فَقَالَ اِنِّىۡ سَقِيۡمٌ ۞- سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 89
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَقَالَ اِنِّىۡ سَقِيۡمٌ ۞
ترجمہ:
پھر کہا میں بیشک بیمار ہونے والاہوں
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خود کو بیمار کہنے کا پس منظر
الصفت : ٨٩ میں ہے : پھر کہا بیشک میں بیمارہونے والا ہوں
اس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بیمار نہیں تھے لیکن انہوں نے فرمایا میں بیمار ہوں بہ ظاہر یہ کلام جھوٹ ہے ‘ لیکن حقیقت میں یہ تعریض اور توریہ ہے ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے یہ کہنے کی وجہ مفسرین نے اس طرح بیان کی ہے :
امام عبدالرحمن بن محمد ابن ابی حاتم رازی متوفی ٣٢٧ ھ لکھتے ہیں :
سفیان (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں کہا : اس کا معنی ہے : مجھے طاعون ہے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٨٢١٧)
زید بن اسلم (رض) بیان کرتے ہیں بادشاہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف یہ پیغام بھیجا کہ کل ہماری عید ہے ‘ تم اس میں حاضر ہونا (یعنی میلے میں شریک ہونا) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ستارے کی طرف دیکھ کر کہا : یہ ستارہ جب بھی طلوع ہوتا ہے تو میں بیمار ہوجاتا ہوں ‘ تو بادشاہ کے کارندے چلے گئے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٨٢١٩)
امام الحسین بن مسعود الفراء ابغوی المتوفی ٥١٦ ھ لکھتے ہیں :
حضرت ابن عباس (رض) نے کہا ان کی قوم ستارہ شناس اور ستارہ پرست تھی ‘ اس لیے آپ نے ان کے ساتھ ان کے طریقہ کے مطابق معاملہ کیا اور اس طور سے حیلہ کیا جو ان کی رسم و رواج کے مطابق تھا ‘ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان کے بتوں کو توڑنے کے لیے حیلہ کرنا چاہتے تھے تاکہ ان کی بت پرستی کو باطل کیا جاسکے ‘ دوسرے انکی عید اور میلہ تھا ‘ اور وہ لوگ میلہ میں جانے سے پہلے بتوں کے سامنے قربانیاں پیش کرتے تھے اور کھانے پینے کی چیزیں رکھتے تھے تاکہ اس سے بتوں کا تقرب اور تبرک حاصل ہو اور وہ میلہ سے واپس آنے کے بعدان چیزوں کو کھائیں ‘ انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا آپ ہماری عید اور ہمارے میلے میں ہمارے ساتھ چلیں ‘ حضرت ابراہیم نے ستاروں کی طرف دیکھ کر کہا میں بیمار ہوں ‘ حضر ابن عباس نے فرمایا سقیم سیمراد طاعون زدہ ہونا ہے ‘ اور وہ لوگ طاعون سیبہت گھبراتے تھے اور اس سے بہت دور بھاگتے تھے ‘ حسن بصری نے کہا سقیم سے مراد مریض ہے اور مقاتل نے کہا اس سے مراد ہے مجھے درد ہے اور ضحاک نے کہا اس کا معنی ہے : میں عنقریب بیمارہونے والا ہوں ‘ پھر وہ لوگ پیٹھ پھیر کر چلے گئے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے بتوں کو توڑ ڈالا۔ (معالم التنزیل ج ٤ ص ٣٤‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢٠ ھ)
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے تین بظاہر جھوٹ
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے صرف تین (بہ ظاہر) جھوٹ بولے ‘ ان میں سیدو جھوٹ اللہ کی خاطر تھے ‘ انہوں نے کہا انی سقیم (الصفت : ٨٩) میں بیمار ہوں ‘ اور انہوں نے کہا بل فعلہ کبیر ھم (الانبیاء : ٦٣) بلکہ یہ کام ان کے بڑینے کیا ہے ‘(بہ ظاہر آپ نے چھوٹے بتوں کو توڑنے کی نسبت بڑے بت کی طرف کی اور درحقیقت آپ نے خود ان بتوں کو توڑا تھا ‘ کیونکہ ان چھوٹے بتوں کو توڑنے کا سبب وہ بڑا بت تھا ‘ آپ اس کی خدائی کو باطل کرنا چاہتے اور اس کے عجز کو ثابت کرنا چاہتی تھے اور سبب کی طرف بھی فعل کی نسبت کی جاتی ہے جیسا کہا جاتا ہے جارج بش نے افغانستان اور عراق پر حملہ کیا اور بڑی تعداد میں قتل و غارت کی جب کہ جارج بش نے صرف حکم دیا تھا حملہ اس کی فوجوں نے کیا تھا سو جس طرح یہاں فعل کا اسناد سبب کی طرف ہے اسی طرح اس آیت میں فعل کا اسناد سبب کی طرف ہے) اور ایک دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی سارہ سفر کررہے تھے ‘ انکا گذر ایک ظالم بادشاہ کے ملک میں ہوا ‘ اس بادشاہ کو بتایا گیا کہ ایک شخص آرہا ہے اور اس کی بیوی سب سے زیادہ حسین ہے ‘ اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بلوا کر پوچھا یہ عورت کون ہے ؟ انہوں نے کہا یہ میری بہن ہے ‘ اور کہا اس وقت روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن (جوڑا) نہیں ہے ‘ اس بادشاہ نے مجھ سے تمہارے متعلق پوچھا تھا تو میں نے اس کو بتایا کہ تم میری بہن ہو (یعنی دینی بہن ہو ‘ یہ کلام بھی بہ ظاہر جھوٹ ہے اور حقیقت میں تعرض اور توریہ ہے) سو تم مجھ کو جھٹلانا نہیں۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣٥٨‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٧١‘ سن الترمذی رقم الحدیث : ٣١٦٦‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٩٢٣٠‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٦ ص ١٨٧‘ رقم الحدیث : ١٦٣٧‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
” میں بیمار ہوں “ کہنے کی توجیہات
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ستاروں کو دیکھ کر جو فرمایا تھا میں بیمار ہوں اس کی حسب ذیل توجیہات کی گئی ہیں :
(١) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) روزانہ بیمار ہوجاتے تھے ‘ ہرچند کہ اس وقت آپ بیمار نہ تھے ‘ لیکن بیماری کا وقت آرہا تھا۔
(٢) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا منشاء یہ تھا کہ میں عنقریب بیمار ہونے والا ہوں۔
(٣) تمہارے کفر اور شرک اور بےراہ روی سے میرا دل یژمردہ اور بیمار ہے۔
(٤) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بہ طور تو ریہ اور تعریض کہا کہ میں بیمارہوں منشاء یہ تھا کہ میری قوم بیمار ہے۔
(٥) سقیم سے مراد موت ہے جیسے قرآن میں ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق ہے : انک میت (الزمر : ٣٠) بیشک آپ فوت شدہ ہیں یعنی آپ کی روح قبض کی جانے والی ہے اسی طرح اس کا معنی ہے کہ میری روح قبض کی جانے والی ہے۔
(٦) میں بیمار ہوں یعنی عنقریب جب میرا وقت پورا ہوجائے گا تو میں مرض الموت میں مبتلا ہو جائوں گا۔
تعریض اور توریہ کی تعریفات اور ان کے ثبوت میں احادیث
حضرت عمر ان بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک تعریض میں جھوٹ سے بچنے کی گنجائش ہے۔ (السنن الکبری ج ١٠ ص ١٩٩‘ الکامل لا بن عدی ج ٣ ص ٥٦٧ )
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ (رض) کا بیٹا بیمار تھا وہ فوت ہوگیا ‘ حضرت ابو طلحہ گھر سے باہر گئے ہوئے تھے ‘ ان کی بیوی حضرت ام سلیم نے جب دیکھا کہ بچہ فوت ہوگیا تو انہوں نے اس کو گھر کی ایک جانب لٹا دیا ‘ اور جب حضرت ابو طلحہ گھر آئے اور بچہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا اس کو آرام ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ راحت میں ہے اور حضرت ابو طلحہ ان کو سچی گمان کیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٣٠١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٤٤ )
حضرت ام سلیم نے اپنے بچہ کی موت کو دائمی سکون سے تعبیر کیا ‘ اس حدیث میں موت کا توریہ سکون سے کیا ہے ‘ تو ریہ کی تعریف یہ ہے کہ ایک لفظ کے دو معنیہوں قریب اور بیعد ‘ متکلم بعید معنی کا ارادہ کے اور مخاطب کے ذہن میں قریب معنی کو القاء کرے ‘ جیسے آرام اور راحت کا بعید معنی موت ہے جس کا حضرت ام سلیم نے ارادہ کرے اور مخاطب کے ذہن میں قریب معنی کو القاء کرے ‘ جیسے آرام اور راحت کا بعید معنی موت ہے جس کا حضرت ام سلیم نے ارادہ کیا تھا اور اس کا قریب معنی بیماری سے شفا یاب ہونا اور آرام پانا تھا جس کا القاء حضرت ام سلیم نے حضرت ابو طلحہ کے ذہن میں کیا تھا ‘ اسی طرح سقیم کا بعید معنی قوم کا بیمار ہونا ہے اس کا حضرت ابراہیم نیارادہ کیا تھا اور اس کا قریب معنی خود بیمار ہونا ہے جو انکی قوم نے سمجھا تھا۔
اسی طرح تعریض کا معنی ہے صراحۃ فعل کا اسناد جس کی طرف ہو وہ مراد نہ وہ بلکہ کسی قرینہ کی بناء پر کسی اور کا ارادہ کیا جائے جیسے کوئی عورت اپنی بیٹی سے کہے کہ تم سالن خراب پکاتی ہو اور مراد اس کی بہو ہو ‘ اسی طرح حضرت ابراہیم السلام نے صراحۃ بت توڑ نے کی نسبت بڑے بت کی طرف کی تھی لیکن مراد خود ان کی اپنی ذات تھی۔
ضرورت اور مصلحت کے وقت جھوٹ بولنے کے متعلق فقہاء اسلام کی آراء
علامہ محمد بن علی بن محمد الحصکفی الحنفی المتوفی ١٠٨٨ ھ لکھتے ہیں :
اپنے حق کو ثابت کرنے کے لیے اور اپنی ذات سے ظلم کو دور کرنے کے لیے جھوٹ بولنا مباح ہے اور اس سے مراد تعریض ہے کیونکہ بیعنہ جھوٹ بولنا حرام ہے۔ (الدر المختار علی ھامش رد المختار ج ٩ ص ٥٣٥‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)
علامہ سید محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز ابن عابدین الدمشقی الحنفی المتوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں :
جھوٹ بولنا کبھی مباح ہوتا ہے اور کبھی واجب ہوتا ہے ‘ احیاء علوم الدین میں اس کا یہ ضابطہ مذکور ہے کہ ہر وہ نیک مقصود جس کو صدق اور کذب دونوں سے حاصل کیا جاسکتا ہو ان کے حصول کے لیے جھوٹ بولنا حرام ہے ‘ اور اگر اس نیک مقصود کو صرف جھوٹ بول کر حاصل کیا جاسکتا ہو تو اسکے حصول کے لیے جھوٹ بولنا مباح ہے ‘ اور اگر اس نیک مقصود کا حصول واج ہو تو اس کے لیے جھوٹ بولنا واجب ہے ‘ مثلا کوئی شخص ایک بےقصور شخص کو دیکھے جو ایسے ظالم سے چھپا ہوا ہے جو اس کو قتل کرنا یا اس کو ایذاء پہنچانا چاہتا ہے تو اسکے بچانے کے لیے جھوٹ بولنا واجب ہے ‘ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کی امانت چھیننا چاہے تو اس کو چھپانے کے لیے بھی جھوٹ کے سوا حاصل نہ ہو تو اس کے حصول کے لیے بھی جھوٹ بولنا مباح ہے ‘ اور اگر کسی شخص نے چھپ کر زنا کیا ہو یا شراب پی ہو اور حاکم اس سے تفتیش کرے تو اسکے لیے یہ کہنا جائز ہے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا ‘ اس لیے کہ کسی بےحیائی کا اظہار بھی بےحیائی ہے ‘ اور اس کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ وہ اپنے بھائی کے راز کو فاش کرنے سے انکار کر دے اور اس کو چاہیے کہ وہ مقابلہ کرے کہ جھوٹ بولنے کی خرابی زیادہ ہے یا سچ بولنے کی خرابیاں زیادہ ہیں ‘ اگر سچ بولنے کی خرابیاں زیادہ ہوں تو اس کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو یا اس کو شک ہو تو پھر جھوٹ بولنا حرام ہے ‘ اور اگر معاملہ اس کے اپنے نفس کے ساتھ ہو تو مستحب یہ ہے کہ وہ جھوٹ نہ بولے۔
احتیاط اس میں ہے کہ جن مقامات پر جھوٹ بولنا مباح ہے وہاں پر جھوٹ بولنے کو ترک کردیا جائے ‘ عادۃً جو مبالغہ کیا جاتا ہے وہ جھوٹ نہیں ہے ‘ جیسے کوئی شخص کہے میں تمہارے پاس ایک ہزار مرتبہ آیا ہوں ‘ کیونکہ اس کلام سے مبالغہ کو بیان کرنا مقصود ہے نہ کہ عدد کو ‘ اور مبالغہ کے جواز پر یہ حدیث صحیح دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ بنت قیس رصی اللہ عنہا سے فرمایا رہے ابو جہم تو وہ تو اپنے کندھے سے لاٹھی اتارتے ہی نہیں (یعنی بہت مارتے ہیں) ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٨٠)
علامہ ابن حجرم کی نے کہا ہے کہ اشعار میں جو جھوٹ ہوتا ہے جب اس کو مبالغہ پر محمول کیا جاسکے تو اس کو بھی حرام قرار دینے سے مستثنی کرنا چاہیے ‘ جیسے ایک شعر میں ہے میں دن رات تمہارے لیے دعا کرتا ہوں اور میں کسی مجلس کو تمہارے شکر سے خالی نہیں رکھتا ‘ کیونکہ جھوٹے شخص کا قصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی جھوٹی بات کو سچا بنا کر پیش کرے اور شاعر کا قصد شعر میں سچ کا اظہار نہیں ہوتا ‘ بلکہ شعر میں جھوٹ بولنا تو ایک فن ہے۔ علامہ رافعی اور علامہ نووی نے بھی اس کی تائید کی ہے۔
صاحب المجتبیٰ نے کہا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین مقامات کے سوا ہر جگہ لامحالہ جھوٹ لکھا جاتا ہے ‘ مرد اپنی بیوی یا اپنے بچے سے جو بات کرتا ہے اور مرددو آدمیوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جو بات کرتا ہے اور جنگ میں ‘ کیونکہ جنگ ایک دھوکا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٦٩٢۔ ٣٠٣٠‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٠٥۔ ١٧٣٩‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٩٢١‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٩٣٨)
امام طحاوی وغیرہ نے کہا ہے کہ جن صورتوں میں کذب مباح ہے یہ صورتیں تعریض پر محمول ہیں ‘(علامہ شامی فرماتے ہیں :) یہ قول برحق ہے ‘ میں کہتا ہوں کہ اس کی تائید میں وہ حدیث ہے جو حضرت علی اور حضرت عمران بن حصین وغیرہ ھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک تعریض میں جھوٹ بچنے کی گنجائش ہے۔ (سنن کبریٰ ج ١٠ ص ١٩٩)
اور اس کی مثال یہ ہے کہ کسی شخص کو کھانے کی دعوت دی جائے اور وہ جانا نہ چاہتا ہو تو کہہ دے : میں کھانا کھاچکا ہوں ‘ اور یہ ارادہ کرے کہ میں کل کھانا کھاچکا ہوں ‘ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کا وہ کلام جو بہ ظاہ جھوٹ ہے دراصل اسی طرح تعریض اور توریہ پر مشتمل ہے ‘ لہٰذا جس حدیث میں تین مواقع پر جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے وہ بھی اس طرح صورۃ جھوٹ بولنے پر محمول ہے جو در حقیقت تعریض یا توریہ وہ اور حقیقۃً جھوٹ بولنا حرام ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ پر درد ناک عذاب کی وعیدفرمائی ہے اور جھوٹوں پر لعنت فرمائی ہے ‘ قرآن مجید میں ہے : ولھم عذاب الیم لا بما کانو یکذبون (البقرہ : ١٠) اور فرمایا : ان لعنت اللہ علیہ ان کا من الکذبین۔ (النور : ٧) اور حدیث میں بھی اس پر وعید ہے ‘ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : صدق نیکی کی ہدایت دیتا ہے ‘ اور نیکی جنت کی ہدایت دیتی ہے ‘ اور ایک آدمی سچ بولتا رہتا ہے حتی کہ وہ اللہ کے نزدیک ظدیق لکھ دیا جاتا ہے اور کذب فجور ( برے کاموں) کی طرف لے جاتا ہے اور برے کام دوزخ کی طرف لے جاتے ہیں اور ایک آدمی جھوٹ بولتارہتا ہے حتی کہ وہ اللہ کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٠٩٤‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٠٧‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٩٨٩‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٩٧١‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٣٦٣٨‘ عالم الکتب ‘ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٥١٣٨)
امامغزالی نے احیاء علوم الدین میں فرمایا ہے غرض حقیقی کے لیے تعریض کے ساتھ کلام کرنا جائز ہے ‘ جیسے مذاق میں دوسرے کا دل خوش کرنے کے لیے کوئی بات کہنا ‘ حدیث میں ہے :
حسن بیان کرتے ہیں کہ ایک بڑھیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کہنے لگی یارسول اللہ ! دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کر دے ‘ آپ نے فرمایا اے ام فلاں ! بیشک جنت میں کوئی بڑھیا نہیں جائے گی ‘ وہ عورت پیٹھ پھیر کر روتے ہوئے جانے لگی تو آپ نے فرمایا اس کو بتائو کہ کوئی بڑھیا بڑھاپے کی حالت میں جنت میں نہیں جائے گی ‘ بیشک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
انآ انشا نھن انشآئ لا فجعلنھن ابکارا لا عربا اترابا (الواقعہ : ٣٧۔ ٣٥)
بے شک ہم نے ان عورتوں کو خاص طرز سے پیدا کیا ہے سو ہم نے ان کو کنواری بنایا اپنے شوہروں سے محبت کرنیوالیاں اور آپس میں ہم عمر۔
(شمائل ترمذی رقم الحدیث : ٢٤٠‘ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٩٦٨٨‘ مسند احمد ج ٣ ص ١٦١‘ مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٣٤٥٦‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٢٧٦)
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! مجھے کسی سواری پر سوار کردیجئے آپ نے فرمایا ہم تمہیں اونٹنی کے بچے پر سوار کریں گے ‘ اس نے کہا میں اونٹنی کے بچہ کا کیا کروں گا ! تب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر اونٹ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔
(سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٩٩٨‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٩٩١‘ مسند احمد ج ٣ ص ٣٦٧‘ شرح السنہ رقم الحدیث : ٣٦٠٥)
زید بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت جسکا نام ام ایمن تھا وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ اس کا خاوند آپ کو بلارہا ہے ‘ آپ نے فرمایا کیا وہ وہی شخص ہے جس کی آنکھوں میں سفیدی ہے ‘ آپ کی مراد وہ سفیدی تھی جو آنکھ کی پتلی میں ہوتی ہے۔ (احیاء علوم الدین ج ٣ ص ١١٦‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)
علامہ محمد بن محمد زبیدی حنفی متوفی ١٢٠٥ ھ لکھتے ہیں : العراقی نے کہا ہے کہ اس حدیث کو الزبیر بن بکارنے کتاب الفکاھۃ و المزاح میں روایت کیا ہے اور امام ابن ابی الدنیا نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ (اتحاف السادۃ المتقین ج ٧ ص ٥٠٠‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٤ ھ)
علامہ شامی لکھتے ہیں : ایسی تمام صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے۔ شارح ابن الشحنہ نے کہا ہے کہ بزاز میں یہ منقول ہے کہ اس کذب سے مراد تعریض اور توریہ ہے نہ کہ کذب خالص۔ (ردالمختار ج ٩ ص ٥٢٦۔ ٥٢٥‘ ملخصا و موصحا ومخرجا ‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)
تحقیق یہ ہے کہ موضع ضرورت میں بھی صراحۃً جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! آپ ہم سے (بعض اوقات) خوش طبعی بھی کرتے ہیں ! آپ نے فرمایا : میں حق کے سوا کوئی بات نہیں کہتا۔ یہ حدیث حسن ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٩٩٠)
بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ جنگ میں دشمن کو دھوکا دینے کے لیے ‘ بیوی کو راضی کرنے کے لیے اور صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے اور صحیح یہ ہے کہ ان مواقع پر بھی جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے ‘ کیونکہ جھوٹ بولنا فی نفسہ قبیح ہے اور جو چیز فی نفسہ قبیح ہو وہ اختلاف احوال سے حسن نہیں ہوجاتی ‘ ان مواقع پر بھی تاویل ‘ توریہ ‘ تعریض کے طور پر جھوٹ بولنا جائز ہے صراحۃً جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے۔ مثلا کوئی شخص اپنی بیوی سیمحبت نہ کرتاہو تو وہ اس کو راضی کرنے کے لیے یہ تو کہ سکتا ہے کہ میں تجھ سے محبت کرتا ہوں حالانکہ وہ اس سے بغض رکھتاہو تو یہ خالص جھوٹ ہوگا اور اسکی بالکل اجازت نہیں ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی علاقے میں جہاد کے لیے جاتے اور لوگوں کو اس علاقہ پر مطلع کرنا نہ چاہتے تو صراحۃً کسی اور علاقے کا نام نہیں لیتے تھے بلکہ کسی اور علاقہ کا ذکر تاتاویل اور توریہ سے کرتے تھے ‘ حدیث میں ہے :
حضرت کعب بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی جگہ غزوہ کے لیے جائیں او اس جگہ کا نام بتادیں آپ بہ طور تو ریہ کسی اور جگہ کا ذکر فرماتے تھے سوائے غزوہ تبوک کے ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت گرمی میں غزوہ تبوک کے لیے گئے ‘ اور دور دراز کا سفر اختیار کیا اور بڑی تعداد میں دشمنوں کا سامنا کیا اور مسلمانوں کو انکا حال بتادیا تاکہ وہ اچھی طرح دشمن سے مقابلہ کی تیاری کرلیں اور آپ نے مسلمانوں کو بتادیا کہ آپ کہاں جانے کی تیاری کررہے ہیں۔
(صیحح البخاری رقم الحدیث : ٢٩٤٨‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٢٠٢‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٥٨٨٢‘ عالم الکتب بیروت)
القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 89