وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)

اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بےشک وہ چنا ہوا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتانے والا

وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)

اور اسے ہم نے طور کی دا ہنی جانب سے ندا فرمائی (ف۸۶) اور اسے اپنا راز کہنے کو قریب کیا (ف۸۷)

(ف86)

طور ایک پہاڑ کا نام ہے جو مِصر و مدیَن کے درمیان ہے ، حضرت موسٰی علیہ السلام کو مدین سے آتے ہوئے طور کی اس جانب سے جو حضرت موسٰی علیہ السلام کے داہنی طرف تھی ایک درخت سے ندا دی گئی یٰمُوْسٰی اِنِّیْ اَنَا اللہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ اے موسٰی میں ہی اللہ ہوں تمام جہانوں کا پالنے والا ۔

(ف87)

مرتبۂ قرب عطا فرمایا ، حجاب مرتفع کئے یہاں تک کہ آپ نے صریرِ اقلام سنی اور آپ کی قدر و منزلت بلند کی گئی اور آپ سے اللہ تعالٰی نے کلام فرمایا ۔

وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)

اور اپنی رحمت سے اس کا بھائی ہارون عطا کیاغیب کی خبریں بتانے والا (نبی) (ف۸۸)

(ف88)

جب کہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے دعا کی کہ یاربّ میرے گھر والوں میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے یہ دعا قبول فرمائی اور حضرت ہارون علیہ السلام کو آپ کی دعا سے نبی کیا اور حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسٰی علیہ السلام سے بڑے تھے ۔

وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴)

اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو (ف۸۹) بےشک وہ وعدے کا سچا تھا(ف۹۰) اور رسول تھا غیب کی خبریں بتاتا

(ف89)

جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جد ہیں ۔

(ف90)

انبیاء سب ہی سچے ہوتے ہیں لیکن آپ اس وصف میں خاص شہرت رکھتے ہیں ۔ ایک مرتبہ کسی مقام پر آپ سے کوئی شخص کہہ گیا تھا کہ آپ یہیں ٹھہرے رہیئے جب تک میں واپس آؤں آپ اس جگہ اس کے انتظار میں تین روز ٹھہرے رہے آپ نے صبر کا وعدہ کیا تھا ذبح کے موقع پر اس شان سے اس کو وفا فرمایا کہ سُبحان اللہ ۔

وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ۪-وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)

اور اپنے گھر والوں کو (ف۹۱) نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا اور اپنے رب کو پسند تھا(ف۹۲)

(ف91)

اور اپنی قوم جُرہم کو جن کی طرف آپ مبعوث تھے ۔

(ف92)

بسبب اپنے طاعت و اعمال و صبر و استقلال و احوال و خصال کے ۔

وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(۵۶)

اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو (ف۹۳) بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا

(ف93)

آپ کا نام اخنوخ ہے ، آپ حضرت نوح علیہ السلام کے والد کے دادا ہیں ، حضرت آدم علیہ السلام کے بعد آپ ہی پہلے رسول ہیں ، آپ کے والد حضرت شیث بن آدم علیہ السلام ہیں ، سب سے پہلے جس شخص نے قلم سے لکھا وہ آپ ہی ہیں ، کپڑوں کے سینے اور سلے کپڑے پہننے کی ابتداء بھی آپ ہی سے ہوئی ، آپ سے پہلے لوگ کھالیں پہنتے تھے ، سب سے پہلے ہتھیار بنانے والے ترازو اور پیمانے قائم کرنے والے اور علمِ نجوم و حساب میں نظر فرمانے والے بھی آپ ہی ہیں ، یہ سب کام آپ ہی سے شروع ہوئے ، اللہ تعالی نے آپ پر تیس صحیفے نازِل کئے اور کتبِ الٰہیہ کی کثرتِ درس کے باعث آپ کا نام ادریس ہوا ۔

وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(۵۷)

اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا (ف۹۴)

(ف94)

دنیا میں انہیں علوِ مرتبت عطا کیا یا یہ معنی ہیں کہ آسمان پر اٹھا لیا اور یہی صحیح تر ہے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے شبِ معراج حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمانِ چہارم پر دیکھا ۔ حضرت کعب احبار وغیرہ سے مروی ہے کہ حضرت ادریس علیہ الصلٰوۃ و السلام نے مَلک الموت سے فرمایا کہ میں موت کا مزہ چکھنا چاہتا ہوں کیساہوتا ہے ؟ تم میری روح قبض کر کے دکھاؤ انہوں نے اس حکم کی تعمیل کی اور روح قبض کر کے اسی وقت آپ کی طرف لوٹا دی آپ زندہ ہو گئے فرمایا کہ اب مجھے جہنّم دکھاؤ تاکہ خوفِ الٰہی زیادہ ہو چنانچہ یہ بھی کیا گیا جہنّم دیکھ کر آپ نے مالکِ داروغۂ جہنّم سے فرمایا کہ دروازہ کھولو میں اس پر گزرنا چاہتا ہوں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ اس پر سے گزرے پھر آپ نے مَلک الموت سے فرمایا کہ مجھے جنّت دکھاؤ وہ آپ کو جنّت میں لے گئے آپ دروازے کھلوا کر جنّت میں داخل ہوئے تھوڑی دیر انتظار کر کے مَلک الموت نے کہا کہ آپ اب اپنے مقام پر تشریف لے چلئے فرمایا اب میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ وہ میں چکھ ہی چکا ہوں اور یہ فرمایا ہے وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُھَا ہر شخص کو جہنّم پر گزرنا ہے تو میں گزر چکا اب میں جنّت میں پہنچ گیا اور جنّت میں پہنچنے والوں کے لئے اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے ”وَمَا ھُمْ مِّنْھَا بِمُخْرَجِیْن” کہ وہ جنّت سے نکالے نہ جائیں گے اب مجھے جنّت سے چلنے کے لئے کیوں کہتے ہو ؟ اللہ تعالٰی نے مَلک الموت کو وحی فرمائی کہ حضرت ادریس علیہ السلام نے جو کچھ کیا میرے اذن سے کیا اور وہ میرے اذن سے جنّت میں داخل ہوئے انہیں چھوڑ دو وہ جنّت ہی میں رہیں گے چنانچہ آپ وہاں زندہ ہیں ۔

اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّةِ اٰدَمَۗ-وَ مِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ٘-وَّ مِنْ ذُرِّیَّةِ اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْرَآءِیْلَ٘-وَ مِمَّنْ هَدَیْنَا وَ اجْتَبَیْنَاؕ-اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُكِیًّا۩(۵۸)

یہ ہیں جن پراللہ نے احسان کیا غیب کی خبریں بتا نے والوں میں سے آدم کی اولاد سے (ف۹۵) اور ان میں جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا (ف۹۶) اور ابراہیم (ف۹۷) اور یعقوب کی اولاد سے (ف۹۸) اور ان میں سے جنہیں ہم نے راہ دکھائی اور چن لیا (ف۹۹) جب ان پر رحمٰن کی آیتیں پڑھی جاتیں گر پڑتے سجدہ کرتے اور روتے (ف۱۰۰)

(ف95)

یعنی حضرت ادریس و حضرت نوح ۔

(ف96)

یعنی ابراہیم علیہ السلام جو حضرت نوح علیہ السلام کے پوتے اور آپ کے فرزند سام کے فرزند ہیں ۔

(ف97)

کی اولاد سے حضرت اسمٰعیل و حضرت اسحٰق اور حضرت یعقوب ۔

(ف98)

حضرت موسٰی اورحضرت ہارون اور حضرت زکریا اور حضرت یحیٰ اور حضرت عیسٰی صلوٰۃ اللہ علیہم و سلامہ ۔

(ف99)

شرحِ شریعت و کشفِ حقیقت کے لئے ۔

(ف100)

اللہ تعالٰی نے ان آیات میں خبر دی کہ انبیاء علیہم الصلٰوۃ و السلام اللہ تعالٰی کی آیتوں کو سن کر خضوع و خشوع اور خو ف سے روتے اور سجدے کرتے تھے ۔

مسئلہ : اس سے ثابت ہوا کہ قرآنِ پاک بخشوعِ قلب سننا اور رونا مستحب ہے ۔

فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ(۵۹)

تو ان کے بعد ان کی جگہ وہ ناخلف آئے (ف۱۰۱) جنہوں نے نمازیں گنوائیں(ضائع کیں) اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے (ف۱۰۲) تو عنقریب وہ دوزخ میں غیّ کا جنگل پائیں گے (ف۱۰۳)

(ف101)

مثل یہود و نصارٰی وغیرہ کے ۔

(ف102)

اور بجائے طاعتِ الٰہی کے مَعاصی کو اختیار کیا ۔

(ف103)

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا غی جہنّم میں ایک وادی ہے جس کی گرمی سے جہنّم کے وادی بھی پناہ مانگتے ہیں یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو زنا کے عادی اور اس پر مُصِر ہوں اور جو شراب کے عادی ہوں اورجو سود خوار ، سود کے خوگر ہوں اور جو والدین کی نافرمانی کرنے والے ہوں اور جو جھوٹی گواہی دینے والے ہوں ۔

اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓىٕكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ شَیْــٴًـاۙ(۶۰)

مگر جو تائب ہوئے اور ایمان لائے اور اچھے کام کیے تو یہ لوگ جنّت میں جائیں گے اور انہیں کچھ نقصان نہ دیا جائے گا (ف۱۰۴)

(ف104)

اور ان کے اعمال کی جزا میں کچھ بھی کمی نہ کی جائے گی ۔

جَنّٰتِ عَدْنِ ﹰالَّتِیْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَهٗ بِالْغَیْبِؕ-اِنَّهٗ كَانَ وَعْدُهٗ مَاْتِیًّا(۶۱)

بسنے کے باغ جن کا وعدہ رحمٰن نے اپنے (ف۱۰۵) بندوں سے غیب میں کیا (ف۱۰۶) بےشک اس کا وعدہ آنے والا ہے

(ف105)

ایماندار صالح و تائب ۔

(ف106)

یعنی اس حال میں جنّت ان سے غائب ہے ان کی نظر کے سامنے نہیں یا اس حال میں کہ وہ جنّت سے غائب ہیں اس کا مشاہدہ نہیں کرتے ۔

لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًاؕ-وَ لَهُمْ رِزْقُهُمْ فِیْهَا بُكْرَةً وَّ عَشِیًّا(۶۲)

وہ اس میں کوئی بیکار بات نہ سنیں گے مگر سلام (ف۱۰۷)اور انہیں اس میں ان کا رزق ہے صبح و شام (ف۱۰۸)

(ف107)

ملائکہ کا یا آپس میں ایک دوسرے کا ۔

(ف108)

یعنی علَی الدوام کیونکہ جنّت میں رات اور دن نہیں ہیں اہلِ جنّت ہمیشہ نور ہی میں رہیں گے یا مراد یہ ہے کہ دنیا کے دن کی مقدار میں دو مرتبہ بہشتی نعمتیں ان کے سامنے پیش کی جائیں گی ۔

تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِیًّا(۶۳)

یہ وہ باغ ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اسے کریں گے جو پرہیزگار ہے (ف۱۰۹)

(ف109)

شانِ نُزول : بخاری شریف میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جبریل سے فرمایا ا ے جبریل تم جتنا ہمارے پاس آیا کرتے ہو اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے ؟ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی ۔

وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَۚ-لَهٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَ مَا خَلْفَنَا وَ مَا بَیْنَ ذٰلِكَۚ-وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِیًّاۚ(۶۴)

(اور جبریل نے محبوب سے عرض کی )ہم فرشتے نہیں اترتے مگر حضور کے رب کے حکم سے اسی کا ہے جو ہمارے آگے ہے اور جو ہمارے پیچھے اور جو اس کے درمیان ہے (ف۱۱۰) اور حضور کا رب بھولنے والا نہیں (ف۱۱۱)

(ف110)

یعنی تمام اماکن کا وہی مالک ہے ، ہم ایک مکان سے دوسرے مکان کی طرف نقل و حرکت کرنے میں اس کے حکم و مشیت کے تابع ہیں ، وہ ہر حرکت و سکون کا جاننے والا اور غفلت و نسیان سے پاک ہے ۔

(ف111)

جب چاہے ہمیں آپ کی خدمت میں بھیجے ۔

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَ اصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهٖؕ-هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِیًّا۠(۶۵)

آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہے سب کا مالک تو اسے پوجو اور اس کی بندگی پر ثابت رہو کیا اس کے نام کادوسرا جانتے ہو (ف۱۱۲)

(ف112)

یعنی کسی کو اس کے ساتھ اسمی شرکت بھی نہیں اور اس کی وحدانیت اتنی ظاہر ہے کہ مشرکین نے بھی اپنے کسی معبودِ باطل کا نام اللہ نہیں رکھا ۔