بشارتِ مقامِ امام ابوحنیفہؒ قرآن, حدیث اور علماءِ سلف سے
بشارتِ مقامِ امام ابوحنیفہؒ قرآن, حدیث اور علماءِ سلف سے
حافظ ابن کثیر شافعیؒ نے امام اعظم ابوحنیفہؒ کے بارے میں فرمایا ہے : وہ امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کوفی ہیں ، عراق کے فقیہ ، ائمہ اسلام میں سے ایک ہیں ، عظیم سرداروں میں سے ایک ہیں ، ارکان علماء میں سے ہیں ، صاحب مذاہب متبوعہ کے چار اماموں میں سے ایک ہیں ، طویل حیات پائے ، اس لیے انہوں نے صحابہ کا زمانہ پایا اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکها اور حضرات نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے(امام صاحب نے) سات صحابہ سے روایت کی ہے. ۔۔۔ امام صاحب کی وفات 150 ھجری میں ہوئی۔ [البدایہ والنہایہ ج10 ص 123]
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” تُرْفَعُ زِينَةُ الدُّنْيَا سَنَةَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ وَمِائَةٍ ” .
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اٹھ جائے گی زینت دنیا کی 150 سال میں۔
[مسند البزار:1027، مسند أبي يعلى:851، جامع المسانيد والسُّنَن، لابن کثیر:7069، مجمع الزوائد:12091، إتحاف الخيرة المهرة:414+7439، المطالب العالية، لابن حجر العسقلانی:4481]
القرآن: (1) … اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے.[سوره محمّد:٣٨]
حدیث میں ہے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ دوسری قوم کون ہے جس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ پرہاتھ رکھ کر فرمایا “اس کی قوم “اور فرمایا” خدا کی قسم اگر ایمان ثریا پر جا پہنچے تو فارس کے لوگ وہاں سے بھی اس کو اتار لائیں گے۔ [جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1208+1209, قرآن کی تفسیر کا بیان: سورت محمد کی تفسیر]
“الحمد للہ صحابہ رضوان اللہ عنہم نے اس بینظیر ایثار اور جوش ایمانی کا ثبوت دیا کہ ان کی جگہ دوسری قوم کو لانے کی نوبت نہ آئی۔ تاہم فارس والوں نے اسلام میں داخل ہو کر علم اور ایمان کا وہ شاندار مظاہرہ کیا اور ایسی زبردست دینی خدمات انجام دیں جنہیں دیکھ کر ہر شخص کو ناچار اقرار کرنا پڑتا ہے کہ بیشک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے موافق یہ ہی قوم تھی جو بوقت ضرورت عرب کی جگہ پر کر سکتی تھی۔ ہزارہا علماء و آئمہ سے قطع نظر کر کے تنہا امام اعظم ابو حنیفہؒ کا وجود ہی اس پیشین گوئی کے صدق پر کافی شہادت ہے۔ بلکہ اس بشارت عظمیٰ کا کامل اور اولین مصداق امام صاحب ہی ہیں۔
(2) اور (اس رسول کی بعثت) دوسرے لوگوں کے لئے بھی ہے جو ابھی ان (مسلمانوں سے) نہیں ملے…[الجمعہ:٣]
یعنی یہ ہی رسول دوسرے آنے والے لوگوں کے واسطے بھی ہے جن کو مبدأ و معاد اور شرائع سماویہ کا پورا اور صحیح علم نہ رکھنے کی وجہ سے ان پڑھ ہی کہنا چاہیے۔ مثلاً فارس، روم، چین اور ہندوستان وغیرہ کی قومیں جو بعد کو امیین کے دین اور اسلامی برادری میں شامل ہو کر ان ہی میں سے ہوگئیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ “حق تعالیٰ نے اول عرب پیدا کیے اس دین کے تھامنے والے، پیچھے عجم میں ایسے کامل لوگ اٹھے۔” حدیث میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (وَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ) 63۔ الجمعہ:3) کی نسبت سوال کیا گیا تو سلمان فارسی کے شانہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر “علم یا دین” ثریا پر جا پہنچے گا تو (اس کی قوم فارس کا مرد وہاں سے بھی لے آئے گا)[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2040, تفاسیر کا بیان : تفسیر سورت جمعہ;صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1997, فضائل کا بیان: فارس والوں کی فضلیت کے بیان میں]
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ عَبْدٌ : أَخْبَرَنَا ، وقَالَ ابْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ جَعْفَرٍ الْجَزَرِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” لَوْ كَانَ الدِّينُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَذَهَبَ بِهِ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ ، أَوَ قَالَ : مِنْ أَبْنَاءِ فَارِسَ حَتَّى يَتَنَاوَلَهُ ” .
[صحيح مسلم » كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ » بَاب فَضْلِ فَارِسَ … رقم الحديث: 4624]
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ … » بَاقِي مُسْنَد المُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ » مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ … رقم الحديث: 7882]
[دلائل النبوة للبيهقي » الْمَدْخَلُ إِلَى دَلائِلِ النُّبُوَّةِ وَمَعْرِفَةِ … » جُمَّاعُ أَبْوَابِ غَزْوَةِ تَبُوكَ » بَابُ : قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ : /30 وَعَدَ … (3/216) رقم الحديث: 2608]
حضرت امام اعظم رحمہ اللہ کی تابعیت:
ائمہ دین کی گواہیاں:
١) محمد بن اسحاق (المعروف بابن ندیم المتوفی:380ھ) لکھتے ہیں :
وكان تابعين لقي عدة من الصحابة وكان من الورعين الزاهدين.
[الفهرست ، لابن نديم: ص # 342]
ترجمہ : وہ تابعین میں سے تھے اور متعدد صحابہ کرام سے ملاقات کی اور آپ تھے متقین (سچے، راسخ العقیدہ) زاہدین (دنیا اور دنیاداروں سے بےرغبت ہوکر الله ہی پر توکل کرنے والوں) میں سے تھے.
٢) امام ابن عبد البر المالکیؒ (المتوفی:463ھہ) لکھتے ہیں:
قال أبو عمر : ذكر محمد بن سعد كاتب الوقدى أن أبا حنيفة رأي أنس بن مالك و عبدالله بن الحارث بن جزء.[جامع بيان العلم وفضله : ص # 54]
ترجمہ : ابو عمر کہتے ہیں : محمد بن سعد کاتب الواقدی فرماتے ہیں کہ : امام ابو حنیفہ نے دیکھا ہے حضرت انس بن مالک اور حضرت عبدالله بن حارث بن جزء (رضی الله عنھما) کو.
٣) شمس الدین ذہبیؒ الشافعی (المتوفی:748 ھہ) اپنی كتاب[تذکرۃ الحفاظ: ١/١٦٨] میں پانچویں طبقہ کے حفاظِ حدیث میں امام صاحب کا ذکر “ابو حنيفة الإمام الأعظم” کے عنوان سے کرتے ہیں:
“مولده سنة ثمانين رأي مالك بن أنس غير مرة لما قدم عليهم الكوفة”۔
[تذكرة الحفاظ : 1/126 ، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة : 3/191]
ترجمہ: حضرت امامؒ کی پیدائش سنہ ٨٠ھ میں ہوئی، آپؒ نے حضرت انس بن مالکؓ (٩٣ھ) کوجب وہ کوفہ گئے توکئی دفعہ دیکھا۔
آگے لکھتے ہیں:
“وحدث عن عطاء ونافع وعبد الرحمن بن هرمز الاعرج وعدى بن ثابت وسلمة بن كهيل وابي جعفر محمد بن علي وقتادة وعمرو بن دينار وابي اسحاق وخلق كثير….. وحدث عنه وكيع ويزيد بن هارون وسعد بن الصلت وابوعاصم وعبد الرزاق وعبيد الله بن موسى وابو نعيم وابو عبد الرحمن المقرى وبشر كثير، وكان اماما ورعا عالماً عاملاً متعبدا کبیرالشان”۔
ترجمہ: امام ابوحنیفہؒ نے عطاء، نافع، عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج، سلمہ بن کہیل، ابی جعفر، محمدبن علی، قتادہ، عمرو بن دینار، ابی اسحاق اور بہت سے لوگوں سے حدیث روایت کی ہے اور ابوحنیفہؒ سے وکیع، یزید بن ہارون، سعد بن صلت، ابوعاصم، عبدالرزاق، عبیداللہ بن موسیٰ، ابونعیم، ابوعبدالرحمن المقری اور خلق کثیر نے روایت لی ہے اور ابوحنیفہؒ امام تھے اور زاہد پرہیزگار عالم، عامل، متقی اور بڑی شان والے تھے۔
قرآن و حدیث کی فقہ (سمجھ) میں امام صاحب کی عظمت:
حضرت ضرار بن صرد نے کہا، مجھ سے حضرت یزید بن ہارون نے پوچھا کہ سب سے زیادہ فقہ (سمجھ) والا امام ثوریؒ ہیں یا امام ابوحنیفہؒ ؟ تو انہوں نے کہا کہ: ابوحنیفہؒ (حدیث میں) افقه (سب سے زیادہ فقیہ) ہیں اور سفیانؒ (ثوری) تو سب سے زیادہ حافظ ہیں حدیث میں.
حضرت عبدللہ بن مبارکؒ نے فرمایا : امام ابو حنیفہؒ لوگوں میں سب سے زیادہ فقہ (سمجھ) رکھنے والے تھے.
حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں : ”جو شخص فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے اصحاب کو لازم پکڑے کیونکہ تمام لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہؒ کے عیال (محتاج) ہیں۔“
محدثین کے ذکر میں اسی کتاب میں آگے امام ابوداؤدؒ فرماتے ہیں : “ان ابا حنیفۃ کان اماما”۔
ترجمہ: بے شک ابوحنیفہؒ (حديث میں) امام تھے۔
[تذكرة الحفاظ، دار الكتب العلمية: صفحة # ١٦٨، جلد # ١، طبقه # ٥، بيان: أبو حنيفة إمامِ أعظم]
علماءِ حدیث، حدیث کے راویوں/محدثین کے حالات کی تحقیق میں ان سے مروی خبروں (حدیثوں) میں ان کے ثقہ (قابل اعتماد) ہونے یا ضعیف (اعتماد میں کمزور) ہونے یا کذاب و دجال (جھوٹا اور فریبی) ہونے کا حکم دینے میں ان دو اماموں (امام ذہبیؒ اور امام ابن حجرؒ عسقلانی) کی تحقیق کو حجت مانتے ہیں. اور یہ دونوں امام ابو حنیفہؒ کی علم میں امامت، عمل میں زہد و تقویٰ پر علماء سلف کے اقوال کو شھادتاً پیش کرتے ان کی تعدیل کے و ثقاہت ثابت کرتے ہیں.
یہ اور ان جیسے مزید ائمہ کے اقوال امام ابو حنیفہؒ کی علم، عمل اور تقویٰ میں الامام الحافظ الحجة شهاب الدين أبي فضل أحمد بن علي بن الحجر العسقلانيؒ الشافعی (المتوفی ٨٥٢ھ) کی اسماء الرجال پر لکھی مشہور کتاب [تہذیب التهذیب : ١٠ / ٤٤٩-٤٥١] میں بھی مذکور ہیں
٤) امام يافعي محدث شافعيؒ (المتوفی: 767 ھہ) لکھتے ہیں :
رأي أنسا. [مرآة الجنان وعبرة اليقظان في معرفة ما يعتبر من حوادث الزمان : 4/310]
ترجمہ : انہوں نے دیکھا حضرت انس (بن مالک رضی الله عنہ) کو.
٥) مفسر قرآن ، حافظ الحدیث امام ابن کثیر الشافعیؒ (المتوفی: 774ھہ) لکھتے ہیں : لانه أدرك عصر الصحابة و رأي أنس بن مالك.
[البداية والنهاية ، لابن كثير : ص # 527]
ترجمہ : آپ نے صحابہ کا زمانہ پایا اور حضرت انس بن مالک (رضی الله عنہ) کو دیکھا.
٦) شارح صحیح بخاری، حافظ الحدیث امام ابن حجر العسقلانی الشافعیؒ (المتوفی: 852 ھہ) فرماتے ہیں : رأي أنسا. [تھذیب التھذیب : 6/55]
ترجمہ : انہوں نے دیکھا حضرت انس (بن مالک رضی الله عنہ) کو.
نوٹ : حافظ ابن حجرؒ لا امام ابو حنیفہؒ کو طبقہ سادسہ میں شمار کرنا، یہ آپ کا سہو ہے کیونکہ یہاں آپ خود ہی اپنے اس نظریہ کی تردید فرمادی. اگر امام ابو حنیفہؒ چھٹے طبقہ میں ہوتے تو حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ کو کیسے دیکھ سکتے تھے ، لہذا آج کسی کا حافظ ابن حجرؒ کے اس سہو کو لے کر امام ابو حنیفہؒ کو شرف تابعیت سے محروم قرار دینا ، یہ امام صاحب سے بغض و عداوت ہی کا نتیجہ ہی ہو سکتا ہے.
٧) شارح صحیح بخاری، حافظ الحدیث علامہ بدر الدین عینی حنفیؒ (المتوفی: 855ھہ) لکھتے ہیں :
ابن أبي أوفى أسمه عبدالله … وهو أحد من رأه أبوحنيفة من الصحابة [عمدة القاري شرح صحيح البخاري : 2/505]
ترجمہ : (صحابی رسول حضرت) ابن ابی اوفیٰ بنام عبدالله … اور وہ ان صحابہ میں سے ایک ہیں جنہیں امام ابوحنیفہ نے دیکھا.
٨) امام ابن العماد حنبلیؒ (المتوفی: 1089ھہ) لکھتے ہیں :
رأي أنسا وغيرة [شذرات الذهب في أخبار من ذهب :1/372]
ترجمہ : آپ نے دیکھا حضرت انس کو اور ان کے علاوہ (صحابہ) کو بھی.
٩) حافظ المذيؒ نے بیان فرمایا ہے: کہ امام ابوحنیفہؒ کی ملاقات بہتر (٧٢) صحابہِ کرام سے ہوئی ہے . [معجم المصنفین : ٢/٢٣]
١٠) اہلِ حدیث کے نزدیک بھی امام ابو حنیفہؒ کے امام اور ماننے تابعی ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے کتابتِ حدیث کے استدلال کو انہوں نے “تابعین کا عمل” کے فصل میں جلی حرف سے ذکر کیا ہے، دیکھئے :
[فتاویٰ علماۓ حدیث : ج # ١٢/ ص # ٢٤١ – ٢٤٢؛ دوسرا باب : کتابت احادیث و جمع روایات، فصل سوم: تابعین کا عمل]
القرآن : تِلكَ عَشَرَةٌ كامِلَةٌ {2:196} یہ پورے دس ہوئے۔
امامِ اعظم ابو حنیفہؒ کی تابعیت اور وحدانی روایت:
وحدانی روایت یعنی وہ حدیث جس میں نبی ﷺ تک امام صاحب کے درمیان “ایک راوی” ہو، یہ مرتبہ ان کے بعد کسی اور محدث کو حاصل نہیں.
1) (أبو حنيفة قال) وُلِدْتُ سَنَةَ ثَمَانِينَ ، وَحَجَجْتُ مَعَ أَبِي سَنَةَ سِتٍّ وَتِسْعِينَ ، وَأَنَا ابْنُ سِتَّ عَشْرَةَ سَنَةً ، فَلَمَّا دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ، وَرَأَيْتُ حَلَقَةً ، فَقُلْتُ لِأَبِي : حَلَقَةُ مَنْ هَذِهِ ؟ فَقَالَ : حَلَقَةُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَرْثِ بْنِ جَزْءٍ صَاحِبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَتَقَدَّمْتُ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : ” مَنْ تَفَقَّهَ فِي دِينِ اللَّهِ كَفَاهُ اللَّهُ مَهَمَّهُ وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ” .
ترجمہ : امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ میری پیدائش سن 80 ہجری میں ہوئی ، میں نے 96 ہجری میں جبکہ میری عمر 16 سال تھی ، اپنے والد صاحب کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کی ، جب میں مسجد حرام میں داخل ہوا تو وہاں میں نے ایک بہت بڑا حلقہ دیکھا ، میں نے اپنے والد صاحب سے پوچھا کہ یہ کس کا حلقہ ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ یہ صحابی رسول حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء الزبیدیرضی الله عنہ کا حلقہ ہے ، چنانچہ میں آگے بڑھ کر ان کے حلقہ میں شریک ہوگیا ، میں نے انھیں یہ فرماتے ہوۓ سنا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص الله کے دین میں فقہ (سمجھ بوجھ) حاصل کرنے کی راہ پر چل پڑتا ہے ، الله اس کے کاموں میں اس کی کفایت فرماتا ہے ، اور اسے ایسی جگہوں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں اس کا وہم و گمان بھی نہ گیا ہو.
2) (أبو حنيفة) قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : ” مَنْ بَنَى لِلَّهِ مَسْجِدًا وَلَوْ كَمِفْحَصِ قَطَاةٍ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ ” .
ترجمہ : امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی الله عنہ کو فرماتے ہوۓ سنا کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرمات ہوۓ سنا کہ : جو شخص تعمیر مسجد میں حصہ لے ، اگرچہ قطاة (بھڑ تیتر) پرندے کے گھونسلے کے برابر ہی ہو ، الله تعالیٰ اس کے لئے جنّت میں گھر بنائیں گے.
3) (أبو حنيفة) قَالَ : سَمِعْتُ عَائِشَةَ بِنْتَ عَجْرَدٍ ، تَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” أَكْثَرُ جُنْدِ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ الْجَرَادُ ، لَا آكُلُهُ وَلَا أُحَرِّمُهُ “.
ترجمہ : امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ میں نے سنا حضرت عائشہ بنت عجرد رضی الله عنہا سے یہ فرماتے کہ فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے : الله کا سب سے بڑا لشکر زمین میں ” ٹڈی دل ” ہے ، میں اسے کھاتا ہوں اور نہ حرام قرار دیتا ہوں.
4) (أبو حنيفة) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا رُزِقْتُ وَلَدًا قَطُّ وَلَا وُلِدَ لِي ، قَالَ : ” فَأَيْنَ أَنْتَ مِنْ كَثْرَةِ الِاسْتِغْفَارِ ، وَكَثْرَةِ الصَّدَقَةِ تُرْزَقُ بِهَا ، قَالَ : فَكَانَ الرَّجُلُ يُكْثِرُ الصَّدَقَةَ وَيُكْثِرُ الِاسْتِغْفَارَ ، قَالَ جَابِرٌ : فَوُلِدَ لَهُ تِسْعَةُ ذُكُورٍ ” .[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » كِتَابُ الطَّب وَفَضْلِ الْمَرَضِ وَالرُّقَى وَالدَّعَوَاتِ … رقم الحديث: 440]
ترجمہ : حضرت ابو حنیفہؒ حضرت جابر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری آدمی نبی (صلی الله علیہ وسلم) کی خدمات میں آکر کہنے لگا کہ اے الله کے رسول! میرے یہاں ابھی تک کوئی اولاد نہیں ہوئی، نبی (صلی الله علیہ وسلم) نے فرمایا : (تو) تم کثرت استغفار اور صدقہ (و خیرات کرنے) سے کہاں غفلت میں رہے ؟ اس کی برکت سے تمہیں اولاد نصیب ہوگی . اس آدمی نے کثرت سے صدقہ دینا اور استغفار کرنا شروع کردیا. حضرت جابر (رضی الله عنہ) کہتے ہیں کہ اس کی برکت سے اس کے ہاں نو (٩) لڑکے پیدا ہوۓ.
5) (أبو حنيفة) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” الدَّالُّ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ ” .
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » كِتَابُ الْأَدَبِ … رقم الحديث: 463]
ترجمہ : امام ابو حنیفہؒ حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے مروی ہیں کہ فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے : نیکی کے کام پر راہنمائی کرنے والا بھی ایسے ہی ہے جیسے نیکی کرنے والا.
الراوي: عبدالله بن أنيس و أبو الدرداء و أبو برزة المحدث: السيوطي – المصدر: الجامع الصغير – الصفحة أو الرقم: 3674
خلاصة حكم المحدث: حسن
6) (أبو حنيفة) عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : ” إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ إِغَاثَةَ اللَّهْفَانِ ” .
ترجمہ : امام ابو حنیفہؒ حضرت انس رضی الله عنہ سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد سننا نقل فرماتے ہیں کہ الله مظلوموں کی مدد کرنے کو پسند کرتا ہے.
7) (أبو حنيفة) قَالَ : وُلِدْتُ سَنَةَ ثَمَانِينَ ، وَقَدِمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُنَيْسٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكُوفَةَ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَتِسْعِينَ ، وَرَأَيْتُهُ ، وَسَمِعْتُ مِنْهُ ، وَأَنَا ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ سَنَةً ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : ” حُبُّكَ الشَّيْءَ يُعْمِي وَيُصِمُّ ” .[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » كِتَابُ الْأَدَبِ … رقم الحديث: 472]
ترجمہ : امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ میری پیدائش 80 ہجری میں ہوئی اور حضرت عبدالله بن انیس رضی الله عنہ جو صحابی رسول ہیں 94 ہجری میں کوفہ تشریف لاۓ طے میں نے اس کی زیارت بھی کی اور ان سے حدیث کی سماعت (سننا) بھی کی ہے ، اور اس وقت میری عمر 14 سال تھی ، انہوں سنا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے کہ : کسی چیز کی محبت تمہیں اندھا بھرا کر سکتی ہے.
8) (أبو حنيفة) قَالَ : سَمِعْتُ وَاثِلَةَ بْنَ الْأَسْقَعِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : ” لَا تُظْهِرَنَّ شَمَاتَةً لِأَخِيكَ فَيُعَافِيَهُ اللَّهُ وَيَبْتَلِيَكَ “.[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » كِتَابُ الْأَدَبِ … رقم الحديث: 473]
ترجمہ : امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت واثلہ بن اسقع رضی الله عنہ کو یہ فرماتے ہوۓ سنا ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوۓ سنا ہے کہ : اپنے بھائی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار کبھی نہ کرنا ، ہو سکتا ہے الله تعالیٰ اسے عافیت دیدے اور تمہیں اس (مصیبت) میں مبتلا کردے.
فضیلت_صحابہ و تابعین
٣) وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿٩:١٠٠)؛
جن لوگوں نے سبقت کی یعنی سب سے پہلے ایمان لائے مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے نیکوکاری کے ساتھ انکی پیروی کی اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں اور اس نے انکے لئے باغات تیار کئے ہیں جنکے نیچے نہریں بہ رہی ہیں وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔
سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ” لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي , أَوْ رَأَى مَنْ رَآنِي “
ترجمہ: حضرت جابر بن عبدالله (رضی الله عنہ) کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ ایسے مسلمان کو دوزخ کی آگ نہیں چھو سکے گی جس نے مجھے دیکھا ہو یا اسے دیکھا ہو جس نے مجھے دیکھا.
[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » أبوابُ الْمَنَاقِبِ » بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ مَنْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى …رقم الحديث: 3823(3858)]
ایمان کی حالت میں نبیؐ کو دیکھنے والے کو “صحابی” کہتے ہیں، اور ایمان کی حالت میں صحابی کو دیکھنے والے کو “تابعی” کہتے ہیں.
شیخ جلال الدین سیوطیؒ الشافعی وغیرہ نے [ابو حنیفہؒ کے فضائل-و مناقب پر اپنی”التبييض الصحيفه في مناقب الإمام أبي حنيفه”میں] تسلیم کیا ہے کہ اس پیشین گوئی کے بڑے مصداق حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ النعمان ہیں۔یہ کتاب اردو میں بنام “امام ابوحنیفہؒ کے حالات، کمالات اور ملفوظات” فری ڈاؤن لوڈ کریں یا آن لائن پڑھیں:
حضرت امام ابوحنیفہؒ امامِ اعظم کیوں؟
حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی سب بالاتفاق حضرت امام ابوحنیفہؒ کو امام_اعظم کہتے ہیں. اس کی اصل وجہ تو یہ ہے کہ امام صاحب کے بارے میں جن احادیث میں پیش گویاں ہیں، ان میں اعظم کا لفظ آیا ہے.
(١) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، ثنا جَعْفَرٌ الْفِرْيَابِيُّ ، ثنا أَبُو كُرَيْبٍ ، ثنا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْحُصَيْنِ ، عَنِ الْعَلاءِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : ” أَعْظَمُ النَّاسِ نَصِيبًا فِي الإِسْلامِ أَهْلُ فَارِسَ ، لَوْ كَانَ الإِسْلامُ فِي الثُّرَيَّا لَتَنَاوَلَهُ رِجَالٌ مِنْ أَهْلِ فَارِسَ ” . ( الثريا : مجموعة من نجوم السماء)؛
[ أخبار أصبهان لأبي نعيم : ١/١٠، رقم الحديث: ٩؛[كنز العمال : ١٢/١٦٩، رقم الحديث: ٣٤١٢٦( ك في تاريخه والديلمي – عن أبي هريرة )]
ترجمہ: اسلام میں بڑا حصہ (نصیب) فارس والوں کا ہے، اگر دین ثریا ستارے پر بھی ہوگا تو فارس-والے اسے لے آئیں گے. (ثریا یعنی آسمان کے ستاروں کا مجموعہ)؛
فائدہ: ظاہر ہے کہ جن کا اسلام میں نصیب “اعظم”(بڑا) ہو، ان کا امام بھی اعظم ہے، صحابہ (رضی الله عنھم) کے بعد سب نے اپ کو اعظم مانا اور دنیا میں “سواد_اعظم” آج تک آپکے مقلدین کا ہے.”السواد الاعظم” عربی زبان میں “عظیم-ترین(سب سے بڑی)جماعت” کو کہتے ہیں.[الصحاح للجوهري:١/٤٨٩]؛
چونکہ قرآن پاک میں اسلا مکا دوسرا نام ((دین حنیف)) ہے جس کی تکمیل آنحضرت پر ، تمکین صحابہ کے ذریعہ ہوئی اور تدوین میں اولیت کا شرف امام صاحب کو نصیب ہوا، اسی لئے پوری امت بالاتفاق آپ کی “وصفی کنیت” ابوحنیفہؒ قرار پائی یعنی دین حنیف کے پہلے مدون
اختلاف کا حل حدیث سے : سوادِ اعظم
حضرت انس رضی الله عنہ، رسول الله صلے الله علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ”میری امت کسی گمراہی پر”جمع” (متفق) نہیں ہوگی بس جب تم (لوگوں میں) اختلاف دیکھو تو سواداعظم (بڑی-جماعت) کو لازم پکڑلو(یعنی اس کی اتباع کرو)”[سنن ابنماجہ: کتاب الفتن، باب السواد الاعظم]دوسری روایت میں حضرت ابنعمر(رضی الله عنہ) سے حدیث میں ہے = کہ…بس تم”سواداعظم” کا اتباع کرو، کیونکہ جو شخص الگ راستہ اختیار کریگا جہنم میں جا رہیگا.[مستدرک حاکم: کتاب العلم، ١/١١٥]
امام حاکمؒ نے ابنِ عمر رض کی یہ روایت دو طرق (طریقوں) سے نقل کی ہے اور دونوں کے بارے میں صحتِ سند کا رجحان تو ظاہر کیا ہے، فیصلہ نہیں کیا. اور حافظ ذہبیؒ نے سکوت (خاموشی-جو نیم-رضامندگی ہے)کیا ہے.
امام اعظم ابوحنیفہؒ اکابر امت کی نظر میں:
حضرت امام ابوحنیفہؒ وہ جلیل القدر اورعظیم المرتبت ہستی ہیں،جن کی جلالت شان، امامت وفقاہت، اور فضل وکمال کو بڑے بڑے اساطین علم وفضل اور کبار فقہاء ومحدثین نے تسلیم کیا ہے۔ ہم تبرکا چند اکابر ائمہ کے اقول ذکر کرتے ہیں تاکہ قارئین کرام کو اندازہ ہو سکے کہ اکابر علماءامت جس ہستی کے بارے میں يہ رائے رکھتے ہیں اس ہستی کے ساتھ لا مذہب غیر مقلدین کا کیا رويہ ہے۔
امام شافعی فرماتے ہیں، الله ان سے راضی ہو : امام مالک رحمہ الله سے پوچھا گیا : کیا آپ نے امام ابوحنیفہؒ کو دیکھا ہے؟ تو فرمایا : ہاں ، (اور ایک ستون کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ) میں نے انہیں ایسا شخص پایا کہ اگر وہ اس ستون کو سونے کا ثابت کرنا چاہتے تو اپنے علم کے زور پر وہ ایسا کر سکتے تھے ۔“
حضرت امام شافعی رحمہ الله فرماتے ہیں: ”جو شخص فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ فقہ میں امام ابوحنیفہؒ کے خوشہ چین ہیں۔“
امام یحییٰ بن معین رحمہ الله نے فرمایا : قرأت میرے نزدیک حمزہ کی قرأت ہے، اور فقیہ (میرے نزدیک) امام ابوحنیفہؒ کی فقہ ہے. [وفیات الاعیان لابن خلکان : ٥/٤٠٩]
حضرت عبد الله بن مبارک رحمہ الله فرماتے ہیں کہ میں حضرت امام مالک رحمہ الله کی خدمت میں حاضر تھا کہ ايک بزرگ آئے،جب وہ اٹھ کر چلے گئے تو حضرت امام مالک رحمہ الله نے فرمایا جاتنے ہو يہ کون تھے؟ حاضرین نے عرض کیا کہ نہیں (اور میں انہیں پہچان چکا تھا) فرمانے لگے۔”يہ ابوحنیفہؒ ہیں عراق کے رہنے والے، اگر يہ کہہ دیں کہ یہ ستون سونے کا ہے تو ویسا ہی نکل آئے انہیں فقہ میں ایسی توفیق دی گئی ہے کہ اس فن میں انہیں ذرا مشقت نہیں ہوتی“(حسین بن علی الصیمری: المحدث ۔ اخبار ابی حنیفة و اصحاب ص74) امام عبداللہ بن مبارک فرمایا کرتے تھے: “ولا تقولو رأیُ ابی حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالیٰ ولکن قولوا انہ تفسیر الحدیث“ (ذیل الجواہر المضیة، ج: 2،ص: 460 ؛ مناقب موفق ابن احمد مکی ج2 ص 51 ) یعنی لوگو یہ نہ کہا کرو کہ یہ ابوحنیفہ رحمة الله عليه کی رائے ہے بلکہ یوں کہو کہ یہ حدیث کی تفسیر وبیان ہے ایک دوسرے موقع پر انہی امام المحدثین عبداللہ بن مبارک رحمة الله عليه نے امام صاحب رحمة الله عليه کی اصابت رائے اوراس کی ضرورت واہمیت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے: “”ان کان الاثر قد عرف واحتیج الی الرأی، فرأی مالک، وسفیان، وابی حنیفة، وابوحنیفة احسنہم وادقہم فطنة واغوصہم علی الفقہ، وہو افقہ الثلاثة“ (تاریخ بغداد للخطیب، ج:۱۳،ص:۳۴۳) یعنی اگر حدیث معلوم ومعروف ہو اور (اس کی مراد کی تعیین میں) رائے کی ضرورت ہوتو امام مالک، امام سفیان ثوری اور امام ابوحنیفہؒ کی رائے (ملحوظ رکھنی چاہیے) اور امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه ان تینوں میں فہم وادراک میں زیادہ بہتر اور فقہ کی تہہ تک زیادہ پہنچنے والے تھے۔
حضرت امام شافعی رحمہ الله فرماتے ہیں ”جو شخص فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ امام ابو حنیفہ رحمہ الله اور ان کے اصحاب کو لازم پکڑے کیونکہ تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے خوشہ چین ہیں۔“حضرت امام شافعی رحمہ الله يہ بھی فرماتے ہیں ”میں نے ابو حنیفہ رحمہ الله سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں دیکھا“
دین کی پہچان اور امام ابوحنیفہؒ
حضرت عطاء بن ابی رباحؒ کے ساتھ امام ابوحنیفہؒ کا واقعہ:
اور حکایت نقل کی ہے علامہ ابن بطالؒ نے ((شرح بخاری)) میں امام ابوحنیفہؒ سے : انہوں نے فرمایا : “میں نے ملاقات کی حضرت عطاء بن ابی رباحؒ سے مکہ میں ، پس میں نے سولہ کیا ان سے کسی شیء کے بارے میں؟ تو انہوں نے فرمایا : تو کہاں سے ہے؟ میں نے کہا : کوفہ والوں سے. فرمایا : تم اس شہر سے ہو جنہوں نے علیحدگی اختیار کی اپنے دین سے اور ہوگۓ شیعہ (فرقہ/الگ جماعت)؟ میں نے کہا : جی ہاں. آپ نے فرمایا : تو تم کس قسم کے لوگوں میں سے ہو؟ میں نے کہا : ان لوگوں میں سے جو نہیں برا کہتے سلف (گزرے ہوۓ نیک بزرگوں: صحابہ کو)، اور جو ایمان رکھتے ہیں تقدیر پر، اور جو نہیں کافر کہتے کسی ایک کو بھی اس کے گناہ کے سبب. تو فرمایا حضرت عطاء (بن ابی رباحؒ) نے : تو نے خوب پہچان لیا (دین کو) پس اب اسے لازم پکڑنا”. (یعنی اسی پر قائم رہنا)[الاعتصام للإمام الشاطبي : ١/٨٢]
تخریج :
١) حلية الأولياء ، لابي نعيم : ٣/٣١٤؛
٢) مناقب الإمام أبي حنيفة ، لامام ألكردري : ٧٦؛
٣) العقد الثمين ، للفاسي : ٦/٩١.
حضرت ابوبکر مروزی رحمہ الله فرماتے ہیں ، میں نے حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ الله کو يہ فرماتے ہوئے سنا: ”ہمارے نزديک يہ بات ثابت نہیں کہ ابو حنیفہ رحمہ الله نے قرآن کو مخلوق کہا ہے۔“ میں نے عرض کیا کہ الحمد لله، اے عبدالله (یہ امام احمد بن حنبل کی کنیت ہے) ان کا علم تو بڑا مقام ہے ، فرمانے لگے:”سبحان الله وہ تو علم، ورع، زہد، اور عالم آخرت کو اختیار کرنے میں اس مقام پر ہیںجہاں کسی کی رسائی نہیں“(مناقب الامام ابوحنیفہؒ ص27 )؛
حارث بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ہم حضرت عطاءؒ کے پاس بیٹھے ہوتے تھے، جب امام ابوحنیفہؒ آتے توان کے لیے حضرت عطاءؒ جگہ بناتے اور اپنے قریب بٹھاتے، ابوالقاسمؒ نے ایک مرتبہ حضرت عطاءؒ سے عرض کیا کہ آپ کے نزدیک امام ابوحنیفہؒ بڑے ہیں یاسفیان ثوریؒ؟ توانھوں نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہؒ میرے نزدیک ابنِ جریجؒ سے بھی زیادہ فقیہ ہیں، اُن سے زیادہ فقہ پر قادر شخص میری آنکھوں نے نہیں دیکھا۔(تذکرہ النعمان:۱۷۱)؛
حضرت سفیان بن عینیہ رحمہ الله فرماتے ہیں: ”میری آنکھ نے ابو حنیفہ رحمہ الله کی مثل نہیں ديکھا“(مناقب الامام ابوحنیفہؒ ص19) آپ يہ بھی فرماتے تھے:علماء تو يہ تھے ابن عباس رضی الله عنہ اپنے زمانے میں، امام شعبی رحمہ الله اپنے زمانے میں، ابو حنیفہ رحمہ الله اپنے زمانے میں، اور سفیان ثوری رحمہ الله اپنے زمانے میں۔(اخبار ابی حنیفة واصحابہ ص76)
اقوالِ امام ابوحنیفہؒ احادیث کے مطابق ہوتے:
مشہور ثقہ محدث علی بن خشرم کا بیان ہے کہ ہم امام سفیان بن عیینہ کی مجلس میں تھے تو انھوں نے کہا: اے حدیث سے اشتغال رکھنے والو، حدیث میں تفقہ حاصل کرو ایسا نہ ہو کہ تم پر اصحاب فقہ غالب ہوجائیں، امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه نے کوئی بات ایسی نہیں بیان کی ہے کہ ہم اس سے متعلق ایک، دو حدیثیں روایت نہ کرتے ہوں۔[معرفة علوم الحدیث للحاکم، ص:66]
(تشریح: امام سفیان بن عیینہ نے اپنے اس ارشاد میں حاضرین مجلس کو دو باتوں کی طرف متوجہ کیا ہے ایک یہ کہ وہ الفاظ حدیث کی تحصیل و تصحیح کے ساتھ حدیث کے معنی وفقہ کے حاصل کرنے کی بھی سعی کریں دوسرے امام صاحب کی اصابت رائے اور بصیرت فقہ کی تعریف میں فرمایاکہ ان کی رائے وفقہ حدیث کے مطابق ہے کیوں کہ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں اس کی تائید وتوثیق کسی نہ کسی حدیث سے ہوجاتی ہے۔ )
حافظ أبو نعيم أصفهانيؒ نے “مسند ابوحنیفہؒ” میں بسند_متصل یحییٰ بن نصر صہب کی زبانی نقل کیا ہے کہ :
“دخلت على أبي حنيفة في بيت مملؤ كتابا، فقلت : ما هذه ؟ قال : هذه أحاديث كلها وما حدثت به إلا اليسير الذي ينتفع به”. [مناقب الامام الاعظم : ١/٩٥]؛
ترجمہ: میں امام ابوحنیفہؒ کے ہاں ایسے مکان میں داخل ہوا جو کتابوں سے بھرا ہوا تھا. میں نے ان کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ یہ سب کتابیں حدیث کی ہیں اور (کمال_احتیاط کے سبب) میں نے ان میں سے تھوڑی سی حدیثیں بیان کی ہیں جن سے نفع اٹھایا جاۓ.
شیخ الاسلام والمسلمین حضرت یزید بن ہارون رحمہ الله فرماتے ہیں ”ابوحنیفہ رحمہ الله میں پرہیز گار، پاکیزہ صفات، زاہد، عالم، زبان کے سچے، اور اپنے اہل زمانہ میں سب سے بڑے حافظ حدیث تھے۔ میں نے ان کے معاصرین میں سے جتنے لوگوں کو پایا سب کو یہی کہتے سنا کہاس نے ابو حنیفہ رحمہ الله سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں دیکھا“ (اخبار ابی حنیفة واصحابہ ص36)
حافظ حدیث ابوعمر ابن عبدالبر مالکی اندلسی (المتوفی ۴۶۳ھ) اپنی کتاب ”جامع بیان العلم“ میں فرماتے ہیں کہ امام حدیث اعمش (سلیمان بن مہران) کی مجلس میں ایک شخص آیا اور اعمش سے کوئی مسئلہ دریافت کیا، آپ کوئی جواب نہ دے سکے ،دیکھا کہ امام ابوحنیفہؒ تشریف رکھتے ہیں، فرمایا کہ: کہئے نعمان! کیا ہے ،جواب؟ امام ابو حنیفہؒ نے فوراً جواب دے دیا ۔ امام اعمش نے پوچھا : ابوحنیفہ! تم نے کہاں سے یہ جواب دیا؟ ابو حنیفہؒ نے فرمایا : آپ ہی نے تو مجھے فلاں حدیث اپنی سند سے بیان کی تھی، اسی سے یہ مسئلہ اس طرح نکلتاہے الخ۔ امام اعمش یہ دیکھ کر بے ساختہ فرمانے لگے: ” نَحْنُ الصَّيَادِلَةُ وَأَنْتُمُ الأَطِبَّاءُ “.[جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر (368-463هـ) » بَابُ ذِكْرِ مَنْ ذَمَّ الإِكْثَارَ مِنَ الْحَدِيثِ …، رقم الحديث: 1195]
ترجمہ: آپ طبیب ہیں اور ہم لوگ عطار ہیں. (جامع بيان العلم : صفحہ # ٣٢١)
(شرف اصحاب الحدیث ونصیحۃ اہل الحدیث ص261) [الثقات لابن حبان:8/467]
امام سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ متقدمین نے فرمایا ہے: ﻗﺎﻟﺖ اﻷﻗﺪﻣﻮن: اﻟﻤﺤﺪث ﺑﻼ ﻓﻘﮫ ﻛﻌﻄﺎر ﻏﯿﺮ طﺒﯿﺐ ﻓﺎﻷدوﯾﺔ ﺣﺎﺻﻠﺔ ﻓﻲ دﻛﺎﻧﮫ وﻻ ﯾﺪري ﻟﻤﺎذا ﺗﺼﻠﺢ, واﻟﻔﻘﯿﮫ ﺑﻼ ﺣﺪﯾﺚ ﻛﻄﺒﯿﺐ ﻟﯿﺲ ﺑﻌﻄﺎر ﯾﻌﺮف ﻣﺎ ﺗﺼﻠﺢ ﻟﮫ اﻷدوﯾﺔ إﻻ أﻧﮭﺎ ﻟﯿﺴﺖ ﻋﻨﺪه.[أثر الحديث الشريف في إختلاف الأئمة الفقهاء: 108 بحواله الحاوي للفتاوى: 2/398]
یعنی محدث بغیر فقہ کے ایسا “دوا فروش” ہے جو طبیب نہیں، اس کی دکان میں دوائیں ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ یہ کس مرض کا علاج ہے اور بغیر حدیث کے فقیہ کی مثال جس کو یہ تو علم ہے کہ فلاں مرض کی دوا فلاں ہے لیکن اس کے پاس دوائیں نہیں تو وہ علاج (مریض کو مطمئن) کیسے کرے؟
[اختلافائمہ اور حدیث نبوی:١٣٦ بحوالہ الحاوي للفتاوى: 2/398]
یعنی ہمارا (محدث کا) کام عطار کا ہے، جڑی بوٹی لانا، پتیوں پودوں کو جمع کرنا، اور انھیں مرتبان میں رکھ کر دکان سجانا. ہمارا کام یہ نہیں کہ ہم یہ بتائیں کہ بکھر میں کونسا جوشاندہ استعمال کیا جاۓ، ہمارا کام تو یہ ہے کہ ہم دوائیں اکٹھا کردیں اس کے بعد آپ ڈاکٹر و حکیم (فقہاء) سے نسخہ لائیں، ہم اس نسخہ کے مطابق آپ کو دوا دیں گے یعنی فقیہ جب کوئی مسئلہ بتاۓ گا تو اس مسئلے کے مستدلات آپ کے سامنے پیش کر سکتے ہیں، اجتہاد و گہری و گیرائی ہمارے بس کی بات نہیں، فقہاء و محدثین میں یہ فرق ہے.
فقيه الحديث امامِ اعظم ابوحنیفہؒ
عبيدالله بن عمرو نے مروی ہے کہ [میں امام اعمش کی مجلس میں ایک شخص آیا اور ان سے کوئی مسئلہ دریافت کیا، آپ کوئی جواب نہ دے سکے، دیکھا کہ امام ابوحنیفہ تشریف رکھتے ہیں تو(جامع بيان العلم : صفحہ # ٣٢١)] … امام اعمش نے کہا امام ابو حنیفہؒ کو : اے نعمان ! تمہارا کیا کہنا ہے اس پر اور اس پر ؟؟؟ آپ نے کہا : یہ اور یہ . انہوں نے پوچھا : کہاں سے تم یہ کہتے ہو ؟ کہا : آپ ہی نے تو مجھے فلاں حدیث اپنی سند سے بیان کی تھی، اسی سے یہ مسئلہ اس طرح نکلتاہے الخ۔ امام اعمش یہ دیکھ کر بے ساختہ فرمانے لگے: ” أنتم يا معشر الفقهاء الأطباء ونحن الصيادلة “. ترجمہ: آپ اے گروہ فقہاء! طبیب ہیں اور ہم لوگ عطار ہیں.[الثقات لابن حبان:8/467]
امام سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ متقدمین نے فرمایا ہے: کہ محدث بغیر فقہ کے ایسا “دوا فروش” ہے جو طبیب نہیں، اس کی دکان میں دوائیں ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ یہ کس مرض کا علاج ہے اور بغیر حدیث کے فقیہ کی مثال جس کو یہ تو علم ہے کہ فلاں مرض کی دوا فلاں ہے لیکن اس کے پاس دوائیں نہیں تو وہ علاج (مریض کو مطمئن) کیسے کرے؟[اختلافائمہ اور حدیث نبوی:١٣٦ بحوالہ الحاوي للفتاوى: 2/398]
امام الجرح والتعدیل حضرت یحییٰ بن سعید القطان رحمہ الله فرماتے ہیں:”والله، ابو حنیفہ رحمہ الله اس امت میں خدا اور اس کے رسول سے جو کچھ وارد ہوا ہے اس کے سب سے بڑے عالم ہیں“(مقدمہ کتاب التعلیم ص134)
سید الحفاظ حضرت یحییٰ بن معین رحمہ الله سے ايک باران کے شاگرد احمد بن محمد بغدادی نے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے متعلق ان کی رائے دریافت کی تو آپ نے فرمایا:”سراپا عدالت ہیں، ثقہ ہیں ایسے شخص کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے جس کی ابن مبارک رحمہ الله اور وکیع رحمہ الله توثیق کی ہے“(مناقب ابی حنیفہ ص101)
علمِ حدیث کے ایسے بالغ نظر علماء کا امام ابوحنیفہؒ سے حدیث سننا اور پھراِن کے اس قدر گرویدہ ہوجانا کہ انہی کے قول پر فتوےٰ دینا حضرت امام کی علمی منزلت کی ناقابلِ انکار تاریخی شہادت ہے، حافظ ابنِ عبدالبر مالکیؒ امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین سے نقل کرتے ہیں:
“وکان (وکیع) یفتی برأی أبی حنیفۃ وکان یحفظ حدیثہ کلہ وکان قد سمع من ابی حنیفۃ حدیثاً کثیراً”۔
(کتاب الانتقاء:۲/۱۵۰۔ جامع بیان العلم:۲/۱۴۹)
ترجمہ:حضرت وکیع حضرت امام ابوحنیفہؒ کی فقہ کے مطابق فتوےٰ دیتے تھے اور آپ کی روایت کردہ تمام احادیث یاد رکھتے تھے اور انہوں نے آپ سے بہت سی احادیث سنی تھیں۔
حافظ شمس الدین الذہبیؒ (۷۴۸ھ) بھی وکیع کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:
“وقال يحيى: مارأيت افضل منه يقوم الليل ويسرد الصوم ويفتى بقول ابي حنيفة”۔
(تذکرۃ الحفاظ:۲۸۲)
وکیع جیسے حافظ الحدیث اور عظیم محدث کا آپ کی تقلید کرنا اور فقہ حنفی پر فتوےٰ دینا حضرت امام کے مقام حدیث کی ایک کھلی شہادت ہے؛ پھرچند نہیں آپ نے ان سے کثیراحادیث سنیں،
امام اہل بلخ حضرت خلف بن ایوب رحمہ الله فرماتے ہیں:”الله تعالی سے علم حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کو پہنچا،آپ بعد آپ کے صحابہ کو، صحابہ کے بعد تابعین کو،پھر تابعین سے امام ابو حنیفہ رحمہ الله اور ان کے اصحاب کو ملا، اس پر چاہے کوئی خوش ہو یا ناراض“(تاریخ بغداد ۔ج13ص336)
محدث عبدالله بن داود الخریبی فرماتے ہیں:”حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله کی عیب گوئی دو آدمیوں میں سے ايک کے سوا کوئی نہیں کرتا، یا جاہل شخص جو آپ کے قول کا درجہ نہیں جانتا یا حاسد جو آپ کے علم سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے حسد کرتا ہے“(اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ ص79) نیز فرماتے ہیں:”مسلمانو ں پر واجب ہے کہ وہ اپنی نماز میں ابو حنیفہ رحمہ الله کے لئے دعا کیا کریں۔ کیونکہ انہوں نے حدیث وفقہ کو ان کے لئے محفوظ کیا ہے “(تاریخ بغداد ۔ج13ص344) حضرت عبدالله بن مبارک رحمہ الله فرماتے ہیں:”اگر الله تعالی نے مجھے ابو حنیفہ رحمہ اور سفیان ثوری رحمہ الله سے نہ ملایا ہوتا تو میں بدعتی ہوتا“( مناقب الامام ابی حنیفہ ص18)
بغض_امام ابو حنیفہؒ میں جھوٹی احادیث گھڑنے کا ثبوت
مشہور شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے اسماء الرجال کے موضوع پر اپنی کتاب “تهذيب التهذيب” میں امام نسائی کا یہ قول نقل کیا ہے:
كان يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات في ثلب أبي حنيفة كلها كذب.
[تهذيب التهذيب: 4/235 (10/462)، الميزان: 267 /4]
ترجمہ : نعیم بن حماد سنت کی تقویت کے لئے حدیثیں گھڑا کرتے تھے اور (امام) ابو حنیفہؒ کی تنقیض میں حکایتیں گھڑا کرتے تھے اور وہ سب جھوٹی ہوتی تھیں.
[تاريخ دمشق لابن عساكر » حرف النون » ذكر من اسمه نعيم » نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادِ … رقم الحديث: 67583]
هامش التاريخ الكبير، للبخاري: 81 / 8 ، الكامل في ضعفاء الرجال (7/16) رقم 1959 ، سير أعلام النبلاء:10/595
یہ امام بخاریؒ کے شیوخ میں سے رہے ہیں لیکن پھر بھی نعیم بن حماد کو خود امام بخاریؒ نے (کتاب الضعفاء الصغیر صفحہ 29) میں ضعیف لکھا ہے
مشہور محدث علامہ ابن عدیؒ (277 – 365 ھہ) کے استاد ابّان بن جعفر امام ابو حنیفہؒ کے خلاف روایت گھڑا کرتے تھے جو سب کے سب کذب (جھوٹ) ہیں، انہوں نے ایک دو نہیں بلکہ 300 سے زیادہ روایت ، امام ابو حنیفہؒ کے خلاف گھڑ رکھی تھیں، گمان غالب یہی ہے کہ علامہ خطیب بغدادیؒ نے اپنی “تاریخ بغداد” میں نقل کیا ہے.[ميزان الاعتدال]
ترجمہ : حضرت قاسم بن عباد نے (امام بخاریؒ اور امام ابو داودؒ کے استاد اور حدیث کے بہت بڑے حافظ) امام علی بن جعد جوھری سے روایت کی ہے کہ “امام ابو حنیفہؒ جب حدیث بیان کرتے ہیں موتی کی طرح آبدار ہوتی ہے”.
[جامع مسانيد الإمام الأعظم للخوارزمي : جلد ٢، صفحة ٣٠٨، طبع دائرة المعارف]
علامہ ذہبی رحمہ الله ”تذکرة الحفاظ“ میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله کا تدکرہ ان القابات کے ساتھ کرتے ہیں:” ابو حنیفہ رحمہ الله امام اعظم اور عراق کے فقیہ ہیں…….. وہ امام، پرہیز گار، عالم باعمل، انتہائی عبادت گزار اور بڑی شان والے تھے“(تدکرة الحفاظ ج1ص168)
حافظ عماد الدین بن کثیر رحمہ الله حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله کا تذکرہ ان الفاظ سے کرتے ہیں:”وہ امام ہیں، عراق کے فقیہ ہیں، ائمہ اسلام اور بڑی شخصیات میں سے ايک شخصیت ہیں ، ارکان علماءمیں سے ايک ہیں،ائمہ اربعہ جن کے مذاہب کی پیروی کی جاتی ہے ان میں سے ايک امام ہیں“(البدایة والنہایة ج10ص107)
خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) لکھتے ہیں:
“علمِ عقائد اور علمِ کلام میں لوگ ابوحنیفہؒ کے عیال اور خوشہ چیں ہیں”۔ (تاریخ بغدادی:۱۳/۱۶۱)
مشھور محدث ابو مقاتل حفص بن سلمؒ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ و حدیث میں امامت کا اعتراف ان الفاظ میں کرتے ہیں :
وكان أبو حنيفة إمام الدنيا في زمانه فقها و علما و ورعا، قال : وكان أبو حنيفة محنة يعرف به أهل البدع من الجماعة ولقد ضرب بالسياط على الدخول في الدنيا لهم فابى”.
[الانتقاء لابن عبدالبر: ص ٣١٩، مکتبہ دار البشائر السلامیہ، بیروت ١٤١٧ع]
ترجمہ : امام ابو حنیفہؒ اپنے زمانہ میں (حدیث، فقہ و تقویٰ میں) دنیا کے امام تھے، ان کی ذات آزمائش تھی جس سے اہل السنّت والجماعت اور اہل البدعت میں فرق و امتیاز ہوتا تھا، انھیں کوڑوں سے مارا گیا تاکہ وہ دنیاداروں کے ساتھ دنیا میں داخل ہوجائیں (کوڑوں کی ضرب برداشت کرلی) مگر دخول_دنیا قبول نہ کیا.
امام عبد العزیز بن ابی داودؒ فرماتے ہیں : “أبو حنيفة المحنة من أحب أبا حنيفة فهو سنيي ومن أبغض فهو مبتدع” [أخبار أبي حنيفة و أصحابه لامام صميري : ص ٧٩]؛
امام ابو حنیفہؒ آزمائش ہیں، جو ان سے محبت رکھتا ہے وہ سنی ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ بدعتی ہے.
حضرت امام ابو حنفیہ رحمہ الله کے متعلق مذکورہ چند اکابر اعلام کے چیدہ چیدہ اقوال نقل کئے گئے ہیں ، ان کے علاوہ اور بہت سے بزرگوں کے اقوال، کتب، تاریخ وتذکرہ میں موجود ہیں۔ جن سے حضرت امام صاحب کی فضلیت و منقبت، عظمت و بزرگی ظاہر ہوتی ہے۔ حضرت امام صاحب کے بارے میں ان اقوال کے موجود ہوتے ہوئے غیر مقلدین کا ان پر طعن و تشنیع کرنا، ان کی عیب جوئی اور عیب گوئی کرنا اپنی عاقبت خراب کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔یحییٰ بن معین رحمہ الله سے پوچھا گیا کیا امام صاحب رحمہ الله ثقہ ہیں آپ نے دوبار فرمایا ثقہ ہیں ، ثقہ ہیںمورخ ابن خلکان رحمہ الله لکھتے ہیں کی آپ پر قلت عربیت کے سوا کوئی نقطہ چینی نہیں کی گئ (سبحان الله ) حافظ ابن ابی داؤد رحمہ الله فرماتے ہیں امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے متعلق چہ میگوئیاں کرنے والے دو طرح کے لوگ ہیں ان کی شان سے ناواقف یا ان کے حاسدابن مبارک نے سفیان ثوری معین رحمہ الله سے پوچھا ابو حنیفہ معین رحمہ الله غیبت کرنے سے بہت دور رہتے ہیں دشمن ہی کیوں نہ ہو فرمایا ابو حنیفہ رحمہ الله اس سے بالاتر ہیں کہ اپنی نیکیوں پر دشمن کو مسلط کریں –یہ ایک حقیقت ہے کہ امام صاحب کے شاگردوں کی ان سے روایات کرنے والوں کی اور انہیں ثقہ و معتبر کہنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے بہ نسبت نکتہ چینی کرنے والوں کےامام اعظم رحمہ الله کا علمی پایہ:شداد بن حکم رحمہ الله فرماتے ہے کہ ” ابو حنیفہؒ سے بڑھ کر میں نے کوئی عالم نہیں دیکھا “مکی بن ابراہیم رحمہ الله فرماتے ہیں ” ابو حنیفہؒ اپنے زمانے کے سب سے بڑھے عالم تھےامام وکیع رحمہ الله فرماتے ہے ” میں کسی عالم سے نہیں ملا جو ابو حنیفہؒ سے زیادہ فقیہ ہو اور ان سے بہتر نماز پڑھتا ہو “نذر بن شامل فرماتے ” لوگ علم فقہ سے بے خبر پڑے تھے ابو حنیفہؒ نے انہیں بیدار کیا “محدث یحیٰ بن سعید القطان رحمہ الله فرماتے ہیں ” ہم الله پاک کے سامنے جھوٹ نہیں بول سکتے واقعی ابو حنیفہ رحمہ الله سے بڑھ کر ہم نے فقہ میں کسی کی بات نہیں سنی اس لئے اکثر اقوال ہم نے ان کے اختیار کر لئے “امام شافعی رحمہ الله فرماتے ہیں تمام لوگ فقہ میں ابو حنیفہ رحمہ الله کے محتاج ہیں “محدث یحییٰ بن معین رحمہ الله فرماتے ہیں ” فقہ تو بس ابو حنیفہ رحمہ الله ہی کی ہے”جعفربن ربیع رحمہ الله فرماتے ہے ” میں پانچ سال امام صاحب کی خدمت میں رہا میں نے ان جیسا خموش انسان نہیں دیکھا جب فقہ کا مسئلہ پوچھا جاتا تو کھل جاتے اور علم کا دریا لگتے تھے “عبد الله بن ابی داؤد رحمہ الله فرماتے ہیں ” اہل اسلام پر فرض ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں کے بعد امام ابو حنیفہ رحمہ الله کیلئے دعا کریںشافعی المذہب محدث خطیب تبریزی رحمہ الله 743ھ ) نے مشکو’تہ شریف جمع کی پھر الاکمال کے نام سے رجل پر کتاب لکھی انہوں نے مشکو’تہ میں اگرچہ امام صاحب سے کوئی حدیث نقل نہیں کی مگر برکت کے لئے آپ کا تذکرہ کیا فرماتے ہیں ” امام ابو حنیفہ رحمہ الله بڑھے عالم تھے صاحب عمل پریز گر تھے دنیا سے بے رغبت اور عبادت گزار تھے علوم شریعت میں امام تھے اگرچہ مشکو’تہ میں ہم نے ان سے کوئی روایت نہیں لی یھاں ذکر کرنے سے ہمی غرض ان سے برکت حاصل کرنا ہے ” امام صاحب رحمہ الله علو مرتبت اور اونچے علم کی اور کیا نشانی ہو سکتی ہے
سابق امیر جمعیت اہل حدیث پاکستان علامہ محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ اپنی کتاب فتاوی سلفیہ میں لکھتے ہیں :”جس قدر یہ زمین [زمین کوفہ ]سنگلاخ تھی اسی قدر وہاں اعتقادی اور عملی اصلاح کے لئے ایک آئینی شخص حضرت امام ابو حنیفہ تھے جن کی فقہی موشگافیوں نے اعتزال و تجمم کے ساتھ رفض وتشیع کو بھی ورطہٴحیرت میں ڈال دیا ۔ اللھم ارحمہ واجعل الجنۃ الفردوس ماواہ۔۔۔ ۔ اگر اس پُر فتن دور میں یہ مقدس شخصیت سرزمین کوفہ میں موجود نہ ہوتی تو شاید اس سرزمین کا حشر عاد و ثمود یا قوم لوطؑ جیسا ہوتا۔ ،( فتاوی سلفیہ ،ص:143)
وَأَمَّا طَرِيقَةُ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ وَأَئِمَّةِ الْحَدِيثِ كَالشَّافِعِيِّ وَالْإِمَامِ أَحْمَدَ وَمَالِكٍ وَأَبِي حَنِيفَةَ وَأَبِي يُوسُفَ وَالْبُخَارِيِّ وَإِسْحَاقَ فَعَكْسُ هَذِهِ الطَّرِيق
(اعلام الموقعین،يُصَارُ إلَى الِاجْتِهَادِ وَإِلَى الْقِيَاسِ عِنْدَ الضَّرُورَةِ،ج۴،ص۵۸،طبع اولی دارابن الجوزی سعودی عرب ۱۴۲۳)
اور بہرحال صحابہ و تابعین اور آئمہ حدیث جیسے امام شافعی ،امام احمد بن حنبل ، امام مالک امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف ،امام بخاری امام اسحق کا طریقہ اس سے برعکس ہے۔