نسل نو کے اسلامی وجود پر بد ترین سوالیہ نشان؟

تحریر:- خالد ایوب مصباحی شیرانی

چیرمین: تحریک علمائے ہند، جے پور

سن 2017 میں راجستھان میں بھاجپا حکومت تھی۔ اس وقت کی نصاب ساز کمیٹی نے راجستھان تعلیمی بورڈ کی 12ویں کلاس کی پولیٹیکل سائنس کتاب چھاپی، جس میں اسلام کو واضح طور پر دہشت گردی سے جوڑتے ہوئے ایک سوال اور اس کے جواب میں اسلام کو دہشت گردی کی ایک شکل لکھا، پورا اقتباس دیکھیے:

सवाल:- इस्लामी आतंकवाद से आप क्या समझते है?

जवाब:- इस्लामी आतंकवाद इस्लाम का ही एक रूप है, जो विगत 20-30 वर्षों में अत्यधिक शक्तिशाली बन गया है। आतंकवादियों में किसी एक गुट विशेष के प्रति समर्पण का भाव नहीं होकर, एक समुदाय विशेष के प्रति समर्पण भाव होता है। समुदाय के प्रति प्रतिबद्धता इस्लामिक आतंकवाद की मुख्य प्रवृत्ति है। पंथ या अल्लाह के नाम पर आत्मबलिदान और असीमित बर्बरता, ब्लैकमेल, जबरन धन वसूली और निर्मम नृशंस हत्याएं करना ऐसे आतंकवाद की विशेषता बन गई है। जम्मू कश्मीर में आतंकवाद पूर्णतया धार्मिक व पृथकतावादी श्रेणी में आता है।

چوں کہ ریاستی تعلیمی بورڈ کے نصاب میں یہ اقتباس شامل تھا تو جو بورڈ کی تشریحات، یا دیگر تعلیمی زبانوں میں ترجمے، یا ترجمانیاں تھیں، ان میں بھی یہ اقتباس من و عن یا معمولی رد و بدل کے ساتھ موجود رہا اور اس طرح گویا یہ نہایت شدید متنازع عبارت نقل در نقل کے طور پر آگے سے آگے منتقل ہوتی رہی اور دن دہاڑے حکومتی سرمائے سے ریاستی پلیٹ فارم پر تعلیمی دنیا کے نئے ذہنوں میں زہر کی پرورش ہوتی رہی۔

بھاجپا دور حکومت میں ریاست کے وزیر تعلیم دیونانی بہت متعصب قسم کے انسان تھے، جن کے تعصب پر چوٹ کرتے ہوئے کانگریس کے وزیر تعلیم اور موجودہ کانگریس ریاستی صدر گووند سنگھ ڈوٹاسرا نے وزیر تعلیم بنتے ہی پہلے پہل نصاب تعلیم کو دوبارہ سیکولر اور آر ایس ایس آئیڈیالوجی کی مداخلت سے پاک کرنے کا بیان دیا تھا لیکن یہ بیان محض ایک بیان رہا اور اسی طرح کی سیاسی بیان بازیوں کی گھماسان میں کتابیں چھپتی، پڑھائی جاتی اور عام ہوتی رہیں، جن پر آج تین سال کا عرصہ بیت گیا، تب کہیں صوبے کے غیرت مند مسلمانوں کی نظر درج بالا اقتباس پر پڑی اور اسی ہفتے سوشل میڈیا کے ذریعے احتجاجوں کا ایک روایتی آوازہ بلند ہوا، جس کے انجام میں کافی ٹال مٹول کے بعد 17 مارچ کو جے پور کے لال کوٹھی تھانہ میں ایف آئی آر درج ہوئی۔

اس دوران خبر یہ ہے کہ نصاب ساز کمیٹی کے سرغنہ آں جہانی اور کچھ ذمہ دار ریٹائرڈ ہو چکے ہیں لیکن امید ہے، جو ملزم بھی بچے ہوں گے، اثبات جرم کے بعد انھیں سزا ملے گی۔

اس پورے پس وپیش میں سب سے زیادہ حیران کن سوال یہ ہے:

کیا ان تین سالوں کے دوران لاکھوں کی تعداد میں اسکولوں میں پڑھنے پڑھانے والے مسلم طلبہ اور مسلم اساتذہ کی اس زہریلے مواد پر نظر نہیں پڑی تھی؟

یا

یا انھوں نے ان دیکھی سے کام لیا،

یا پھر ماحول کے زیر اثر انھوں نے اپنی ذہنی پرداخت ہی ایسی بنا لی ہے کہ وہ اس طرح کے کسی بھی غیرت شکن مواد کو ہضم کر سکتے ہیں؟

بہر صورت سوال تو بنتا ہے اور بہت بڑا بنتا ہے کیوں کہ اگر بنام مسلم ایسی نسل تیار ہونے لگی ہے تو اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اپنی نسل ضائع کر دی۔

سچ تو یہ ہے کہ سوال صرف ان نسلوں پر بھی نہیں، ان کے پیدا کرنے والوں پر بھی بنتا ہے اور ان کے ان سیاسی، مذہبی اور سماجی رکھوالوں پر بھی جن کے وجود پر یہ نسل نازاں رہتی ہے۔