وَ لَقَدْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى ﳔ اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِیْقًا فِی الْبَحْرِ یَبَسًاۙ-لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّ لَا تَخْشٰى(۷۷)

اور بےشک ہم نے موسیٰ کو وحی کی (ف۱۰۵) کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے چل (ف۱۰۶) اور ان کے لیے دریا میں سوکھا راستہ نکال دے (ف۱۰۷) تجھے ڈر نہ ہوگا کہ فرعون آلے اور نہ خطرہ (ف۱۰۸)

(ف105)

جب کہ فرعون معجزات دیکھ کر راہ پر نہ آیا اور پندپذیر نہ ہوا اور بنی اسرائیل پر ظلم و ستم اور زیادہ کرنے لگا ۔

(ف106)

مِصر سے اور جب دریا کے کنارے پہنچیں اور فرعونی لشکر پیچھے سے آئے تو اندیشہ نہ کر ۔

(ف107)

اپنا عصا مار کر ۔

(ف108)

دریا میں غرق ہونے کا ۔ موسٰی علیہ السلام حکمِ الٰہی پا کر شب کے اوّل وقت ستّر ہزار بنی اسرائیل کو ہمراہ لے کر مِصر سے روانہ ہو گئے ۔

فَاَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُوْدِهٖ فَغَشِیَهُمْ مِّنَ الْیَمِّ مَا غَشِیَهُمْؕ(۷۸)

تو ان کے پیچھے فرعون پڑا اپنے لشکر لے کر (ف۱۰۹) تو انہیں دریا نے ڈھانپ لیا جیسا ڈھانپ لیا (ف۱۱۰)

(ف109)

جن میں چھ لاکھ قِبطی تھے ۔

(ف110)

وہ غرق ہو گئے اور پانی ان کے سروں سے اونچا ہو گیا ۔

وَ اَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهٗ وَ مَا هَدٰى(۷۹)

اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا اور راہ نہ دکھائی (ف۱۱۱)

(ف111)

اس کے بعد اللہ تعالٰی نے اپنے اور احسان کا ذکر کیا اور فرمایا ۔

یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ قَدْ اَنْجَیْنٰكُمْ مِّنْ عَدُوِّكُمْ وَ وٰعَدْنٰكُمْ جَانِبَ الطُّوْرِ الْاَیْمَنَ وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى(۸۰)

اے بنی اسرائیل بےشک ہم نے تم کو تمہارے دشمن (ف۱۱۲) سے نجات دی اور تمہیں طور کی دہنی طرف کا وعدہ دیا (ف۱۱۳) اور تم پر من اور سلویٰ اُتارا(ف۱۱۴)

(ف112)

یعنی فرعون اور اس کی قوم ۔

(ف113)

کہ ہم موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کو وہاں توریت عطا فرمائیں گے جس پر عمل کیا جائے ۔

(ف114)

تِیہ میں اور فرمایا ۔

كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ لَا تَطْغَوْا فِیْهِ فَیَحِلَّ عَلَیْكُمْ غَضَبِیْۚ-وَ مَنْ یَّحْلِلْ عَلَیْهِ غَضَبِیْ فَقَدْ هَوٰى(۸۱)

کھاؤجو پاک چیزیں ہم نے تمہیں روزی دیں اور اس میں زیادتی نہ کرو (ف۱۱۵) کہ تم پر میرا غضب اُترے اور جس پر میرا غضب اُترا بےشک وہ گرا (ف۱۱۶)

(ف115)

ناشکری اور کُفرانِ نعمت کر کے اور ان نعمتوں کی معاصی اور گناہوں میں خرچ کر کے یا ایک دوسرے پرظلم کر کے ۔

(ف116)

جہنّم میں اور ہلاک ہوا ۔

وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى(۸۲)

اور بےشک میں بہت بخشنے والا ہوں اسے جس نے توبہ کی(ف۱۱۷) اور ایمان لایا اور اچھا کام کیا پھر ہدایت پر رہا (ف۱۱۸)

(ف117)

شرک سے ۔

(ف118)

تادمِ آخر ۔

وَ مَاۤ اَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ یٰمُوْسٰى(۸۳)

اور تو نے اپنی قوم سے کیوں جلدی کی اے موسیٰ (ف۱۱۹)

(ف119)

حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام جب اپنی قوم میں سے ستّر آدمیوں کو منتخب کر کے توریت لینے طُور پر تشریف لے گئے پھر کلامِ پروردگار کے شوق میں ان سے آگے بڑھ گئے انہیں پیچھے چھوڑ دیا اور فرما دیا کہ میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ ، اس پر اللہ تبارک و تعالٰی نے فرمایا ۔” وَمَآ اَعْجَلَکَ ” تو حضرت موسٰی علیہ السلام نے ۔

قَالَ هُمْ اُولَآءِ عَلٰۤى اَثَرِیْ وَ عَجِلْتُ اِلَیْكَ رَبِّ لِتَرْضٰى(۸۴)

عرض کی کہ وہ یہ ہیں میرے پیچھے اور اے میرے رب تیری طرف میں جلدی کرکے حاضر ہوا کہ تو راضی ہو (ف۱۲۰)

(ف120)

یعنی تیری رضا اور زیادہ ہو ۔

مسئلہ : اس آیت سے اجتہاد کا جواز ثابت ہوا ۔ (مدارک)

قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْۢ بَعْدِكَ وَ اَضَلَّهُمُ السَّامِرِیُّ(۸۵)

فرمایا تو ہم نے تیرے آنے کے بعد تیری قوم کو(ف۱۲۱) بَلا میں ڈالا اور انہیں سامری نے گمراہ کردیا(ف۱۲۲)

(ف121)

جنہیں آپ نے حضرت ہارون علیہ السلام کے ساتھ چھوڑا ہے ۔

(ف122)

گوسالہ پرستی کی دعوت دے کر ۔

مسئلہ : اس آیت میں اِضلال یعنی گمراہ کرنے کی نسبت سامری کی طرف فرمائی گئی کیونکہ وہ اس کا سبب و باعث ہوا ۔ اس سے ثابت ہوا کہ کسی چیز کو سبب کی طرف نسبت کرنا جائز ہے اسی طرح کہہ سکتے ہیں کہ ماں باپ نے پرورش کی ، دینی پیشواؤں نے ہدایت کی ، اولیاء نے حاجت روائی فرمائی ، بزرگوں نے بلا دفع کی ۔ مفسِّرین نے فرمایا ہے کہ امور ظاہر میں منشاء و سبب کی طرف منسوب کر دیئے جاتے ہیں اگرچہ حقیقت میں ان کا موجِد اللہ تعالٰی ہے اور قرآنِ کریم میں ایسی نسبتیں بکثرت وارد ہیں ۔ (خازن)

فَرَجَعَ مُوْسٰۤى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا ﳛ قَالَ یٰقَوْمِ اَلَمْ یَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا۬ؕ-اَفَطَالَ عَلَیْكُمُ الْعَهْدُ اَمْ اَرَدْتُّمْ اَنْ یَّحِلَّ عَلَیْكُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَخْلَفْتُمْ مَّوْعِدِیْ(۸۶)

تو موسیٰ اپنی قوم کی طرف پلٹا(ف۱۲۳)غصہ میں بھرا افسوس کرتا (ف۱۲۴) کہا اے میری قوم کیا تم سے تمہارے رب نے اچھا وعدہ نہ کیا تھا (ف۱۲۵) کیا تم پر مدت لنبی گذری یا تم نے چاہا کہ تم پر تمہارے رب کا غضب اترے تو تم نے میرا وعدہ خلاف کیا (ف۱۲۶)

(ف123)

چالیس دن پورے کر کے توریت لے کر ۔

(ف124)

ان کے حال پر ۔

(ف125)

کہ وہ تمہیں توریت عطا فرمائے گا جس میں ہدایت ہے ، نور ہے ، ہزار سورتیں ہیں ، ہر سورت میں ہزار آیتیں ہیں ۔

(ف126)

اور ایسا ناقص کام کیا کہ گوسالہ کو پُوجنے لگے ، تمہارا وعدہ تو مجھ سے یہ تھا کہ میرے حکم کی اطاعت کرو گے اور میرے دین پر قائم رہو گے ۔

قَالُوْا مَاۤ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَ لٰكِنَّا حُمِّلْنَاۤ اَوْزَارًا مِّنْ زِیْنَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنٰهَا فَكَذٰلِكَ اَلْقَى السَّامِرِیُّۙ(۸۷)

بولے ہم نے آپ کا وعدہ اپنے اختیار سے خلاف نہ کیا لیکن ہم سے کچھ بوجھ اٹھوائے گئے اس قوم کے گہنے کے (ف۱۲۷) تو ہم نے انہیں (ف۱۲۸) ڈال دیا پھر اسی طرح سامری نے ڈالا(ف۱۲۹)

(ف127)

یعنی قومِ فرعون کے زیوروں کے جو بنی اسرائیل نے ان لوگوں سے عاریت کے طور پر مانگ لئے تھے ۔

(ف128)

سامری کے حکم سے آ گ میں ۔

(ف129)

ان زیوروں کو جو اس کے پاس تھے اور اس خاک کو جو حضرت جبریل علیہ السلام کے گھوڑے کے قدم کے نیچے سے اس نے حاصل کی تھی ۔

فَاَخْرَ جَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ فَقَالُوْا هٰذَاۤ اِلٰهُكُمْ وَ اِلٰهُ مُوْسٰى۬-فَنَسِیَؕ(۸۸)

تو اُس نے اُن کے لیے ایک بچھڑا نکالا بے جان کا دھڑ گائے کی طرح بولتا (ف۱۳۰) تو بولے(ف۱۳۱)یہ ہے تمہارا معبود اور موسیٰ کا معبود موسیٰ تو بھول گئے (ف۱۳۲)

(ف130)

یہ بچھڑا سامری نے بنایا اور اس میں کچھ سوراخ اس طرح رکھے کہ جب ان میں ہوا داخل ہو تو اس سے بچھڑے کی آواز کی طرح آواز پیدا ہو ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ اَسۡپِ جبریل کی خاک زیرِ قدم ڈالنے سے زندہ ہو کر بچھڑے کی طر ح بولتا تھا ۔

(ف131)

سامری اور اس کے متّبِعین ۔

(ف132)

یعنی موسٰی علیہ السلام معبود کو بھول گئے اور اس کو یہاں چھوڑ کر اس کی جستجو میں طور پر چلے گئے (معاذ اللہ) ۔ بعض مفسِّرین نے کہا کہ نَسِیَ کا فاعِل سامری ہے اور معنی یہ ہیں کہ سامری نے جو بچھڑے کو معبود بنایا وہ اپنے ربّ کو بھول گیا یا وہ حُدوثِ اجسام سے استدلال کرنا بھول گیا ۔

اَفَلَا یَرَوْنَ اَلَّا یَرْجِعُ اِلَیْهِمْ قَوْلًا ﳔ وَّ لَا یَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا۠(۸۹)

تو کیا نہیں دیکھتے کہ وہ (ف۱۳۳) اُنہیں کسی بات کا جواب نہیں دیتا اور اُن کے کسی بُرے بھلے کا اختیار نہیں رکھتا (ف۱۳۴)

(ف133)

بچھڑا ۔

(ف134)

خِطاب سے بھی عاجز اور نفع و ضرر سے بھی ، وہ کس طرح معبود ہو سکتا ہے ۔