فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعۡىَ قَالَ يٰبُنَىَّ اِنِّىۡۤ اَرٰى فِى الۡمَنَامِ اَنِّىۡۤ اَذۡبَحُكَ فَانْظُرۡ مَاذَا تَرٰىؕ قَالَ يٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ سَتَجِدُنِىۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 102
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعۡىَ قَالَ يٰبُنَىَّ اِنِّىۡۤ اَرٰى فِى الۡمَنَامِ اَنِّىۡۤ اَذۡبَحُكَ فَانْظُرۡ مَاذَا تَرٰىؕ قَالَ يٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ سَتَجِدُنِىۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيۡنَ ۞
ترجمہ:
پس جب وہ لڑکا ان کے ساتھ چلنے پھر نے کی عمر کو پہنچا (تو) ابراہیم نے کہا اے میرے بیٹے ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تم کو ذبح کررہا ہوں ‘ اب تم سوچ کر بتائو تمہاری کیا رائے ہے ؟ اس (بیٹے) نے کہا اے ابان جان ! آپ وہی کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے ‘ آپ انشاء اللہ ! مجھے عنقریب صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے
الصفت : ١١١۔ ١٠٢ میں ہے : پس جب وہ لڑکا ان کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچا ( تو) ابراہیم نے کہا : اے میرے بیٹے ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تم کو ذبح کررہا ہوں ‘ اب تم سوچ کر بتائو تمہاری کیا رائے ہے ؟ اس بیٹے نے کہا اے ابا جان ! آپ وہی کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے ‘ آپ انشاء اللہ ! عنقریب مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے سو جب دونوں نے سر تسلیم خم کردیا اور ابراہیم نے بیٹے کو پیشانی کے بل گرادیا اور ہم نے ابراہیم کو ندا کی کہ اے ابراہیم ! بیشک آپ نے اپنا خواب سچا کر دکھایا اور بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں بیشک یہ ضرور کھلی ہوئی آزمائش ہے اور ہم نے اس کے بدلہ میں ایک بہت بڑا ذبیحہ دے دیا اور ہم نے بعد میں آنے والوں کے لیے ان کا ذکر باقی رکھا ابراہیم پر سلام ہو ہم اسی طرح نیکی کرنے والوں کو جزادیتے ہیں بیشک وہ ہمارے کامل ایمان دار بندوں میں سے ہیں
حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی قربانی کا پس منظر اور پیش منظر
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
امام محمد بن اسحاق اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جب حضرت ہاجر سے ملاقات کے لیے جاتے تو صبح کے وقت براق پر سوار ہو کر شام سے راونہ ہوتے اور دوپہر کو مکہ پہنچ کع آرام کرتے اور شام کے وقت مکہ سے روانہ ہوتے اور رات کے وقت شام میں اپنی بیوی (حضرت سارہ) کے پاس پہنچ جاتے حتیٰ کہ ان کے بیٹے (حضرت اسماعیل) جب کام کاج کرنے کی عمر کو پہنچ گئے اور انہوں نے یہ ارادہ کیا کہ وہ ان کے ساتھ مل کر اپنے رب کی عبادت کریں گے اور اس کے حرم کی تعظیم کریں گے تو انہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں۔
نیز امام محمد بن اسحاق نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کردیں تو انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا یہ رسی اور چھری لو اور ہمارے ساتھ اس گھاٹی میں چلوتا کہ ہم گھر والوں کے لیے لکٹریاں چن کر لائیں ‘ انہوں نے اپنے بیٹے سے یہ ذکر نہیں کیا تھا کہ وہ کس لیے اس گھاٹی میں جا رہے ہیں ‘ تب اللہ کا دشمن ابلیس ایک آدمی کی صورت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے آکر ملا ‘ تاکہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے بیٹے کی قربانی سے باز رکھے اور آ کر کہا اے بزرگ آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ حضرت ابراہیم نے کہا میں اپنے ایک کام سے اس گھاٹی میں جا رہا ہوں ! شیطان نے کہا میرا گمان ہے کہ آپ کے پاس خواب میں شیطان آیا ہے اور اس نے آپ کو اس بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا ہے ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کو پہچان لیا اور فرمایا : اے اللہ کے دشمن میرے پاس سے دفع ہوجا ! پس اللہ کی قسم ! میں اللہ کے حکم پر ضرور عمل کروں گا ! جب اللہ کا دشمن ابلیس حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے مایوس ہوگیا تو پھر وہ ان کے بیٹے کے پاس پہنچا وہ اپنے والد کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے ‘ ان سے اس نے کہا اے بیٹے ! کیا تم کو معلوم ہے کہ تمہارے والد تمہیں کہاں لے جارہے ہیں ؟ انہوں نے کہا ہم اس گھاٹی سے لکٹریاں چننے جا رہے ہیں ! شیطان نے کہا اللہ کی قسم ! وہ تم کو صرف ذبح کرنے کے لیے لے جا رہے ہیں ؟ انہوں نے پوچھا کیوں ؟ شیطان نے کہا ان کا گمان ہے کہ ان کے رب نے انہیں یہ حکم دیا ہے ‘ انہوں نے کہا پھر ان کو چاہیے کہ وہ اپنے رب کے حکم کی اطاعت کریں۔
پھر وہ ایک آدمی کے بھیس میں اس بیٹے کی ماں کے پاس گیا اور ان سے کہا تم کو معلوم ہے کہ ابراہیم تمہارے بیٹے کو لے کر کہاں گئے ہیں ‘ انہوں نے کہا وہ اس گھاٹی میں لکڑیاں چننے گئے ہیں ‘ شیطان نے کہا نہیں ! اللہ کی قسم ! وہ صرف اس کو ذبح کرنے کے لیے ساتھ لے کر گئے ہیں ‘ ان کی والدہ نے کہا نہیں وہ اپنے بیٹے پر بہت شفقت کرتے ہیں اور اس سے بہت محبت کرتے ہیں ‘ شیطان نے کہا ان کا یہ گمان ہے کہ ان کو اللہ نے یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کردیں ‘ ان کی والدہ نے کہا اگر ان کے رب نے ان کو یہ حکم دیا ہے تو انہوں نے بہت اچھا کیا کہ اپنے رب کے حکم کی اطاعت کی اور اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کردیا ! اور اللہ کا دشمن ابلیس نا کام اور نامراد ہو کر غیظ وغضب میں مبتلا ہو کر واپس لوٹ گیا اور اس لعین نے حضرت ابراہیم اور ان کی آل کو بہکانے کا جو ارادہ کی تھا اس میں وہ خائب و خاسر رہا۔
جب حضرت ابراہیم اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر گھاٹی میں پہنچے اور وہ ثبیر نامی پہاڑ کی گھاٹی تھی ‘ تب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے سے کہا : اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں ‘ اب تم سوچ کر بتائو کہ تمہارا کیا فیصلہ ہے ؟ ان کے بیٹے نے کہا : اے ابا جان ! آپ وہی کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے ‘ آپ ان شاء للہ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
امام محمد بن اسحاق نے روایت کیا ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے اس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا : اے ابا جان ! اگر آپ نے مجھے ذبح کرنے کا ارادہ کرلیا ہے تو مجھے مضبوطی کے ساتھ رسیوں سے باندھ دیں تاکہ میرے خون کے چھینٹے آپ پر نہ پڑیں ‘ اور میرا اجر کم نہ ہو ‘ کیونکہ موت بہت سخت ہوتی ہے اور میں ذبح کے وقت اپنے تڑپنے اور پھڑکنے سے مامون نہیں ہوں اور اپنی چھری کو اچھی طرح تیز کرلیں تاکہ وہ مجھ پر آسانی سے گزر جائے اور جب آپ مجھے ذبح کرنے کے لیے لٹائیں تو مجھے منہ کے بل لٹائیں اور مجھے پہلو کے بل نہ لٹائیں کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ اگر آپ کی نظر میرے چہرے پر پڑے گی تو آپ کے دل میں رقت پیدا ہوگی اور وہ رقت آپ کو اللہ کے حکم پر عمل کرنے سے مانع ہوگی ‘ اور اگر آپ مناسب سمجھیں تو میری قمیض میری ماں کو لے جا کر دے دیں ‘ اس سے ان کو تسلی ہوگی اور ان کو مجھ پر صبر آجائے گا ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : اے میرے بیٹے تم اللہ کے حکم پر عمل کرنے میں میرے کیسے عمدہ مددگار ثابت ہو رہے ہو ! پھر جس طرح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے کہا تھا ان کو اچھی طرح باندھ دیا ‘ پھر اپنی چھری کو تیز کیا اور پھر ان کو پیشانی کے بل گرا دیا ‘ اور ان کے چہرے کی طرف سے اپنی نظر ہٹالی ‘ پھر ان کے حلقوم پر چھری چلائی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں اس چھری کو پلٹ دیا ‘ حضرت ابراہیم نے اس چھری کو پھر اپنی طرف کھینچا تاکہ اس عمل سے فارغ ہوں ‘ تو ایک ندا کی گئی کہ اے ابراہیم ! تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا ‘ یہ ذبیحہ تمہارے بیٹے کی طرف سے فدیہ ہے ‘ اپنے بیٹے کے بدلہ میں اس کو ذبح کردو ‘ اللہ عزوجل نے فرمایا جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کردیا اور حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل گرا دیا ‘ حالانکہ ذبیحہ کو چہرے پر گرایا جاتا ہے اور یہ اس کے مطابق ہے جو حضرت اسماعیل نے اپنے والد کو مشورہ دیا تھا۔ ہمارے نزدیک یہ حدیث صادق ہے اور قرآن مجید کے مطابق ہے۔ (تاریخ الامم والملوک ج ١ ص ١٩٥‘ الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٦٣‘ تفسیر شعلبی ج ٨ ص ١٥٤‘ معالم التنزیل ج ٤ ص ٣٦‘ خازن ج ٤ ص ہ ٢‘ المتدرک ج ٢ ص ٢٥٥‘ الکشاف ج ٤ ص ٥٧ )
القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 102
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]