وَجَآءَ مِنۡ اَقۡصَا الۡمَدِيۡنَةِ رَجُلٌ يَّسۡعٰى قَالَ يٰقَوۡمِ اتَّبِعُوا الۡمُرۡسَلِيۡنَۙ ۞- سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 20
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَجَآءَ مِنۡ اَقۡصَا الۡمَدِيۡنَةِ رَجُلٌ يَّسۡعٰى قَالَ يٰقَوۡمِ اتَّبِعُوا الۡمُرۡسَلِيۡنَۙ ۞
ترجمہ:
اور شہر کے آخری کنارے سے ایک مرد دوڑتا ہوا آیا اور اس نے کہا اے میری قوم تم رسولوں کی پیروی کرو
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور شہر کے آخری کنارے سے ایک مرد دوڑتا ہوا آیا اور اس نے کہا اے میری قوم تم رسولوں کی پیروی کرو تم ان کی پیروی کرو جو تم سے کسی اجر کا سوال نہیں کرتے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں (یٰسین :20-21)
صاحب یٰسین (حبیب النجار) کا تذکرہ
امام ابن اسحاق نے حضرت ابن عباس (رض) کعب احبار اور وہب بن منبہ سے روایت کیا ہے کہ بیشک اس بستی کے لوگوں نے ان رسولوں کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو رسولوں کی مدد کرنے کے لئے اس شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا، مفسرین نے کہا ہے کہ اس شخص کا نام حبیب تھا وہ ریشم کا کام کرتا تھا اور اس کو جذام کی بیماری تھی، وہ شخص بہت نیک خصلت تھا اور بہت صدقہ اور خیرات کرتا تھا وہ اپنی کمائی میں سے نصف اللہ کی راہ میں خرچ کردیتا تھا، امام ابن ابی اسحاق نے ایک اور سند کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ صاحب یٰسین کا نام حبیب تھا اور اس کو جذام کی بیماری تھی، ثوری نے ابومجلز سے روایت کیا ہے کہ صاحب یٰسین کا نام حبیب بن مری تھا، او عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ صاحب یٰسین کا نام حبیب نجار تھا اس کو اس کی قوم نے قتل کردیا تھا، السدی نے کہا وہ دھوبی تھے، عمر بن الحکم نے کہا وہ موچی تھے، قتادہ نے کہا وہ ایک غار میں عبادت کرتے تھے۔
انہوں نے اپنی قوم کو ان رسولوں کی اتباع کرنے پر برانگیختہ کیا اور کہا جو تم کو محض اخلاص سے اللہ کی عبادت کی ترغیب دے رہے ہیں اور اس پر کوئی معاوضہ طلب نہیں کر رہے ان کی اتباع کرو۔ (تفسیر ابن کثیر ج ص 621-622 ملحضاً دارالفکر بیروت، 1419 ھ)
علامہ سید محمود آلوسی متوفی 1270 ھ لکھتے ہیں :
حضرت ابن عباس (رض) ابومجزل، کعب احبار، مجاہد اور مقاتل سے مروی ہے اس شخص کا نام حبیب بن اسرائیل تھا، ایک قول یہ ہے کہ اس کا نام حبیب بن مری تھا، مشہور یہ ہے کہ یہ نجار (بڑھئی) تھا، ایک قول یہ ہے کہ یہ کسان تھا، ایک قول ہے کہ یہ دھبوی تھا، ایک قول یہ ہے کہ یہ موچی تھا ایک قول یہ ہے کہ یہ بت تراش تھا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ تمام پیشوں اور تمام صفات کا جامع ہو، بعض نے ذکر کیا ہے کہ وہ ایک غار میں رہتا تھا اور مومن تھا اور وہاں اللہ عزوجل کی عبادت کرتا تھا، جب اس نے یہ سنا کہ اس کی قوم رسولوں کی تکذیب کر رہی ہے تو یہ اپنی قوم کو نصیحت کرنے کی حرص میں دوڑتا ہوا آیا اور ایک قول یہ ہے کہ اس نے سنا کہ اس کی قوم رسولوں کو قتل کرنے کا عزم کرچکی ہے تو یہ ان رسولوں کو بچانے کے لئے دوڑتا ہوا آیا اور اس کا کسی غار میں رہنا شہر کے آخری کنارے سے آنے کے منافی نہیں ہے اس لئے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ غار بھی شہر کے آخری کونے میں ہو، البتہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شخص مومن تھا اور یہ اس قول کے منافی ہے کہ وہ بت تراشتا تھا اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ وہ بت اور مجسمے تراش کر بناتا تھا اور اس لئے نہیں بناتا تھا کہ ان کی عبادت کی جائے، اور یہ ان کی شریعت میں جائز اور مباح تھا، اور اس کے مومن ہونے کا قول ابن ابی لیلیٰ کے اس قول کی تائید میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث پیش کی ہے۔ (البحر المحیط ج ٩ ص ٥٥ )
میں کہتا ہوں علامہ زمخشری نے اس حدیث کو الکشاف ج ٤ ص 12 پر ذکر کیا ہے، یہ حدیث المعجم الکبیر رقم الحدیث :11152 میں ہے اور العقیلی کی کتاب الضعفاء ج ١ ص 249 میں ہے، یہ حدیث حضرت ابن عباس سے مروی ہے اور اس کی سند کا مدار حسین بن حسن الاشقر اور الحسین بن ابی اسری پر ہے، اور یہ سند بہت ضعیف ہے، الحسین بن حسن الاشقر کو امام بخاری اور امام ابو حاتم نے ضعییف قرار دیا ہے امام ابوزرعہ نے کہا یہ منکر الحدیث ہے، امام ابن عدی نے اس کی منکر روایات کا ذکر کیا ہے، ابو معمر الہذلی نے اس کو کذاب کہا ہے، ابن کثیر نے کہا یہ شیعی متروک ہے۔ (تخریج الکشاف)
علاوہ ازیں حضرت علی (رض) کے متعلق مطلقاً یہ کہنا درست نہیں ہے کہ وہ سب سے پہلے ایمان لائے تھے، سب سے پہلے جو مطلقاً ایمان لائیں وہ حضرت خدیجہ کبریٰ (رض) ہیں، ورقہ بن نوفل ہیں اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) ہیں، ہاں بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی ایمان لائے اور غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ (رض) ایمان لائے۔
بہرحال اب ہم پھر علامہ آلوسی کی عبارت نقل کر رہے ہیں وہ لکھتے ہیں : ایک قول یہ ہے کہ صاحب یٰسین کو جذام کی بیماری تھی ان کے گھر شہر کے آخری دروازے میں تھا، انہوں نے ستر سال بتوں کی عبادت کی اور انسے جذام کی بیماری سے نجات کے لئے دعا کرتے رہے اور ان کو اس بیماری سے نجات نہیں مل سکی، جب ان کو رسولوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دی تو انہوں نے پوچھا کیا اس کی کوئی نشانی ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ہم اپنے رب سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ تمہاری اس بیماری کو تم سے دور کر دے، انہوں نے کہا یہ بڑی حیرت کی بات ہوگی میں ستر سال سے ان بوتوں کے سامنے دعا کر رہا ہوں اور یہ بت مجھ سے اس بیماری کو ور نہیں کرسکے، تو تمہارا رب صرف ایک دن دعا کرنے سے اس بیماری کو یک سے دور کر دے گا ان رسولوں نے کہا ہمارا رب جو چاہے اس کو کرنے پر قادر ہے اور یہ بت کسی کو کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں، یہ سن کر صاحب یٰسین ایمان لے آئے اور رسولوں نے اپنے رب سبحانہ سے اس کے لئے صحت کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس سے جذام اور کوڑھ کی بیماری کو اس طرح دور کردیا کہ گویا اس کو کبھی کوڑھ تھا ہی نہیں، پھر وہ محنت مزدوری کرنے لگا اور محنت مزدوری کر کے جتنا کماتا تھا اس میں سے آدھا شام کے وقت ضرورت مندوں کو دے دیتا تھا اور بقیہ نصف اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے رکھ لیتا تھا، جب اس کی قوم نے رسولوں کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو وہ شہر کے آخری کنارے سے دوڑتا ہوا آیا اور اس روایت کی بناء پر اس کے مسجمے اور مورتیاں بنانے پر کوئی اشکال نہیں ہے اور اس کے بعد اس سے پہلے بعید جواب کی ضرورت بھی نہیں رہے گی، ہاں اس روایت میں اور اس حدیث میں منافات ہوگی جس میں یہ مذکور ہے کہ صاحب یٰسین ان تین میں سے ایک ہے جو اپنے نبی پر سب سے پہلے ایمان لائے اور انہوں نے ایک لحظہ بھی کفر نہیں کیا، البتہ یہ ان لوگوں میں سے تھے جو ان رسولوں پر ایمان لائے تھے، ہاں البتہ اس حدیث کی توجیہ میں یہ کہا جائے گا کہ جب ان کو ایمان لانے کی رسولوں نے دعوت دی تو پھر انہوں نے بالکل تاخیر نہیں کی اور اس کے بعد ایک لحظہ بھی کفر پر قائم نہیں رہے، اور میری نظر میں راجح یہ ہے کہ وہ قوم کے پاس آنے اور ان کو نصیحت کرنے سے پہلے ہی رسولوں پر ایمان لایا ہوا تھا اور رسولوں کے مبعوث ہونے سے پہلے وہ مومن تھا یا نہیں تھا اس پر مجھے جزم نہیں ہے اور اس مسئلہ میں روایات متعارض ہیں۔
علاوہ ازیں میرے نزدیک ان میں سے کوئی روایت بھی صحیح نہیں ہے۔
اس شخص یعنی صاحب یٰسین نے کہا اے میرے قوم تم رسولوں کی پیروی کرو، تم ان کی پیروی کرو جو تم سے کسی اجر کا سوال نہیں کرتے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں۔
ان کو دنیا اور آخرت کی ہدایت حاصل ہے، روایت ہے کہ جب اس شخص کو رسولوں کی دعوت پہنچی تو وہ دوڑتا ہوا آیا اس نے ان کا کلام سنا اور سمجھا پھر ان سے پوچھا کہ آپ جو دعوت دے رہے ہیں آیا آپ اس کا کوئی معاوضہ بھی لیتے ہیں، رسولوں نے کہا نہیں، پھر اس نے اپنی قوم سے کہا تم ان رسولوں پر ایمان لائو، یہ اپنی اس دعوت کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے۔ (روح المعانی جز ٢٢ ص 338، دارالفکر بیروت، 1419 ھ)
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی 68 ھ نے صاحب یٰسین کے متعلق لکھا ہے کہ یہ شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے چھ سو سال پہلے آپ پر ایمان لے آیا تھا جیسا کہ تبع الاکبر اور ورقہ بن نوفل وغیرہ ھما آپ پر پہلے ایمان لے آئے تھے اور آپ کے علاوہ دوسرے نبیوں پر لوگ اسی وقت ایمان لائے جب ان کی نبوت کا ظہور ہوا۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٥ ص 19 دارالفکر بیروت، 1415 ھ)
اولیاء اللہ کے مزارات کی زیارت کے لئے دور دور سے آنا قدیم کا دستور ہے
پیر محمد کرم شاہ الازہری نے لکھا ہے :
علامہ قزوینی تحریر فرماتے ہیں کہ جب اہل انطاکیہ نے اسے شہید کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کردیا (الی قولہ) انطاکیہ کے بازار میں ایک مسجد ہے اس مسجد کو مسجد حبیب کہا جاتا ہے اس کے صحن میں ان کا مزار پر انوار ہے لوگ اس کی زیارت کے لئے جایا کرتے ہیں۔ (آثار البلاد اخبار العباد اللقزوینی ص 151، مطبوعہ بیروت) (ضیاء القرآن ج ٤ ص 176، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور، 1399 ھ)
علامہ یاقوت بن عبداللہ حموی متوفی 626 ھ لکھتے ہیں :
انطاکیہ میں حبیب نجار کی قبر ہے دور و نزدیک سے لوگ اس کی زیارت کے لئے آتے ہیں۔ (معجم البلدان ج ١ ص 269، داراحیاء التراث العربی بیروت، 1399 ھ)
مفتی محمد شفیع مت وفی 1396 ھ لکھتے ہیں :
یاقوت حموی نے یہ بھی لکھا ہے کہ حبیب نجار کی قبر انطاکیہ میں معروف ہے، دور دور سے لوگ اس کی زیارت کے لئے آتے ہیں۔ (معارف القرآن ج ٧ ص 372، مطبوعہ ادارہ معارف القرآن کراچی، 1397 ھ)
ان حوالوں سے معلوم ہوا کہ صالحین اور اولیاء اللہ کی قبروں کی زیارت کے لئے دور دور سے جانا، زمانہ قدیم سے معمول چلا آرہا ہے اور یہ اس زمانہ کی بدعت نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں میں اس کا ہمیشہ سے چلن اور رواج رہا ہے۔
سید ابو الاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں :
موجودہ شہر مکلا سے تقریباً 152 میل کے فاصلہ پر شمال کی جانب میں حضرموت میں ایک مقام ہے جہاں لوگوں نے حضرت ھود کا مزار بنا رکھا ہے اور وہ قبر ھود کے نام سے ہی مشہور ہے، ہر سال پندرہ شعبان کو وہاں عرس ہوتا ہے اور عرب کے مختلف حصوں سے ہزاروں آدمی وہاں جمع ہوتے ہیں۔ (تفہیم القرآن ج ٤ ص 615، لاہور، 1983 گ)
کیا اب بھی یہ کہا جائے گا کہ انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام کا عرس منانا بریلویوں کی بدعت ہے !
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 20
[…] تفسیر […]