وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ ۙ قَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنُطۡعِمُ مَنۡ لَّوۡ يَشَآءُ اللّٰهُ اَطۡعَمَهٗٓ ۖ اِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ ۞- سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 47
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ ۙ قَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنُطۡعِمُ مَنۡ لَّوۡ يَشَآءُ اللّٰهُ اَطۡعَمَهٗٓ ۖ اِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ ۞
ترجمہ:
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ان چیزوں میں سے بعض کو خرچ کرو جو اللہ نے تمہیں دی ہیں تو کفار ایمان والوں سے کہتے ہیں کیا ہم اس کو کھلائیں جس کو اگر اللہ کھلانا چاہتا تو کھلا دیتا ‘ تم تو صرف کھلی ہوئی گم راہی میں ہو
خرچ کرنے کی ترغیب میں عقلی وجوہات
پھر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا تھا کہ ان چیزوں میں سے بعض کو خرچ کرو جو اللہ نے تمہیں دی ہیں۔ اس حکم میں یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں غریبوں پر اپنی سب چیزیں خرچ کرنے کا حکم نہیں دیا ہے ‘ پھر تمہارے لئے اس حکم پر عمل کرنے میں کیا دشواری ہے۔ مشکل تو تب ہوتی جب تمہیں اپنا سارا مال ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کا حکم دیا جاتا۔ اگر تم چالیس چیزوں میں سے ایک چیز اللہ کی راہ میں خرچ کردو تو تم کو کیا فرق پڑے گا۔
دوسرا نکتہ اس میں یہ ہے کہ تمہیں اللہ کی دی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے۔ تمہاری اپنی چیزوں میں سے کوئی چیز خرچ کرنے کا تمہیں حکم نہیں دیا ‘ جو شخص اپنی چیز میں سے خرچ نہ کرے وہ بخیل ہوتا ہے تو وہ شخص دوسرے کی دی ہوئی چیز میں سے خرچ کرنے سے بھی بخل کرتا ہو۔ اس کے بخل کا کون اندازہ کرسکتا ہے ! پھر یہ بھی تو سوچو کہ تمہاری کوئی اپنی چیز ہے بھی ! جب تم دنیا میں آئے تو کیا لے کر آئے تھے ‘ تمہارے بدن پر تو کپڑے کا ایک تار بھی نہ تھا۔ اب جو کچھ تمہارے پاس ہے ‘ وہ سب اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اپنے دیئے میں سے سب نہیں صرف بعض مانگ رہا ہے تو اس بعض کو دینے میں کیوں تنگ ہوتے ہو اور کیوں بخل کررہے ہو !
اور اس میں تیرا نکتہ یہ ہے کہ تم یہ نہ سوچو کہ اگر تم اپنے مال میں سے ضرورت مندوں کو دو گے تو تمہارا مال کم ہوجائے گا۔ نہیں ‘ جب تم اللہ کی راہ میں دوسرے ضرورت مندوں کو دو گے تو اللہ تمہاری ضروریات کو پورا کردے گا۔ اس سلسلہ میں حسب ذیل احادیث ہیں :
خرچ کی فضیلت اور بخل کی مذمت میں احادیث
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ ہر روز جب بندے صبح کو اٹھتے ہیں تو فرشتے نازل ہو کر دعا کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک فرشتہ کہتا ہے : اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو خرچ شدہ چیز کا بدل عطا فرما اور دوسرا فرشتہ کہتا ہے اے اللہ بخیل نے جو مال بچا کر رکھا ہے اس کو ضائع کردے۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٤٤١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث ٠٢٠٢‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث ٨٧١٩)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ بخیل اور خرچ کرنے والے کی مثال ان دو شخصوں کی طرح ہے جن کے بدن پر سینہ سے ہنسلی تک لوہنے کا جبہ ہو ‘ خرچ کرنے والا جب بھی خرچ کرتا ہے تو وہ جبہ کھل کر پھیل جاتا ہے ‘ حتیٰ کہ وہ اس کی انگلیوں کے پوروں کو چھپا لیتا ہے اور اس کے قدموں کے نشانوں کو مٹا دیتا ہے اور بخیل جب کسی چیز کو خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس جبہ کا ہر حلقہ اپنی جگہ چمٹ جاتا ہے۔ بخیل اس کو کھولنا اور کشادہ کرنا چاہتا ہے لیکن وہ کشادہ نہیں ہوتا۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٤٤١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث ١٢٠١‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٧٤٥٢‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٥٤٠٩‘ عالم الکتب)
اس حدیث میں خرچ کرنے والے اور بخیل کی مثال لوہے کے جبہ یعنی زرہ کی کشادگی اور تنگی اور خرچ کرنے والے کی زرہ کی لمبائی اور چوڑائی اور ہاتھوں کی انگلیوں کو ڈھانپنے اور قدموں کے نشانات کو مٹانے سے دی گئی ہے اور اس کا حاصل یہ ہے کہ جب سخی آدمی خرچ کرتا ہے تو اس خرچ کے لئے اس کا سینہ کشادہ ہوتا ہے اور عطا کرنے کے لئے اس کے ہاتھ کھل جاتے ہیں اور بخیل کا سینہ تنگ ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ بندھ جاتے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ دینے اور عطا کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سخی کے عیوب پر دنیا اور آخری میں پردہ رکھتا ہے ‘ جس طرح یہ زرہ پہننے والے کے جسم کو چھپاتی ہے اور جس طرح بخیل کی زرہ اس کے پستانوں تک رہتی ہے اور اس کے باقی جسم کو نہیں چھپاتی ‘ اسی طرح وہ دنیا اور آخری میں بےآبرو ہوجاتا ہے۔
علامہ ابن بطال نے کہا ‘ جب سخی صدقہ کرتا ہے تو وہ صدقہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے اور ان کو مٹا دیتا ہے اور بخیل کے گناہ اسی طرح باقی رہتے ہیں۔ علامہ مہلب نے کہا ‘ سخی دنیا اور آخری میں خوش رہتا ہے اور بخیل دنیا اور آخرت میں غمگین رہتا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس مثال سے مقصود یہ ہے کہ سخی کا مال خرچ کرنے کے باوجود بڑھتا رہتا ہے اور بخیل کا مال روکنے کے باوجود کم ہوتا رہتا ہے۔
(عمدۃ القاری ج ٨ ص ٥٤٤‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٢٤١ ھ)
حضرت اسماء (رض) بیان کرتی ہیں کہ مجھ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ تم اپنی تھیلی کا منہ بند نہ رکھو ورنہ اللہ بھی تم سے اپنے خزانے کا منہ بند رکھے گا۔ ایک روایت میں ہے تم گن گن کر نہ دو ورنہ اللہ بھی تم کو گن گن کر دے گا۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣٤١‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٨٤٥٢‘ مسند احمد رقم الحدیث ١٦٤٧٢‘ عالم الکتب بیروت)
مشیت اور رضا میں فرق کرنا چاہئے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ان چیزوں میں سے بعض کو خرچ کرو جو اللہ نے تمہیں دی ہیں۔ الاٰیۃ (یٰسٓ: ٧٤)
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مومنین نے کفار مکہ سے کہا کہ تم نے اپنے کھیتوں اور مویشیوں میں سے جو حضہ اللہ کے لئے رکھا ہے ‘ اس کو مسکینوں اور ناداروں پر خرچ کرو ‘ تو انہوں نے جواب میں کہا ‘ کیا ہم ان کو کھلائیں جن کو اگر اللہ کھلانا چاہتا تو کھلا دیتا۔ پھر کہتے ‘ جن کو اللہ محروم رکھنا چاہتا ہے ‘ ان کو ہم کھلانا نہیں چاہتے اور یہ بخیل لوگوں کا حیلہ ہے اور ان کا یہ حیلہ باطل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے بعض لوگوں کو وسعت ‘ فراغت اور خوشحالی میں رکھا ہے اور بعض لوگوں کو فقر اور فاقہ میں مبتلا کیا ہے تاکہ خوشحال اور فراخ دست لوگ بدحالوں اور تنگ دستوں پر خرچ کرکے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور فقر اء اور غرباء اپنے فقر اور فاقہ پر صبر کریں اور یہ اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق میں حکمت اور مثیت ہے ‘ وہ ہر چیز کا مالک ہے اور جو چاہتا ہے کرتا اور کسی کو اس کے کسی فعل پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
اس کی نظیر مشرکین کا یہ قول ہے :
ترجمہ (الانعام : ٨٤١ )… عنقریب مشرکین یہ کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام قرار دیتے ‘ اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے بھی تکذیب کی تھی حتیٰ کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھا۔
اسی طرح آج کل کے دہریہ اور بےدین لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم نیک کام نہیں کررہے ہیں اور گناہ کررہے ہیں تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔ اگر اللہ چاہتا تو ہم نیک کام کرتے اور برے کاموں کو ترک کردیتے کیونکہ وہی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ نہ چاہے وہ نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کی گمراہی کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی رضا میں فرق نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کوئی پتا بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلتا اور ہر چیز کو اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے۔ انسان جس فعل کا ارادہ کرتا ہے ‘ اللہ اس فعل کو پیدا کردیتا ہے اور اسی کے مطابق جزا اور سزا دیتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ ایمان لانے اور نیک کام کرنے سے راضی ہوتا ہے اور کفر سے اور نافرمانی سے ناراض ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نیک کام کرنے کی توفیق اور ہمت دے اور برائیوں سے مجتنب رکھے۔ دراصل یہ سوچ اور فکر شیطان کی ہے جس نے کہا تھا :
ترجمہ (الحجر : ٩٣)… ابلیس نے کہا ‘ اے میرے رب ! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے۔
اور نبی کی سوچ اور فکر یہ ہے کہ اگر بھولے سے بھی اجتہادی خطا ہوجائے تو کہتے ہیں :
ترجمہ (الاعراف : ٣٢)… دونوں نے کہا ‘ اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ فرمائے تو ہم ضرور نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مرض کی نسبت اپنی طرف کرتے ہیں اور شفاء کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہیں :
ترجمہ (الشعرائ : ٠٨)… اور جب میں بیمار ہو جائوں تو وہ (اللہ) مجھے شفاء عطا فرماتا ہے۔
پس حسن اور کمال کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے اور عیب اور نقص کی نسبت اپنی طرف کی جائے۔
ترجمہ (النسائ ٩٧)… (اے مخاطب ! ) جو تجھ کو بھلائی پہنچتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو تجھ کو برائی پہنچتی ہے وہ تیرے نفس کی طرف سے ہے۔
دہریوں کا رد اور ابطال
یٰسٓ: 47 کے آخر میں ہے : تم تو صرف کھلی گمراہی میں ہو
ایک قول یہ ہے کہ یہ بھی کفار کا قول ہے جو انہوں نے مومنوں سے کہا تھا ‘ جب مومنوں نے کفار سے کہا تھا کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو انہوں نے کہا ہم ان کو کیسے کھلائیں جن کو اگر اللہ کھلانا چاہتا تو کھلا دیتا۔ تم تو صرف کھلی گمراہی میں ہو اور تمہارا (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کرنا بھی صریح گمراہی ہے اور مقاتل وغیرہ نے کہا کہ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کا قول ہے جو انہوں نے کفار سے کہا تھا۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے جو اس نے کفار کے جواب کو رد کرنے کے لئے فرمایا تھا اور ایک قول یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) مسلمان مسکینوں کو کھانا کھلایا کرتے تھے تو ابو جہل نے ان کے پاس جا کر کہا ‘ اے ابوبکر ! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کھانا کھلانے پر قادر ہے ؟ حضرت ابوبکر نے کہا ہاں ! ابوجہل نے کہا ‘ پھر کیا وجہ ہے ان کو کیوں نہیں کھلا رہا ؟ حضرت ابوبکر نے کہا اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کو تنگ دستی میں مبتلا کیا ہے اور ایک قوم کو خوشحالی میں مبتلا کیا ہے اور فقراء کو صبر کرنے کا حکم دیا ہے اور امراء کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ان کو عطا کریں۔ تب ابو جہل نے کہا ‘ اللہ کی قسم ! اے ابوبکر تم صرف صریح گمراہی میں ہو۔ تم یہ سمجھتے ہو کہ اللہ انہیں کھلانے پر قادر ہے اور وہ ان کو نہیں کھلا رہا ‘ پھر تم ان کو کھلا رہے ہو ! تب یہ آیت نازل ہوئی اور مزید یہ آیات نازل فرمائیں۔
ترجمہ (الیل : ٧۔ ٥)… پس جس نے (فقراء کو) دیا اور اللہ سے ڈرا اور نیکی کی تصدیق کی تو ہم اس کے لئے سہولت کو آسان کردیں گے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت دہریوں کے متعلق نازل ہوئی کیونکہ مشرکین میں دہریئے بھی تھے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے تھے اور مسلمانوں کی اس بات کا مذاق اڑاتے تھے۔
(النکت و العیون ج ٥ ص ٢٢۔ ١٢‘ زادالمسیر ج ٧ ص ٥٢۔ ٤٢‘ ملخصا)
اس آیت میں دہریوں کا رد اور ابطال اس وجہ سے ہے کہ کسی شخص کا فقیر یا غنی ہونا اس کے لئے اپنے اختیار میں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنی حکمتوں کی وجہ سے جس کو چاہتا ہے فقیر بنا دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے غنی کردیتا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 47