اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡا نَصِیۡبًا مِّنَ الْکِتٰبِ یُؤْمِنُوۡنَ بِالْجِبْتِ وَالطّٰغُوۡتِ وَیَقُوۡلُوۡنَ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ہٰۤؤُلَآءِ اَہۡدٰی مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا سَبِیۡلًا ﴿۵۱﴾ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللہُ ؕ وَمَنۡ یَّلْعَنِ اللہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۵۲﴾

ترجمۂ کنزالایمان: کیا تم نے وہ نہ دیکھے جنہیں کتاب کا ایک حصہ ملا ایمان لاتے ہیں بت اور شیطان پر اور کافروں کو کہتے ہیں کہ یہ مسلمانوں سے زیادہ راہ پر ہیں۔ یہ ہیں جن پراللہ نے لعنت کی اور جسے خدا لعنت کرے تو ہر گز اس کا کوئی یار نہ پائے گا۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا تم نے ان لوگوں کو نہ دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ ملا وہ بت اور شیطان پر ایمان لاتے ہیں اور کافروں کو کہتے ہیں کہ یہ (مشرک) مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور جس پر اللہ لعنت کردے تو ہر گز تم اس کے لئے کوئی مدد گار نہ پاؤ گے۔

{ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡا نَصِیۡبًا مِّنَ الْکِتٰبِ: کیا تم نے ان لوگوں کو نہ دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ ملا۔} کعب بن اشرف اور اس کے ساتھ مزید ستر یہودی مشرکینِ مکہ کے پاس پہنچے اور انہیں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے جنگ کرنے پر آمادہ کیا۔ قریش بولے کہ ہمیں خطرہ ہے کہ تم بھی کتابی ہو اور ان سے قریب ترہو۔ اگر ہم نے ان سے جنگ کی اور تم ان سے مل گئے تو ہم کیا کریں گے؟ اگر ہمیں اطمینان دلانا ہو تو ہمارے بتوں کو سجدہ کرو، ان بد نصیبوں نے سجدہ کر لیا۔ ابو سفیان نے کہا کہ بتاؤ ہم ٹھیک راستہ پر ہیں یا محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ) ؟ کعب بن اشرف نے کہا کہ تم ٹھیک راہ پر ہو۔ اس پر یہ آیت اتری۔ (تفسیر کبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۵۱، ۴/۱۰۱، خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۵۱، ۱/۳۹۲، ملتقطاً)

اور اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت فرمائی کہ انہوں نے حضور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی عداوت میں مشرکین کے بتوں تک کو پوجا۔

طاغوت کا معنی:

اس آیت میں ’’طاغوت‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ ’’طَغٰی‘‘ سے بنا ہے جس کا معنیٰ ہے ’’سرکشی‘‘ ۔جو رب عَزَّوَجَلَّ سے سرکش ہو اور دوسروں کو سرکش بنائے وہ طاغوت ہے خواہ شیطان ہو یا انسان۔ قرآنِ کریم نے سردارانِ کفر کو بھی طاغوت کہا ہے۔ چونکہ طاغوت کے لفظ میں سرکشی کا مادہ موجود ہے اس لئے مُقَرَّبینِ بارگاہِ الٰہی کیلئے یہ لفظ ہرگز استعمال نہیں ہوسکتا بلکہ جو اُن کیلئے یہ لفظ استعمال کرے وہ خود ’’طاغوت‘‘ ہے۔