اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنۡ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَمَنۡ یُّشْرِکْ بِاللہِ فَقَدِ افْتَـرٰۤی اِثْمًا عَظِیۡمًا ﴿۴۸﴾

ترجمۂ کنزالایمان: بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے اور کفر سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرما دیتا ہے اور جس نے خدا کا شریک ٹھہرایا اس نے بڑے گناہ کا طوفان باندھا۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اوراس سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہتا ہے معاف فرما دیتا ہے اور جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا توبیشک اس نے بہت بڑے گناہ کا بہتان باندھا۔

{ اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنۡ یُّشْرَکَ بِہٖ ٖ: بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے۔} آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ جو کفر پر مرے اس کی بخشش نہیں ہوگی بلکہ اس کے لئے ہمیشگی کا عذاب ہے اور جس نے کفر نہ کیا ہو وہ خواہ کتنا ہی گنہگاراور کبیرہ گناہوں میں مُلَوَّث ہو اور بے توبہ بھی مر جائے تب بھی اُس کے لئے جہنم میں ہمیشہ کا داخلہ نہیں ہوگا بلکہ اُس کی مغفرت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مَشِیَّت (یعنی اس کے چاہنے) پرہے، چاہے تووہ کریم معاف فرما دے اور چاہے تو اُس بندے کو اس کے گناہوں پر عذاب دینے کے بعد پھر اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرما دے ۔ اس آیت میں یہودیوں کو ایمان لانے کی ترغیب ہے ۔

مغفرت کی امید پر گناہ کرنا بہت خطرناک ہےـ:

یہ یاد رہے کہ کفر کے علاوہ قیامت کے دن ہر گناہ کے بخشے جانے کا امکان ضرور ہے مگر اس امکان کی امید پر گناہوں میں پڑنا بہت خطرناک ہے بلکہ بعض صورتوں میں گناہ کو ہلکا سمجھنے کی صورت میں خود کفر ہوجائے گا۔ کتنا کریم ہے وہ خدا عَزَّوَجَلَّجو لاکھوں گناہ کرنے والے بندے کو معافی کی امید دلا رہا ہے اور کتنا گھٹیا ہے وہ بندہ جو ایسے کریم کے کرم و رحمت پر دل و جان سے قربان ہوکر اس کی بندگی میں لگنے کی بجائے اس کی نافرمانیوں پر کمر بستہ ہے۔

حضرت وحشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قبولِ اسلام:

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ وحشی جس نے حضرت حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو شہید کیا تھا وہ سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی: مجھے امان دیجئے تا کہ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خدا کا کلام سنوں کہ ا س میں میری مغفرت اور نجات ہے۔ ارشاد فرمایا: مجھے یہ پسند تھا کہ میری نظر تم پر اس طرح پڑتی کہ تو امان طلب نہ کر رہا ہوتا لیکن اب تو نے امان مانگی ہے تو میں تمہیں امان دیتا ہوں تاکہ تو خدا عَزَّوَجَلَّ کا کلام سن سکے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی:

وَالَّذِیۡنَ لَا یَدْعُوۡنَ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ (الفرقان :۶۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اللہکے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پوجتے۔

وحشی نے کہا: میں شرک میں مبتلا رہا ہوں اور میں نے ناحق خون بھی کیا ہے اور زنا کا بھی مرتکب ہوا ہوں کیا ان گناہوں کے ہوتے حق تعالیٰ مجھے بخش دے گا؟ اس پر سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے خاموشی اختیار فرمائی اور کوئی کلام نہ فرمایا، پھر یہ آیت نازل ہوئی:

اِلَّا مَنۡ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صٰلِحًا (الفرقان:۷۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: مگر جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھا کام کرے۔

وحشی نے کہا: اس آیت میں شرط کی گئی ہے کہ گناہوں سے مغفرت اسے حاصل ہو گی جو توبہ کرلے اور نیک عمل کرے،جبکہ میں نیک عمل نہ کر سکا تو میرا کیا ہو گا؟

تب یہ آیت تلاوت فرمائی:اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنۡ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ (النساء:۴۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے اور کفر سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرمادیتا ہے۔

اب وحشی نے کہا: اس آیت میں مَغفرت مَشِیَّتِ الٰہی کے ساتھ وابستہ ہے، ممکن ہے میں ان لوگوں میں سے ہوں جن کے ساتھ حق تعالیٰ کی مشیت ِمغفرت وابستہ نہ ہو،ا س کے بعد یہ آیت نازل ہوئی :

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسْرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوۡا مِنۡ رَّحْمَۃِ اللہِ (الزمر :۵۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ یہ آیت سن کر وحشی نے کہا:اب میں کوئی قید اور شرط نہیں دیکھتا اور اسی وقت مسلمان ہو گیا۔(مدارج النبوہ، قسم سوم، باب ہفتم: ذکر سال ہفتم وفتح مکہ، ۲/۳۰۲)

مدارج کے علاوہ بقیہ کتابوں میں یہ مذکور ہے کہ یہ عرض معروض نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں نہ ہوئی بلکہ دوسرے ذریعے سے ہوئی۔