یا تو لمبی تحاریر پڑھا کیجیے…اگر فالحال وقت نہیں تو تحریر save کیجیے یا شیئر کیجیے پھر جب وقت ملے اپنی وال پے تسلی سے پڑہیے.

ہر صحابی نبی جنتی جنتی، سیدنا معاویہ و سیدنا علی جنتی جنتی نعروں کے برحق ہونے کے دلائل و حوالہ جات اور شبہات اعتراضات کا ازالہ اور چمن زمان کو دعوتِ رجوع ……………..!!.

چمن زمان صاحب لکھتے ہیں

صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین میں سے بعض ہستیوں کے بارے میں #غلو سے کام لیا جارہا ہے… ان حضرات(چمن زمان بمع گروپ کے علاوہ جو ہیں مثلا دعوت اسلامی وغیرہ) نے گزشتہ چند ماہ پہلے باب نظریات میں اضافہ کرتے ہوئے چند نعرے اپنے نظریات و عقائد کا حصہ بنائے جیسے ہر صحابی نبی جنتی جنتی ، معاویہ و علی جنتی جنتی، ابوسفیان معاویہ جنتی جنتی

(دیکھیے جدید نعرے ص6,7)

مزہد کہتے ہیں

یہ نعرے ابن حزم بدمذہب سے پہلے کسی نے نہیں لگائے

(دیکھیے جدید نعرےص45).

جواب:اول بات تو یہ ہے کہ یہ نعرہ ابن حزم(وفات تقریبا456ھجری) سے پہلے ہی لگایا جا چکا تھا جیسے کہ ہم ان دلائل سے ظاہر کر رہے ہیں

صحابی سیدنا ابن عباس کا عقیدہ:

مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْح} فتح مَكَّة {وَقَاتل} الْعَدو مَعَ النبى صلى الله عَلَيْهِ وَسلم {أُولَئِكَ} أهل هَذِه الصّفة {أَعْظَمُ دَرَجَةً} فَضِيلَة ومنزلة عِنْد الله بِالطَّاعَةِ وَالثَّوَاب {مِّنَ الَّذين أَنفَقُواْ مِن بَعْدُ} من بعد فتح مَكَّة {وَقَاتَلُواْ} الْعَدو فِي سَبِيل الله مَعَ النبى صلى الله عَلَيْهِ وَسلم {وكلا} كلا لفريقين من أنْفق وَقَاتل من قبل الْفَتْح وَبعد الْفَتْح {وَعَدَ الله الْحسنى} الْجنَّة

یعنی

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ سے پہلے جن صحابہ کرام نے خرچ کیا جہاد کیا اور فتح مکہ کے بعد جنہوں نے خرچ کیا جہاد کیا ان کے درجات میں اگرچہ تفاوت ہے لیکن سب صحابہ کرام سے اللہ تعالی نے جنت کا وعدہ کیا ہے

(تنوير المقباس من تفسير ابن عباس ص457).

②امام القرظی تابعی( وفات180ھجری تقریبا) کا عقیدہ:

وقال محمد بن كعب القرظي: أوجب الله لجميع الصحابة الجنة والرضوان

ترجمہ

محمد بن كعب القرظي علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے تمام صحابہ کے لیے جنت اور رضامندی کو واجب کردیا ہے

(أنموذج اللبيب في خصائص الحبيب1/236).

③امام مقاتل وفات تقرہبا150ھجری کا عقیدہ:

لا يَسْتَوِي مِنْكُمْ فى الفضل والسابقة مَنْ أَنْفَقَ مِنْ ماله قَبْلِ الْفَتْحِ فتح مكة «وَقاتَلَ» «1» العدو أُولئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً يعني جزاء مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ من بعد فتح مكة وَقاتَلُوا «2» العدو وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنى يعني الجنة، يعني كلا الفريقين وعد الله الجنة

یعنی

جن صحابہ نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا قتال کیا اور جہاد کیا انکا درجہ زیادہ عظیم ہے ان صحابہ سے کہ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا جہاد کیا لیکن سب صحابہ کے لئے اللہ تعالی نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے

(تفسير مقاتل بن سليمان4/239).

④امام ابن وھب وفات تقریبا192ہجری کا عقیدہ:

{لا يستوي منكم من أنفق من قبل الفتح}، قال: فتح مكة…فَالْحُسْنَى الْجَنَّةُ

یعنی

فتح مکہ سے پہلے جنہوں نے خرچ کیا وہ عظیم درجے والے ہیں ان کے برابر نہیں ہو سکتے وہ صحابہ کہ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا لیکن سب صحابہ کے لئے جنت کا وعدہ ہے

(تفسير القرآن من الجامع لابن وهب62 ,1/176).

⑤امام سمرقندی وفات تقریبا 373ھجری کا عقیدہ:

.من أنفق وقاتل مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ يعني: فتح مكة. ونزلت الآية في شأن أصحاب رسول الله صلّى الله عليه وسلم المهاجرين والأنصار. يعني: الذين أنفقوا أموالهم مع رسول الله صلّى الله عليه وسلم، وقاتلوا الكفار، لا يستوي حالهم وحال غيرهم. ويقال: هذا التفضيل لجميع أصحابه رضي الله عنهم أجمعين.

وعد الله كلا الحسني يعني الجنة

یعنی

یہ آیت مبارکہ صحابہ کرام کے بارے میں نازل ہوئی کہ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا تھا جہاد کیا کہ یہ عظیم مرتبے والے ہیں ان کے مرتبے کو وہ صحابہ نہیں پہنچ سکتے کہ جو فتح مکہ کے بعد والے ہیں لیکن سب کے سب صحابہ کے لیے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے

(تفسير السمرقندي = بحر العلوم3/403ملتقطا).

⑥امام ابن ابی زمنین وفات399ھجری کاعقیدہ:

لا یَسْتَوِي من أنْفق مِنْكُم من قبل الْفَتْح وَقَاتل، وَهُوَ فتح مَكَّة.

(أُوْلَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلاًّ وَعَدَ اللَّهُ لْحُسْنَى} يَعْنِي: الْجنَّة؛ من أنْفق وَقَاتل قبل فتح مَكَّة وَبعده

یعنی

تم صحابہ کرام میں سے جنہوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ کیا اور جہاد کیا ان کا درجہ ان صحابہ کرام سے زیادہ ہے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا اور جہاد کیا لیکن سب صحابہ سے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے، چاہے فتح مکہ سے پہلے والے ہوں یا فتح مکہ کے بعد والے

(تفسير القرآن العزيز لابن أبي زمنين4/349,350).

جواب دوئم

اگر بالفرض مان لیا جائے کہ یہ نعرہ ابن حزم کا اختراع کردہ ہے تو بعد کے معتبر علماء کا اس نعرے کو اپنا لینا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ابن حزم کے مردود قولوں میں سے نہیں ہے جیسے کہ نیچے تفصیل آرہی ہے

.====================

چمن زمان صاحب لکھتے ہیں

تلاش بسیار کے باوجود کتب متقدمین و متاخرین میں تمام تر صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کے جنتی ہونے کا نظریہ بطور فکر اہلسنت نہ مل سکا جن علماء نے ذکر کیا انہوں نے اسے ابن حزم ظاہری کے حوالے سے نقل کیا اور ابن حزم ظاہری کے بارے میں گزارش کیا جا چکا ہے کہ وہ بد عقیدہ اور بدمزہب قسم کا شخص تھا

(دیکھیے جدید نعرے ص67,68)۔

جواب نمبر1:

الحديث:

الكَلِمَةُ الحِكْمَةُ ضَالَّةُ المُؤْمِنِ، فَحَيْثُ وَجَدَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا»

حکمت کی بات مومن کی گمشدہ میراث ہے تو جہاں وہ پائے اسے لے لے

(سنن الترمذي ت شاكر ,5/51 حدیث2687)

(سنن ابن ماجه ,2/1395حدیث4169)۔

قَدْ يَصْدُقُ الْكَذُوبَ

ترجمہ:

بہت بڑا جھوٹا کبھی سچ بول دیتا ہے

(فتح الباری9/56،)

اول بات تو یہ ہے کہ ابن حزم سے پہلے کے علماء نے صحابہ کرام کو جنتی قرار دے دیا تھا ، یہ نعرہ لگا لیا تھا جیسے کہ اوپر بیان ہوا البتہ اگر آپ کے دعوے کو مان بھی لیا جائے کہ ابن حزم سے پہلے کسی نے جنتی قرار نہ دیا تھا تو بھی ابن حزم کی بات کو رد کر دینا برحق نہیں کیونکہ بہت بڑا جھوٹا بھی کبھی سچ اور دانشمندی کی بات کہہ دیتا ہے لہذا ابن حزم کی بات کو قرآن و سنت و آثار و اقوال اہلسنت پر رکھیں گے اگر وہ اس کے موافق ہوا تو اسے قبول کریں گے… اسکا یہ نعرہ قرآن و سنت و اقوال و آثار کے موافق ہے لیھذا مقبول.

جواب نمبر2:

ابن حزم سے قبل کے علماء کا عقیدہ بتایا جاچکا کہ ہر صحابی نبی جنتی جنتی…اکثر تفاسیر سے یہی نعرہ و معنی ثابت ہوتا ہے بطور تبرک ہم صرف بارہ وہ حوالے پیش کر رہے ہین جنہوں نے خود سے تفسیر کی، ابن حزم کا قول نقل کرتے ہوئے تفسیر نہ کی…لہذا کہنا کہ بعد کے علماء نے ابن حزم کی پیروی کی یہ سراسر جھوٹ کہلائے گا بدگمانی کہلائے گی کم علمی کم توجہی کہلائے گی.

①يعني: فتح مكة {وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى} كلا الفريقين وعد الله الحسنى الجنة

یعنی

فتح مکہ سے پہلے والے اور فتح مکہ کے بعد والے سب صحابہ کرام سے اللہ تعالی نے جنت کا وعدہ کیا ہے

(التفسير الوسيط4/246).

②يستوي منكم مَنْ أنفق من قبل الفتح} يعني: فتح مكَّة {وقاتل} جاهد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم أعداء الله {أولئك أعظم درجة} يعني: عند الله {من الذين أنفقوا من بعد} الفتح {وقاتلوا وكلاً} من الفريقين {وعد الله الحسنى} الجنَّة

یعنی

فتح مکہ سے پہلے جن صحابہ کرام نے خرچ کیا اور جہاد کیا ان کا درجہ ان سے زیادہ ہے کہ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا اور جہاد کیا لیکن سب صحابہ سے اللہ تعالی نے جنت کا وعدہ کیا ہے

(الوجيز للواحدي تحت سورہ حدید ایت10).

③ثواباً جزيلاً وهو الجنة، و (منهم) هنا بيانية وليست تبعيضية، (وعد الله الذين آمنوا وعملوا الصالحات منهم) هذه بيان لجميع الصحابة، وليست لبعض منهم

یعنی

فتح مکہ والے اور فتح مکہ کے بعد والے سب سے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے یہ آیت و فضیلت تمام صحابہ کرام کے لئے ہے بعض کے لئے نہیں ہے

(تفسير محمد إسماعيل المقدم تفسیر سورہ فتح آیت25_29).

④ أَي: لَا يَسْتَوِي من أنْفق وَقَاتل قبل فتح مَكَّة، وَمن أنْفق وَقَاتل بعد فتح مَكَّة..{وكلا وعد الله الْحسنى} أَي: الْجنَّة

یعنی

جن صحابہ کرام نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا اور جہاد کیا وہ اور وہ صحابہ کہ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا جہاد کیا برابر نہیں ہو سکتے لیکن تمام صحابہ کرام سے اللہ تعالی نے جنت کا وعدہ کیا ہے

(السمعاني، أبو المظفر5/367,368).

⑤لاَ يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ … الآية: الأشهر في هذه الآية أَنَّها نزلت بعد الفتح، واخْتُلِفَ في الفتح المشار إليه فقال أبو سعيد الخُدْرِيُّ والشَّعْبِيُّ «1» : هو فتح الحديبية، وقال قتادة، ومجاهد، وزيد بن أسلم «2» : هو فتح مكة الذي أزال الهجرة، قال ع «3» : وهذا هو المشهور…والْحُسْنى: الجنة،

یعنی

آیت میں فتح سے مراد کیا ہے ایک قول یہ ہے کہ فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے اور ایک قول یہ ہے کہ فتح سے مراد فتح مکہ ہے اور یہی قول مشہور ہے اور اچھے وعدے سے مراد جنت ہے یعنی تمام صحابہ کرام کے لیے جنت کا وعدہ ہے

(تفسير الثعالبي5/380)..

⑥لاَ يَسْتَوِى مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الفتح وقاتل} أي فتح مكة قبل عز الإسلام وقوة أهله ودخول الناس في دين الله أفواجاً ومن أنفق من بعد الفتح فحذف لأن قوله مّنَ الذين أَنفَقُواْ مِن بَعْدُ يدل عليه {أولئك} الذين أنفقوا قبل الفتح وهم السابقون الأولون من المهاجرين والأنصار الذين قال فيهم النبي صلى الله عليه وسلم لو أنفق أحدكم مثل أحد ذهباً ما بلغ مد احدم ولا نصيفه

{أَعْظَمُ دَرَجَةً مّنَ الذين أَنفَقُواْ مِن بَعْدُ وقاتلوا وَكُلاًّ} أي كل واحد من الفريقين {وَعَدَ الله الحسنى} أي المثوبة الحسنى وهي الجنة

خلاصہ

وہ صحابہ کرام کے جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے جہاد کیا اور خرچ کیا اور وہ صحابہ کرام کہ جو جنہوں نے فتح مکہ کے بعد جہاد کیا خرچ کیا دونوں برابر نہیں ہو سکتے لیکن دونوں کے لیے اللہ تعالی نے اچھا وعدہ ہے یعنی جنت کا وعدہ کیا ہے

(تفسير النسفي 3/435)..

⑦لا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ قبل فتح مكة قبل عز الإسلام وقوّة أهله ودخول الناس في دين الله أفواجا وقلة الحاجة إلى القتال والنفقة فيه، ومن أنفق من بعد الفتح فحذف لوضوح الدلالة أُولئِكَ الذين أنفقوا قبل الفتح وهم السابقون الأولون من المهاجرين والأنصار الذين قال فيهم النبي صلى الله عليه وسلم:

«لو أنفق أحدكم مثل أحد ذهبا ما بلغ مدّ أحدهم ولا نصيفه» «2» أَعْظَمُ دَرَجَةً. وقرئ:

قبل الفتح وَكُلًّا وكل واحد من الفريقين وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنى أى المثوبة الحسنى وهي الجنة

خلاصہ

وہ صحابہ کرام کے جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے جہاد کیا اور خرچ کیا اور وہ صحابہ کرام کے جو جنہوں نے فتح مکہ کے بعد جہاد کیا خرچ کیا دونوں برابر نہیں ہو سکتے لیکن دونوں کے لیے اللہ تعالی نے اچھا وعدہ ہے یعنی جنت کا وعدہ کیا ہے

(تفسير الزمخشري 4/474).

⑧الْمُرَادُ بِهَذَا الْفَتْحِ فَتْحُ مَكَّةَ،: أَيْ وَكُلَّ وَاحِدٍ مِنَ الْفَرِيقَيْنِ وَعَدَ اللَّه بالحسنى أَيِ الْمَثُوبَةَ الْحُسْنَى، وَهِيَ الْجَنَّةُ

آیت میں فتح سے مراد فتح مکہ ہے اور دونوں فریقین یعنی سب صحابہ کے لئے اللہ تعالی نے اچھا وعدہ یعنی جنت کا وعدہ کیا ہے

(تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير29/453).

⑨وَالْجُمْهُورُ على أن المراد بالفتح هاهنا فَتْحُ مَكَّةَ،

جمہور اور اکثر علماء اس بات پے ہیں کہ یہاں فتح سے مراد فتح مکہ ہے

(تفسير ابن كثير ط العلمية8/46).

.10:أَكْثَرُ الْمُفَسِّرِينَ عَلَى أَنَّ الْمُرَادَ بِالْفَتْحِ فَتْحُ مَكَّةَ…(وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنى) أَيِ الْمُتَقَدِّمُونَ الْمُتَنَاهُونَ السَّابِقُونَ، وَالْمُتَأَخِّرُونَ اللَّاحِقُونَ، وَعَدَهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا الْجَنَّةَ مَعَ تَفَاوُتِ الدَّرَجَاتِ

یعنی

اکثر مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں فتح سے مراد فتح مکہ ہے اور اللہ تعالی نے سب صحابہ کے لئے جنت کا وعدہ کیا ہے درجات کی اونچ نیچ کے ساتھ

(تفسير القرطبی,17/239,241).

11:وَظَاهِرُ لَفْظِ الْفَتْحِ أَنَّهُ فَتْحُ مَكَّةَ فَإِنَّ هَذَا الْجِنْسَ الْمُعَرَّفَ صَارَ عَلَمًا بِالْغَلَبَةِ عَلَى فَتْحِ مَكَّةَ، وَهَذَا قَوْلُ جُمْهُورِ الْمُفَسِّرِينَ

یعنی

ظاہر یہی ہے کہ فتح سے مراد فتح مکہ ہے اور یہ جمہور مفسرین کا قول ہے

(التحرير والتنوير 27/374 ).

12:لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ} يَعْنِي فَتْحَ مَكَّةَ فِي قَوْلِ أَكْثَرِ الْمُفَسِّرِينَ، وَقَالَ الشَّعْبِيُّ: هُوَ صُلْحُ الْحُدَيْبِيَةِ {وَقَاتَلَ} يَقُولُ: لَا يَسْتَوِي فِي الْفَضْلِ مَنْ أَنْفَقَ مَالَهُ وَقَاتَلَ الْعَدُوَّ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ فَتْحِ مَكَّةَ مَعَ مَنْ أَنْفَقَ وَقَاتَلَ بَعْدَهُ {أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا} .وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى} أَيْ كِلَا الْفَرِيقَيْنِ وَعَدَهُمُ اللَّهُ الْجَنَّةَ

یعنی

امام شعبی کا قول ہے کہ فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے لیکن اکثر مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں فتح سے مراد فتح مکہ ہےاور وہ صحابہ کرام کہ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا جہاد کیا ان کا درجہ عظیم ہے ان صحابہ کرام سے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا جہاد کیا اور اللہ تعالی نے دونوں فریقین یعنی سب صحابہ کرام سے جنت کا وعدہ کیا ہے

(تفسير البغوي – طيبة8/33,34)

.===================

چمن زمان صاحب لکھتے ہیں

ہم باب نظریات میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی شخصیت پر مکمل اعتماد کرتے ہیں آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس باب میں مستقل رسالہ لکھا،صحابہ کرام کے بارے میں صحابہ کے جنتی ہونے کا نظریہ کہیں بھی بیان نہیں فرمایا

(دیکھیےجدید نعرے ص57,58).

جواب:

سیدی اعلی حضرت فرماتے ہیں صحابہ کرام جنتی ہیں جہنم سے دور، جہنم کی بھنک تک نہ پائیں گے:

رب عزوجل کہ عالم الغیب والشہادہ ہے اس نے صحابہ سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی دو قسمیں فرمائیں ، مومنین قبل الفتح جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے راہ خدا میں خرچ و جہاد کیا اور مومنین بعد الفتح جنہوں نے بعد کو، فریق اول کو دوم پر تفضیل عطا فرمائی کہ:لایستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل اولئک اعظم درجۃ من الذین انفقوا من بعد وقاتلوا؂ ۲

تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا ، وہ مرتبہ میں ان سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح کے خرچ اور جہاد کیا۔(ت)

( ۲ ؎ القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰)

اورساتھ ہی فرمادیا۔وکلا وعد اﷲ الحسنی ۔۳؂دونوں فریق سے اﷲ نے بھلائی کا وعدہ فرمالیا۔ اور ان کے افعال پر جاہلانہ نکتہ چینی کا دروازہ بھی بند فرمادیا کہ ساتھ ہی ارشادہوا۔واﷲ بما تعملون خبیر ۔۴؂

اللہ کو تمہارے اعمال کی خوب خبر ہے، یعنی جو کچھ تم کرنے والے ہو وہ سب جانتا ہے بااینہہ تم سب سے بھلائی کا وعدہ فرماچکا خواہ سابقین ہوں یا لاحقین ،

( ۳ ؎ القرآن الکریم ۵۷/۱۰) ( ۴ ؎ القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰)

اور یہ بھی قرآن عظیم سے ہی پوچھ دیکھئے کہ مولی عزوجل جس سے بھلائی کا وعدہ فرماچکا اس کے لیے کیا فرماتا ہے:ان الذین سبقت لھم منا الحسنی اولئک عنہا مبعدون لایسمعون حسیسہا وھم فیما اشتھت انفسھم خلدون لایحزنہم الفزع الاکبرو تتلقھم الملئکۃ ھذا یومکم الذی کنتم توعدون ۔۱؂

بے شک جن سے ہمارا وعدہ بھلائی کا ہوچکا وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں اس کی بھنک تک نہ سنیں گے اور وہ اپنی من مانتی مرادوں میں ہمیشہ رہیں گے، انہیں غم میں نہ ڈالے گی بڑی گھبراہٹ، فرشتے ان کی پیشوائی کوآئیں گے یہ کہتے ہوئے کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا۔

(۱؎ القرآن الکریم ۲۱/۱۰۱ و ۱۰۳)

(فتاوی رضویہ29/265)

چمن زمان صاحب نے خود اقرار کیا ہے کہ وہ افکار رضا کے پابند ہیں تو یہ افکار رضا پڑھنے کے بعد امید ہے اپنی کتاب کو کلعدم قرار دے دیں گے، پابندی لگائیں گے اور توبہ رجوع کریں گے اور آئندہ لکھنے سے پہلے مخالفین موافقین سے تصحیح و تصدیق کرائیں گے کہ بار بار غلطی کر رہے ہیں

.==================

چمن زمان صاحب نے چند حوالے نقل کئے کہ کسی کے جنتی ہونے کی شہادت دینا اور کسی سے برات کا اظہار کرنا دونوں بدعت ہیں۔۔۔(لہذا ہر صحابی نبی جنتی جنتی نعرہ بدعتی ہے۔۔۔علی معاویہ جنتی جنتی بدعتی نعرہ ہے )

(دیکھیے جدید نعرے ص43).

جواب:

مذکورہ عبارات سے غلط مفہوم دینے کی کوشش کی گئی ہے اس قسم کی عبارت کا مفہوم کیا ہے آئیے اسلاف کی زبانی سنتے ہیں

وحكى أن صنفاً من الخوارج تفردوا بقول أحدثوه وهو قطعهم الشهادة على أنفسهم ومن وافقهم أنهم من أهل الجنة من غير شرط ولا استثناء.

یعنی

جنت کی گواہی دینا اور جہنم کی گواہی دینا اور برات کا اظہار کرنا یہ بدعت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بغیر شرط بغیراستثناء بغیر دلیل کےجنتی قرار دینا بدعت ہے( کیا پتا اس کا خاتمہ ایمان پر نہ ہو جب کہ صحابہ کرام کے بارے میں احادیث اور اقوال موجود ہیں کہ وہ جنتی ہیں اور صحابی کہتے ہی اس کو ہیں کہ جس کا خاتمہ ایمان پر ہو اور اس نے زیارت رسول کی ہو )

(الأشعري ,مقالات الإسلاميين ص119).

وَمَعْنَى الشَّهَادَةِ: أَنْ يَشْهَدَ عَلَى مُعَيَّنٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، أَوْ أَنَّهُ كَافِرٌ، بِدُونِ الْعِلْمِ بِمَا خَتَمَ اللَّهُ [لَهُ] بِهِ

یعنی

یہ جو کہا جاتا ہے کہ کسی کے جنتی اور جہنمی ہونے کی شہادت نہیں دینی چاہیے اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی معین مسلمان شخص کے جہنم اور جنتی ہونے کی گواہی نہیں دینی چاہیے کیونکہ اس کو علم نہیں ہے کہ اس کا خاتمہ کس چیز پر ہوگا(جب کہ صحابہ کرام کے بارے میں احادیث اور اقوال موجود ہیں کہ وہ جنتی ہیں اور صحابی کہتے ہی اس کو ہیں کہ جس کا خاتمہ ایمان پر ہو اور اس نے زیارت رسول کی ہو )

[ابن أبي العز ,شرح الطحاوية – ط دار السلام ,page 471].

ومعنى الشهادة: أن يشهد على معين من المسلمين أنه من أهل النار أو أنه كافر، بدون العلم بما ختم الله له به

یعنی

یہ جو کہا جاتا ہے کہ کسی کے جنتی اور جہنمی ہونے کی شہادت نہیں دینی چاہیے اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی معین مسلمان شخص کے جہنم اور جنتی ہونے کی گواہی نہیں دینی چاہیے کیونکہ اس کو علم نہیں ہے کہ اس کا خاتمہ کس چیز پر ہوگا(جب کہ صحابہ کرام کے بارے میں احادیث اور اقوال موجود ہیں کہ وہ جنتی ہیں اور صحابی کہتے ہی اس کو ہیں کہ جس کا خاتمہ ایمان پر ہو اور اس نے زیارت رسول کی ہو )

(كتاب شرح الطحاوية لناصر العقل6/97)

.=======================

ہر صحابی نبی جنتی چند مزید حوالے

رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَعَنْ جَمِيعِ الصَّحَابَةِ الَّذِينَ ضَمِنَ اللَّهُ لَهُمْ فِي كِتَابِهِ أَنَّهُ لَا يُخْزِيهِمْ , وَأَنَّهُ يُتِمُّ لَهُمْ نُورَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , وَيَغْفِرُ لَهُمْ…أَخْبَرَ أَنَّهُ قَدْ رَضِيَ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ , وَأَنَّهُ أَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا , فَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ , وَنَفَعَنَا بِحُبِّهِمْ , وَبِحُبِّ أَهْلِ بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَبِحُبِّ أَزْوَاجِهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ

یعنی

اللہ تعالی تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جائے کہ جن کے بارے میں اللہ تعالی نے ضمانت دی ہے اپنی کتاب میں اور ان کے لیے تیار رکھا ہے جنت کو اور ان سے راضی ہوا ہے اللہ ہمیں ان کی محبت سے سرفراز فرمائے اور اہل بیت کی محبت عطا فرمائے اور ازواج مطہرات کی محبت عطا فرمائے

(الشريعة للآجري قبل الحدیث1168).

کسی بھائی کی وال سے شیخ محقق کی عبارت ملی , پڑھیے:

سنو! شیخِ مُحَقّقْ لکھتے ہیں “عام مخلوق جان لے کہ دخول جنت کی بشارت ان ہی دسوں کی ساتھ قطعی اور مخصوص ہے یہ گمان محض غلط اور صریح جھالت ہے ۔

شیخ محقق مزید لکھتے ہیں ” حق وصواب یہی ہے کہ خلفاء اربعہ فاطمہ وحسن وحسین وغیرہم رضی اللہ عنھم کی بشارت مشہور اور اصل بحدِ تواتر معنوی ہے، باقی عشرہ مبشرہ کی بشارت بھی بحدِ شہرت پنہچی ہوئ ہے اور بعض دیگر صحابہ بھی اخبار احاد سے تفاوتِ مراتب کے ساتھ صاحبِ بشارت ہیں ۔

تکمیل الایمان صفحہ 161 تا 165)(انتھی).

غوث اعظم دستگیر فرماتے ہیں

ومن رآني فله الجنة

حضور علیہ الصلوۃ و السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ جس نے مجھے دیکھا(یعنی صحابہ کرام جن کی وفات حالات اسلام میں ہوئی)وہ سب جنتی ہیں

( الغنية لطالبي طريق الحق2/144).

يُشِيرُ الشَّيْخُ رَحِمَهُ اللَّهُ إِلَى الرَّدِّ عَلَى الرَّوَافِضِ وَالنَّوَاصِبِ. وَقَدْ أَثْنَى اللَّهُ تَعَالَى عَلَى الصَّحَابَةِ هُوَ وَرَسُولُهُ، وَرَضِيَ عَنْهُمْ، وَوَعَدَهُمُ الْحُسْنَى.كَمَا قَالَ تَعَالَى: {وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ} [التَّوْبَةِ: 100] .

یعنی

علامہ طحاوی رحمۃ اللہ تعالی اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس میں رد ہے رافضیوں کا اور ناصبیوں کا وہ اس طرح کے اللہ تعالی نے تمام صحابہ کرام سے سابقین اولین مہاجرین و انصار وغیرہ جو ان کے بعد آئے ان سب سے اللہ تعالی راضی ہوا اور ان کے لیے جنت کا وعدہ فرمایا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے

(,شرح الطحاوية ت الأرناؤوط ,2/689).

الحدیث:

لاَ تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي أَوْ رَأَى مَنْ رَآنِي

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے مجھے حالت اسلام میں دیکھا (اور اس کی وفات حالت ایمان میں ہوئی )تو اسے آگ نہ چھوئے گی اور اس کو بھی آگ نہ چھوئے گی جو میرے صحابہ کو حالت ایمان میں دیکھے(اور حالت ایمان میں وفات پا جائے)

(ترمذی حدیث3858حسن)

(حسن، كتاب مشكاة المصابيح حدیث6013)

( جامع الأحاديث حدیث16938)

( الرياض النضرة 1/220)

(الجامع الصغير وزيادته حدیث14424)

(السنة لابن أبي عاصم 2/630)

(کنز العمال حدیث32480-).

چمن زمان کے دلائل کا خلاصہ اور ہمارے جواب کا خلاصہ:

چمن زمان کی کتاب کا خلاصہ کیا جائے تو خلاصہ کچھ یوں بنتا ہے کہ ایک صحابی کے بارے میں نبی پاک نے فرمایا کہ اسے عذاب ہو رہا ہے اور سیدہ عائشہ کو فرمایا کہ تم بچے کو جنتی نہ کہو اور اسلاف نے فرمایا کہ جنت کی گواہی دینا برات کا اظہار کرنا بھی بدعت ہے اور اسلاف نے لکھا کہ ہم جن کو رسول اللہ نے بشارت دی جنت کی ان کے علاوہ کسی کو جنت کی گواہی نہیں دیتے(اور چمن زمان کے انداز سیاق و سباق سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے مطابق تمام صحابہ کرام کو جنت کی گواہی نہیں دی گئی).

خلاصہِ جواب:

چمن صاحب نے کہا تھا کہ انہیں اعلی حضرت پر مکمل اعتماد ہے اور ہم نے اعلی حضرت سے یہ دکھا دیا کہ صحابہ کرام کو جہنم کی آگ چھوئے گی تک نہیں۔۔۔پھر چمن زمان کو یہ بھی دکھا دیا کہ ابن حزم سے پہلے کا قول موجود ہے کہ ہر صحابی نبی جنتی جنتی۔۔۔پھر متقدمین و متاخرین کے اقوال ذکر کیے کے تمام صحابہ سے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے اور پھر حدیث پاک بھی بتا دی کہ صحابہ کرام کو آگ چھوئے گی تک نہیں۔۔۔اب رہا یہ سوال کی ایک صحابی کو بظاہر عذاب ہو رہا تھا اور نبی پاک نے بھی بی عائشہ کو جنتی کہنے سے روکا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ عین ممکن ہے کہ وہ وہ صحابی نہ ہو بلکہ منافق ہو یا پھر عین ممکن ہے کہ اس وقت نبی پاک کو یہ بشارت جنت للصحابہ نہ ملی ہو ، پھر بعد میں فتح مکہ کے بعد یہ بشارت بھی ملی ہو کے آپ کا ہر صحابی جنتی جنتی۔۔۔رہی بات ان اسلاف کی جنہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ کی گواہی کے بغیر کسی کو جنتی قرار نہ دیں گے تو اس کا مطلب ہم اوپر بیان کر چکے کہ یہ زندہ کے بارے میں ہے کیونکہ بخاری کی حدیث پاک میں ہے کہ اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے اور زندہ شخص کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا خاتمہ کس چیز پر ہوگا لہذا کسی مسلمان کے جنتی ہونے کی امید کی جاسکتی ہے لیکن لیکن یوں کہا جائے گا کہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہوا تو جنتی اگر ایمان پر خاتمہ نہ ہوا تو جنتی نہیں اس قسم کی شرط اور شہادتِ رسول کے بغیر قطعی جنتی کہنا بدعت ہے…جبکہ صحابہ کرام کے بارے میں رسول کریم کی بشارت موجود ہے ائمہ اسلاف کے اقوال موجود ہیں، صحابی کی تعریف میں ہی یہ قید لگائی گئی ہے کہ صحابی وہ ہوتا ہے کہ جسکی وفات ایمان پر ہو….لہذا ہر صحابی نبی جنتی جنتی ثابت ہو گیا اور ثابت ہوگیا کہ یہ حق و سچ ہے اور اسلاف کا نعرہ ہے.

صحابی کی معتبر ڈیفینیشن محققین اہلسنت کے مطابق کیا ہے حق چار یار کی نسبت سے چار حوالہ جات پیش ہیں۔

①الصَّحابيِّ مَنْ لَقِيَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ [تَعالى] عليهِ [وآلهِ] وسلَّمَ ُمؤمِناً بهِ وماتَ عَلى الإِسلامِ

صحابی اس کو کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو یا ملاقات کی ہو اور اس کی وفات اسلام پر ہوئی ہو

[نزهة النظر في توضيح نخبة الفكرpage 111].

②مَنْ لَقِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْلِمًا وَمَاتَ عَلَى إِسْلَامِهِ.

صحابی وہ ہے جس نے اسلام کی حالت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو یا ملاقات کی ہو اور اسلام پر ہی وفات پائی ہو

[تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ,2/667].

③من لَقِيَ النبيَّ صلى الله عليه وسلم مسلمًا، ومات على الإسلام،

صحابی وہ ہے جس نے اسلام کی حالت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو یا ملاقات کی ہو اور اسلام پر ہی وفات پائی ہو

[تيسير مصطلح الحديث ,page 243].

④أن التعريف المبني على الأصح المختار عند المحققين هو أن الصحابي هو من لقي النبي صلى الله عليه وسلم مؤمنا به ومات على الإسلام

صحابی کی تعریف کہ جو مختار و معتبر ہے محققین کے مطابق وہ یہ ہے کہ صحابی اس کو کہتے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو یا دیکھا ہو ان پر ایمان لاتے ہوئے اور اس کی وفات بھی اسلام پر ہوئی ہو

[منهج الإمام أحمد في إعلال الأحاديث ملخصا ,2/671].

لہذا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرتد ہو گئے وہ صحابہ نہیں،صحابی تو ہوتا ہے کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھے یا ملاقات کرے اور حالت ایمان پر اس کی وفات ہو۔۔۔۔صحابہ کرام تمام کے تمام عدول و نیک اور جنتی ہیں ان میں کوئی بھی کافر مرتد گستاخ فاسق نہیں۔۔۔۔حتی کہ آپس میں جنگ کرنے والے صحابہ کرام مثلا سیدنا معاویہ سیدنا علی وغیرہ رضی اللہ عنھم اجمعین بھی فاسق نہیں۔۔۔صحابہ کرام کو عادل و نیک ہم نے اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ قرآن کی آیات اور احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ صحابہ کرام عادل اور نیک تھے مرتد گستاخ و فاسق نہیں

حق چار یار کی نسبت سے 4حوالہ جات اس بات پر بھی پڑھتے جائیے۔

①قَالَ الخَطِيْبُ البَغْدَادِيُّ رَحِمَهُ اللهُ بَعْدَ أنْ ذَكَرَ الأدِلَّةَ مِنْ كِتَابِ اللهِ، وسُنَّةِ رَسُوْلِ اللهِ – صلى الله عليه وسلم -، الَّتِي دَلَّتْ على عَدَالَةِ الصَّحَابَةِ وأنَّهُم كُلُّهُم عُدُوْلٌ، قَالَ: «هَذَا مَذْهَبُ كَافَّةِ العُلَمَاءِ، ومَنْ يَعْتَدُّ بِقَوْلِهِم مِنَ الفُقَهَاءِ

خطیب بغدادی نے قرآن سے دلاءل ذکر کیے، رسول اللہ کی سنت سے دلائل ذکر کیے اور پھر فرمایا کہ ان سب دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام صحابہ کرام عادل ہیں(فاسق و فاجر ظالم گمراہ نہیں)اور یہی مذہب ہے تمام علماء کا اور یہی مذہب ہے معتدبہ فقہاء کا

الكفاية ص67.

②الصحابة كلهم عدول من لابس الفتن وغيرهم بإجماع من يعتد به

تمام صحابہ کرام عادل ہیں(فاسق و فاجر ظالم گمراہ نہیں)وہ صحابہ کرام بھی عادل ہیں جو جنگوں فتنوں میں پڑے(مثلا سیدنا معاویہ وغیرہ) اور جو نہ پڑے، سب صحابہ عادل ہیں اور اس پر معتد بہ امت کا اجماع ہے

التدريب ص204)

[مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح،1/211).

③أجمعت الأمة على وجوب الكف عن الكلام في الفتن التي حدثت بين الصحابة.

ونقول: كل الصحابة عدول، وكل منهم اجتهد، فمنهم من اجتهد فأصاب كـ علي فله أجران، ومنهم من اجتهد فأخطأ كـ معاوية فله أجر، فكل منهم مأجور، القاتل والمقتول، حتى الطائفة الباغية لها أجر واحد لا أجران، يعني: ليس فيهم مأزور بفضل الله سبحانه وتعالى.

امت کا اجماع ہے کہ صحابہ کرام میں جو فتنے جنگ ہوئی ان میں نہ پڑنا واجب ہے تمام صحابہ کرام عادل ہیں(فاسق و فاجر ظالم گمراہ نہیں)ان میں سے ہر ایک مجتہد ہے اور جو مجتہد حق کو پا لے جیسے کہ سیدنا علی تو اسے دو اجر ہیں اور جو مجتہد خطاء پر ہو جیسے سیدنا معاویہ تو اسے ایک اجر ملے گا لہذا سیدنا علی اور معاویہ کے قاتل مقتول سب جنتی ہیں حتیٰ کہ سیدنا معاویہ کا باغی گروہ بھی جنتی ہے اسے بھی ایک اجر ملے گایعنی تمام صحابہ میں سے کوئی بھی گناہ گار و فاسق نہیں اللہ کے فضل سے

[شرح أصول اعتقاد أهل السنة للالكائي ١٣/٦٢].

④عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ هُوَ الْمُصِيبَ الْمُحِقَّ وَالطَّائِفَةُ الْأُخْرَى أَصْحَابُ مُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانُوا بُغَاةً مُتَأَوِّلِينَ وَفِيهِ التَّصْرِيحُ بِأَنَّ الطَّائِفَتَيْنِ مُؤْمِنُونَ لَا يَخْرُجُونَ بِالْقِتَالِ عَنِ الْإِيمَانِ وَلَا يَفْسُقُونَ وَهَذَا مَذْهَبُنَا وَمَذْهَبُ مُوَافِقِينَا

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ درستگی پر تھے حق پر تھے اور دوسرا گروہ یعنی سیدنا معاویہ کا گروہ وہ باغی تھے لیکن تاویل کرنے والے تھے دونوں گروہ مومنین ہیں دونوں گروہ ایمان سے نہیں نکلتے اور دونوں گروہ فاسق نہیں ہیں یہی ہمارا مذہب ہے اور یہی مذہب ہمارے(عقائد میں)موافقین(حنفی حنبلی مالکی وغیرہ تمام اہل سنت)کا ہے

(شرح مسلم للنووی7/168).

سچوں(کو پہچان کر ان)کا ساتھ دو(سورہ توبہ آیت119)

دین و دنیا کو بدنام تو جعلی منافق مکار کر رہےہیں….عوام و خواص سب کو سمجھنا چاہیےکہ #جعلیمکارمنافق تو علماء پیر اینکر لیڈر سیاست دان جج وکیل استاد ڈاکٹر فوجی وغیرہ افراد و اشیاء سب میں ہوسکتےہیں،ہوتے ہیں

تو

جعلی کی وجہ سے #اصلی سےنفرت نہیں کرنی چاہیےبلکہ اصلی کی تلاش اور اسکا ساتھ دینا چاہیے.

سیدنا معاویہ و دیگر صحابہ کرام عادل ثقہ نیک متقی ابرار تھے اس پر حوالہ جات

اور

سیدنا معاویہ وغیرہ کی فضیلت و حکم کتب شیعہ سے اس  لنک پے ملاحظہ کیجیے.

چمن زمان کے رد پے مختصر رسالہ بھی میں نے لکھا ہے اس لنک سے ڈائنلوڈ کریں،.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

facebook,whatsApp,bip nmbr

00923468392475

03468392475

Ñ