وَامۡتَازُوا الۡيَوۡمَ اَيُّهَا الۡمُجۡرِمُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 59
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَامۡتَازُوا الۡيَوۡمَ اَيُّهَا الۡمُجۡرِمُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اے مجرمو ! آج الگ ہو جائو
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے مجرمو ! آج الگ ہو جائو اے اولاد آدم ! کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا ‘ بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ تم میری (ہی) عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے (یٰسٓ : ١٦۔ ٩٥)
مجرمین کے دوسروں سے الگ اور جدا ہونے کی متعدد تفسیریں
اس آیت میں وامتازوا کا لفظ ہے ‘ اس کا مصدر امتیاز ہے۔ امتیاز اور تمییز کا معنی ہے مشابہ اور ملی جلی چیزوں کے درمیان فصل اور تفریق کرنا اور ان کو جدا جدا کرنا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجرموں کو جو الگ الگ اور متفرق ہونے کا حکم دے گا یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ محشر میں مومن اور کافر ‘ موحد اور مشرک ‘ مخلص اور منافق اور فاسق اور صالح ملے جلے کھڑے ہوں گے پھر اللہ تعالیٰ ایک فریق کو دوسرے فریق سے الگ اور جدا کردے گا ‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
ترجمہ (الروم : ٤١ )… اور جس دن قیامت قائم ہوگی (تو) سب جماعتیں الگ الگ ہوجائیں گی۔
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کافروں کو حکم دیا جائے گا کہ وہ مومنوں سے الگ ہوجائیں کیونکہ کفار دیکھیں گے کہ مومنوں کے چہرے سفید ہیں اور ان کے چہرے سیاہ ہیں۔ مومنوں کے صحائف اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں ہیں اور ان کے اعمال نامے ان کے بائیں ہاتھ میں ہیں۔ مومنوں کے چہرے تر و تازہ ‘ ہنستے مسکراتے ہوئے اور بشاش ہیں اور ان کے چہرے پژمردہ اور تاریک ہیں۔ مومنوں کا نور ان کے سامنے اور ان کی دائیں جانب دوڑ رہا ہے اور ان کی پیشانی ان کی پشت کے ساتھ جکڑی ہوئی ہے۔ مومن کی میزان کے پلڑے بھاری ہوں گے اور ان کی میزان کے پلڑے ہلکے ہوں گے۔ مومن پل صراط پر ثابت قدم رہیں گے اور کافر پل صراط سے پھسل جائیں گے۔ اس لئے کافروں سے کہا جائے گا تم دنیا میں مومنوں سے مل جل کر رہتے تھے آج ان سے الگ ہو جائو۔ ان مومنوں کو اجر وثواب اور انعام و اکرام سے نوازا جائے گا اور کافروں کو ذلت اور خواری کے ساتھ دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔
اس آیت کا دوسرا معنی یہ ہے کہ مومنین صالحین سے فاسقین کو نکال کر الگ کھڑا کردیا جائے گا تو پھر اس آیت سے مسلمانوں کو بہت زیادہ ڈرنا چاہیے کو ین کہ دنیا میں تو استاد اور شاگرد ‘ باپ اور بیٹے ‘ پیر اور مرید سب مل جل کر رہتے ہیں حالانکہ کئی شاگرد استاد سے اور کئی بیٹے باپ سے اور کئی مرید پیر سے زیادہ نیک ہوتے ہیں۔ دنیا میں شاگرد استاد کو اور بیٹا باپ کو اور مرید پیر کو زیادہ قابل احترام اور زیادہ متقی اور نیک سمجھتا ہے اور جب قیامت کے دن بدکار استاد ‘ فاسق باپ اور گنہ گار پیر کو حکم دیا جائے گا کہ اے مجرمو ! آج نیکوں سے الگ کھڑے ہو جائو تو ان کی کس قدر ذلت اور رسوائی ہوگی۔ جب شاگرد بیٹا اور مرید نیکوں کی صفت میں کھڑے اپنے استاد ‘ باپ اور پیر کو مجرموں کی صفت میں کھڑے ہوئے حیرت سے دیکھ رہے ہوں گے ! اور یہ سب سے بڑا عذاب ہے کیونکہ کسی شخص کو تنہائی میں عذاب دیا جائے ‘ اس سے اتنا دکھ نہیں ہوتا جتنا عقیدت مندوں کے سامنے رسوائی سے دکھ اور غم ہوتا ہے۔ اے اللہ تو نے ہمیں دنیا میں عزت دی ہے تو آخرت میں ہمیں ذلت اور رسوائی سے محفوظ رکھنا !
اس آیت کا تیسرا معنی یہ ہے کہ مجرموں کو ایک دوسرے سے الگ الگ کردیا جائے گا۔ یہودیوں کو عیسائیوں سے الگ کردیا جائے گا اور مجوسیوں کو صابئین سے الگ کردیا جائے گا۔ ہندوئوں کو سکھوں سے اور دہریوں کو بھکشوں سے الگ کردیا جائے گا۔ ضحاک سے یہ بھی روایت ہے کہ کفار کے ہر فرقہ کے لئے دوزخ میں الگ الگ طبقہ ہے اور ہر فرقہ کو دوزخ کے الگ الگ طبقہ میں رکھا جائے گا۔
اس آیت کا چوتھا معنی یہ ہے کہ مومن تو اپنے بھائیوں ‘ اپنی بیویوں ‘ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ واصل ہوں گے اور کفار اپنے بھائیوں ‘ رشتہ داروں اور دوستوں سے الگ الگ اور جدا ہوں گے۔ سو کافروں کو آگ کا درد ناک عذاب بھی ہوگا اور اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے جدا اور الگ ہونے کا قلق بھی ہوگا اور دوستوں سے علیحدگی اور جدائی کا قلق آگ میں جلنے سے زیادہ ہوگا کیونکہ آگ میں جلنے کا عذاب جسمانی ہے اور دوستوں اور محبوبوں سے جدائی کا عذاب قلبی اور عقلی ہے۔
اس آیت کا پانچواں معنی یہ ہے کہ آج تم اپنے خود ساختہ معبودوں سے الگ ہو جائو اور جن کو تم اپنا شفیع اور مددگار قرار دیتے تھے ‘ ان سے الگ اور جدا ہو جائو۔
اس آیت کا چھٹا معنی یہ ہے کہ تم اپنی توقعات اور آرزوئوں سے الگ ہو جائو بلکہ ہر خیر سے الگ ہو جائو اور دوزخ میں بھی الگ الگ اور جدا جدا رہو کیونکہ ہر کافر کی دوزخ میں الگ الگ کوٹھڑی ہوگی۔
تمام کافروں کی اقسام کا مجرمین کے عموم میں داخل ہونا
امام ابو منصور ماتریدی متوفی ٥٣٣ ھ نے التاویلات الماتریدیہ میں ذکر کیا ہے کہ بعض اکابرین نے فرمایا جو لوگ دوام اور خلود کے ساتھ دوزخ میں رہیں گے ان کے چار گروہ ہیں۔ متکبرین ‘ دہریئے (منکر خدا) ‘ منافقین اور مشرکین اور مجرمین کا لفظ ان چاروں گروہوں کو شامل ہے اور جب فرمایا اے مجرمو ! تم دوسروں سے الگ ہو جائو تو اس میں ان سے خطاب فرمایا ہے جو دائما دوزخ میں رہنے کے مستحق ہیں اور یہ چار گروہ اس وجہ سے ہیں کہ شیطان وسوسہ اندازی کے لئے چار اطراف سے حملہ آور ہوتا ہے۔ سامنے سے ‘ پیچھے سے ‘ دائیں طرف سے اور بائیں طرف سے۔ جیسا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ شیطان نے اللہ تعالیٰ سے کہا :
ترجمہ (الاعراف ٧١۔ ٦١ )… شیطان نے کہا چونکہ آپ نے مجھے گمراہ کیا ہے ‘ اس لئے میں ضرور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے آپ کے سیدھے راستہ پر بیٹھ جائوں گا پھر میں ان پر ان کے سامنے سے حملہ کروں گا اور ان کے پیچھے سے اور ان کی دائیں جانب سے اور ان کی بائیں جانب سے اور آپ ان میں سے زیادہ لوگوں کو شکر گزار نہیں پائیں گے۔
لہٰذا جو بھی دوام اور خلود کے لئے دوزخ میں داخل ہوگا وہ شیطان ہی کے واسطے سے داخل ہوگا۔ وہ مشرکین پر وسوسہ ڈالنے کے لئے ان کے سامنے سے حملہ آور ہوگا اور متکبرین پر ان کے دائیں جانب سے حملہ آور ہوگا اور منافقین پر حملہ کے لئے ان کی بائیں جانب سے حملہ آور ہوگا اور دہریوں پر حملہ کرنے کے لئے ان کے پیچھے سے حملہ آور ہوگا۔ مشرکین پر سامنے سے اس لئے وسوسہ ڈالے گا کیونکہ اس کے سامنے کی جانب غائب ہوتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کو مانتا ہے اور اس کا انکار نہیں کرسکتا تو ابلیس اس کو سامنے سے کوئی ایسی چیز دکھاتا ہے اور اس کے دل و دماغ میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ یہی تمہارا خدا ہے۔ سو وہ اس کی پرستش کرنے لگتا ہے اور متکبرین کی طرف ان کی دائیں جانب سے اس لئے آتا ہے کہ دائیں جانب بائیں جانب سے قوی ہوتی ہے سو وہ اس کے دل و دماغ میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ قوی ہے ‘ پھر وہ تکبر کرتا ہے اور اپنے آپ کو سب سے بڑا گمان کرتا ہے اور منافقین کے دل و دماغ میں بائیں جانب سے وسوسہ ڈالتا ہے کیونکہ بائیں جانب ‘ دائیں سے کمزور ہوتی ہے اور منافق تمام گروہوں میں سب سے زیادہ کمزور ہوتا ہے۔ اس میں اپنے کفر کے اظہار کی قدرت نہیں ہوتی۔ وہ اپنے کفر کو دل میں چھپاتا ہے اور اپنے اعتقاد کے خلاف ایمان کو اور مسلمانوں کی موافقت کو ظاہر کرتا ہے اور خدا کے منکرین اور دہریوں کے دل و دماغ پر ان کے پیچھے سے حملہ آور ہوتا ہے کیونکہ انسان کو اپنے پس پشت کچھ دکھائی نہیں دیتا ‘ اسی طرح دہریوں کو اور منکرین خدا کو اللہ تعالیٰ کے وجود پر دلائل اور نشانیاں نظر نہیں آتیں اور وہ کہتے ہیں کہ یہ کائنات خود بخود وجود میں آگئی ہے۔ اس کا کوئی پیدا کرنے والا نہیں ہے۔ پس کفار اور مجرمین کے یہ چار گروہ ہیں۔ یہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ دوزخ کے سات دروازے ہیں اور جب سات کو چار سے ضرب دیں تو حاضل ضرب اٹھائیس ہے اور چاند کی منزلیں بھی اٹھائیں ہیں اور جس طرح چاند اپنی اصل اور اپنی ذات میں بےنور ہے اسی طرح کفار بھی اپنی اصل اور ذات میں بےنور ہیں۔ دنیا میں ان کے اندر جو عیش و عشرت کی روشنی نظر آتی ہے وہ چاند کی روشنی کی طرح مستعار اور عارضی ہے۔ پس چاند کی منازل کی طرح ان کے عذاب کے بھی اٹھائیس مخصوص حصص بنا دیئے گئے ہیں۔ شیطان کے وسوسوں کو قبول کرتے ہیں اور اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 59