اَلۡيَوۡمَ نَخۡتِمُ عَلٰٓى اَفۡوَاهِهِمۡ وَتُكَلِّمُنَاۤ اَيۡدِيۡهِمۡ وَتَشۡهَدُ اَرۡجُلُهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 65
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلۡيَوۡمَ نَخۡتِمُ عَلٰٓى اَفۡوَاهِهِمۡ وَتُكَلِّمُنَاۤ اَيۡدِيۡهِمۡ وَتَشۡهَدُ اَرۡجُلُهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ ۞
ترجمہ:
ہم آج ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پائوں ان کاموں کی گواہی دیں گے جو وہ کرتے تھے
قیامت کے دن نیک لوگوں کے اعضاء ان کی نیکیاں بیان کریں گے
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ہم آج ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پائوں ان کاموں کی گواہی دیں گے جو وہ کرتے تھے (یٰسٓ : ٥٦ )
اس آیت میں نختم کا لفظ ہے ‘ اس کا معنی ہے ہم مہر لگا دیں گے ‘ پھر اس لفظ کو منع کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور افواہ ‘ فم کی جمع ہے اس کی اصل فوہ ہے اور اس کا معنی منہ ہے۔
پھر فرمایا ہے ان کے ہاتھ اور پیر ہم سے کلام کریں گے۔ اس آیت میں صرف ہاتھوں اور پیروں کا کلام کرنے کا ذکر فرمایا ہے اور مراد یہ ہے کہ مجرموں کے تمام اعضا کلام کریں گے اور ان اعضاء سے جس قدر برے کام کئے جاتے تھے ان کا ذکر کریں گے ‘ بعض مفسرین نے ذکر کیا ہے کہ جس طرح مجرموں کے اعضاء ان کی برائیوں کو بیان کریں گے اسی طرح نیک مسلمانوں کے اعضاء ان کی نیکیوں کو بیان کریں گے ‘ اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے۔
حضرت یسیرہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ہم سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم تسبیح اور تہلیل اور تقدیس پڑھنے کو لازم کرلو اور پوروں (انگلیوں کے سروں) سے ان کا شمار کیا کرو ‘ کیونکہ ان سے سوال کیا جائے گا اور ان سے کلام طلب کیا جائے گا اور تم (ان کو پڑھنے سے) غافل نہ ہو اور اللہ کی رحمت کو بھول نہ جانا۔
(سنن الترمذی رقم الحدیث ٣٨٥٣‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٠١ ص ٩٨٢‘ مسند احمد ج ٦ ص ٠٧٣‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٠٥١‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٥٨١‘ المعجم الکبیر ج ٥٢‘ رقم الحدیث ١٨١‘ المستدرک ج ١ ص ٧٤٥ )
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انگلیوں کے سروں سے تسبیحات کو شمار کرنے کا حکم دیا تاکہ انہوں نے ان سے جو گناہ کئے ہیں وہ ساقط ہوجائیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ خواتین گنتی اور شمار کو جانتی تھیں۔ تسبیح کا معنی ہے سبحان اللہ پڑھنا اور تہلیل کا معنی ہے لا الہ الا اللہ پڑھنا ‘ اور تقدیس کا معنی ہے سبحان الملک القدوس یا سبح قدوس رب الملاء کۃ و الروح پڑھنا۔ آپ نے فرمایا : ان سے سوال کیا جائے گا ‘ یعنی قیامت کے دن ان سے سوال کیا جائے گا کہ تم نے ان انگلیوں سے کیا کام لیا تھا اور آپ نے فرمایا ان سے کلام طلب کیا جائے گا ‘ یعنی یہ انگلیاں قیامت کے دن اپنے صاحب کے موافق یا مخالف گواہی دیں گی ‘ قرآن مجید میں ہے :
ترجمہ (النور : ٤٢ )… جب ان کے متعلق ان کی زبانیں ‘ ان کے ہاتھ اور ان کے پیر گواہی دیں گے وہ دنیا میں کیا عمل کرتے رہے تھے۔
اس آیت میں اس پر برانگیختہ کیا گیا ہے کہ ان اعضا کو ان کاموں میں استعمال کیا جائے جن کاموں سے ان کا رب تعالیٰ راضی ہو اور اس میں یہ بھی فرمایا ہے کہ اپنے اعضا کو بےحیائی اور برائی کے اور گناہوں کے کاموں سے محفوظ رکھا جائے۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم غافل نہ ہونا یعنی ان اذکار ‘ اوراد اور وظائف کے پڑھنے کو ترک نہ کرنا اور تم رحمت کو بھول نہ جانا یعنی ان کلمات کے پڑھنے سے جو اجر وثواب ملتا ہے اس کو فراموش نہ کردینا۔
مجرمین کے اعضاء سے ان کے خلاف گواہی طلب کرنے کی توجیہ
قیامت کے دن مجرمین کے اعضاء سے ان کے خلاف گواہی طلب کی جائے گی کیونکہ قیامت کے دن نیک لوگوں کو مجرمین اپنا دشمن کہیں گے اور دشمن کی گواہی دشمن کے خلاف قبول نہیں کی جاتی ‘ خواہ وہ دشمن صالح اور نیک ہو اور خود مجرمین فساق ہیں اور فساق کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے خلاف گواہی کے لئے ان کے اپنے اعضاء میں کلام پیدا فرما دیا۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ان اعضاء سے گناہ صادر ہوئے تھے سو یہ اعضاء فاسق قرار پائے اور فاسق کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی گواہی کو رد کرنے سے بھی مدعا ثابت ہوگا کیونکہ مقصود تو یہ ہے کہ مجرمین نے گناہ کئے تھے۔ اگر ان کے اعضاء کی اس گواہی کو قبول کرلیا جائے کہ انہوں نے گناہ کئے تھے تب بھی مدعا ثابت ہے اور اگر ان کی گواہی کو اس وجہ سے مسترد کردیا جائے کہ ان اعضاء نے گناہ کئے ہیں یہ فاسق ہیں ‘ تب بھی یہ بات مان لی گئی کہ مجرمین نے گناہ کئے ہیں۔
مجرموں کے اعضاء سے ان کے خلاف گواہی طلب کرنے کے متعلق احادیث
مجرموں کے اعضاء جو مجرموں کے خلاف گواہی دیں گے اس کے متعلق حسب ذیل احادیث ہیں :
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ہنس پڑے ‘ آپ نے پوچھا کیا تم کو معلوم ہے کہ میں کیوں ہنسا ہوں ؟ ہم نے عرض کیا اللہ کو اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے بندہ کی اپنے رب سے اس بات پر ہنسی آئی ہے کہ بندہ کہے گا : اے میرے رب کیا تو نے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی ! اللہ فرمائے گا کیوں نہیں ! بندہ کہے گا آج میں اپنے خلاف ‘ اپنے سوا کسی اور کو گواہی دینے کی اجازت نہیں دوں گا ‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا آج تمہارے خلاف تمہاری اپنی گواہی کافی ہوگی ‘ یا کراماً کاتبین کی گواہی کافی ہوگی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے اعضا سے کہا جائے گا تم بتائو ‘ پھر اس کے اعضا اس کے اعمال کو بیان کریں گے ‘ پھر اس کے اور اس کے کلام کے درمیان تخلیہ کیا جائے گا پھر وہ اپنے اعضاء سے کہے گا ‘ دور ہو ‘ دفع ہو ! میں تمہاری طرف سے ہی تو جھگڑ رہا تھا۔
(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٦٩٢‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث ٣٥٦١١)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :‘ کیا دوپہر کے وقت جب بادل نہ ہوں تو کیا سورج کو دیکھنے سے تمہیں کوئی تکلیف ہوتی ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ! تم کو اپنے رب کو دیکھنے سے صرف اتنی تکلیف ہوگی جتنی تم کو سورج یا چاند کے دیکھنے سے تکلیف ہوتی ہے ‘ پھر اللہ تعالیٰ بندہ سے ملاقات کرے گا اور اس سے فرمائے گا : اے فلاں ! کیا میں نے تجھ کو عزت اور سرداری نہیں دی تھی ! کیا میں نے تجھ کو زوجہ نہیں دی تھی ! اور کیا میں نے تیرے لئے گھوڑے اور اونٹ مسخر نہیں کئے تھے ! اور کیا میں نے تجھ کو ریاست اور خوشحال زندگی میں نہیں چھوڑا ہوا تھا ‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ‘ کیا تو یہ گمان کرتا تھا کہ تو مجھ سے ملنے والا ہے ؟ وہ کہے گا نہیں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں نے بھی تجھ کو اسی طرح بھلا دیا ہے جس طرح تو نے مجھ کو بھلا دیا تھا ! پھر اللہ تعالیٰ دوسرے بندہ سے ملاقات کرے گا اور فرمائے گا : کیا میں نے تجھ کو عزت اور سیادت نہیں دی تھی ! کیا میں نے تجھ کو زوجہ نہیں دی تھی ! کیا میں نے تیرے لئے گھوڑے اور اونٹ مسخر نہیں کئے تھے ! اور کیا میں نے تجھ کو ریاست اور خوشحال زندگی میں نہیں چھوڑا تھا۔ وہ شخص کہے گا کیوں نہیں ! اے میرے رب ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا ‘ کیا تیرا یہ گمان تھا کہ تو مجھ سے ملنے والا ہے ؟ وہ کہے گا : نہیں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا ‘ وہ بندہ کہے گا : اے میرے رب ! میں تجھ پر ‘ تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا۔ میں نے نماز پڑھی۔ روزہ رکھا اور صدقہ دیا اور اپنی استطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں بیان کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ابھی پتا چل جائے گا ‘ پھر اس سے کہا جائے گا ہم ابھی تیرے خلاف اپنے گواہ بھیجتے ہیں ! وہ بندہ اپنے دل میں سوچے گا کہ میرے خلاف کون گواہی دے گا ! پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران ‘ اس کے گوشت اور اس کی ہڈیوں سے کہا جائے گا تم بتائو ! پھر اس کی ران ‘ اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے اعمال کو بیان کریں گے اور یہ معاملہ اس وجہ سے کیا جائے گا کہ خود اس کی ذات سے اس کے خلاف حجت قائم ہو اور جس شخص کا ذکر کیا گیا ہے یہ وہ منافق ہوگا جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوگا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٦٩٢‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٠٣٧٥‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٨٢٤٢ )
مجرموں کے مونہوں پر مہر لگانے کی توجیہات
قیامت کے دن مجرموں کے مونہوں پر جو مہر لگا دی جائے گی اس کی حسب ذیل توجیہات کی گئی ہیں ‘ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) نے کہا :
(١) چونکہ قیامت کے دن مشرکین یہ کہیں گے کہ :
ترجمہ (الانعام : ٣٢)… اور ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم ! ہم مشرک نہ تھے !
تو چونکہ مشرکین اپنے شرک کرنے کا انکار کریں گے اور جھوٹ بولیں گے اس لئے اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا حتیٰ کہ ان کے اعضاء کلام کریں گے اور وہ بتائیں گے کہ وہ شرک کرتے تھے۔ دنیا میں کفار کی سرکشی اور گستاخی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو دلوں پر مہر لگا دی تھی اور آخری میں ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا۔
(٢) ابن زیاد نے کہا ‘ جب ان کے اعضاء بتائیں گے کہ وہ شرک کرتے تھے تو تمام اہل محشر کو ان کے مشرک ہونے کا علم ہوجائے گا۔
(٣) جب غیر ناطق نطق کرے گا تو ناطق کی بہ نسبت اس کا انکار ان کے خلاف زیادہ موثر حجت ہوگا کیونکہ جب وہ کلام کرے گا جو عادتاً کلام نہیں کرتا تو یہ معجزہ کے قائم مقام ہوگا ‘ ہرچند کہ اس دن کسی معجزہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔
(٤) جب مجرمین کے اعضاء اللہ تعالیٰ کے سامنے ان کے خلاف ان کے جرائم کی شہادت دیں گے تو یہ ظاہر ہوجائے گا کہ ان کے جرائم کے صدور میں یہ اعضاء ان کے مددگار تھے۔
اس آیت میں فرمایا ہے : اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں اور ان کے پائوں ان کاموں کی گواہی دیں گے جو وہ کرتے تھے۔
یہاں پر یہ سوال ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ مجرموں کے ہاتھوں کی طرف کلام کرنے کی نسبت کی ہے اور پائوں کی طرف گواہی دینے کی نسبت کی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاتھوں کے ذریعہ مجرمین گناہ کا عمل کرتے تھے اور پیر گناہ کی مجلس میں حاضر ہوتے تھے اور دوسروں کے سامنے حاضر کا قول شہادت ہوتا ہے اور فاعل کا اپنے نفس کے متعلق کلام کرنا اقرار ہوتا ہے ‘ اس لئے ہاتھوں نے جو کچھ کہا اس کو کلام سے تعبیر فرمایا اور پیروں نے جو کچھ کہا اس کو شہادت سے تعبیر فرمایا۔
حکیم بن معاویہ اپنے والد (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم قیامت کے دن اس حال میں آئو گے کہ تمہارے مونہوں پر پٹی باندھی ہوئی ہوگی اور کسی آدمی کا جو عضو سب سے پہلے کلام کرے گا وہ اس کی بائیں ران اور اس کی ہتھیلی ہوگی۔
(مسند احمد ج ٤ ص ٣ قدیم ‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٩٠٩٩١‘ دارالحدیث قاہرہ)
انسان جب شہوانی گناہ سے لذت حاصل کرتا ہے تو جو عضو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ لذت حاصل کرتا ہے وہ اس کی ران ہوتی ہے اور بائیں عضو کی اس لئے تخصیص کی گئی ہے کیونکہ بائیں ران کی شہوت دائیں ران کی بہ نسبت زیادہ قوی ہوتی ہے۔
(النکت والعیون ج ٥ ص ٨٢۔ ٧٢‘ دارالکتب العلمیہ بیروت)
القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 65