أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰهِ جَمِيۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا‌ ۖ وَاذۡكُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ اِذۡ كُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَ لَّفَ بَيۡنَ قُلُوۡبِكُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِهٖۤ اِخۡوَانًا ۚ وَكُنۡتُمۡ عَلٰى شَفَا حُفۡرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَكُمۡ مِّنۡهَا ‌ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمۡ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمۡ تَهۡتَدُوۡنَ

ترجمہ:

اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ ڈالو ‘ اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب تم (آپس میں) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی تو تم اس کے کرم سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے اور تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے تو اس نے تم کو اس سے نجات دی ‘ اللہ اسی طرح تمہارے لیے اپنی آیتوں کو بیان فرماتا ہے۔ تاکہ تم ہدایت پاو

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔ (آل عمران : ١٠٣)

اللہ کی رسی کا بیان : 

اللہ کی رسی کی متعدد تفسیریں کی گئیں ہیں ‘

امام محمد ابن جریر متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا اللہ کی رسی سے مراد جماعت ہے۔

قتادہ نے کہا اللہ کی مضبوط رسی جس کو ہمیں پکڑنے کا حکم دیا ہے وہ یہ قرآن ہے۔ نیز قتادہ سے روایت ہے کہ اس سے مراد عہد اور اس کا حکم ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ صراط مستقیم پر شیاطین آکر اپنی طرف بلاتے ہیں سو تم اللہ کی رسی کو پکڑ لو ‘ اللہ کی رسی کو پکڑ لو ‘ اللہ کی رسی کتاب اللہ ہے۔ حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کتاب اللہ ‘ اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے۔

ابوالعالیہ نے کہا اللہ کی رسی پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرو۔ (جامع البیان ج ٤ ص ١٩٥‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ ‘ روایت کرتے ہیں :

حضرت زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم میں ایسی چیز چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم نے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا تو تم میرے بعد ہرگز گمراہ نہیں ہو گے ‘ ان میں سے ایک دوسری سے زیادہ عظیم ہے کتاب اللہ ‘ اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین کی طرف لٹکی ہوئی ہے ‘ اور میری عترت میرے اہل بیت ہیں وہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز الگ نہیں ہوں گے حتی کہ میرے حوض پر آئیں گے۔ پس دیکھو تم میرے بعد ان کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہو۔ (جامع ترمذی ص ‘ ٥٤١ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

امام عبداللہ بن عبدالرحمان داری متوفی ٢٥٥ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ اس راستہ پر شیاطین آتے ہیں اور ندا کرتے ہیں اے اللہ کے بندے راستہ یہ ہے ‘ تو تم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو ‘ کیونکہ اللہ کی رسی قرآن ہے۔ (سنن دارمی ج ٢ ص ٣١٠‘ مطبوعہ نشرالسنہ ملتان)

خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کی رسی کی تفسیر قرآن مجید ‘ اللہ کے عہد ‘ دین ‘ اللہ کی اطاعت ‘ اخلاص کے ساتھ توبہ ‘ جماعت مسلمین ‘ اخلاص کے ساتھ توحید اور اسلام کے ساتھ کی گئی ہے اور یہ تمام اقوال متقارب ہیں کیونکہ جو شخص کنویں میں اتر رہا ہوتا ہے وہ مضبوطی کے ساتھ رسی کو پکڑتا ہے تاکہ کنویں میں گر نہ جائے ‘ اسی طرح جو مسلمان قرآن مجید ‘ اللہ کے عہد ‘ اس کے دین یا اس کی اطاعت یا جماعت مسلمین یا اسلام کو مضبوطی سے پکڑے تو وہ جہنم کے گڑھے میں گرنے سے محفوظ رہے گا اس لیے ان امور کو اللہ کی رسی کہا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور تفرقہ نہ ڈالو۔

اس آیت میں تفرقہ کی ممانعت سے مراد یہ ہے کہ عقائد میں ایک دوسرے کی مخالفت کرکے مختلف گروہ نہ بناؤ یا اس سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ عداوت اور مخاصمت نہ رکھو اور دنیاوی امور اور اغراض باطلہ کی وجہ سے ایک دوسرے کی مخالفتت نہ کرو ‘ اور فروعی اور اجتہادی مسائل میں مجتہدین اور ائمہ فتوی کا اختلاف اس اختلاف کی ممانعت میں داخل نہیں ہے۔

عقائد حقہ میں اختلاف سے ممانعت : 

عقائد میں اختلاف کی ممانعت اس لیے ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک تمام انبیاء (علیہم السلام) کے عقائد واحد تھے۔ الوہیت ‘ توحید ‘ فرشتے ‘ آسمانی کتابیں ‘ نبوت اور رسالت ‘ تقدیر ‘ اللہ تعالیٰ کے شکر ادا کرنے کا واجب ہونا اور اس کی ناشکری کا حرام ہونا ‘ وحی سے حاصل شدہ احکام پر عمل کرنے کا وجوب اور استحباب وغیرہ ‘ مرنے کے بعد اٹھنا اور جزاء اور سزا کو ماننا یہ وہ عقائد ہیں جن کو اصول اور دین کہا جاتا ہے ‘ حضرت آدم سے لے کر ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک کسی نبی کے دور میں ان میں اختلاف جائز نہیں رہا کیونکہ حق بات صرف ایک ہی ہوتی ہے اس میں اختلاف نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

(آیت) ” فما ذا بعد الحق الا الضلال فانی تصرفون “۔ (یونس : ٣٢)

ترجمہ : سو حق کے بعد گمراہی کے سوا کیا ہے ؟ تم کہاں حق سے پھرے جا رہے ہو۔

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہود کے اکہتر یا بہتر فرقے تھے ‘ نصاری کے بھی اسی طرح تھے اور میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے ‘ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت بنی اسرائیل کے برابر برابر عمل کرے گی حتی کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں کے ساتھ کھلم کھلا بدکاری کی ہو تو میری امت میں بھی لوگ اس طرح کریں گے ‘ اور بنی اسرائیل کے بہتر فرقے تھے اور میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے اور ایک فرقے کے سوا سب دوزخ میں جائیں گے ‘ پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ کونسا گروہ ہوگا ؟ فرمایا جس ملت پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔ (جامع ترمذی ص ‘ ٣٧٩۔ ٣٧٨ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

امام ابن ماجہ نے بھی حضرت ابوہریرہ (رض) کی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ ص ٢٨٧‘ مطبوعہ کراچی)

امام عبداللہ بن عبدالرحمان داری متوفی ٢٥٥ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت معاویہ بن ابی سفیان (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں تشریف فرما ہوئے تو آپ نے فرمایا تو سنو تم سے پہلے اہل کتاب کے بہتر فرقے تھے ‘ اور میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے ‘ بہتر فرقے جہنم میں ہوں گے اور ایک فرقہ جنت میں ہوگا۔ (سنن دارمی ج ٢ ص ١٥٨‘ مطبوعہ نشرالسنہ ملتان)

امام محمد ابن جریر متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بنی اسرائیل کے اکہتر فرقے تھے اور عنقریب میری امت کے بہتر فرقے ہوں گے اور ایک فرقے کے سوا سب دوزخ میں ہوں گے ‘ عرض کیا گیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ کونسا فرقے ہوگا ؟ آپ نے مٹھی بند کی اور فرمایا جماعت ‘ تم سب مل کر اللہ کی راسی کو مضبوطی سے پکڑو اور تفرقہ نہ کرو۔ (جامع البیان ج ٤ ص ‘ ٢٢ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

ان احادیث میں جس امت کے اکہتر یا بہتر فرقے بیان کیے گئے ہیں اس سے مراد امت دعوت بھی ہوسکتی ہے اور امت اجابت بھی ‘ لیکن زیادہ تر علماء کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد امت اجابت ہے۔ پھر علامہ قرطبی اور دیگر علماء نے بہتر فرقے بھی گنوائے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ علامہ قرطبی ساتویں ہجری کے ہیں اور اب مزید سات سو سال گزر چکے ہیں اور اس عرصہ میں کئی نئے فرقے وجود میں آچکے ہیں ‘ اور قیامت تک نہ جانے اور کتنے فرقے وجود میں آئیں گے اس لیے تحقیق یہ ہے کہ ان فرقوں کے مصداق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کو معلوم ہیں ‘ اور وہ فرقہ نجات یافتہ ہے جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سواد اعظم سے تعبیر فرمایا اور بعض احادیث میں فرمایا جو میری سنت اور میرے صحابہ کے طریقہ پر ہے اس کو کامل نجات ہوگی اور باقی فرقوں میں سے جن کی گمراہی کفر کی حد تک پہنچ گئی جیسے مرزائی یا شیعہ کے بعض فرقے وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اور جن فرقوں کی گمراہی کفر تک نہیں پہنچی جیسے معتزلہ اور بعض شیعہ وہ اپنی بد عقیدگی اور بدعملی کی سزا پاکر دوزخ کے عذاب سے نجات پاجائیں گے۔

باہمی بغض ‘ حسد اور عصبیت کی وجہ سے اختلاف کی ممانعت : 

اس آیت میں تفرقہ کی ممانعت کا دوسرا محمل یہ ہے کہ مسلمان دنیاوی امور ‘ اغراض باطلہ ‘ بغض ‘ حسد اور عصبیت کی وجہ سے ایک دوسرے سے اختلاف نہ رکھیں اور تفرقہ میں نہ بٹ جائیں ‘ مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ اس پر شاہد ہے کہ جب بھی مسلمان تفرقہ کا شکار ہوئے عنان حکومت ان کے ہاتھ سے جاتی رہی اور یا تو وہ صفحہ ہستی سے مٹادیئے گئے یا غیر قوموں کے محکوم اور غلام بن گئے ‘ اندلس میں مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی لیکن آپس کی تفرقہ کی وجہ سے عیسائیوں نے پوراسپین پر قبضہ کرلیا اور مسلمانوں کے لیے صرف تین راستے رکھے اندلس سے نکل جاؤ‘ عیسائی ہوجاؤ یا پھر مرنے کے لیے تیار رہو حتی کہ ایک وقت ایسا آیا کہ پورے اسپین میں ایک بھی مسلمان نہ رہا ‘ بغداد میں اسی تفرقہ بازی اور شیعہ سنی اختلاف کی وجہ سے مسلمان کمزور ہوگئے اور ہلاکو کے ہاتھوں مسلمانوں کی ذلت کی ایک اور تاریخ لکھی گئی ‘ ہندوستان میں مسلمانوں نے کئی صدیوں تک حکومت کی لیکن جب مسلمانوں طوائف الملوکی کا شکار ہوگئے اور شراب اور موسیقی میں ڈوب گئے تو انگریزوں کی غلامی ان کا مقدرر بن گئی ‘ مشرقی پاکستان میں جب مسلمان اردو اور بنگلہ کے اختلاف کا شکار ہوئے تو مشرقی پاکستان ختم ہوگیا اور اب کراچی میں مہاجر اور غیر مہاجر کا اختلاف زور پر ہے اللہ جانے یہ قوم اس اختلاف سے نکل آتی ہے یا اپنی تباہ کاریوں کی ایک اور تاریخ رقم کرتی ہے ‘ بہرحال اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس قسم کے اختلاف سے روکا اور منع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

(آیت) ” ولا تنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم “۔ (الانفال : ٤٦)

ترجمہ : اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ‘ ورنہ بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمانوں کا ایک دوسرے پر رحم کرنا ‘ ایک دوسرے سے دوستی رکھنا اور ایک دوسرے پر نرمی کرنا تم دیکھو گے کہ اس کی مثال ایک جسم کی طرح ہے ‘ جب جسم کے ایک عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم درد اور تکلیف سے بےقرار رہتا ہے اور جاگتا رہتا ہے۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن ‘ مومن کے لیے ایک دیوار کی طرح ہے جس کے بعض اجزاء بعض کو مضبوط کرتے ہیں ‘ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی انگلیاں انگلیوں میں ڈالیں۔

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منی میں فرمایا یہ کون سا دن ہے ؟ صحابہ نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں ‘ آپ نے فرمایا یہ یوم حرام ہے ‘ آپ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سا شہر ہے ؟ صحابہ نے کہا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ شہر حرام ہے ‘ کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سا مہینہ ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں ‘ آپ نے فرمایا یہ ماہ حرام ہے آپ نے فرمایا اللہ نے تم پر تمہارے خون ‘ تمہارے مال اور تمہاری عزتیں اس طرح حرام کردیں ہیں جس طرح اس دن کی اس مہینہ میں اس شہر میں حرمت ہے۔

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو ‘ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ‘ ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو ‘ اور اللہ کے بندے بھائی بن جاؤ‘ اور کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑ دے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمان کو گالی دینا فسق ہے (گناہ کبیرہ) اور اس کا قتل کرنا کفر ہے۔

حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو فسق کی تہمت لگائے نہ کفر کی۔ ورنہ اگر وہ شخص اس کا مستحق نہ ہوا تو وہ (فسق یا کفر) کہنے والے کی طرف لوٹ آئے گا۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ‘ ٨٩٣۔ ٨٨٩‘ ملتقطا، مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابو بکرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ بغاوت کرنے والے اور قطع رحم کرنے والے کو اخروی سزا کے باوجود جس قدر جلد دنیا میں سزا دیتا ہے کسی اور کو سزا نہیں دیتا۔ (سنن ابوداؤد ج ٢ ص ‘ ٣١٦ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حسد کرنے سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ (سنن ابوداؤد ج ٢ ص ‘ ٣١٦ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر پیر اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ‘ اور ان دونوں دنوں میں ہر اس بندے کی مغفرت کردی جاتی ہے جس نے شرک نہ کیا ہو مگر ان دو شخصوں کی مغفرت نہیں کی جاتی جو آپس میں عداوت رکھتے ہوں ‘ ان کے متعلق کہا جاتا ہے ان کو مہلت دو حتی کہ یہ آپس میں صلح کرلیں۔ (سنن ابوداؤد ج ٢ ص ‘ ٣١٧ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ)

حضرت ابودرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا میں تم کو اس عبادت کی خبر نہ دوں جس کا نماز زوزہ اور صدقہ سے زیادہ اجر ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کیوں نہیں ! یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا دو لڑے ہوئے شخصوں میں صلح کرانا۔ (سنن ابوداؤد ج ٢ ص ‘ ٣١٧ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ کسی مسلمان کے لیے تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے ترک تعلق رکھنا جائز نہیں ہے ‘ اور جس نے تین دن سے زیادہ ترک تعلق رکھا اور مرگیا تو وہ دوزخ میں جائیگا (سنن ابوداؤد ج ٢ ص ‘ ٣١٧ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ)

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منبر پر چڑھ کر بہ آواز بلند ندا کی : اے لوگو ! جو زبان سے اسلام لائے ہو اور تمہارے دلوں تک ایمان نہیں پہنچا ‘ مسلمانوں کو ایذاء نہ دو ‘ ان کو عار نہ دلاؤ‘ ان کے عیوب نہ تلاش کرو ‘ کیونکہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیوب تلاش کرے گا ‘ اللہ اس کے عیوب کو ظاہر کر دے گا ‘ اور جس کے عیوب کو اللہ ظاہر کر دے گا اس کو رسوا کر دے گا ‘ خواہ وہ کجاوے کے اندر چھپا ہو ‘ حضرت ابن عمر (رض) نے ایک دن کعبہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو کس قدر عظیم ہے اور تیری حرمت کس قدر عظیم ہے اور اللہ کے نزدیک مومن کی حرمت تجھ سے زیادہ ہے۔ (جامع ترمذی ص ‘ ٢٩٧ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

امام ابن ماجہ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اندھی حمایت کے جھنڈے تلے لڑا وہ کسی عصبیت کی دعوت دیتا تھا یا عصبیت کی آگ بھڑکاتا تھا وہ جاہلیت کی موت مرا۔ (سنن ابن ماجہ ص ٢٨٧ مطبوعہ کراچی)

فسیلہ کہتی ہیں کہ میرے والد بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کیا کسی شخص کا اپنی قوم سے محبت رکھنا عصبیت ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں ! لیکن عصبیت یہ ہے کہ کوئی شخص ظلم کے باوجود اپنی قوم کی مدد کرے۔

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔ جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم کے ساتھ رہو۔ (سنن ابن ماجہ ص ٢٨٣‘ مطبوعہ کراچی)

امام مالک بن انس اصبحی متوفی ١٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا آج وہ لوگ کہاں ہیں جو میری ذات کی وجہ سے آپس میں محبت کرتے تھے ؟ میں انہیں آج اپنے سائے میں رکھوں گا جس دن میرے سوا اور کسی کا سایہ نہیں ہے۔

حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو لوگ میری وجہ سے باہم محبت رکھتے ہیں ‘ جو میری وجہ سے ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے ہیں اور میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں کہ ان کے لیے میری محبت واجب ہوگئی۔ (موطا امام مالک ص ٧٣٣‘ مطبوعہ مطبع مجتبائی پاکستان لاہور)

فرعی اور اجتہادی مسائل میں اختلاف کی گنجائش : 

ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ اصول دین اور عقائد میں اختلاف جائز نہیں ہے اور نہ حسد اور بغض کی وجہ سے باہم اختلاف کرنا جائز ہے ‘ البتہ مسائل فرعیہ میں ایک دوسرے سے اختلاف کرنا جائز ہے اور اس کی اصل یہ حدیث ہے :

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ غزوہ احزاب سے لوٹے تو آپ نے فرمایا : بنو قریظہ ہی میں پہنچ کر نماز پڑھنا ‘ راستہ میں نماز کا وقت آگیا بعض صحابہ نے کہا جب تم ہم بنوقریظہ نہ پہنچ جائیں نماز نہیں پڑھیں گے اور بعض صحابہ نے کہا : نہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ مراد نہیں تھی ‘ ہم نماز پڑھیں گے ‘ بعد میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے ان میں سے کسی فریق کو ملامت نہیں کی۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ١٢٩)

بعض مسائل میں صحابہ کرام اختلاف رہا ہے ‘ حضرت عمر (رض) اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) جنبی کے لیے تیمم کے جواز کے قائل نہیں تھے اور حضرت عمار بن یاسر اور حضرت ابو موسیٰ اشعری اور دیگر صحابہ کرام اس کے جواز کے قائل تھے ‘ احرام باندھنے سے پہلے غسل کرکے خوشبو لگانے کو حضرت عبداللہ بن عمر (رض) ناجائز کہتے تھے اور حضرت عائشہ (رض) اس کو جائز کہتی تھیں ‘ حضرت عمر فرماتے تھے کہ میت پر نوحہ کرنے والوں کا گناہ ہے اس میں میت کو عذاب کیوں ہوگا ؟ حضرت عمر (رض) اور حضرت عثمان (رض) حج تمتع کو ناجائز کہتے تھے اور باقی صحابہ کرام۔ اس کو جائز کہتے تھے ‘ ان تمام مذکورہ اختلافات صحابہ کی مثالیں صحیح بخاری اور دیگر حدیث کی کتابوں میں ہیں۔

نیز حافظ سیوطی نے یہ حدیث ذکر کی ہے کہ میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔ (الجامع الصغیر ج ١ ص ٤٨‘ مطبوعہ بیروت) اس حدیث کو نصر المقدسی نے الحجۃ میں اور امام بیہقی نے الرسالۃ الاشعریۃ میں بغیر سند کے ذکر کیا ہے اور حلمی قاضی حسین اور امام الحرمین وغیرہ نے بھی اس کو وارد کیا ہے اور شاید کہ حفاظ کی بعض کتب میں اس کی تخریج ہے جو ہم کو نہیں ملی۔

بعض چیزیں ایک امام کے نزدیک حرام ہیں اور دوسرے امام کے نزدیک حلال ہیں اس سے امت کے لیے عمل میں وسعت پیدا ہوگئی مثلا امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک خنزیر کے سوا تمام سمندری جانور حلال ہیں (امام شافعی کے بعض اقوال کے مطابق سمندری خنزیر بھی حلال ہے ‘ امام مالک نے بعض اقوال میں سمندری خنزیر کے متعلق توقف کیا ہے ‘ اور امام احمد کے نزدیک جو جانور صرف پانی میں زندہ رہتے ہوں وہ سب حلال ہیں ‘ انہوں نے سمندر خنزیر کا استثناء نہیں کیا۔ ) اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک مچھلی کے سوا تمام سمندری جانور حرام ہیں ‘ اتفاق سے ساحلی علاقوں اور جزائر (مثلا انڈونیشیا ‘ ملائشیا اور مراکش وغیرہ) میں رہنے والے امام شافعی اور امام مالک کے پیروکار ہیں اور ان کے مذہب کے مطابق ان کے پیروکاروں کے لیے سمندری جانوروں سے غذا حاصل کرنا آسان ہوگیا ‘ اور امام ابوحنیفہ کے اکثر مقلدین خشکی کے علاقوں (مثلا برصغیر ‘ ترکی ‘ وسط ایشاء کی نوآزاد ریاستیں) میں رہنے والے ہیں لہذا ان کے لیے سمندری جانوروں کے حرام ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ خلاصہ یہ ہے کہ فرعی مسائل میں اختلاف امت کے لیے رحمت اور وسعت کا باعث ہے اور یہ ممنوع نہیں ہے۔ اسی طرح بعض احادیث میں ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھے ‘ بعض میں ہے آپ نے ناف کے نیچے ہاتھ باندھے ‘ بعض احادیث میں ہے آپ نے صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کیا اور بعض میں ہے آپ نے رکوع سے پہلے اور رکوع کے بھی بھی رفع یدین کیا ‘ اسی طرح آپ نے نماز میں آہستہ آمین بھی کہی ہے اور بلند آواز سے بھی ‘ اور ائمہ اربعہ میں سے ہر امام نے آپ کی کسی نہ کسی حدیث پر عمل کیا ہے اور اگر یہ اختلاف نہ ہوتا اور یہ سب ایک ہی طریقہ سے نماز پڑھتے تو آپ کے کئے ہوئے باقی اعمال متروک ہوجاتے ‘ اس اختلاف ائمہ کے سبب آپ کا کوئی عمل متروک نہیں ہوا اور آپ کا ہر عمل کسی نہ کسی امام کا مذہب بن کر قیامت تک کے مسلمانوں کی عبادات میں محفوظ ہوگیا تو اس اختلاف کی اس سے بڑھ کر اور کیا رحمت ہوگی !

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب تم (آپس میں) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی تو تم اس کے کرم سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔ (آل عمران : ١٠٣)

اوس اور خزرج پر اللہ کے دنیاوی اور اخروی احسانات :

اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے پہلے حصہ میں مسلمانوں کو دین اسلام کی وحدت کے ساتھ متحد رہنے اور مسلمانوں کو اپنی جماعت کے ساتھ وابستہ رہنے اور تفرقہ نہ کرنے کی تلقین کی تھی اور آیت کے اس درمیانی حصہ میں یہ بتایا کہ وہ پہلے افتراق اور انتشار کا شکار تھے اور مختلف ٹکڑوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے تھے ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو دولت اسلام عطا فرمائی اور وہ سب رشتہ اسلام میں منسلک ہوگئے اور جو ایک دوسرے ایک دوسرے کی جان کے دشمن تھے وہ الفت اور محبت کے ساتھ آپس میں بھائی بھائی ہوگئے سو اب ان کو چاہیے کہ اس نعمت کی قدر کریں اور اس اتحاد اور اتفاق کو قائم رکھیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔

یہ لوگ پہلے شرک اور بت پرستی کرتے تھے اور دنیا میں کفر کی وجہ سے قتل کیے جانے کے مستحق تھے اور آخرت میں دائمی عذاب کے سزاوار تھے۔ اب اسلام کی بدولت وہ دنیا میں قتل اور آخرت میں دائمی عذاب سے محفوظ ہوگئے بلکہ باقی دنیا اور آنے والی نسلوں کے لیے ہادی اور رہنما بن گئے۔ عرب کے دو بڑے قبیلے اوس اور خزرج تھے۔ زمانہ جاہلیت میں ان کے درمیان ایک سو بیس سال سے شدید عداوت چلی آرہی تھی اور دونوں قبیلے ایک دوسرے کو قتل کرنے کے موقع کی تلاش میں رہتے تھے اور جب یہ لوگ اسلام میں داخل ہوئے تو ان کی دشمنیاں ایک دوسرے کے ساتھ محبت ‘ خیر خواہی اور تعاون میں بدل گئیں اور یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام اور احسان ہے ‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

(آیت) ” والف بین قلوبھم لو انفقت ما فی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبھم ولکن اللہ الف بینھم انہ عزیز حکیم “۔ (الانفال : ٦٣)

ترجمہ : اور (اللہ نے ہی) مسلمانوں کے دلوں میں الفت پیدا کی ‘ اگر آپ زمین کا سب کچھ بھی خرچ کردیتے تو ان کے دلوں میں الفت پیدا نہیں کرسکتے تھے لیکن اللہ نے انکے دلوں میں الفت پیدا کی ‘ بیشک وہ بہت غلبہ والا ہے ‘ بڑی حکمت والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اس لیے نازل فرمائی ہیں کہ مسلمان ان سے ہدایت حاصل کریں اور ان کی ہدایت دائمی اور ترقی پذیر رہے حتی کہ وہ پھر جاہلیت اولی کی طرف نہ لوٹ جائیں اور اپنے اتحاد اور جمعیت کو ٹوٹنے سے بچائے رکھیں ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ کوئی نعمت دے کر اس وقت تک اس نعمت کو سلب نہیں فرمایا جب تک کہ وہ لوگ اپنے عمل سے خود کو اس نعمت کا نااہل ثابت نہ کردیں ‘ اس نعمت کی قدر نہ کریں اور اس نعمت کے تقاضوں پر عمل نہ کریں :

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے تو اس نے تم کو اس سے نجات دی ‘ اللہ اسی طرح تمہارے لیے اپنی آیتوں کو بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔ (آل عمران : ١٠٣)

اس سے پہلے اس آیت کے درمیانی حصہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یاد دلایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو انتشار اور افتراق سے نکال کر اتحد اور اتفاق کے راستہ پر ڈال دیا اور دشمنوں کو دوستوں سے بدل دیا اور اب اس آیت کے اس آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا اخروی احسان یاد دلایا ہے کہ مسلمان دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس گڑھے سے نکال کر جنت کے راستے پر لا کھڑا کیا۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 3 – آل عمران – آیت 103