أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِلَّا مَنۡ خَطِفَ الۡخَطۡفَةَ فَاَتۡبَعَهٗ شِهَابٌ ثَاقِبٌ‏ ۞

ترجمہ:

مگر جو شیطان کوئی بات اچک لے تو فوراََ چمکتا ہوا انگارہ اس کے پیچھا کرتا ہے

الصّٰفّٰت : ١٠ میں الخطفۃ کا لفظ ہے اس کا معنی ہے کسی چیز کو اچک لینا ‘ کسی شخص غفلت سے فائدہ اٹھا کر اس سے کوئی چیز اچک لی جائے ‘ یہاں اس سے مراد ہے وہ جلدی سے فرشتوں کی باتوں کو اچک لیتے تھے۔(عنایۃ القاضی ج ٨ ص ٦١۔ ٥٧‘ روح المعانی جز ٢٣ ص ١٠٥۔ ١٠٢‘ بیروت)

نیز اس آیت میں شہاب ثاقب کا ذکر ہے ‘ علامہ ابوالحسن الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ اس کے معنی میں لکھتے ہیں :

شہاب کا معنی ہے آگ کا شعلہ ‘ اور دوسرا قول ہے اس کا معنی ہے ستارہ ‘ اور ثاقب کے معنی میں چھ قول ہیں :

زید رقاشی نے کہا جو کسی چیز میں سوراخ کر دے وہ ثاقب ہے ‘ ضحاک نے کہا اس کے معنی ہے روشن ‘ ابن عیسیٰ نے کہا اس کا معنی ہے گزرنے والا ‘ الفراء نے کہا اس کا معنی ہے بلند ‘ السدی نے کہا اس کا معنی ہے جلانے والا ‘ زیدبن اسلم اور خفش نے کہا اس کا معنی ہے روشن ہونے والا۔ (النکت والعیون ض ٥ ص ٣٩‘ دارالکتب العلمیہ بیروت)

علامہ آلوسی نے لکھا ہے کہ شہاب ثاقب اصل میں آگ کے روشن شعلہ کو کہتے ہیں اور یہاں اس سے مراد وہ چیز ہے جو فضاء میں اس طرح دکھائی دیتی ہے جیسے آسمان سے کوئی ستارہ ٹوٹ کر گرا ہو۔ (روح المعانی جز ٢٣ ص ١٠٦۔ ١٠٥)

امام عبدالرحمان بن محمد بن ادریس الرازی ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ اپنی سند مے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا جب شیطان پر شہاب ِ ثاقب مارا جاتا ہے تو وہ اس سے خطا نہیں کرتا۔ (رقم الحدیث : ١٨١٣٧)

یزید رقاشی نے کہا شہاب شیطان میں سوراخ کرکے دوسری جانب سے نکل جاتا ہے۔ (رقم الحدیث : ١٨١٣٨)

آیا جِناّت ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے بھی آسمانوں پر فرشتوں کی باتیں سنتے تھے یا نہیں ؟

اس میں اختلاف ہے کہ جب شیطان کو آکر شہاب ِثاقب لگتا ہے تو آیا وہ اس سے ہلاک ہوجاتا ہے یا اس سے ْصرف ایذاء پہنچتی ہے ‘ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب شیطان کو شہاب ثاقب آ کر لگتا ہے تو نہ وہ اس سے قتل ہوتا ہے نہ ہلاک ہوتا ہے ‘ لیکن وہ اس سے جل جاتا ہے اور اس کے بعض اعضاء ضائع ہوجاتے ہیں ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ وہ ہلاک ہوجاتا ہے اور مرجاتا ہے۔

اس میں بھی اختلاف ہے کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے شیاطین پر شہاب ثاقب مارے جاتے تھے یا نہیں۔

شعبی سے روایت ہے کہ جب تک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت نہیں ہوئی شیاطین پر ستارے نہیں مارے جاتے تھے ‘ حتیٰ کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت ہوگئی تو شیاطین پر ستارے مارے گئے ‘ اور لوگوں نے اپنے بندھے ہوئے مویشی کھول دئیے اور اپنے غلاموں کو آزاد کردیا ‘ وہ یہ گمان کر رہے تھے کہ قیامت آگئی ‘ پھر لوگ عبد یا لیل کاہن کے پاس گئے وہ نابینا ہوچکا تھا ‘ انہوں نے اس کو ستاروں کے ٹوٹنے کی خبر دی ‘ اس نے کہا یہ غور کرو کہ جو ستارے ٹوٹ کر گرے ہیں اگر وہ معروف سیارے اور ثوابت ہیں تو یہ قیامت ہے ورنہ پھر یہ کوئی نئی چیز حادث ہوئی ہے۔ لوگوں نے غور کیا تو ٹوٹنے والے ستارے معروف سیارے اور ثوابت نہیں تھے ‘ پھر کوئی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی خبر آگئی۔

امام ابن الجوزی المتوفی ٥٩٧ ھ نے بھی المنتظم میں لکھا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بیس دن بعد ستارے ٹوٹنے کا واقع رونما ہوا ‘ لیکن صحیح یہ ہے کہ ستارے ٹوٹنے کے واقعات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت سے پہلے بھی ہوتے تھے ‘ اور زمانہ جاہلیت کے اکثر اشعار میں اس کا ذکر ہے ‘ لیکن ان شیاطین کو بھگایا نہیں جاتا تھا ‘ یا ان سے شیاطین کو بھگایا تو جاتا تھا ‘ لیکن اس سے شیاطین کے آسمانوں پر فرشتوں کی باتیں سننے کے لیے چوری چھپے جانے کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا تھا۔

اس سلسلہ میں راجح قول یہی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے بھی شیاطین چوری چھپے آسمانوں پر جاتے تھے اور کبھی کبھی وہ کامیاب بھی ہوجاتے تھے اور فرشتوں کی باتیں اچک لیتے تھے لیکن جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوگئی تو ان پر بہت سختی کی گئی اور ان کو آسمانوں پر جانے سے بالکل ہی روک دیا گیا ‘ بعض سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت سے پہلے ابلیس آسمانوں پر چلا جاتا تھا اور ان کی ولادت کے بعد اس کو تین آسمانوں پر جانے سے روک دیا گیا ‘ اور جب ہمارے نبی سیدنامحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہوگئے تو ابلیس کو تمام آسمانوں پر جانے سے روک دیا گیا ‘ اور شیاطین پر ستارے مارے گئے ‘ تب قریش نے کہا کہ قیامت آگئی۔

بعض علامہ نے کہا کہ محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ستارے پہلے بھی گرائے جاتے تھے لیکن ظہور اسلام کے بعد آسمانوں کو سختی سے محفوظ کردیا گیا ‘ اللہ تعالیٰ نے جِنّاب کے اس قول کا ذکر فرمایا ہے :

وَّ اَ نَّالَمَسْنَا السَّمَآئَ فَوَجَدْ مُلِئَتْ حَرَسًاشَدِیْدًاوَّشُھُبًا وَّاَنَّاکُنَّا نَقْعُدُ مِنْھَا مَقَا عِدَللِسَّمْعِ ط فَمَنْ یَّسْتَمِعِ الْاٰ نَ یَجِدْلَہ ‘ شِھَابًا رَّصَدًا (الجن : ٩۔ ٨) (روح المعانی جز ٢٣ ص ١٠٩۔ ١٠٨‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

اور بیشک ہم نے آسمانوں کو چھوا تو ہم نے دیکھا کہ وہ سخت پہرے داروں سے اور شہابوں سے بھرا ہوا ہے اور ہم ( اس سے پہلے فرشتوں کی باتیں) سننے کے لیے چند جگہوں پر بیٹھ جاتے تھے ‘ پس اب جو کوئی شخص کان لگاتا ہے تو وہ اپنے گھات میں آگ کا شعلہ (شہاب) تیار پاتا ہے۔

اور خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اس بات پر کوئی قطعی دلیل نہیں ہے کہ اس زمانے میں جو شہاب ٹوٹ کر گرتے ہیں آیا ان سے شیاطین کو مارنے کا قصد کیا جاتا ہے یا نہیں ‘ اور قطعی طور پر اس طرح کہنا غیب پر حکم لگانے کے مترادف ہے۔

جِنّات کے فرشتوں کی باتیں سننے پر علامہ آلوسی کے اشکالات

شیاطین آسمانوں پر چوری چھپے فرشتوں کی باتیں سننے کے لیے جاتے ہیں اس پر یہ اشکال ہے کہ آسمانوں پر فرشتے مختلف قسم کی عبادتوں میں مشغول ہوتے ہیں ‘ حدیث میں ہے :

حضرت ابوذررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک میں ان چیزوں کو دیکھتا ہوں جن کو تم نہیں دیکھتے اور ان چیزوں کو سنتا ہوں جن کو تم نہیں سنتے ‘ آسمان چرچراتا ہے اور اس کا چرچرانا بجا ہے ‘ اس میں چار انگل بھی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں پر کوئی فرشتہ اپنے پیشانی رکھے ہوئے اللہ تعالیٰ کو سجدہ ریز نہ ہو ‘ الحدیث۔

(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٣١٤‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١٩٠‘ مسند احمد ج ٥ ص ١٧٣‘ المستدرک ج ٢ ص ٥١٠‘ حلیۃ الاولیاء ج ٢ ص ٢٣٦)

سو آسمان میں ہر قدم پر کوئی فرشتہ قیام میں ہے ‘ کوئی رکوع میں یا سجدہ میں ہے ‘ تو شیاطین ان کی کون سی باتوں کو چوری چھپے سن رہے ہیں ؟ اور اگر یہ کہا جائے کہ بعض فرشتے مستقبل میں ہونے والے واقعات کی باتیں کرتے رہتے ہیں اور شیطان آسمان کے نچلے کنارے سے ان کی باتوں کو سن لیتے ہیں ‘ تو اس پر یہ اشکال ہے کہ آسمان کے نچلے کنارے کی موٹائی اور اس کے اوپر کے کنارے کی سطح کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے ‘ جیسا کہ بعض احادیث میں ہے تو اتنے دور کی مسافت سے شیاطین ان کی باتوں کو کس طرح سن لیتے ہیں ‘ خصوصاً اس لیے کہ جب فرشتے مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے متعلق باتیں کرتے ہیں تو اتنے زور سے تو نہیں بولتے کہ شیاطین سن لیں اور نہ ان کے زور سے بولنے کی کوئی وجہ ہے ‘ اور اگر بالفرض وہ زور سے بھی بولتے ہوں تب بھی پانچ سو سال کی مسافت سے تو ان کی آوز سنائی نہیں دے گی ! پھر علامہ آلوسی نے کہا کہ اس اشکال کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ جب فرشتے آسمان سے نیچے اترتے ہیں اس وقت فرشتوں کی باتیں سن لیتے ہیں ‘ پھر اس جواب کو مسترد کردیا کہ امام ابن ابی حاتم نے عکرمہ سے جو حدیث روایت کی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ جنات فرشتوں کی باتوں کو آسمانوں میں چراتے ہیں ‘ پھر ان کا اشکال بدستور قائم رہا۔

(روض المعانی جز ٢٣ ص ١١٠‘ ملخصار دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ )

مصنف کی طرف سے علامہ آلوسی کے اشکالات کے جواباب

قرآن مجید کی صریح آیات اور صریح احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ شیاطین اور جنات آسمانوں پر چوری چھپے فرشتوں کی باتیں سننے کے لیے جاتے ہیں اور میں چونکہ قرآن مجید اور احادیث کا ادنیٰ خادم اور وکیل ہون اس لیے مجھ پر لازم ہے کہ علامہ آلوسی کی طرف سے قرآن اور حدیث پر وارد کیے گئے ان اعتراصات اور اشکالات کا جواب لکھوں !

علامہ آلوسی کا پہلا اشکال یہ ہے آسمان کے ہر قدم پر فرشتے رکوع اور سجدہ میں مشغول ہیں تو جنات اور شیاطین فرشتوں کی کون سی باتوں یا کون سی چیزوں کو چرا کرلے جارہے ہیں ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتوں کا آسمانوں پر ہر جگہ سجدہ میں پڑا ہونا ‘ سنن ترمذی ‘ سنن ابن ماجہ اور اسی طبقہ کی دیگر کتابوں سے ثابت ہے ‘ اور جنات کا فرشتوں کی باتیں سننا اس سے کہیں زیادہ قوی دلائل سے ثابت ہے ‘ اس کا ثبوت قرآن مجید کی صریح آیات اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث سے ہے اور سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ کی روایات میں اتنی قوت کہاں ہے دہ قرآن مجید کی صریح آیات اور صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث کے معا رض اور مزاحم ہو سکیں ‘ اب ہم ان آیات اور احادیث کو پیش کر رہے ہیں فنقول وباللہ التوفیق وبہ الا ستعانۃ یلیق۔

قرآن مجید کی حسب ذیل آیات میں یہ تصریح ہے کہ شیاطین پہلے آسمانوں پر فرشتوں کی باتیں سننے کے لیے جاتے تھے پھر ان پر شہاب ثاقب سے مار لگائی جانے لگی ‘ تاہم اب بھی وہ کوئی ایک آدھ بات اچک لیتے ہیں تو پھر شہاب ثاقب ان کا پیچھا کرتا ہے ‘ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے جِنّات نے کہا :

وَّ اَ نَّالَمَسْنَا السَّمَآئَ فَوَجَدْ مُلِئَتْ حَرَسًاشَدِیْدًاوَّشُھُبًا وَّاَنَّاکُنَّا نَقْعُدُ مِنْھَا مَقَا عِدَللِسَّمْعِ ط فَمَنْ یَّسْتَمِعِ الْاٰ نَ یَجِدْلَہ ‘ شِھَابًا رَّصَدًا (الجن : ٩۔ ٨)

اور بیشک ہم نے آسمانوں کو چھوا تو ہم نے دیکھا کہ وہ سخت پہرے داروں سے اور شہابوں سے بھرا ہوا ہے اور ہم ( اس سے پہلے فرشتوں کی باتیں) سننے کے لیے چند جگہوں پر بیٹھ جاتے تھے ‘ پس اب جو کوئی شخص کان لگاتا ہے تو وہ اپنے گھات میں آگ کا شعلہ (شہاب) تیار پاتا ہے۔

اِنَّہُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعُذُوْلُوْنَ (الشعراء : ٢١٢) بیشک شیاطین (فرشتوں کی گفتگو) سننے سے دور کئے ہوئے ہیں۔

وَلَقَدْزَیَّنَّاالسَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَا بِِیْحَ وَ جَعَلْنٰھَا رُجُوْ مًالِّلشَّیٰطِیْنِ ۔ (الملک : ٥)

اور بیشک ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزین فرما دیا اور ان ستاروں کو شیطانوں کے مارنے کا ذریعہ (بھی) بنایا۔

اِنَّازَیِنَّاالسَّمَآ ئَ الدُّنْیَا بِذِیْنَۃِ نِ الْکَوَاکِبِ وَحِفْظًامِّنْ کُلِّ شَیْطٰنِ مَّرِدٍ لَا یَسَّمَّعُوْنَ اِلَی الْمَلَاِ الْاَ عْلیٰ وَ یُقْذَفُوْنَ کُلِّ جَانِبٍِِ دُحُوْرًاوَّلَھُمْ عَذَابُ ‘ وَّاصِبُ ‘ اِلِّامَنْ خَطِفَ الْخَطْفَۃَ فَاَتْبَعَہ ‘ شِھَابُ ‘ ثَاقِبُ ‘ (الصَّفَّت : ١٠۔ ٦)

بے شک ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزین فرمایا دیا اور اسے ہر سرکش شیطان سے محفوظ بنادیا وہ شیاطین اوپر کے فرشتوں کی بات نہیں سن سکتے اور ان کو ہر طرف سے مار لگائی جاتی ہے دور کرنے کے لیے اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے سوا اس شیطان کے جو کوئی بات اچک لے تو شہاب ثاقب (چمکتا ہوا انگارہ) اس کا پیچھا کرتا ہے

اسی طرح حسب ذیل احادیث میں بھی یہ تصریح ہے کہ جِنّات فرشتوں کی باتیں سننے کے لیے آسمانوں پر جایا کرتے تھے :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ (پہلے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنات پر قرآن مجید نہیں پڑھا تھا اور نہ ان کو دیکھا تھا ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کی جماعت کے ساتھ عکاظ کے بازار میں گئے اور آسمان کی خبر اور شیاطین کے درمیان کوئی چیز حائل ہوگئی تھی اور ان کے اوپر آگ کے شعلے پھینکے جاتے تھے ‘ پس شیاطین اپنے قوم کی طرف گئے اور انہوں نے کہا ہمارے اور آسمان کی خبر کے درمیان کیا چیز حائل ہوگئی ہے اور ہم پر آگ کے شعلے پھینکے جاتے ہیں ‘ انہوں نے کہا ضرور کوئی نئی بات ہوئی ہے ‘ زمین کے مشارق اور مغارب میں سفر کیا۔ ان کی ایک جماعت تہامہ کی طرف گئی اور وہاں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عکاظ کے بازار میں اپنے اصحاب کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جب انہوں نے قرآن کو سنا تو انہوں نے کہا : یہ ہے وہ چیز جو تمہارے اور آسمان کے درمیان حائل ہوگئی ہے ‘ پھر وہ اپنے قوم کے پاس واپس گئے اور کہا : اے ہماری قوم ! بیشک ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے ‘ ہم اس پر ایمان لائے اور ہم ہرگز کسی کو اپنے رب کا شریک نہیں قرار دیں گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٧٣۔ ٤٩٢١ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٤٩‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٣٢٣‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١٦٢٤ )

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ آسمان پر کسی امر کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتے عاجزی سے اپنے پر مارنے لگتے ہیں جیسے زنجیر کو صاف پتھر پر مارا جائے پھر اللہ تعالیٰ اس حکم کو نافذ فرما دیتا ہے ‘ جب فرشتوں کے دلوں سے کچھ خوف دور ہوجاتا ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں ‘ تمہارے رب نے کیا فرمایا تھا ؟ وہ کہتے ہیں اس نے جو کچھ فرمایا وہ حق ہے اور وہی سب سے بلند اور سے سے بڑا ہے ‘ پھر فرشتوں کی گفتگو کو چرانے والے شیطان ان باتوں کو چوری سے سننے کی کوشش کرتے ہیں۔ سفیان نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو کشادہ کرکے ایک دوسرے کے اوپر رکھ دکھایا اور کہا شیطان اس طرح ایک دوسرے کے اوپر تلے ہوتے ہیں اور یہ فرشتوں کی گفتگوکو چوری سے سننے والے ہیں ‘ بعض اوقات اس چوری سے سننے والے کو آگ کا ایک شعلہ آ کر لگتا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے ساتھی کو یہ بتائے کہ اس نے کیا سنا تھا وہ شعلہ اس سننے والے کو جلا ڈالتا ہے اور بعض اوقات وہ شعلہ اس کو نہیں لگتاحتیٰ کہ وہ سننے والا اپنے قریب والے کو بتادیتا ہے ‘ پھر وہ اس کو بتادیتا ہے جو اس سے نیچے ہوتا ہے ‘ حتیٰ کہ وہ ان باتوں کو زمین تک پہنچا دیتے ہیں ‘ پھر وہ یہ باتیں جادو گر کے منہ میں ڈال دیتے ہیں ‘ وہ ان باتوں کے ساتھ جھوٹ اور ملا لیتا ہے ‘ پھر اس کی تصدیق کی جاتی ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ کیا اس جادو گرنے ہم کو فلاں دن ایسی ایسی خبر نہیں دی تھی ! اور ہم نے اس کی خبر کو سچاپایا تھا اور یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اس نے آسمان کی خبر سن لی تھی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث ٤٧٠١‘ سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٤٧٢٣۔ ٤٧٢٥‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٣٢٠ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٩٤)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کی جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے ‘ اچانک ایک ستارہ ٹوٹ کر گرا اور فضا روشن ہوگئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا جب تم زمانہ جاہلیت میں یہ منظر دیکھتے تھے تو اس کے متعلق کیا کہتے تھے ؟ صحابہ کرام نے کہا ہم یہ کہتے تھے کہ کوئی بڑا آدمی پیدا ہوا ہے یا کوئی بڑا آدمی مرگیا ہے۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آگ کا شعلہ کسی کی موت پر پھینکا جاتا ہے نہ کسی کی حیات پر ‘ لیکن ہمار ارب عزوجل جب کسی چیز کے متعلق کوئی فیصلہ فرماتا ہے تو حاملین عرش پر سبحان اللہ کہتے ہیں حتیٰ کی اس آسمان تک تسبیح پہنچ جاتی ہے ‘ پھر چھٹے آسمان والے ساتوین آسمان والوں سے پوچھتے ہیں : تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے ‘ پھر وہ ان کو خبر دیتے ہیں ‘ پھر ہر نچلے آسمان والا اپنے سے اوپر آسمان والے سے پوچھتا ہے ‘ حتیٰ کہ آسمان دنیا تک یہ خبر پہنچ جاتی ہے اور شیاطین چوری سے اس خبر کو سن لیتے ہیں ‘ پھر وہ یہ خبر اپنے چیلوں اور دوستوں تک پہنچا دیتے ہیں ‘ پھر اگر وہ اسی خبرکو بیان کریں تو وہ حق ہے لیکن وہ اس میں تحریف کرتے ہیں اور اس میں کچھ اور باتوں کا اضافہ کردیتے ہیں۔ امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

رہا یہ سوال کہ پھر سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ کی اس حدیث کا کیا محمل ہوگا جس میں یہ مذکور ہے کہ آسمان پر ہر جگہ کوئی نہ کوئی فرشتہ سجدہ میں پڑا ہوا ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں صرف فرشتوں کے سجدہ کرنے کا ذکر ہے ‘ حالانکہ کچھ فرشتے قیام میں ہوتے ہیں اور کچھ فرشتے تسبیح کر رہے ہوتے ہیں ‘ اور کچھ فرشتے مومنین کے لیے استغفار کر رہے ہوتے ہیں قرآن مجید میں ہے :

اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وََمَنْ حَوْلَہ ‘ یُسبِّحُوْْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُوْٗ مَنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِ یْنَ اٰمَنُوْا۔ (المومن ؛ ٧)

جو (فرشتے) عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے اردگرد ہیں وہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور مومنین کے لیے استغفار کرتے ہیں۔

اور بعض فرشتے زمین و آسمان کے درمیان تیرتے ہیں اور بعض اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجالانے میں سبقت کرتے ہیں ‘ اور بعض اللہ تعالیٰ کے حکم سے نظام عالم کی تدبیر کرتے ہیں اور بعض وہ ہیں جو بندوں کے نیک اعمال کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پہنچاتے ہیں ‘ قرآن مجید میں ہے :

وَالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا فَا لسّٰبِقٰتِ سَبْقًا اور ان فرشتوں کی قسم ! جو (زمین و آسمان کے درمیان) تیزی

فَالْمُدَبِّرٰ تِ اَمْرًا (النّٰز عٰت : ٥۔ ٣) تیرتے ہیں پھر ان کی قسم ! جو (اللہ کے احکام سننے کے لیے) سبقت کرتے ہیں پھر ان کی قسم ! جو نظام عالم کی تدبیر کرتے ہیں۔

لہٰذا سنن ترمذی کی حدیث عام مخصوص البعض ہے ‘ فرشتے انواع و اقسام کی عبادات کرتے ہیں اور بیشمار احکام بجا لاتے ہیں اس حدیث میں ان کی صرف ایک عبادت کا ذکر ہے کہ وہ آسمان پر ہر جگہ سجدے کرتے ہیں اور یہ ان کی دیگر عبادات اور ان کے دوسرے افعال کے منافی نہیں ہے ‘ سو مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے متعلق ان کا آپس میں باتیں کرنا اس حدیث کے خلاف نہیں ہیَ

علامہ آلوسی کا دوسرا اشکال یہ ہے کہ فرشتے اس قدرزور سے تو نہیں بولتے کہ جنات اور شیاطین ان کی باتوں کو سن لیں ‘ نیز جنات آسمان کے نچلے کنارے کے نیچے ہوتے ہیں اور آسمان کے نچلے کنارے اور اس کے اوپر والے کنارے کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے تو وہ اتنی دور سے فرشتوں کی باتیں کیسے سن لیتے ہیں !

شاید علامہ آلوسی نے شیطان کی قوتوں کو انسانی قوت ہر قیاس کرلیا ہے شیطان کے دیکھنے کی قوت کے متعلق اللہ تعالیٰ فرمایا ہے :

اَنَّہ ‘ یَرٰ کُمْْ ھُوَوَ قَبِیْلُہ ‘ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْ نَھُمْْ شیطان اور اس کا لشکر تمہیں اس طرح دیکھتا ہے کہ تم اس (الاعراف : ٢٧) کو نہیں دیکھتے۔

جس طرح اللہ تعالیٰ نے شیطان کو غیر معمولی دیکھنے کی قوت دی ہے کوئی بعید نہیں ہے کہ اسی طرح اس کو سننے کی قوت بھی دی ہو۔ نیز الاعراف : ١٨۔ ١٤ میں اللہ تعالیٰ کا شیطان سے مکالمہ مذکور ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے شیطان سے پوچھاتو نے آدم کو سجدہ کیوں نہیں کیا ؟ اس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے پیدا کیا ہے۔ الاٰیات۔

ان آیات کی تفسیر میں مفسرین نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں کہ وہ شیطان سے براہ راست کلام کرے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے واسطے سے کلام کیا تھا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام فرشتوں کو القاء کیا اور فرشتوں نے اس کلام کو شیطان تک پہنچایا اور شیطان نے فرشتوں کی زبانی اس کلام کو سنا۔

امام فخر الدین محمد بن عمررازی الاعراف : ١٣ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس کلام کو فرشتوں نے شیطان تک پہنچایا تھا اور اللہ تعالیٰ نے بلاواسطہ ابلیس سے کلام نہیں کیا ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ انبیاء (علیہم السلام) کے سوا اور کسی سے بھی بلاواسطہ کلام نہیں فرماتا ‘ اور بعض علماء نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ انبیاء (علیہم السلام) سے بہ طور اکرام بلاواسطہ کلام فرماتا ہے اور ابلیس سے بہ طوراہانت بلاواسطہ کلام فرمایا۔

(تفسیر کبیرج ٥ ص ٢١٠‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

خودعلامہ آلوسی نے بھی اسی طرح لکھا ہے۔ (روح المعانی جز ٨ ص ١٤٣‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

نیز علامہ آلوسی نے الاعراف : ١٧ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ابلیس نے اللہ تعالیٰ سے کہا تو اپنے اکثر بندوں کو شکرادا کرنے والا نہیں پائے گا۔

علامہ آلوسی نے لکھا شیطان نے قطعی طور پر یہ اس لیے کہا تھا کہ اس نے فرشتوں سے سن لیا تھا کہ اکثر بنوآدم شکرادا نہیں کریں گے ‘ یا پھر اس نے لوح محفوظ میں یہ لکھا ہوا دیکھ لیا تھا۔

(روح المعانی جز ٨ ص ١٤٢‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

اور یہ واضع ہے کہ شیطان نے فرشتوں کا جو بھی کلام سنا اور جب بھی سنا تو آسمان کے نیچے سے ہی سنا کیونکہ کفار کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے ‘ قرآن مجید میں ہے :

اَنَّ الَّذِیْنَ کَذَّ بُوْا بِاٰ یٰتِنَاوَاسْتَکْبَرُوْ اعَنْھَا جن لوگوں نے ہمار آیتوں کو جھٹلاے یا اور ان پر ایمان لانے لَا تُفَتَّحُُ لَھُمْ اَبْوَبُ السَّمَآ ئِ . (الاعراف : ٤٠) سے تکبر کیا ان کے لیے آسمانوں کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔

اور جب یہ واضح ہوگیا کہ شیطان آسمان کے نیچے سے فرشتوں کا کلام سن لیتا ہے تو پھر اس میں کیا استبعاد ہے کہ آسمانوں میں فرشتے جو باتیں کرتے ہیں ان کو جنات اور شیاطین چوری چھپے سن لیں ! اور اس طرح علامہ آلوسی کے قائم کردہ تمام اشکالات اٹھ گئے۔ فالحمد للہ علی ذالک۔

القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 10