وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَاۤ اَنۡزَلَ اللہُ وَ اِلَی الرَّسُوۡلِ رَاَیۡتَ الْمُنٰفِقِیۡنَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡکَ صُدُوۡدًا ﴿ۚ۶۱﴾ فَکَیۡفَ اِذَاۤ اَصٰبَتْہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیۡدِیۡہِمْ ثُمَّ جَآءُوۡکَ یَحْلِفُوۡنَ ٭ۖ بِاللہِ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّاۤ اِحْسٰنًا وَّتَوْفِیۡقًا ﴿۶۲﴾ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یَعْلَمُ اللہُ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمْ ٭ فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ وَعِظْہُمْ وَقُلۡ لَّہُمْ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمْ قَوْلاًۢ بَلِیۡغًا ﴿۶۳﴾

ترجمۂ کنزالایمان: اور جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کی اتاری کتاب اور رسول کی طرف آؤ تو تم دیکھو گے کہ منافق تم سے منہ موڑ کر پھر جاتے ہیں۔ کیسی ہوگی جب ان پر کوئی افتادپڑے بدلہ اس کا جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا پھر اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اللہ کی قسم کھاتے کہ ہمارا مقصود تو بھلائی اور میل ہی تھا ان کے دلوں کی تو بات اللہجانتا ہے تو تم ان سے چشم پوشی کرو اور انہیں سمجھا ؤ اور ان کے معاملہ میں ان سے رسا بات کہو۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب اور رسول کی طرف آؤ تو تم دیکھو گے کہ منافق تم سے منہ موڑ کر پھر جاتے ہیں۔ تو کیسی (حالت) ہوگی جب ان پر ان کے اپنے اعمال کی وجہ سے کوئی مصیبت آپڑے پھر اے حبیب! قسمیں کھاتے ہوئے تمہارے حضور حاضر ہوتے ہیں کہ ہمارا مقصد تو صرف بھلائی اور اتفاق کرانا تھا۔ ان کے دلوں کی بات تواللہ جانتا ہے پس تم ان سے چشم پوشی کرتے رہو اور انہیں سمجھاتے رہو اور ان کے بارے میں ان سے پُراثرکلام کرتے رہو۔

{ فَکَیۡفَ اِذَاۤ اَصٰبَتْہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیۡدِیۡہِمْ: تو کیسی ہوگی جب ان پر ان کے اپنے اعمال کی وجہ سے کوئی مصیبت آ پڑے} یہاں منافقوں کے بارے میں فرمایا کہ ویسے تو اے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، آپ سے منہ پھیرتے ہیں لیکن جب ان پر ان کے اپنے اعمال کی وجہ سے کوئی مصیبت آ پڑے جیسے بِشر منافق پر آپڑی تو کیا پھر بھی یہ آپ سے اعراض کریں گے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ اس وقت اپنی کرتوتوں کی تاویلیں کرنے کے لئے قسمیں کھاتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں کہ ہمارا مقصد تو صرف بھلائی اور دوفریقوں میں اتفاق کرانا تھا، اس لئے ہمارا آدمی یہودیوں کے پاس فیصلے کیلئے جانے لگا تھا ۔