فَانْطَلَقَاٙ-حَتّٰۤى اِذَا رَكِبَا فِی السَّفِیْنَةِ خَرَقَهَاؕ-قَالَ اَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ اَهْلَهَاۚ-لَقَدْ جِئْتَ شَیْــٴًـا اِمْرًا(۷۱)

اب دونوں چلے یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے (۱۵۱) اس بندہ نے اسے چیر ڈالا (ف۱۵۲) موسیٰ نے کہا کیا تم نے اسے اس لیے چیرا کہ اس کے سواروں کو ڈبا دو بےشک یہ تم نے بری بات کی(ف۱۵۳)

(ف151)

اور کَشتی والوں نے حضرت خضر علیہ السلام کو پہچان کر بغیر معاوضہ کے سوار کر لیا ۔

(ف152)

اور بسولے یا کلہاڑی سے اس کا ایک تختہ یا دو تختے اکھاڑ ڈالے لیکن باوجود اس کے پانی کَشتی میں نہ آیا ۔

(ف153)

حضرت خضر نے ۔

قَالَ اَلَمْ اَقُلْ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا(۷۲)

کہا میں نہ کہتا تھا کہ آپ میرے ساتھ ہرگز نہ ٹھہر سکیں گے (ف۱۵۴)

(ف154)

حضرت موسٰی علیہ السلام نے ۔

قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِیْ بِمَا نَسِیْتُ وَ لَا تُرْهِقْنِیْ مِنْ اَمْرِیْ عُسْرًا(۷۳)

کہا مجھ سے میری بھول پر گرفت نہ کرو (ف۱۵۵) اور مجھ پر میرے کام میں مشکل نہ ڈالو

(ف155)

کیونکہ بھول پر شریعت میں گرفت نہیں ۔

فَانْطَلَقَاٙ-حَتّٰۤى اِذَا لَقِیَا غُلٰمًا فَقَتَلَهٗۙ-قَالَ اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِیَّةًۢ بِغَیْرِ نَفْسٍؕ-لَقَدْ جِئْتَ شَیْــٴًـا نُّكْرًا(۷۴)

پھر دونوں چلے (ف۱۵۶) یہاں تک کہ جب ایک لڑکا ملا (ف۱۵۷) اس بندہ نے اسے قتل کردیا موسیٰ نے کہا کیا تم نے ایک ستھری جان (ف۱۵۸) بے کسی جان کے بدلے قتل کردی بےشک تم نے بہت بری بات کی

(ف156)

یعنی کَشتی سے اتر کر ایک مقام پر گزرے جہاں لڑکے کھیل رہے تھے ۔

(ف157)

جو ان میں خوبصورت تھا اور حدِّ بلوغ کو نہ پہنچا تھا ۔ بعض مفسِّرین نے کہا جوان تھا اور رہزنی کیا کرتا تھا ۔

(ف158)

جس کا کوئی گناہ ثابت نہ تھا ۔

قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا(۷۵)

کہا (ف۱۵۹) میں نے آپ سے نہ کہا تھا کہ آپ ہرگز میرے ساتھ نہ ٹھہرسکیں گے (ف۱۶۰)

(ف159)

حضرت خضر نے کہ اے موسٰی ۔

(ف160)

اس کے جواب میں حضرت موسٰی علیہ السلام نے ۔

قَالَ اِنْ سَاَلْتُكَ عَنْ شَیْءٍۭ بَعْدَهَا فَلَا تُصٰحِبْنِیْۚ-قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَّدُنِّیْ عُذْرًا(۷۶)

کہا اس کے بعد میں تم سے کچھ پوچھوں تو پھر میرے ساتھ نہ رہنا بےشک میری طرف سے تمہارا عذر پورا ہوچکا

فَانْطَلَقَاٙ-حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَیَاۤ اَهْلَ قَرْیَةِ-ﹰاسْتَطْعَمَاۤ اَهْلَهَا فَاَبَوْا اَنْ یُّضَیِّفُوْهُمَا فَوَجَدَا فِیْهَا جِدَارًا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ فَاَقَامَهٗؕ-قَالَ لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَیْهِ اَجْرًا(۷۷)

پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب ایک گاؤں والوں کے پاس آئے (ف۱۶۱) ان دِہْقانوں(کسانوں) سے کھانا مانگا توانہوں نے انہیں دعوت دینی قبول نہ کی(ف۱۶۲) پھر دونوں نے اس گاؤں میں ایک دیوار پائی کہ گرا چاہتی ہے اس بندہ نے (ف۱۶۳) اسے سیدھا کردیا موسیٰ نے کہا تم چاہتے تو اس پر کچھ مزدوری لے لیتے (ف۱۶۴)

(ف161)

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ اس گاؤں سے مراد انطاکیہ ہے وہاں ان حضرات نے ۔

(ف162)

اور میزبانی پر آمادہ نہ ہوئے ۔ حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ وہ بستی بہت بدتر ہے جہاں مہمانوں کی میزبانی نہ کی جائے ۔

(ف163)

یعنی حضرت خضر علیہ السلام نے اپنا دستِ مبارک لگا کر اپنی کرامت سے ۔

(ف164)

کیونکہ یہ ہماری تو حاجت کا وقت ہے اور بستی والوں نے ہماری کچھ مدارات نہیں کی ایسی حالت میں ان کا کام بنانے پر اجرت لینا مناسب تھا ، اس پر حضرت خضر نے ۔

قَالَ هٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَ بَیْنِكَۚ-سَاُنَبِّئُكَ بِتَاْوِیْلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَیْهِ صَبْرًا(۷۸)

کہا یہ (ف۱۶۵) میری اور آپ کی جدائی ہے اب میں آپ کو ان باتوں کا پھیر(بھید) بتاؤں گا جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا (ف۱۶۶)

(ف165)

وقت یا اس مرتبہ کا انکار ۔

(ف166)

اور ان کے اندر جو راز تھے ان کا اظہار کر دوں گا ۔

اَمَّا السَّفِیْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَهَا وَ كَانَ وَرَآءَهُمْ مَّلِكٌ یَّاْخُذُ كُلَّ سَفِیْنَةٍ غَصْبًا(۷۹)

وہ جو کشتی تھی وہ کچھ محتاجوں کی تھی (ف۱۶۷) کہ دریا میں کام کرتے تھے تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں اور ان کے پیچھے ایک بادشاہ تھا (ف۱۶۸) کہ ہر ثابت کشتی زبردستی چھین لیتا (ف۱۶۹)

(ف167)

جو دس بھائی تھے ان میں پانچ تو اپاہج تھے جو کچھ نہیں کر سکتے تھے اور پانچ تندرست تھے جو ۔

(ف168)

کہ انہیں واپسی میں اس کی طرف گزرنا ہوتا ۔ اس بادشاہ کا نام جلندی تھا کَشتی والوں کو اس کا حال معلوم نہ تھا اور اس کا طریقہ یہ تھا ۔

(ف169)

اور اگر عیب دار ہوتی چھوڑ دیتا اس لئے میں نے اس کَشتی کو عیب دار کر دیا کہ وہ ان غریبوں کے لئے بچ رہے ۔

وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰهُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَاۤ اَنْ یُّرْهِقَهُمَا طُغْیَانًا وَّ كُفْرًاۚ(۸۰)

اور وہ جو لڑکا تھا اس کے ماں باپ مسلمان تھے تو ہمیں ڈر ہوا کہ وہ ان کو سرکشی اور کفر پر چڑھاوے (ف۱۷۰)

(ف170)

اور وہ اس کی مَحبت میں دین سے پھر جائیں اور گمراہ ہو جائیں اور حضرت خضر کا یہ اندیشہ اس سبب سے تھا کہ وہ باعلامِ الٰہی اس کے حالِ باطن کو جانتے تھے ۔ حدیثِ مسلم میں ہے کہ یہ لڑکا کافِر ہی پیدا ہوا تھا ۔ امام سبکی نے فرمایا کہ حالِ باطن جان کر بچّے کو قتل کر دینا حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ خاص ہے انہیں اس کی اجازت تھی ، اگر کوئی ولی کسی بچّے کے ایسے حال پر مطلع ہو تو اس کو قتل جائز نہیں ہے ۔ کتابِ عرائس میں ہے کہ جب حضرت موسٰی علیہ السلام نے حضرت خصر سے فرمایا کہ تم نے ستھری جان کو قتل کر دیا تو یہ انہیں گراں گزرا اور انہوں نے اس لڑکے کا کندھا توڑ کر اس کا گوشت چیرا تو اس کے اندر لکھا ہوا تھا کافِر ہے کبھی اللہ پر ایمان نہ لائے گا ۔ (جمل)

فَاَرَدْنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَیْرًا مِّنْهُ زَكٰوةً وَّ اَقْرَبَ رُحْمًا(۸۱)

تو ہم نے چاہا کہ ان دونوں کا رب اس سے بہتر (ف۱۷۱) ستھرا اور اس سے زیادہ مہربانی میں قریب عطا کرے (ف۱۷۲)

(ف171)

بچّہ گناہوں اور نجاستوں سے پاک اور ۔

(ف172)

جو والدین کے ساتھ طریقِ ادب و حسنِ سلوک اور مودّت و مَحبت رکھتا ہو ۔ مروی ہے کہ اللہ تعالٰی نے انہیں ایک بیٹی عطا کی جو ایک نبی کے نکاح میں آئی اور اس سے نبی پیدا ہوئے جن کے ہاتھ پر اللہ تعالٰی نے ایک اُمّت کو ہدایت دی ، بندے کو چاہئے کہ اللہ کی قضا پر راضی رہے اسی میں بہتری ہوتی ہے ۔

وَ اَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَةِ وَ كَانَ تَحْتَهٗ كَنْزٌ لَّهُمَا وَ كَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًاۚ-فَاَرَادَ رَبُّكَ اَنْ یَّبْلُغَاۤ اَشُدَّهُمَا وَ یَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا ﳓ رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَۚ-وَ مَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِیْؕ-ذٰلِكَ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْهِ صَبْرًاؕ۠(۸۲)

رہی وہ دیوار وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی(ف۱۷۳)اور اس کے نیچے اُن کا خزانہ تھا(ف۱۷۴)اوران کا باپ نیک آدمی تھا (ف۱۷۵) تو آپ کے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچیں (ف۱۷۶) اور اپنا خزانہ نکالیں آپ کے رب کی رحمت سے اور یہ کچھ میں نے اپنے حکم سے نہ کیا (ف۱۷۷) یہ پھیر(بھید) ہے ان باتوں کا جس پر آپ سے صبر نہ ہوسکا (ف۱۷۸)

(ف173)

جن کے نام اصرم اور صریم تھے ۔

(ف174)

ترمذی کی حدیث میں ہے کہ اس دیوار کے نیچے سونا چاندی مدفون تھا ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ اس میں سونے کی ایک تختی تھی اس پر ایک طرف لکھا تھا اس کا حال عجیب ہے جسے موت کا یقین ہو اس کو خوشی کس طرح ہوتی ہے ، اس کا حال عجیب ہے جو قضا و قدر کا یقین رکھے اس کو غصّہ کیسے آتا ہے ، اس کا حال عجیب ہے جسے رزق کا یقین ہو وہ کیوں تعب میں پڑتا ہے ، اس کا حال عجیب ہے جسے حساب کا یقین ہو وہ کیسے غافل رہتا ہے ، اس کا حال عجیب ہے جس کو دنیا کے زوال و تغیّر کا یقین ہو وہ کیسے مطمئن ہوتا ہے اور اس کے ساتھ لکھا تھا لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللّٰہِ اور دوسری جانب اس لوح پر لکھا تھا میں اللہ ہوں ، میرے سوا کوئی معبود نہیں ، میں یکتا ہوں ، میرا کوئی شریک نہیں ، میں نے خیر و شر پیدا کی ، اس کے لئے خوشی جسے میں نے خیر کے لئے پیدا کیا اور اس کے ہاتھوں پر خیر جاری کی ، اس کے لئے تباہی جس کو شر کے لئے پیدا کیا اور اس کے ہاتھوں پر شر جاری کی ۔

(ف175)

اس کا نام کاشح تھا اور یہ شخص پرہیزگار تھا ۔ حضرت محمد ابنِ منکدر نے فرمایا اللہ تعالٰی بندے کی نیکی سے اس کی اولاد کو اوراس کی اولاد کی اولاد کو اور اس کے کنبہ والوں کو اور اس کے محلہ داروں کو اپنی حفاظت میں رکھتا ہے ۔ (سبحان اللہ)

(ف176)

اور ان کی عقل کا مل ہو جائے اور وہ قوی و توانا ہو جائیں ۔

(ف177)

بلکہ بامرِالٰہی و الہامِ خداوندی کیا ۔

(ف178)

بعضے لوگ ولی کو نبی پر فضیلت دے کر گمراہ ہو گئے اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ حضرت موسٰی کو حضرت خضر سے علم حاصل کرنے کا حکم دیا گیا باوجود یکہ حضرت خضر ولی ہیں اوردر حقیقت ولی کو نبی پر فضیلت دینا کفرِ جلی ہے اور حضرت خضر نبی ہیں اور اگر ایسا نہ ہو جیسا کہ بعض کا گمان ہے تو یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے حضرت موسٰی علیہ السلام کے حق میں ابتلاء ہے علاوہ بریں یہ کہ اہلِ کتاب اس کے قائل ہیں کہ یہ حضرت موسٰی پیغمبرِ بنی اسرائیل کا واقعہ ہی نہیں بلکہ موسٰی بن ماثان کا واقعہ ہے اور ولی تو نبی پر ایمان لانے سے مرتبۂ ولایت پر پہنچتا ہے تو یہ ناممکن ہے کہ وہ نبی سے بڑھ جائے ۔ (مدارک) اکثر عُلَماء اس پر ہیں اور مشائخِ صوفیہ و اصحابِ عرفان کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں ۔ شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضر جمہور عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت خضر و الیاس دونوں زندہ ہیں اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں ۔ یہ بھی منقول ہے کہ حضرت خضر نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی پیا واللہ تعالٰی اعلم ۔ (خازن)