہے۔

تیسرا جواب یہ ہے کہ جو انسان کسی راستہ پر جا رہا ہو اور اسے آگے جانے کے لئے راستہ نہ ملے تو وہ پھر پیچھے لوٹ آتا ہے اور اگر پیچھے بھی راستہ نہ ملے تو پھر وہ اسی جگہ کھڑا رہ جاتا ہے، منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے نہ اپنے مقر اور ٹھکانے تک لوٹ سکتا ہے اور یوں وہ ناکام و نامراد رہ جاتا ہے، سو یہ جو فرمایا ہے کہ اس کے آگے بھی دیوارے اور اس کے پیچھے بھی دیوار ہے یہ دراصل اس کی ناکامی اور نامراد کی طرف اشارہ ہے۔

اس سے پہلے فرمایا تھا کہ وہ مقمحون ہیں یعنی ان کے سر اوپر اٹھے ہوئے ہیں، گویا وہ نیچے نہیں دیکھ سکتے اور ان کے اپنے نفسوں میں جو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی نشانیاں رکھی ہیں ان پر غور کر کے ان سے ہدایت حاصل نہیں کرسکتے، اب فرمایا ان کے آگے اور پیچھے دیوار ہے اور ہم نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے گویا اب وہ آفاق اور اس خارجی کائنات سے بھی ہدایت حاصل نہیں کرسکتے، سوآفاق اور انفس سے ہدایت کی یہ دونوں راہیں ان پر بندی کردی گئی ہیں اور ان کے مقدر میں سوا کفر اور گمراہی کے اور کچھ نہیں ہے۔

اس جگہ یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے خود ہی ان پر ہدایت کے تمام راستے بند کردیئے ہیں تو پھر ان کی مذمت کیوں کی جا ری ہے اور پھر کس جرم کی بناء پر آخرت میں ان کو سزا دی جائے گی، کیونکہ جب اللہ کے رسول نے ان کو دنیا کی صلاح اور آخرت کی فلاح کے لئے ایمان لانے اور اعمال صالح کی دعوت دی تو انہوں نے آپ کا مذاق اڑایا، آپ کو ایذائیں پہنچائیں اور آپ کو قتل کرنے کی سازشیں کیں اور آپ کو وطن چھوڑنے پر مجبور کیا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے، آگے اور پیچھے ان کی ہدایت کے دروازے بند کردیئے کہ بالفرض اب یہ ایمان لانا بھی چاہیں تو ان کو ایمان لانے نہیں دیا جائے گا یہ ان پر جبر نہیں ہے بلکہ یہ سزا ہے ان کے کفر اور عناد کی اور ان کے تکبر اور ان کی سرکشی کی جیسا کہ ہم اس سے پہلے بھی کئی بار بیان کرچکے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 9