ماں کا حق

ایک شخص نے اپنی ماں کو کندھے پر سوار کرکے سات حج کرائے ساتویں حج پر خیال آیا کہ شاید میں نے ماں کا حق ادا کر دیا رات کو خواب میں دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہاتھا کہ جب تو بچہ تھا اور سردی سخت تھی تو ماں کے پاس سورہا تھا تو نے پاخا نہ کردیا تیری ماں نے بستر اٹھا کر دھویا غریبی کی وجہ سے دوسرا بستر نہ تھا تیری ماں اسی گیلے بستر پر کڑکتی سردی میں لیٹ گئی اور تجھ کو رات بھر اپنے سینے پر لٹا ئے رکھا تو کہتا ہے حق ادا ہو گیا اے نادان !ابھی توتواس ایک رات کا بھی حق ادا نہیں کر سکا۔ ( تعلیم الاخلاق)

حدیث شریف میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے حاضر ہو کر عرض کیا ۔یا رسول اللہﷺ ! ایک راہ میں ایسے گرم پتھروں پر کہ گوشت ان پر ڈالا جاتا تو کباب بن جاتا میں چھے میل تک اپنی ماں کو اپنی گردن پر سوار کر کے لے گیا ہوں کیا اب اس کا حق ادا ہو گیا ؟ رسول کریم علیہ التحیۃ والثناء نے ارشاد فرمایا : تیرے پیدا ہونے میں جس قدر دردوں کے جھٹکے ا س نے اٹھائے ہیں شاید ان میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہوسکے۔ (طبرانی)

میرے پیارے آقا ﷺ کے پیارے دیوانو! ہماری ولادت کے وقت درد کے جو جھٹکے ماں نے برداشت کئے ہیں رحمت عالم ﷺ اس درد کی اہمیت کو بیان فرمارہے ہیں اور صحابئی رسول اکی خدمت پر قربان جائیے کہ چھ میل تک کندھے پر اُٹھا کر لے جارہے ہیں اور وہ بھی سخت چلچلاتی دھوپ میں کہ کا ش میری والدہ کا حق ادا ہوجائے ! لیکن رسول اعظم ﷺ اس خدمت کی اہمیت اور ماں کے درد، دونوں کا مقام بتا رہے ہیں تاکہ ہر بچہ اپنی ماں کے درد اور تکلیف کو محسوس کرے اور پوری زندگی ان کے قدموں سے لپٹا رہے اور حق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے۔ ربِّ قدیر جل جلالہ ہم سب کو اپنی والدہ کے مقام کو سمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم