أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَبَشَّرۡنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِيۡمٍ ۞

ترجمہ:

سو ہم نے ان کو ایک برد بار لڑکے کی بشارت دی

حلیم کا معنی اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا حلیم ہونا

الصفت : ١٠١ میں ہے : سو ہم نے ان کو ایک بردبار لڑکے کی بشارت دی

اس آیت میں غلام کا لفظ ہے ‘ جب بچہ پالنے میں ہو تو اس کو طفل کہتے ہیں اور جب اس کی عمر دس سال سے کم ہو تو اس کو صبی کہتے ہیں اور جب اس کی عمر دس سال سے متجاوز ہو اور وہ بلوغت کے قریب ہو تو اس کو غلام کہتے ہیں اور جب وہ بالغ ہوجائے تو اسکو شاب (نوجوان) کہتے ہیں اور بیس سال سے تیس سال تک کی عمر والے کو رجل (مرد) کہتے ہیں اور تیس سال سے چالیس سال تک کی عمر والے کو کول ( ادھیڑ عمر والا) کہتے ہیں اور چالیس سال سے ساٹھ سال کی عمر والے کو شیخ کہتے ہیں اور ساٹھ سال سے ستر اسی سال والے کو شیخ فانی کہتے ہیں ‘ مصنف اب ٦٨ سال کی عمر کو پہنچ گیا ہے دیکھئے اب کب بلاوا آتا ہے ‘ اللہ تعالیٰ ایمان اور نیکی کے ساتھ اور چلتے ہاتھ پیروں کے ساتھ اپنے جوار رحمت میں بلائے۔ (آمین)

اور اس آیت میں اس لڑکے کی صفت حلیم (بردبار) ذکر فرمائی ہے ‘ حلیم اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے کام سکون اور اطمینان سے کرے ‘ جلدی نہ کرے۔ اور جب اس پر کوئی مصیبت آئے تو اضطراب اور گھبراہٹ کا اظہار نہ کرے اور گر کوئی کام اس کے مزاج اور مرضی کے خلاف ہوجائے تو غصہ اور غضب میں نہ آئے۔

اس آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے تین بشارتیں ہیں ایک یہ کہ ان کے ہاں بیٹا ہوگا یعنی مذکر ہوگا ‘ دوسری یہ کہ وہ بلوغت کی عمر کو پہنچے گا کیونکہ بچہ کو حلم اور بردباری سے متصف نہیں کیا جاتا اور تیسری بشارت یہ ہے کہ وہ حلیم اور بردبار ہوگا۔

اور اس بیٹے میں اس سے بڑھ کر اور کون سا حلم ہوگا کہ جب انہوں نے اس بیٹے سے کہا : اے میرے بیٹے ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تم کو ذبح کررہا ہوں ‘ اب تم سوچ کر بتائو تمہاری کیا رائے ہے ؟ اس بیٹے نے کہا اے ابا جان ! آپ وہی کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے ‘ آپ انشاء اللہ ! مجھے عنقریب صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے (الصفت : ١٠٢) اور انہوں نے اس حکم کے سامنے سر تسلیم خم کردیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حلیم اور بردبار بیٹے کی اس لیے بشارت دی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خود بھی حلیم تھے ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

ان ابرھیم لاواہ حلیم (التوبہ : ١١٤) بیشک ابراہیم بہت سوز و گدازوالے حلیم تھے۔

ان ابراھیم لحلیم اواہ منیب (ھود : ٧٥) بیشک ابراہیم ضرور حلیم تھے ‘ بہت سوز و گداز والے ‘ اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔

القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 101