وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْؕ-اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا(۳۱)

اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو مفلسی کے ڈر سے (ف۷۶)ہم تمھیں بھی اورانہیں بھی روزی دیں گے بےشک ان کا قتل بڑی خطا ہے

(ف76)

زمانۂ جاہلیّت میں لوگ اپنی لڑکیوں کو زندہ گاڑ دیا کرتے تھے اور اس کے کئی سبب تھے ، ناداری و مفلسی کا خوف ، لوٹ کا خوف ، اللہ تعالٰی نے اس کی ممانعت فرمائی ۔

وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲)

اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ

وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّؕ-وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِؕ-اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا(۳۳)

اور کوئی جان جس کی حرمت اللہ نے رکھی ہے ناحق نہ مارو اور جو ناحق مارا جائے تو بےشک ہم نے اس کے وارث کو قابو دیا ہے(ف۷۷) تو وہ قتل میں حد سے نہ بڑھے (ف۷۸) ضرور اس کی مدد ہونی ہے (ف۷۹)

(ف77)

قصاص لینے کا ۔

مسئلہ : آیت سے ثابت ہوا کہ قصاص لینے کا حق ولی کو ہے اور وہ بہ ترتیبِ عصبات ہیں ۔

مسئلہ : اور جس کا ولی نہ ہو اس کا ولی سلطان ہے ۔

(ف78)

اور زمانۂ جاہلیّت کی طرح ایک مقتول کے عوض میں کئی کئی کو یا بجائے قاتل کے اس کی قوم و جماعت کے اور کسی شخص کو قتل نہ کرے ۔

(ف79)

یعنی ولی کی یا مقتول مظلوم کی یا اس شخص کی جس کو ولی ناحق قتل کرے ۔

وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰى یَبْلُغَ اَشُدَّه۪ٗ-وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴)

اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر اس راہ سے جو سب سے بھلی ہے (ف۸۰) یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچے (ف۸۱) اور عہد پورا کرو (ف۸۲) بےشک عہد سے سوال ہونا ہے

(ف80)

وہ یہ ہے کہ اس کی حفاظت کرو اور اس کو بڑھاؤ ۔

(ف81)

اور وہ اٹھارہ (۱) سال کی عمر ہے ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک یہی مختار ہے اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے علامات ظاہر نہ ہونے کی حالت میں انتہائے مدّتِ بلوغ اسی سے تمسُّک کر کے اٹھارہ سال قرار دی ۔ (احمدی)

(۱) لیکن فتوی اس پر ہے کہ انتہائے مدّتِ بلوغ لڑکا لڑکی دونوں کے لئے پندرہ سال ہے جبکہ علامتِ بلوغ نہ ظاہر ہوں اور اقلِّ مدّت لڑکی کے لئے نو سال ، لڑکے کے لئے بارہ سال ہے ۔۱۲ نعمانی ۔

(ف82)

اللہ کا بھی بندوں کا بھی ۔

وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَ زِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا(۳۵)

اور ماپو تو پورا ماپو اور برابر ترازو سے تولو یہ بہتر ہے اور اس کا انجام اچھا

وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶)

اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں (ف۸۳) بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے (ف۸۴)

(ف83)

یعنی جس چیز کو دیکھا نہ ہو اسے یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ، جس کو سنا نہ ہو اس کی نسبت نہ کہو کہ میں نے سنا ۔ ابنِ حنیفہ سے منقول ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو ۔ ا بنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کسی پرو ہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو ۔

(ف84)

کہ تم نے ان سے کیا کام لیا ۔

وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاۚ-اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا(۳۷)

اور زمین میں اتراتا نہ چل (ف۸۵) بےشک تو ہر گز زمین نہ چیر ڈالے گا اور ہرگز بلندی میں پہاڑوں کو نہ پہنچے گا (ف۸۶)

(ف85)

تکبُّر و خود نمائی سے ۔

(ف86)

معنٰی یہ ہیں کہ تکبُّر و خود نمائی سے کچھ فائدہ نہیں ۔

كُلُّ ذٰلِكَ كَانَ سَیِّئُهٗ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوْهًا(۳۸)

یہ جو کچھ گزرا ان میں کی بُری بات تیرے رب کو ناپسند ہے

ذٰلِكَ مِمَّاۤ اَوْحٰۤى اِلَیْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِؕ-وَ لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتُلْقٰى فِیْ جَهَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا(۳۹)

یہ ان وحیوں میں سے ہے جو تمہارے رب نے تمہاری طرف بھیجی حکمت کی باتیں (ف۸۷) اور اے سننے والے اللہ کے ساتھ دوسرا خدا نہ ٹھہرا کہ تو جہنم میں پھینکا جائے گا طعنہ پاتا دھکے کھاتا

(ف87)

جن کی صحت پر عقل گواہی دے اور ان سے نفس کی اصلاح ہو ان کی رعایت لازم ہے ۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ ان آیات کا حاصلِ توحید اور نیکیوں اورطاعتوں کا حکم دینا اور دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی طرف رغبت دلانا ہے ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا یہ اٹھارہ آیتیں لَاتَجْعَلْ مَعَ اللہِ اِلٰھاً اٰخَرَ سے مَدْحُوْراً تک حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ و السلام کے الواح میں تھیں ، ان کی ابتداء توحید کے حکم سے ہوئی اور انتہا شرک کی ممانعت پر ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر حکمت کی اصل توحید و ایمان ہے اور کوئی قول و عمل بغیر اس کے قابلِ پذیرائی نہیں ۔

اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِیْنَ وَ اتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰٓىٕكَةِ اِنَاثًاؕ-اِنَّكُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِیْمًا۠(۴۰)

کیا تمہارے رب نے تم کو بیٹے چن دئیے اور اپنے لیے فرشتوں سے بیٹیاں بنائیں (ف۸۸) بےشک تم بڑا بول بولتے ہو (ف۸۹)

(ف88)

یہ خلافِ حکمت بات کس طرح کہتے ہو ۔

(ف89)

کہ اللہ تعالٰی کے لئے اولاد ثابت کرتے ہو جو خواصِ اجسام سے ہے اور اللہ تعالٰی اس سے پاک پھر اس میں بھی اپنی بڑائی رکھتے ہو کہ اپنے لئے تو بیٹے پسند کرتے ہو اور اس کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہو ،کتنی بے ادبی اور گستاخی ہے ۔